خبر حیران کن ، خوش کن اور کسی
حد تک پریشان کن تھی،وہ یہ کہ وزیراعظم گیلانی نے وفاقی سیکریٹریوں اور
دیگراعلیٰ سول حکام پر نئی گاڑیوں کی خریداری اور پراجیکٹس کی گاڑیوں کے
ذاتی استعمال پر پابندی عائد کردی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ان نئے
قواعدوضوابط کی منظوری اور ان پر عمل درآمدکے نتیجہ میں صرف وفاق میں لگ
بھگ 14ہزار سرکاری گاڑیوں کا غیر قانونی اور ناجائز استعمال بھی رک جائے گا،
جن کی وجہ سے قومی خزانے کو سالانہ 5ارب روپے کا ٹیکہ لگایاجارہا ہے۔کیونکہ
یہ گاڑیاںاعلیٰ افسران کے نجی کاموں کے علاوہ غیر مجاز ملازمین بھی وسیع
پیمانے پر استعمال کررہے ہیں۔ ایک اخباری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ
296محکموں نے گاڑیوں کی تفصیلات فراہم کی تھیں، ان محکموں کی 18ہزار میں سے
14ہزار گاڑیاں غیرقانونی طور پر استعمال ہو رہی ہیں، جبکہ 190سرکاری محکموں
نے آڈٹ کے متعدد باررابطوں کے باوجود گاڑیوں کی تفصیلات فراہم نہیں کی تھیں۔
سرکاری افسران (اور غیرمجاز)ملازمین سرکاری گاڑیوں کا استعمال کس طرح کرتے
ہیں ، اس سے بھلا کون آگاہ نہیں۔بیگمات کی شاپنگ،بچوں کاسکول جانا، سیر
سپاٹا، میل ملاقات کے لئے تو ان گاڑیوں کا استعمال معمول کی بات ہے،
پراجیکٹس کی گاڑیوں پر یار لوگوں کی باراتیں بھی لے جائی جاتی ہیں، گاڑیوں
پر قابض لوگوں کی اولاد ڈرائیونگ بھی انہی گاڑیوں اورسرکاری پٹرول سے ہی
سیکھتی ہے، ہر شہر میں شام کو ایسی گاڑیاں عام ملتی ہیں جن کو15سے18سال کے
لڑکے چلارہے ہوتے ہیں ، اول تو وہ دوستوں کے ساتھ ہوتے ہیں، یا ان کے ساتھ
افسر والد یا ڈرائیور بھی ہوتا ہے۔
جس شہر میں ہمارا آشیانہ ہے(اسے آشیانہ ہاؤسنگ سکیم والا نہ سمجھا جائے) یہ
ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہے،اس سے صرف 16کلومیٹر کے فاصلے پر ایک ضلعی صدر مقام
ہے، دوسرا ڈویژن اور دوسرا ضلع ہونے کے باوجود تقریباً دس سے زیادہ گاڑیا ں
ایسے افسران کے پاس ہیں جو ہمارے شہر کے باسی ہیں، یوں وہ ہر روز قانون کی
خلاف ورزی کرتے ہوئے یہاں آتے اور اگلی صبح نوکری پر جاتے ہیں، شام کو گاڑی
ان کے بیوی بچوں کے تصرف میں ہوتی ہے ، محرم کے دنوں میں ایسی گاڑیاں حلیم
تقسیم کرتی پائی گئی ہیں۔ ان گاڑیوں کا استعمال تو ناجائز ہے ہی، مگر ستم
یہ بھی ہے کہ حکومت عوام کے لئے تو سی این جی گاڑیوں کے احکامات جاری کرتی
اور سی این جی بسوں کا بندوبست کرتی پھر رہی ہے مگر سرکاری گاڑیاں پٹرول پر
ہی چل رہی ہیں، (کیونکہ یہ جیب سے نہیں ڈلوانا ہوتا)۔
یہ تو وفاقی محکموں کی بات ہے ،جہاں18میں سے صرف چار ہزار گاڑی کا استعمال
درست ہے، بہت سے محکموں نے گاڑیوں کی تفصیلات سے آگاہ کرنا مناسب ہی نہیں
جانا۔ حکمرانوں نے اپنے من پسند لوگوں کو بھی گاڑیوں کی سرکاری طور پر
عیاشی کروارکھی ہوتی ہے، مشیروں اور دیگر نامعلوم شعبوں کو جواز بنا کر
اپنے لوگوں کو گاڑیاں عنایت کردی جاتی ہیں۔ یہ معاملہ وفاقی حکومت کا ہی
نہیں ، صوبائی حکومتوں میں معاملہ اس سے بھی آگے ہوگا ، ایک اندازے کے
مطابق اگر کل اضافی خرچہ 5ارب روپے ہے تو صوبوں کو شامل کرنے سے اس کی
تعداد تین گنا سے بڑھ سکتی ہے۔ اور اگر ہم پنجاب حکومت کی طرف دیکھیں ، کہ
دیانتداری جن کا دعویٰ ہے، کرپشن کے خلاف جنہوں نے اعلان جہاد کررکھا ہے،
یہ بھی اپنے من پسند لوگوں کو مختلف اداروں کی آڑ میں سرکاری گاڑی معہ
پٹرول، گارڈ اور ڈرائیور عنایت کرتے ہیں، اور پارسائی (؟)کے دعویدار بھی
ہیں۔ وفاقی حکومت کے بعد یہ فیصلہ صوبائی حکومتوں کو بھی کرنا چاہیے۔ کیا
ان فیصلوں پر عمل بھی ہوسکے گا؟ کیا گیلانی صاحب کا خاندان پروٹوکول کی
عیاشی ختم کرسکتا ہے؟ کیا میاں شہباز شریف بھی اس قسم کا فیصلہ صادر کریں
گے؟ |