امریکہ کرپشن کا بانی اورمائی باپ ہے
(Ata Muhammed Tabussum, Karachi)
اسّی اور نوے کی دہائی میں ہمارے
اردو اخبارات نے مالی بدعنوانی کی جگہ امریکی اصطلاح ”کرپشن“ کو شہ سرخیوں
میں جگہ دینا شروع کی اور دیکھتے ہی دیکھتے دو جمہوری حکومتیں میاںنوازشریف
اور بے نظیر بھٹو کی حکومتوں کو کرپشن کے الزامات لگا کر ختم کیاگیا۔ اب
”کرپشن“ اور ”کرپٹ“ کے الفاظ اردو ڈکشنری کا حصہ بن گئے ہیں۔
اب ملکوں کی کرپشن جانچنے کے لئے قرضہ دینے والے ممالک نے ٹرانسپیرنسی جیسے
ادارے بنادیئے ہیں۔ لیکن ان اداروں کی مالی معاونت کے ذرائع چھپائے جاتے
ہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ مالی کرپشن امریکہ اور یورپ میں
ہوتی۔فرق صرف یہ ہے کہ ان ممالک نے اپنی کرپشن کو ”کک بیک“ ”کمیشن“۔”سروس
چارجز“۔ جیسے نام دئے ہیں۔ ”کک بیک“ کا تصور ہی مغرب سے آیا ہے۔مسلمان کے
نزدیک رشوت لینے والا ہی نہیں رشوت دینے والا بلکہ رشوت کی طرف راغب
کرنےوالا بھی اتناہی برابر کا مجرم ہے۔ دنیاکا سب سے انتہائی کرپٹ ملک
سوئٹزرلینڈ ہے۔سوئس بینکوں میں دنیا بھر میں کرپشن کے ذریعے کمایا جانے
والا پیسہ پڑا ہے۔ آج تک تمام تر مطالبات اور اپیلوں کے باوجود غریب ملکوں
کا لوٹا ہوا پیسہ سوئٹزرلینڈ نے واپس نہیں لوٹایا۔ پاکستان سے لوٹی ہوئی
ساٹھ ملین ڈالرز بھی یہیں محفوظ ہیں۔
امریکہ کا حال یہ ہے کہ وہاں موجود لابنگ فرمیں اپنے”کلائنٹ“ سے بھاری
معاوضے وصول کرکے کانگریس ممبران کو خریدتے ہیں اور اس طرح مختلف ممالک کے
خلاف یا ان کے حق میں فیصلے صادر کروائے جاتے ہیں۔ پاکستان ان غریب ممالک
میں شامل ہے جسے مسئلہ کشمیر‘ایٹمی معاملے اورکئی ناقابل تحریر معاملات پر
امریکی لابنگ فرموں کو بھاری رقوم دینا پڑتی ہیں۔بی بی سی نے حال ہی میں
ایک سروے کرایا۔ اس جائزے میں شامل چار کے علاوہ سب ممالک میں کرپشن کو بہت
سنجیدہ مسئلہ کہا گیا ہے۔ برازیل میں چھیانوے فیصد لوگوں نے کرپشن کو بہت
سنجیدہ مسئلہ قراد دیا، مصر میں اکیانوے فیصد، کولمبیا میں اٹھاسی فیصد،
فلپائن میں ستاسی فیصد اور کینیا میں چھیاسی فیصد لوگوں کی یہی رائے تھی۔ان
کے علاوہ چین میں بھی تہتر فیصد اور امریکہ میں سڑسٹھ فیصد، روس میں اڑسٹھ
فیصد اور انڈیا میں چھیاسٹھ فیصد نے کرپشن کو اہم مسئلہ قرار دیا ہے۔
امریکہ میں کرپشن تیزی سے بڑھ رہی ہے اور امریکی غریب ملکوں کو امداد دے کر
اس میں کرپشن کی سرپرستی کرتے ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکسیشن و اکانومی پالیسی
کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ درجنوں امریکی کمپنیاں حکومت کی جانب سے
سبسڈیز حاصل کرنے اور سالانہ اربوں ڈالر منافع کمانے کے باوجود ٹیکس چوری
میں ملوث ہیں۔ رپورٹ کے مطابق امریکہ کی 30 منافع بخش کمپنیاں مجموعی طور
پر 160 ارب ڈالر منافع کمانے کے باوجود گزشتہ 3 سال سے نیگٹیو انکم ٹیکس
ریٹ سے لطف اندوز ہو رہی ہیں بلکہ بعض مذکورہ کمپنیاں ٹیکس ریبیٹ بھی لے
رہی ہیں۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ 280 کارپوریشنوں نے مجموعی طور پر
تقریباً 223 ارب ڈالر کی ٹیکس سبسڈیز حاصل کی ہیں۔دوسری جانب امریکہ ٹیکس
چوری سکینڈل کے معاملے پر سوئٹزرلینڈ سے سودے بازی بھی کرتا رہا ہے۔
سوئٹزرلینڈکی وزیرخزانہ ایولین وڈمرنے اس کی تصدیق کی اورصحافیوں کوبتایاکہ
امریکہ کواس معاملے پربات چیت کی تجویز دی گئی ہے اور مزیدکسی پریشانی سے
بچنے کے لئے ہم اس مسئلے کوجلدحل کرنے کی کوشش کررہے ہیں، اس پہلے امریکہ
نے ایک سوئس بینک” کریڈٹ سوئس“ پر الزام عائد کیا تھا کہ بینک نے ٹیکس چوری
کرنے میں ہزاروں امریکی کھاتے داروں کی مددکی ہے،امریکہ کاسوئٹزرلینڈپر
دباو تھا کہ وہ کریڈٹ سوئس کے ہزاروں امریکی کھاتے داروں کی تفصیلات اسے
فراہم کرے ،امریکہ ماضی میں بھی سوئس بینک یوبی ایس کے ساڑھے
چارہزارکھاتیداروں کی تفصیلات حاصل کرچکا ہے۔ بعد میں امریکہ اور سوئٹزر
لینڈ، امریکی ٹیکس کی ادائیگی سے بچنے کے خلاف سوئٹزر لینڈ کے ایک بہت بڑے
بینک، یو بی ایس کےخلاف ایک مقدمے کو ختم کرنے پر اصولی طور پر رضامند
ہوگئے۔
مقدمے کی بنیاد امریکہ کا یہ مطالبہ تھا کہ یو بی ایس ایسے لگ بھگ 52 ہزار
امریکی کھاتے داروں کے ریکارڈ اس کے حوالے کرے، جن کے بارے میں امریکہ کا
خیال ہے کہ ہوسکتا ہے کہ وہ سوئٹزر لینڈ میں خفیہ اکاؤنٹ کے ذریعے امریکہ
میں ٹیکس ادا کرنے بچ رہے ہوں۔ یو بی ایس کا استدلال یہ تھا کہ اگر وہ
امریکی قانون کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے کھاتے داروں کے ریکارڈ حوالے کرتا ہے
تو یہ سوئٹزر لینڈ کے قانون کی خلاف ورزی ہوگی اور اسے اپنے ملک میں تعزیری
کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔اس مقدمے کی سماعت شروع ہونے سے پہلے ہی روز
ریاست فلوریڈا میں ایک وفاقی جج نے یہ اطلاع ملنے پر سماعت منسوخ کردی کہ
اہم نکات پر اصولی طور پر سمجھوتا ہوگیا ہے۔ اب تک اس سمجھوتے کی تفصیلات
بدستور صیغہ راز میں ہیں۔
امریکہ میں صنعتی اداروں کی پالیسیوں ، مالی نظام اور بڑھتے کرپشن کے خلاف
ہونے والے مظاہروں نے اب کم و بیش پورے شمالی امریکہ کو اپنی لپیٹ میں لے
لیا ہے۔ گذشتہ دنوںنیو یارک میں شروع ہوئی یہ تحریک اتنی تیزی سے پھیلنی
شروع ہوئی کہ وہ دیکھتے ہی دیکھتے امریکہ کے کئی شہروں واشنگٹن، لاس
اینجلس، بوسٹن، پورویڈنس ہوتے ہوئے کناڈا کے شہر ٹورنٹو اور وینکوور تک
پہنچ گئی۔وال اسٹریٹ پر قبضہ کر لو کے نعروں کے ساتھ وال اسٹریٹ کے قریب
ہونے والے ان مظاہروں سے ترغیب پاکر کنا ڈا میں مظاہرہ کر رہے افراد بھی
ٹورنٹو کی بے اسٹریٹ پر قبضہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔پولس کارروائی اور
کئی سو افراد کی گرفتاری کے باوجود یہ مظاہرے تھمنے کے بجائے اور بھی شدت
اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ اور کچھ کا یہ خیال ہے کہ وال اسٹریٹ پر مظاہرے
اور قبضہ سردیوں میں بھی جاری رہے گا۔ امریکہ میں کرپشن کے خلاف اس تحریک
نے اب آن لائن شکل اختیا ر کر لی ہے اور آن لائن اسپیشل نیٹ ورک پر اسے بڑی
تیزی سے مقبولیت حاصل ہو رہی ہے۔ فیس بک پر دی وال اسٹریٹ نام سے بنی
برادری کو 66ہزار سے زیادہ افراد پسند کر رہے ہیں۔مظاہرین کا کہنا ہے کہ
عرب ملکوں میں آئے انقلاب سے متاثر ہو کر یہان بھی یہ تحریک چلائی گئی ہے۔
ان مشتعل مظاہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کا موجودہ مالیاتی نظام ملک کے
متوسط اور غریب طبقات کے مفادات کو داو ¿ پر لگا کر امیروں اور ذی اثر
لوگوں کو ہی فائدہ پہنچا رہا ہے۔
امریکوں نے تیسری دنیا میں کرپشن کا جو جال بچھایا ہے ۔ وہ افغانستان،
عراق،پاکستان میں بھی پھیلا ہوا ہے۔ کیری لوگر بل سے لے دیگر امدادی معاہدے
اس ڈیل میں آتے ہیں۔ حال ہی میں ایک امریکی اخبار میں شائع ہونے والی خبر
کے مطابق امریکی وفاقی پراسیکیوٹرز افغان صدر حامد کرزئی کے بڑے بھائی کے
خلاف بدعنوانی کے سلسلے میں تحقیقات کررہے ہیں۔وال سٹریٹ جنرل کی اس رپورٹ
میں کہا گیا ہے کہ شمال مشرقی امریکی ریاست نیویارک کے پراسیکیوٹرز صدر
حامد کرزئی کے بھائی محمود کرزئی کے خلاف ، جو ایک امریکی شہری ہیں، ٹیکس
چھپانے، ناجائزکاروبار اور دولت بٹورنے کے الزامات کے تحت تحقیقات کررہے
ہیں۔اخبار کا کہنا ہے کہ امریکی پراسیکیوٹرز اس مقدمے کے سلسلے میں افغان
بینک کے اعلیٰ عہدے داروں اور افیون کے غیر قانونی کاروبار میں ملوث افراد
کے خلاف بھی تحقیقات کررہے ہیں۔اخبار کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں افغان
صدر کے بھائی نے کسی بھی غلط کام کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک
کاروباری شخص ہیں اور انہوں نے قانونی طریقوں سے دولت حاصل کی ہے۔ انہوں نے
اخبار کو اپنی مالیاتی دستاویزات دیں جن کے مطابق انہوں نے ایک کروڑ 20
لاکھ ڈالر جمع کیے ہیں۔محمود کرزئی نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو پچھلے ہفتے
بتایا تھا کہ وہ مزید آمدنی دکھانے کے لیے امریکہ میں اپنے ٹیکس کے گوشوارے
میں تبدیلی کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ریاست میری لینڈ میں واقع اپنے
گھر کے کرائے اور دبئی میں اپنی ایک جائیداد کی فروخت کی آمدنی گوشوارے میں
ظاہر کریں گے۔محمود کرزئی نے کہا کہ انہیں دبئی میں ایک پرآسائش بنگلہ خرید
کر اسے جلدفروخت کرنے سے کم ازکم آٹھ لاکھ ڈالر کا منافع ہوا تھا۔ بنگلے کی
خرید کے لیے انہوں نے افغانستان کے کابل بینک سے قرضہ لیا تھا۔امریکی ریاست
میسا چوسٹس میں ان کا ایک ریستوران ہے اور جنوبی افغانستان کے قندھار صوبے
میں ایک بڑے رہائش پراجیکٹ میں ان کا حصہ ہے۔ تھوڑے عرصے قبل افغان صدر
حامد کرزئی نے افغانستان کے مرکزی بینک میں مالیاتی شعبے کی ترقی کے لیے
کام کرنے والے امریکی مشیر پر پابندی لگا دی تھی۔ وہ کئی برسوں سے اس بینک
کے لیے کام کر رہے تھے کے روز ایک امریکی واچ ڈاگ نے لکھا ہے کہ افغان بینک
ریگولیٹرز کی تربیت کرنے والے مشیر ہربرٹ رچرڈسن کے خلاف بینک میں روز بروز
نفرت بڑھتی جا رہی تھی۔ قبل ازیں رچرڈسن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ امریکی
امداد کے اربوں ڈالر افغانستان میں کرپشن اور منشیات کی فروخت کی نذر ہو
چکے ہیں۔ ان کے مطابق امریکی امداد عسکریت پسندوں کے ہاتھ بھی لگی ہے۔
افغانستان کے لیے اس خصوصی امریکی انسپکٹر جنرل کا کام منی لانڈرنگ اور
دیگر مالیاتی جرائم کی نشاندہی کرنا بتایا گیا تھا۔ اس خصوصی انسپکٹر جنرل
کی تعیناتی کانگریس کی طرف سے کی گئی تھی تاکہ افغانستان کے لیے امریکی
امداد کے خرچ کی جانچ پڑتال کی جا سکے۔اس انسپکٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق
کانگریس 2002ء کے بعد سے 70 بلین ڈالر افغانستان میں ترقیاتی منصوبوں پر
خرچ کر چکی ہے۔ افغان سینٹرل بینک بہت عرصے سے تنازعے کا شکار ہے۔ امریکی
شہریت رکھنے والے افغان بینک کے چیئرمین عبدالقدیر فطرت نے اپنے عہدے سے
مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ افغان دارالحکومت میں
قائم ایک نجی ’کابل بینک‘ میں 467 ملین ڈالر کی بدعنوانیوں اور غبن کی وجہ
سے دیوالیہ ہونے کی تحقیقات کرنا چاہتے تھے جبکہ حکومتی شخصیات کی طرف سے
مسلسل مداخلت کی جا رہی تھی اور ان کی جان کو خطرہ ہے۔
کچھ عر صہ قبل ’شکاگو ٹربیون ‘ نے ایک اداریے میں ایک سابق گورنر پر چلنے
والے مقدمے کے بارے میں لکھا تھا کہ جج جیمز زیگل سابق گورنر کو سزا دیتے
وقت شکاگو کے ایک اور ڈسٹرکٹ جج روبن کسٹیلو کے اِس فیصلے کو ملحوظ نظر
رکھیں گے جو انھوں نے رشوت ستانی کے ایک اور مقدمے میں دیا تھا۔ریاست ایلی
نوای کے سابق گورنر راڈ بلاگووِچ پر بدعنوانیوں اور رشوت ستانی کے جو21
الزامات تھے ان میں سے انھیں 18کا قصوروار پایا گیا ہے، جِن میں یہ بھی
شامل ہے کہ انھوں نے امریکی سینیٹ کی وہ نشست فروخت کرنے کی کوشش کی تھی جو
صدر براک اوباما کے صدر بننے کے بعد خالی ہوگئی تھی۔جو الزامات بلاگووِچ پر
عدالت میں ثابت ہوچکے ہیں ان کی پاداش میں ملنے والی سزا کا دورانیہ تین سو
سال تک ہوسکتا ہے۔
امریکہ میں کرپشن اور امیر و غریب کے درمیان خلیج بڑھ جانے سے معاشرتی تناؤ
بڑھ رہا ہے اور یہ بحث چل رہی ہے کہ اصلاحات اور سرکاری کنٹرول اور سرمایہ
داری کے جِس ملے جلے مرکّب سے امریکہ غربت کی پستی سے ایک عالمی طاقت کی
بلندی تک پہنچ گیا وہ اب اپنی افادیت کھو چکا ہے اور اِس کے نتیجے میں ایک
نیا طاقت ور طبقہ ابھر آیا ہے، جب کہ باقی لوگ پیچھے رہ گئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق لوگوں کے خیال میں یورپ اور شمالی امریکہ میں گزشتہ تین
برسوں میں ترتیب وار تہتر اور سڑسٹھ فیصد کرپشن بڑھی ہے۔ لیکن اچھی بات یہ
ہے کہ ہر دس افراد میں سے سات بدعنوانی کے واقعات کو رپورٹ کرنے کے خواہاں
ہیں۔ٹرانسپرینسی نے دنیا کے دیگر ملکوں کی فہرست میں امریکہ کو 24 ویں نمبر
پر رکھا گیا ہے۔ پاکستان میں بھی امریکی امداد میں کرپشن اور بدعنوانی کا
شہرہ ہے۔ اور اس کی سرپرستی بھی امریکہ ہی کرتا ہے اور اس کے شہری اس میں
ملوث ہوتے ہیں۔ کچھ عر صہ قبل پاکستان میں سرگرم ایک امریکی این جی اوز
کوبدعنوانی میں ملوث پائے جانے کے بعد امریکی حکومت نے فنڈنگ پر پابندی
عائد کردی تھی۔ یو ایس ایڈ نے اس بارے میں کہا تھا کہ اکیڈمی فار ایجوکیشنل
ڈیولپمنٹ نامی این جی او نے پاکستان میںپندرہ کروڑ ڈالر کے پراجیکٹ پر کام
کیا تھا۔ جس کے تحت پاکستانی قبائلی علاقوں میں سکول اور سڑکوں کی صورت حال
بہتر بنائی گئی تھی۔تاہم آڈٹ اور تفتیش سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پراجیکٹ
کی انجام دہی میں اکیڈمی فار ایجوکیشنل ڈیولپمنٹ بدعنوانی اور جعل سازی میں
ملوث رہی۔ یو ایس ایڈ نے این جی او کے لیے فنڈنگ روک دی اور پراجیکٹ سے
منسلک پاکستانی کینیڈین شہری کو برطرف کردیا۔یادرہے کہ امریکہ اور کئی
ممالک نے زلزلہ اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد این جی اوز کے زریعے فنڈنگ
شروع کی ہوئی تھی ،لیکن وہی این جی او ز آڈٹ کے بعد خردبرد میں ملوث پائی
گئی۔جس کے بعد ان کی فنڈنگ روکدی گئی۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ سب امریکہ
کی ملی بگھت ہے۔ وہ جب چاہے کرپشن کی آزادی دے اور جب چا ہے رسی کھینچ لے۔ |
|