نیٹو حملہ، بڑی جنگ اور ہماری تیاری
(Qalandar Awan, Wah Cantt)
کچھ کہانیاں یا کہاوتیں بس یونہی
سی ہوتی ہیں۔سننے والا سن لیتا ہے۔کچھ لمحوں کے لئے دلچسپی ظاہر کرتا ہے
اور بس ۔اس کے بعد رات گئی بات گئی ۔کچھ کہانیاں لیکن ایسی بھی زندگی میں
انسان سنتا ہے کہ وہ ذہن سے چپک کے رہ جاتی ہیں۔آپ لاکھ انہیں ذہن کے پردے
سے اتارنے کی کوشش کریں وہ رد عمل میں آپ کے ذہن کو اتنا ہی زیادہ زچ کرتی
ہیں۔آپ ان کہانیوں کے پس منظر میں جب کبھی زمینی حقائق پہ نظر ڈالتے ہیں تو
آپ کو ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آتا۔بلکہ دور دور تک اس کا امکان بھی نظر
نہیں آتا تو آپ کا ذہن اور الجھ کے رہ جاتا ہے۔
میں بھی اسی طرح کی ایک سنی کہانی کا شکار ہوں۔سنانے والے ہمارے گاﺅں کے
ایک بزرگ تھے۔کافی مذہبی آدمی تھے۔ان کی اکثر کہانیوں کا منبع قرآن و حدیث
ہوتا تھا۔لیکن اس عمر میں مذہبی شعور تو کم ہی ہوتا ہے۔لیکن کہانی میں تو
بچوں کی جان ہوتی ہے ۔بزرگ حضرات بہت خوبی سے قرآن و ا حادیث کے اسباق
کہانی ہی کہانی میں اپنے بچوں کے اذہان میں ڈال دیا کرتے ہیں ۔کہانی کسی
جنگ کے بارے میں تھی اور بہت تفصیل کے ساتھ۔وہ جنگ جو کہیں آخری زمانے میں
ہونی تھی۔اسلام اور کفر کا مقابلہ۔جس میں چھوٹی آنکھوں پیلے رنگ اور چھوٹی
ناکوں والی فوج نے مسلمانوں کے ساتھ مل کے لڑنا تھا۔اس میں افغانستان کے
کسی علاقے سے کالے جھنڈوں اور کالی پگڑی والے لوگوں کے نکلنے کا ذکر بھی
تھا اور ہندوستان کی فتح کا بھی۔وہی بزرگ فرمایا کرتے کہ پاکستان کا اس میں
بنیادی کردار ہوگا۔کہانی اس وقت کے حساب سے بہت تھرلنگ تھی۔جب ہمارے اطراف
ہر طرف کچھ نہ کچھ ہو رہا ہو گا۔بچے ویسے بھی ایکشن کے دیوانے ہوتے ہیں۔جب
شعور نے ذہن کے نہاں خانوں میں انگڑائی لی تو بچپن کی سنی بہت سی کہانیاں
وقت کی دھول میں گم ہو گئیں۔ یہ کہانی لیکن اپنی ساری تفصیلات کے ساتھ ذہن
میں نہ صرف موجود تھی بلکہ ترو تازہ بھی تھی۔اور نجانے کیوں اس کی صداقت پہ
ایسا یقین تھا جیسے اللہ کی وحدانیت پہ۔
والد مرحوم چونکہ ایک دفاعی ادارے سے وابستہ تھے اس لئے ہماری رہائش ایک
فوجی چھاﺅنی میں تھی۔ اس کہانی کے تناظر میں جب کبھی اپنے فوجیوں کی
تیاریوں پہ نظر جاتی تو ہنسی چھوٹ جایا کرتی۔ حالات بھلے جو بھی رہے ہوں
لیکن ہندوستان کے ساتھ جنگوں میں بھی ہماری افواج کی کارکردگی کچھ ایسی
کمال کی نہ تھی کہ دل کو تسلی ہوتی۔فوجی اپنی روٹین کی ڈیوٹی پہ کہیں جایا
کرتے تو بندوقیں تو ان کی بغل میں ہوتیں لیکن اسلحہ استاد کی جیب میں اور
وہ بھی رومال میں لپٹا ہوا۔خدا نخواستہ دشمن کہیں راہ میں مزاحم ہو جائے تو
رومال کے کھلتے کھلتے نہ جانے کتنی جانیں چلی جاتیں۔فوجی کبھی فائرنگ رینج
پہ جاتے تو گولی ٹارگٹ سے ناراض ہی نظر آتی۔ایسے میں جنگ امریکہ تو کیا
ہندوستان سے بھی مشکل ہی دکھائی دیا کرتی۔
سیاسی میدان میں بھی ہماری ناکامیاں کچھ کم نہ تھیں۔نہرو کا وہ فقرہ کہ
پاکستان میں اب تک جتنی حکومتیں بدلی ہیں اتنی تو میں نے دھوتیاں نہیں
بدلیں۔ہماری اس زمانے کی سیاسی بد حواسیوں کی ایک بے مثال تشریح
تھی۔پاکستان ہم جیسوں کے ایمان کا حصہ ہے۔اپنے اداروں کی اس کم مائیگی کو
دیکھ کے دل تو کڑھتا تھا لیکن ساتھ ہی ساتھ اس بزرگ کی سنائی کہانی پہ بھی
یقین کمزور ہو ہو جاتا۔پھر ہندوستان نے پہلا ایٹمی کھڑاک کر ڈالا۔اس نے ملک
خدا داد سے وابستہ رہی سہی امیدوں پہ بھی پانی پھیر کے رکھ دیا۔ہمارے اس
وقت کے وزیر اعظم نے جب جواباََ ایٹمی پروگرام شروع کرنے کا اعلان کیا تو
جہاں دنیا اسے مذاق سمجھی وہیں کافی دنوں تک ہم بھی اسے مذاق ہی سمجھتے
رہے۔یقین اس وقت آیا جب بھٹو کو مثال بنانے کی دھمکی دی گئی۔اور پھر جب وہ
مثال بن گیا تو یقین عین الیقین میں بدل گیا۔
یہاں سے کہانی نے ایک نیا موڑ لیا۔آثار نظر آنے لگے کہ بزرگ کی سنائی کہانی
میں کچھ نہ کچھ ہے سہی۔نانا پاٹیکر کے بقول وہ پاکستان جو سوئی نہیں بنا
سکتا تھا۔دنیا کی دوسری سپر پاور سے ٹکرا گیا ۔کعبے کو صنم خانے سے پاسبان
مل گئے۔ ایک طرف پاکستان نے نہتے افغانوں اور ہاتھوں والے امریکیوں کی مدد
سے روس کا وہ حال کیا کہ وہ غریب لینن گراڈ میں سمٹ کے رہ گیا۔ دوسری طرف
پاکستان کا ننھا منا ایٹمی پروگرام بھی جوانی کے در پہ دستک دینے لگا۔اسی
زمانے میں پاکستانی قوم کی تربیت کا آغاز ہوا۔غلیل کی جگہ معاشرے میں
کلاشنکوف نے لے لی۔ہندوستان ان دنوں سہما سہما محسوس ہوتا تھا۔افغان جہاد
کے بعد اسے لگتا تھا اب شاید اس کی باری ہے۔لو گ کہتے ہیں کہ امریکہ کو یہ
منظور نہ تھا جب کہ میرے خیال میں ایک بڑے معرکے کے لئے ابھی ہم تیار نہ
تھے۔ابھی قدرت کو ہماری مزید تیاری مقصود تھی۔
یوں نائین الیون ہو گیا۔دہشت گردی اپنی تمام تر فتنہ سامانیوں کے ساتھ
ہمارے گھر تک چلی آئی۔اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیا گیا۔کلاشنکوف
چلانے کے ہم ماہر تو تھے ہی اب گھمسان کا رن پڑنا شروع ہوا۔فوج ابھی بھی اس
جنگ سے باہر اپنی وقت ضائع کرنے والی مشقوں میں مصروف تھی۔اب نام نہاد
طالبان نے فوج اور اس کی تنصیبات پہ حملے شروع کئے۔ فوجی تربیت تو روایتی
جنگ کا مقابلہ نہ کر سکتی تھی اس ناگہانی آفت کا مقابلہ کیا خاک کرتی۔شروع
شروع میں فوج کا بڑا نقصان ہوا لیکن اس کا فائدہ یہ ہوا کہ فوج کے بڑوں نے
فوج کی وہ تربیت شروع کی جس کی ضرورت تھی۔آج فوجی تربیت کا یہ عالم ہے کہ
لوڈڈ بندوق جوان کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور نشانہ ٹارگٹ پر۔اس تربیت میں
نکھار یوں بھی آیا ہے کہ جو تربیت یافتہ نہ ہو گا جان سے جائے گا۔کیا یہ
تربیت ہمیں پاکستانی طالبان سے لڑنے کے لئے قدرت کی جانب سے دی گئی ہے۔میرے
خیال میں پاکستانی طالبا ن تو وہ گندے انڈے تھے جنہیں قدرت اس معرکہ وفا
وجفا سے پہلے اس علاقے سے پاک کرنا چاہتی تھی۔کچھ مٹ گئے باقی اصل جنگ سے
پہلے واصل جہنم ہوں گے۔
اپنی حکومت اور فوج کی پالیسیاں دیکھ کے حیرت ہوتی تھی کہ یہ بھی کبھی
امریکہ اور اس کے حواریوں کے خلاف سر اٹھا پائیں گے لیکن میمو گیٹ اور
سلالہ چیک پوسٹ پہ حملے کے بعد منظر ایک دم واضح ہو گیا ہے۔معرکہ لگتا ہے
بس شروع ہوا چاہتا ہے۔ پیلی جلد چھوٹی ناک اور چھوٹی آنکھیں بھی نگران ہیں۔
فتح اب ہمارا مقدر ہے۔ایسے میں کچھ لوگ ابھی بھی قوم کو ڈرا رہے ہیں۔ انہیں
" کہتے رہو اچھا لگتا ہے" قسم کی تحریریں لکھ کے امریکی عذاب سے دھمکانے کی
بھونڈی کوشش میں مشغول ہیں۔ایسے لوگوں کے لئے دعا ہی کی جا سکتی ہے۔آئیے ہم
اس بڑی جنگ کی تیاری کریں جس میں فتح کی نوید ہمیںاس زبان سے دی گئی ہے جس
کی صداقت کی قسم خود رب ذوالجلال نے کھائی ہے۔اب قوم تیار ہے۔فوج تیار
ہے۔حکومت کو بھی تیار ہونا ہو گا۔یہ جنگ اکیلے لڑنے کی ہے بھی نہیں کہ اس
میں تو سچے ایک جانب ہوں گے اور جھوٹے دوسری جانب۔اللہ کریم ہمیں سچوں میں
شامل ہونے کی توفیق دے۔ آمین |
|