تھینک یو طالبان

یوم عاشور کی شام وزیر داخلہ رحمن ملک نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا شکریہ ادا کرکے سب کو حیران کر دیا اور اس شکریہ کی وجہ محرم الحرام کے دوران ٹی ٹی پی کی جانب سے کوئی کارروائی نہ کرنا تھی گو کہ نویں محرم الحرام کو کو ہاٹ میں راکٹ داغے جانے اور کراچی میں ہونے والے واقعات دہشت گردی کے ضمن میں ہی آتے ہیں لیکن وزیر موصوف نے اسے کارروائی نہیں سمجھا بلکہ انہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ گزشتہ سال کراچی میں محرم کے دوران ہونے والے دہشتگردی کے واقعہ کے پیچھے بھی کالعدم طالبان ملوث نہیں تھے بلکہ یہ کالعدم جنداللہ تھی جس نے معصو م شہریوں کو نشانہ بنایا۔

رحمان ملک گزشتہ کچھ عرصے سے طالبان کے ساتھ اچھے رابطے میں ہیں ۔عیدالاضحی پر وفاقی وزیر داخلہ نے انہیں معافی کی پیشکش کی تو 22نومبر کو تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے جنگ بندی کا اعلان کر دیا گیا اس کے چند دن بعد 26 نومبر کو مہمند ایجنسی میں ہونے والی نیٹو جارحیت پر ساری قوم سراپا احتجاج ہو گئی جبکہ طا لبان ایشو پس منظر میں چلا گیا ۔افسوس کہ غیر ملکی قوتوں کے خلاف جہاد کا علم بلند کرنے والوں نے ان حملوں کے خلاف زبان کھولی اور نہ ہی شہباز اور شمسی ایئر بیسز پر غیر ملکیوں کی موجودگی پر صدائے احتجاج بلندکیا بہر حال رحمان ملک نے طالبان کا نہ صرف شکریہ ادا کیا بلکہ ہتھیار پھینکے پر انہیں گلے سے لگانے کا کہہ کر زمانے بھر کو انگشت بدنداں پر مجبورکر دیا حا لانکہ یہی رحمان ملک تھے جو کل تک طالبان کو ظالمان کہتے نہیں تھکتے تھے لیکن اب وہ ا ن سے بغلگیر ہونے کو تیار ہیں۔

دسمبر2007 میں وجود میں آنے والی ٹی ٹی پی جو چند جہادی تنظیموں سے بنائی گئی ایک چھتری نما تنظیم ہے لیکن جس پیمانے پر اس کی کارروائیوں کو ” سپانسر “ کیا گیا تو دیگر عسکر ی تنظمیوں نے بھی اس سے روابط بڑھالئے اور2008 سے2010تک یہ تنظیم چھائی رہی اور جب دسمبر2010 میں ٹی ٹی پی کے سربراہ بیت اللہ محسود ہلاک ہوا تو اس تنظیم کا شیرازہ بکھرنے لگا ،ساتھ ہی اس کی کاروائیوں میں بھی پہلے جیسی شدت نہیں رہی ، اس کی بڑی وجہ جہاں تنظیم میں مرکزی قیادت کا فقدان تھا وہیں اس تنظیم کے سربراہ جنہیں امیر کہا جاتا ہے کے منصب کے عہدے کے لئے خود تنظیم کے اندر لڑائیاں شروع ہو گئیں اس دوران مختلف جھڑپوں کے دوران کئی طالبان کمانڈرز اور کارکن مارے گئے جس کے بعد قرعہ فال حکیم اللہ محسود کے نام نکلا جس کا اپنے پیش رو سربراہ جیسا تنظیم پر کنٹرول نہیں رہا اور رفتہ رفتہ مختلف افراد نے اپنی علیحدہ شناخت بنا لی ایک اندازے کے مطابق تحریک طالبان پاکستان مین اب تک سو سے زائد دھڑے بن چکے ہیں جبکہ 2 مئی2011 کو اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد اس تنظیم کے کاکنوں کے حوصلے مزید پست ہو گئے تاہم ان کی کاروائیاں جاری رہیں لیکن ان میں پہلی جیسی شدت نہیں رہی۔ دوسری جانب ٹی ٹی پی کے قیام کے وقت جو جہادی فلسفہ تنظیم میں موجود تھا اس پر رفتہ رفتہ منفعت اور مادیت کا رنگ غالب آ نے لگا اور حقیقی مجاہدین نے بھی رفتہ رفتہ اس سے کنارا کشی اختیار کرنا شروع کر دی ،اب صورتحال یہ ہے کہ جنوبی وزیر ستان میں قائم ہونے والی اس تنظیم کا انفراسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے اور یہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے ایک موثر کارروا ئی کے نتیجے میں کسی بھی لمحے ختم ہو سکتی ہے۔

پاکستان کے سکیورٹی کے اداروں نے فاٹا کی مختلف ایجنسیوں میں آپریشن کرکے جہاں ان علاقوں کو شرپسندوں سے خالی کروایا ،وہیں دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کے اتحادی امریکہ نے فاٹا اور بعض بندوبستی علاقوں میں ڈرون حملوں کے ذریعے کارروائیاں جاری رکھیں جبکہ26 نومبر کو مہمند ایجنسی میں نیٹو کے حملے نے بھی ثابت کر دیا کہ مغرب افغانستان میں اپنی شکست کو چھپانے کے لئے کبھی پاکستان میں عسکری تنظیموں کی فنڈنگ کرتا ہے اور کبھی براہ راست نیٹو اسلحہ پاکستان کے خلاف استعمال کرتا ہے جس پر پاکستان کو مجبوراً نیٹو کی سپلائی لائن بند کرنا پڑی بلکہ شمسی ائیر بیس بھی 11دسمبر 2011 تک خالی کرنے کا کہہ دیا ہے اس کے ساتھ5 دسمبر کو جرمنی میں ہونے والی بو ن کانفرنس میں شرکت نہ کرکے اسلام آباد نے دنیا کو ایک اور موثر پیغام دیا کہ تحریک طالبان اور دیگر کالعدم تنظیموں کی جانب سے حملوں میں پاکستان کے 35 ہزار شہری اور 5 ہزار کے قریب سکیورٹی اہلکار شہید ہو گئے اور مالی نقصان نے ملکی معیشت پر کاری ضرب لگائی ، روپے کی قدر گرنے سے ڈالر 89 روپے تک پہنچ گیا ہے لیکن اس کے باوجود افغانستان میں تعینات نیٹو اور ایساف فورسز پاکستان کے خلاف مسلسل کارروائیاں کر رہی ہیں جو اب ناقابل برداشت ہو چکا ہے ۔ لہذا پی پی حکومت مغرب سے اپنے تعلقات کو از سر نو ترتیب دینے پر مجبور ہو گئی لیکن جس خدشہ کا اظہار راقم نے گزشتہ کالم میں کیا تھا اس کی تصدیق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی جانب سے ہو چکی ہے کہ امریکا سے بہتر تعلقات زیادہ موثر انداز میں بحال ہو جائیں گے جبکہ پاکستان میں امریکی سفیر ڈاکٹر کیمرون منٹر نے بھی تعلقات کی بحالی کا عندیہ ہے اور شہر کی سڑکوں پر آویزاں بینرز پر جو لکھا ہے کہ 26 نو مبر کا حملہ نیٹو کی بہادری سے نہیں بلکہ حکومت کی کمزور ی کی وجہ سے ہوا ہے وہ بالکل درست ثابت ہو رہا ہے۔حکومت کے پاس ایک اچھا موقع تھا ا ور ہے کہ وہ امریکہ سے دشمنی لینے کے بجائے اس کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات قائم کرے ۔بون کانفرس کے سلسلے میں پاکستان کے عدم شرکت کے فیصلے سے مغربی دارالحکومتوں میں بے چینی پیدا ہوئی تھی اور ان ممالک نے مختلف سطحوں پر رابطے کرکے پاکستا ن کو آمادہ کرنے کی کوشش کی لیکن پاکستان ڈٹا رہا جس پر کانفرنس میں یہاں تک کہا گیا کہ ایران کے پہلو میں ایک اور ایران پیدا ہو رہا ہے جو اس بات کی علامت تھی کہ مغرب کے لئے ماضی کی ’سافٹ سٹیٹ‘ پاکستان اب ’ ہارڈ سٹیٹ‘ بن چکا ہے جو اس کے اشاروں پر اب نہیں چل رہا لیکن ایک ایسے موقع پر جب پاکستان کو اپنے اندر سے موجود دہشت گردوں کا خطرہ بھی ختم ہو چکا تھا اور وزیر داخلہ ان کے مشکور بھی تھے وہاں پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کی جہتیں ایک بار پھر دہشت گردی کے عفریت پر استوار نہیں کرنا چاہیے تھیں۔
Shahzad Iqbal
About the Author: Shahzad Iqbal Read More Articles by Shahzad Iqbal: 65 Articles with 48237 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.