نفرت کا زہر

قوم لاہور میں ہونے والے عمران خان کے جلسہ کے بعد میڈیا کی چلائی ہوئی ،نہ ختم ہونے والی مہم میں الجھی ہوئی تھی، ٹی وی اینکرز ایک سے بڑھ کر ایک اس جلسہ کو ملکی تاریخ میں اہم ترین مقام دینے کی تگ ودو میں مصروف تھے، کالم نگار اپنے اپنے طریقے اور اسلوب سے اس کا تقابل بھٹو یا دیگر لیڈروں سے کرنے میں لگے ہوئے تھے، دانشور اس جلسہ کو تبدیلی کا واضع اعلان قرار دے رہے تھے، اگر کسی نے رائے سے اختلاف کی جسارت کرلی تو کالموں کے کالم مخالفین پر زہر اگلنے میں جھونک دیئے۔ٹی وی ، اخبارات میدان جنگ کا منظر پیش کررہے تھے ، ڈھونڈ ڈھونڈھ کررقیبوں کے اثاثے تلاش کئے جارہے تھے اور چیلنج پر چیلنج ہورہاتھا۔

میدان ِ کارزار گرم تھا کہ میمو کا ایشوپہاڑ تلے سے نکلا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہاتھی کا روپ دھار گیا، ایسے لگتا تھا کہ یہ ہاتھی حکومت کو کچل کر رکھ دے گا، قوم ا س پوشیدہ راز کے فاش ہونے کا انتظار کرنے لگی، معاملہ قومی سیاسی رہنماؤں سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ تک جا پہنچا، التجا یہی تھی کہ اس معاملہ کو ایسے ہی نہ چھوڑ دیا جائے، بات کہاں سے شروع ہوئی اور کہاں تک پہنچی ، کڑی سے کڑی کیسے ملی، کون کون ذمہ دار تھا ، کون کون کس کس سزا کا حقدار ہے؟ سفیر کو پاکستان بلاکر گھر بھیج دیا گیا، بہت سے دوسروں کو بھی گھر بھجوانے کی خواہش ابھی دلوں میں مچل رہی ہے، نتیجہ کیا برآمد ہوتا ہے، یہ وقت ہی فیصلہ کرے گا۔

حکومت میمو کی خط وکتابت کی الجھنوں میں الجھی ہوئی تھی، خط لکھنے والا ، لکھوانے والا اور اس کا تصور پیش کرنے والا کوئی ایک شخص قرار نہیں دیا جارہا، تحقیق کی ضرورت ہے۔ لیکن اسی دوران نیٹو افواج نے ایک پاکستانی چوکی پر حملہ کرکے26جوان شہید کردیئے، اگر حکومت اس ظلم پر بھی متحرک نہ ہوتی تو عوام سڑکوں پر نکل آتے۔ امریکی ڈرون حملوں میں ہمارے علاقوں کے پچاسیوں لوگ آئے دن جان گنوا بیٹھتے ہیں، مگر حکومتی سطح پر کبھی احتجاج نہیں کیا جاتا ، کہ شاید عوام وغیر ہ کی جان کی اتنی قدر نہیں،اور تو اور یہ ڈرون حملوں سے مرنے والے شہید نہیں ’ہلاک ‘ ہوتے ہیں، چاہے بے گناہ ہی کیوں نہ ہوں۔

اس واقع نے(فوج اور) حکومت کو ہلاکررکھ دیا، جہاں حکومتی سطح پر احتجاج ہوا وہاں ہر سیاسی اور مذہبی جماعت نے بھی احتجاج کروا کے خود کوفہرست میں شامل کروایا۔ حکومت اتنی مجبور تھی کہ اسے امریکہ سے شمسی ائیر پورٹ خالی کروانے کا اعلان کرنا پڑا، کابینہ نے بھی اس فیصلے کی توثیق کردی، حیرت ہے کہ حکومت اپنے فیصلے پر ابھی تک قائم ہے۔ حکومت کے اس فیصلے کے بعدقوم ایک بار پی پی مخالفت بھول کر امریکہ مخالفت میں لگ گئی۔ ایسی ایسی سیاسی جماعتیں جو حکومتی سیاست کی بھی رسیا ہیں ، نے امریکہ مخالف ریلیاں نکالیں۔ یوں جہاں امریکہ نے دباؤ میں آکر ائیر پورٹ خالی کرنے کا اعلان کیا وہاں پاکستان کے اندر حکومت کا گراف بھی کچھ اوپر گیا، قوم چند لمحوں کے لئے عمران خان کے جلسے اور میمو کے چکروں سے باہر آئی اور حکومت کے خلاف نفرت میں کمی کا موڈ بنایا۔

حکومت جانتی ہے کہ قوم کو تو کچھ دیکھنے اور سوچنے کی فرصت ہی نہیں۔اگر عام حالات میں بھی پٹرولیم کی مصنوعات میں اضافہ کردیا جاتا ہے تو عوام کا پروگرام احتجاج کی بجائے کچھ باہم تبصرے ، کچھ خون جلانا ،کچھ چڑنا ،کچھ کڑھنااور گھٹ گھٹ کر مرنا ہی ہوتا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں اضافہ معمول بن چکا ہے،لفظوں کا گورکھ دھندہ کرنے والے دلائل کے انبار لگا دیں گے، ظلم بہرحال ظلم ہے، عوام پر ہونے والا یہ ظلم آخر کب تک جاری رہے گا؟حکومت کی یہ لوٹ مار کیا رنگ دکھائے گی؟ان کا یہ غیر سنجیدہ رویہ انہیں کس منزل تک لے جائے گا؟ حکمرانوں کی گاڑیاں عوام کے خون سے کب تک چلتی رہیں گی؟ یہ نہ ہو کہ حکومت تو ایشوز کی سیاست کرتی رہے اور عوام میں نفرتوں کا زہر اپنی آخری حدوں کو پہنچ جائے اور ’مرض‘ ناقابل علاج ہوجائے؟
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 432501 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.