نشانِ عبرت

چند طالع آزما فوجی جرنیلوں کے رگ و پہ میں پاکستان پر حکمرانی کا نشہ چھایا ہوا ہے جو کسی بھی صورت میں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ ہر آنے والے دن کے ساتھ اس سوچ کی شدت میں ا ضا فہ ہوتا جا رہا ہے تو بے جا نہیں ہو گا۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے جس طالع آزمائی کا آغاز اکتوبر 1958 میں کیا تھا وہ آج بھی اسی طرح جاری و ساری ہے۔ اس نے سب سے پہلے تحریکِ پاکستان کی ساری قیادت کو ایبڈو کے قانون کے تحت نا اہل قرار دیا تا کہ کو ئی اسے روکنے ٹوکنے والا نہ ہو۔ جنرل ضیا ا لحق نے ذولفقار علی بھٹو کی حکومت کا تحتہ الٹ کر انھیں تختہ دار پر کھینچ دیا جبکہ جنرل پرویز مشرف نے طیارہ اغوا کیس میں میاں محمد نواز شریف کو عمر قید کا حکم سنا کر انھیں جلا وطن کر دیا۔منتخب حکومتیں ہمیشہ ہی فوجی جرنیلوں کے خوف کی اسیر رہی ہیں اور ان کے بوٹوں کی چاپیں سیاست دانوں کےلئے خوف و ہراس پیدا کرتی رہی ہیں کیونکہ فوجی جرنیلوں نے سیاسی قیادتوں سے جس طرح کا سفاکانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے خوف اس کا منطقی نتیجہ ہے ۔جیلیں، کوڑے ،پھانسیاں اور جلا وطنی معمولی واقعات ہیں جن سے سیاست دانوں کو گزرنا پڑا۔ سیاست دانوں کو لوگ ہمیشہ تنقیدی نگاہ سے دیکھتے ہیں کاش وہ ان کی مشکلات کا بھی ادراک رکھتے تو انھیں معلوم ہو جا تا کہ سیاستدانوں کی مثال اس شخص کی سی ہے جو تنے ہوئے رسے پر چل رہا ہوتا ہے۔ اور اس کی ذرا سی لغزش اسے موت کے منہ میں دھکیلنے کے لئے کافی ہوتی ہے۔ فوجی جنتا کے ہاتھوں سیا ستدانوں کی کردار کشی اور بے عزتی کل بھی ہو ئی تھی،آج بھی ہو رہی ہے اور آئیندہ بھی ہوتی رہے گی کیونکہ فوجی جنتا کی طاقت کے سامنے سیاسی جماعتوں کی طاقت کو ئی معنی نہیں رکھتی۔ فوجی جنتا جب چا ہے سول حکمرانوں کو معزول کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیتی ہے اور پھر اپنے سیاسی اداکاروں ، حاشیہ برداروں اور حوا ریوں کی مددسے ا نھیں عبرت انگیز سزا کا حق دار بھی ٹھہرا دیتی ہے ۔ میں جو کچھ بھی بیان کر رہا ہوں وہ کسی الف لیلی کی ا فسا نوی داستان کا کو ئی خوبصورت اور سنسنی خیز پیر اگراف نہیں ہے بلکہ پاکستان کے وہ ننگے اور بے رحم حقائق ہیں جن سے پاکستان اپنی تخلیق سے لے کر آج تک گزر رہا ہے اور نجانے کتنے برس اسے مزید گزرنا پڑیگا کیونکہ فوجی جنتا اقتدار پر قبضہ کرنے کے اپنے حق سے دستبردار ہو نے کو تیار نہیں ہے اور سیاستدانوں کو امورِ مملکت میں آزادنہ فیصلے کرنے کی اجازت دینے کے لئے رضامند نہیں ہے۔ جب محبِ وطن ہونے کے لئے فوجی ہونا ضروری قرار پا جائے تو پھر سیاستدان محبِ وطن کیسے ہو سکتے ہیں ؟ اور جو محبِ وطن نہیں ہو سکتا تو پھر اس کا مقدر وہی پھانسی کا پھندہ جسے سیاست دانوں پر کئی دفعہ آزمایا گیا ہے۔۔

2 مئی کو اسامہ بن لادن کی گرفتاری کےلئے امریکی کمانڈوز نے پاکستان فوج کی رضامندی کے بغیریبٹ آباد میں جو اپریشن کیا اس نے فوجی جنتا کی برتری کو بڑی زک پہنچائی ہے۔ امریکی ٹیکنالوجی کے سامنے فوجی جنتا کی نام نہاد سپر میسی کو جس طرح ہزیمت کاسامنا کرنا پڑا اس کےلئے وہ ذہنی طور پر تیار نہیں تھی ۔ قیامِ پاکستان کے بعد فوجی جنتا نے قومی سلامتی اور نظریہ پاکستان کے نام پر جس طرح کا تانا بانا بھنا ہو ا تھا وہ با لکل بکھر کر رہ گیا اور ان کی کارکردگی پر بڑے سوالیہ نشان چھوڑ گیا۔ احساسَ ندامت سے ان میں قوتِ گویائی بھی نہیں بچی تھی کیونکہ ان کا دعوی یہ ہے کہ وہ ہ دنیا کی بہترین فوج ہیں لیکن امریکی آپریشن نے ان کی سارے دعو وں کی کلی کھول کر رکھ دی۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے جس طرح آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل شجاع پاشا کو تندو تیز سوالات کا سامنا کرنا پڑا وہ ان کے وہم و گمان سے ماورا تھا لیکن یہ سب کچھ ہو اور ملک میں پہلی بار ہوا کہ فوجی قیادت کو اپنی نااہلی پر صفائیاں پیش کرنے کی ضرورت پیش آگئی حا لا نکہ وہ تو خود سیا ستدانوں کو لائن حاضر کر لیتے تھے اور ان کی نا اہلی پر انھیں موردِ الزام ٹھہرا کر اقتدار پر قابض ہو جایا کرتے تھے۔ بہر حال ایبٹ آباد کی یہ نا اہلی اتنی بڑی تھی کہ پوری قوم کا سر شرم سے جھک گیا اور اس میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔ فوجی جنتا نے اپنی نااہلی کو چھپانے کی بڑی کوشش کی لیکن یہ اتنی واضح تھی کہ یہ کسی بھی قسم کی صفائیوں سے چھپ نہیں سکتی تھی۔ اس بات کا کریڈٹ تو بہر حال مو جودہ جمہوری حکومت کو ہی جائے گا کہ اس نے اس طرح کی بریفنگ کا بندو بست کر کے فوجی جنتا کو پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ کر دیا۔ یہی وہ لمحہ ہے جب فوجی جنتا اور موجودہ حکومت کے درمیان بد اعتمادی کی فضا قائم ہوئی۔ فوجی جنتا یہ سمجھنے میں حق بجانب ہے کہ پی پی پی کی حکومت نے جان بوجھ کر ان کی سبکی کا اہتمام کیا اور انھیں چھوٹے چھوٹے علاقائی لیڈروں کی پھبتیاں اور دھمکیاں سننے پر مجبور کیا ۔جو لوگ چھڑی کے ایک اشارے سے مخالفین کو مٹا دینے کے احکامات جاری کرنے کے عادی ہوں انھیں اس طرح کی بریفنگ کیسے گوارہ ہو سکتی تھی یہی وجہ ہے کہ فوجی جنتانے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی کاروائی کو انتہائی سنجیدگی سے لیا اور اس میں اپنی تضحیک کا پہلو محسوس کیا۔ فوجی جنتا کو احساس تھا کہ اگر ایک دفعہ کسی ادارے کا خوف دل سے نکل جائے تو پھر اس ادارے کی سپر میسی، برتری اور تسلط کا خوف بھی دم توڑ جاتا ہے۔ یہ خوف ہی تو ہے جو کسی ادارے کی اصل قوت ہوتا ہے لہذ فوجی جنتا اس خوف کو ہر حال میں قائم رکھنا چاہتی ہے تا کہ اقتدار پر اس کی گرفت ہمیشہ مضبوط رہے اور کوئی سیاستدان ان کے سامنے کھڑا ہونے کی جسارت نہ کر سکے۔۔

فوجی جنتا کو کسی ایسے موقعہ کی تلاش میں تھی جس سے اسے جمہوری حکومت پر کاٹھی ڈالنے کا موقع مل جائے اور منصور اعجاز کے لکھے گئے میمو نے وہ موقع فراہم کر دیا ہے جس نے فوجی قیادت کو بڑا جارح بنا دیا ہے ۔ جمہوری حکومت تو پہلے ہی ان کے دباﺅ میں رہا کرتی تھی لیکن میمو کے مسئلے نے حکومت کو بہت زیادہ دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیا ہے ۔اب حکومت صفائیاں پیش کرتی رہے گی لیکن آخری فیصلہ وہی ہو گا جو کہ فوجی جنتا چاہے گی ۔ یہ بات کو ئی راز نہیں ہے کہ حسین حقانی اور فوجی جنتا کے درمیان تعلقات میں کشیدگی تھی اور فوجی جنتا حسین حقانی کو پسند نہیں کرتی تھی کیونکہ انھیں خدشہ تھا کہ حسین حقانی فوجی جنتا کو جمہوری حکومت کے زیرِ سایہ دیکھنے کے متمنی ہیں اور اس سلسلے میں حکومت کو خطرناک مشوروں سے نوازتے رہتے ہیں۔ فوجی جنتا سمجھتی تھی کہ حسین حقانی پاکستانی مفادات کا تخفظ کرنے کی بجائے امریکی مفادات کا تخفظ کر تے ہیں۔ حسین حقانی کو میڈیا اور عسکری حلقوں میں پاکستانی سفیر کی بجائے امریکی سفیر کے لقب سے بھی پکارا جا تاتھا تاکہ اس کی شخصیت کو متنازع بنا دیا جائے لیکن حسین حقانی ان سارے الزامات سے بے خوف اپنی ڈگر پر محوِ سفر تھے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ حسین حقانی کے صدرِ پاکستان آصف علی زرداری سے بڑے قریبی مراسم ہیں اور انھیں صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کا ترجمان بھی کہا جاتا ہے۔ کیری لوگر بل میں شامل بہت سی ایسی دفعات جو فوجی جنتا کو جمہوری حکومت کے سامنے جوابدہ کر سکتی تھیں اس کا خالق حسین حقانی کو سمجھا جا تا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کے واقعے میں بھی اسی کی طرف بہت سی انگلیاں اٹھا ئی گئی تھیں کہ اس نے ایسے لوگوں کو ویزے جاری کئے ہیں جو مشکوک تھے اور جن کے بارے میں معلومات ناکافی تھیں۔ اپوزیشن کا مطالبہ تھا کہ ویزے جاری کرنے کےلئے حسین حقانی کے اختیارات سلب کئے جائیں لیکن اس وقت کسی نے بھی اپوزیشن کے اعتراضا ت کو وزن نہیں دیا جس سے حسین حقانی کے حوصلے مزید بلند ہو گئے اور وہ فوجی جنتا کی نظروں میں کانٹے کی طرح کھٹکنے لگے۔فوجی جنتا حسین حقانی سے ناخوش تھی اور اسے سفارت کے منصب سے ہتانا چاہتی تھی کیونکہ وہ یہ سمجھتی تھی کہ اس سے حکومت اور امریکہ میں دوستی کی جڑیں گہری ہو جا ئیں گی جو حکومتی فیصلوں میں فوجی جنتا کے اثرو رسوخ کو کم کر سکتی ہیں۔حسین حقانی کی انہی حرکات کی وجہ سے اس کے خلاف ایک سازش تیار کی جا رہی تھی جس میں اس پر وطن دشمنی کے الزامات لگائے جانے ضروری تھے تا کہ اسے عوامی نفرت کا نشانہ بنا کر بے آبرو کر دیا جائے۔ جب الزامات لگانے ہیں تو اس انداز سے لگائے جائیں جس سے وطن سے غداری پہلو زیادہ اجا گر ہو سکے تا کہ عوامی جذبات سے کھیلنے کے بہتر مواقع میسر ہو سکیں لیکن چونکہ اس وقت (مئی میں ) فوج بذاتِ خود مشکل میں تھی لہذا اس وقت حسین حقانی پر ہاتھ نہیں ڈالا گیا اور قدرے تحمل اور برداشت کا کا مظاہرہ کیا گیا کہ اس وقت امریکی ناراضگی کا خطرہ بھی مول نہیں لیا جا سکتا تھا لیکن اب تو امریکی ناراضگی کا کہیں پر بھی شائبہ نہیںہے لہذا حسین حقانی پر بھر پور وار کر دیا گیا ہے۔ اس کے خلاف ایک زمانے سے مہم چلائی جا رہی تھی تاکہ اسے بے آبرو کر کے سفیرِ پاکستان کی حیثیت سے فارغ کیا جائے لیکن ڈور کا کوئی ایسا سرا فوجی جنتا کے ہاتھ نہیں آرہا تھا جس سے حسین حقا نی کو کھینچا جا سکے۔ بلی کے بھا گوں ں چھینکا ٹوٹا کے مصداق منصور اعجاز کے میمو نے ساری مشکلات آسان کر دی ہیں اور حسین حقانی پر وطن سے غداری کا الزام دھر دیا گیا ہے تاکہ وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہ سکے اور یوں فوجی جنتا کی من مانیوں میں روڑے اٹکانے والاعبرت ناک انجام سے دوچار ہو کر نشانِ عبرت بن جائے۔سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ بھی اس کارِ خیر میں شامل ہو گئی ہے۔ ۔

ہمارے ہاں سیاستدانوں کو غدار کہنے کا رواج بہت پرا نا ہے اور اس روائت کا ابھی تک خاتمہ نہیں ہوا جس کی تازہ مثال حسین حقانی کو بنائے جانے کے منصوبے کا آغاز کر دیا گیا ہے۔میڈیا فوجی جنتا کے ساتھ مل کر اس کھیل میں ایک اہم رول ادا کررہا جب کہ پنجاب اس سازش کا ہراول دستہ ہے۔ ابھی تو انکوائری بھی عمل میں نہیں آئی لیکن مقتدر حلقوں کو خوش کرنے کےلئے میڈیا نے حسین حقانی کو ابھی سے مجرم ثابت کرنے کی بھر پور مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ فوجی جنتا کے اشاروں پر محوِ رقص سیاست دان پوری تندہی سے حسین حقانی کو مجرم ثابت کرے پر تلے ہوئے ہیں اور اس کے خلاف دفعہ چھ (۶) کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ کوئی شخص یہ باور کرنے کےلئے تیار نہیں ہے کہ حسین حقانی جو کچھ کہہ رہا ہے اس پر بھی تھوڑا سا غورو عوض کر لیا جائے اور جب تک تحقیقات میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ثا بت نہیں ہو جاتا اس کی کردار کشی سے پر ہیز کیا جائے لیکن میڈیا پر خفیہ ہاتھوں کے اشاروں پر حسین حقانی کے خلاف مہم اپنے پورے عروج پر ہے اور حسین حقانی کو سزا دینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ حسین حقانی وطنِ عزیز کی خاطر اپنے خاندان کی خدمات اور قربانیوں کا ذکر رکر رہا ہے لیکن کوئی اسے در خورِ اعتنا نہیں سمجھ رہا کیونکہ فوجی جنتا نے اسے اپنے بوٹوں کے نیچے کچلنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور جسے فوجی جنتا اپنے بوٹوں تلے کچلنے کا فیصلہ کر لے تو پھر کس میں ہمت ہے کہ اس کی حمائت میںکھڑا ہو سکے کیونکہ کسی معتوب شخص کی حمائت میں کھڑا ہونے کا مطلب اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہو تا ہے اور مخصوص مفاد پرست سیاست دان اتنے نادان نہیں کہ وہ اپنے ہاتھوں سے پھا نسی کا پھندا اپنے گلے میں ڈال لیں ۔ حسین حقانی پر غداری کے مقدمے کی کوئی ا ہمیت نہں ہے بلکہ اہم سوال یہ ہے کہ فوجی جنتا حسین حقانی کی وساطت سے کسی اہم ترین شخصیت کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہتی ہے ۔ اگر فوجی جنتا نے سزا دینے کا فیصلہ کر لیا تو پھر کسی کا سزا سے بچ جانا معجزاتی فعل ہو گا کیونکہ فوی جنتا اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کا ہنر خوب جانتی ہے ۔ جو گردن ایک دفعہ فوجی جنتا کے مضبوط ہاتھوں میں آجاتی ہے وہ اسے مروڑ کر رکھ دیتے ہیں اور موت ہی اس کا مقدر بنتی ہے۔اگر ماضی میں سیاستدانوں کے ساتھ ایسانہ ہوا ہوتا تو پھر ہم ان خیا لات کو شکوک و شبہات اور الزامات کہہ کر رد کر سکتے تھے لیکن سچ تو یہ ہے کہ ہمارا ماضی لہو میں ڈوبی ہوئی عبرتناک داستانوں سے بھرا پڑا ہے لہذاایسے فیصلوں کا امکان بہت زیادہ ہے جس کا واحد مقصد کسی مخصوص شخصیت کو نشانہ بنا کر اپنے راستے سے ہٹانا، اقتدار پر قبضہ کرنا اور اسے عوام کی نگاہوں میں بے آبرو کرنا ہے کیونکہ پچھلی کئی دہائیوں سے یہی ہوتا آیا ہے اور جسے ترک کر دینے کے امکانات بالکل معدوم ہیں۔
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 619 Articles with 450321 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.