۵ محرم الحرام بروز جمعرات یکم
دسمبر کو میں ساہیوال میں مہمند ایجنسی نیٹو حملہ میں شہید کپتان عثمان علی
شہید کے گھر گیا۔ میں پاکپتن شریف میں قبلہ عالم سیدالعارفین حضرت بابا
فرید الدین مسعود گنج شکر رحمة اللہ علیہ کے عرس کے موقع پر حاضری دینے گیا
ہواتھا۔ سوچا کہ کیوں نہ شہید عثمان علی کے گھر جاﺅں اور انکی قبر مبارک پر
فاتحہ خوانی کروں۔میرے ساتھ صاحبزادہ عبدالرفیع صابری بھی تھے۔ ملتان روڈ
چوک سے ہم نے انکی رہائش گاہ کا پتہ معلوم کیا۔ اندازہ ہوا کہ شہیدکیپٹن
عوام کے دلوں میں بس رہا ہے۔ انصارگلی میں داخل ہوئے تو ایک مکان کے باہر
کھڑکی پر بڑا ساپورٹریت جوسیکنڈ لیفٹیننٹ عثمان علی شھید کا آویزاں تھا۔
بڑا حسین اور مطمئن چہرہ ۔ گھنٹی بجانے پر شہید کے ماموں نے بیٹھک میں ہمیں
بٹھایا پھر شہید کی والدہ محترمہ تشریف لائیںتو ہم انکے احترم میں کھڑے
ہوگئے اور سلام عرض کیا۔ ہر صاحب اولاد جانتا ہے کہ ماں اور باپ بچے کو کس
محنت اور محبت سے پالتے ہیں۔ بچوں کے لیئے محبت کا جوہر خالق کائنات نے ماں
باپ کے اندر ایسا ودیعت کیاہے کہ ماں باپ اپنی تمام تر توجہ ،محبت اور
خوشیاں اولادکے لیئے وقف کردیتے ہیں۔ شہید کے ماموں محمد افضل اور محمد
امجد ، شہید کے برادر خورد ربان علی متعلم سیکنڈ ایر موجود تھے ۔ ہم نے
فاتحہ خوانی کی اور شہید کی روح کو ایصال ثواب کیا۔ ہمارے سامنے وہ ماں تھی
کہ بقول حضرت علامہ اقبال : یہی وہ مائیں ہیں کہ جن کی گود میں اسلام پلتا
ہے۔ ہم نے ہمت کرکے ان سے کہا کہ آپکو اپنے فرزندعظیم کی جدائی کا ناقابل
برداشت صدمہ ضرور ہے مگر عثمان علی نے آپکوآپکی محنت کا صلہ دیا۔ وہ وطن
عزیز کی سرحدوں پر دشمن سے مقابلہ کرتاہوا شہید ہوا۔ اسکی اور اسکے ساتھیوں
کی شہادت نے پاکستان میں انقلاب پیدا کردیا ہے۔ شہیدوں کا خون رنگ لائے گا
۔ اگرچہ حکمران نہیں چاہتے مگر عوامی دباﺅ اتنا بڑھ گیا ہے کہ اس ملک پر
امریکی بالا دستی ختم ہوکر رہے گی۔ عظیم ماں کی آنکھوں سے آنسو ﺅں کی جھڑی
تو رواں تھی مگرزباں سے عزم و استقلال کی پیکر بغیر کسی لڑکھڑاہٹ کے گویا
ہوئیں، میں اپنے بیٹے کی جرات اور شجاعت پر اس سے بے حد خوش ہوں کہ آٹھ
ہزار فٹ کی بلند سرد چوٹی پر وہ کھلی فضا میں کھڑا نیچے وادی میں دشمن کی
نقل و حرکت پر نگاہ ڈالی۔ وہ اپنے فرض کو بخوبی جانتا تھا کہ میرا ملک کن
خطرات سے دوچار ہے۔ میں خوش ہوں کہ میرے فرزند نے تن تنہا ڈیڑھ گھنٹہ تک
دشمن سے مقابلہ کیا۔ اس دوران پاک فوج کی کمان کو بار بار مطلع بھی کیا گیا۔
دوسری چیک پوسٹ سے میجر مجاہد عثمان علی کی مدد کے لیئے چلے لیکن عثمان علی
دشمن کے مارٹر گولہ لگنے سے شہید ہوچکے تھے۔ مارٹر گولہ انکی چھاتی پر آکر
لگا۔ عظیم ماں نے کہااللہ کا شکر ہے کہ میرے بیٹے نے پشت نہیں دکھائی۔ اس
دوران ہماری آنکھیں نمناک ہوگئیں۔ انہوں نے عثمان علی کے بارے بتایا کہ وہ
انتہائی خوبصورت بچہ تھا۔ اتنا ذہین کہ سال میں دو دو جماعتیں پاس کیں پھر
پاک فوج میں کمیشن ملا تو ہرجگہ اسکی ذہانت کے چرچے تھے۔ کچھ دن قبل اللہ
پاک نے اسے ایک بچی عطافرمائی۔ وہ چھٹی آئے اور بچی کا عقیقہ کرکے واپس گئے
پھر آئے تو شہادت کا اعزازسجائے آئے۔ دونوں ماموں آنسو تو بہارہے تھے مگر
گفتگو نہائت پرعزم اور اطمینان بخش تھی۔شہیدکے والد محترم سے انکی علالت
کیوجہ سے ملاقات نہ ہوسکی اس دوران شہیدکے ماموں جناب محمد افضل نے بتایا
کہ وہ برطانیہ میں رہتے ہیں جہاں سے وہ ساہیوال پہنچے اور شام کو شہید کا
تابوت آیا۔انہوں نے بتایا کہ جنازہ میں دور دور تک سے لوگ ایسے آئے گویا کہ
انسانوں کا سیلاب امڈ پڑا۔تابوت لے کر آنے والوں میں کچھ وہ لوگ بھی شامل
تھے جو ان پوسٹوں پر تعینات تھے۔ انہوں نے بتایا کہ تینوں پوسٹوں پر ہماری
کل نفری ایک سو سے کچھ اوپر تھی۔ کیپٹن عثمان علی سب سے اوپر والی پوسٹ
پرتعینات تھے جسکی بلند ی آٹھ ہزار فٹ بتائی گئی ۔رات کے تقریبا ساڑھے بارہ
بجے کیپٹن عثمان علی مخصوص عینک لگا کر علاقے کی نگرانی کررہے تھے کہ انہیں
نیچے وادی میں کچھ سائے متحرک نظر آئے۔ عام طور پر اسی وقت دہشت گرد ان
راستوں سے پاکستان میں تخریبی کاروائیوں کے لیئے داخل ہوتے تھے۔ کیپٹن
عثمان کے للکارنے پر انہوں نے مارٹر توپوںسے گولہ باری شرو ع کردی ۔ اب
معلو م ہوگیا کہ نیچے دشمن بڑی تعدادمیں ہے ۔ کیپٹن عثمان علی اور اسکے
ساتھی جوابی کاروائی میں مصروف ہوگئے اور ساتھ ساتھ اپنے ہیڈ کوارٹر کو
اطلاع دیتے رہے اور وہاں سے پاک فوج کی ہائی کمان کو اطلاع ملتی رہی۔جوابا
انہیں بتایا گیا کہ ہم نے نیٹو ذمہ داران کو اطلاع کی ہے۔ لیکن یہاں مسئلہ
یہ نہ تھا بلکہ پاکستان کی حدود میں آکر پاک فوج پر حملہ تھا جو ایک سوچے
سمجھے منصوبے کا نتیجہ تھا۔ محمد افضل صاحب اور محمد امجد نے ان حالات کا
تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارے فوجی جوانوں نے بتایا کہ حملہ آوروں میں
ہندو، یہودی، دیگر عیسا ئی اور کچھ افغانی بھی شامل تھے۔ حملہ آوروں کے
تقریبا 35 افراد مارے گئے۔ ہماری جوابی کاروائی پر انہوں نے اپنے نیٹو مرکز
سے کمک مانگی اور تھوڑی دیر میں انکے دو ہیلی کوپٹر اور ایک فائیٹر جہاز
آگئے۔ انہو ںنے بھی برسٹ برسانے شروع کردیئے۔ لیکن پاکستا ن کی فضائیہ کی
ہمیں کوئی مدد نہ پہنچی۔ ہمارے تمام افسر اور جوان اب شہادت کے جذبے سے
سرشار سنگلاخ چٹانوںپر دشمن سے برسرپیکار تھے۔ اتنے میں دشمن کا ایک مارٹر
گولہ پیغام اجل لے کر آیا جو کیپٹن عثمان علی کی چھاتی پر دائیں جانب لگا۔
جس سے وہ موقع پر شہید ہوگئے۔ انکی مدد کے لیئے دوسری پوسٹ سے میجر مجاہد
بنفس نفیس انکی طرف بڑھے مگر اسوقت انہیں معلوم ہوا کہ عثمان علی جرات و
بہادری کی داستان رقم کرتے ہوئے جنت سدھار چکے ہیں۔نیٹو ہیلی کوپٹر اور
فائیٹر جہاز مسلسل برسٹ بارش کررہے تھے اورہماری کافی نفری شہیدیازخمی
ہوچکی تھی۔ ہمارے پاس وہاں کوئی اینٹی ایر کرافٹ گن نہ تھی۔ جس کی وجہ
انہوں نے یہ بتائی کہ علاقہ دہشت گردوں سے پاک کردیاگیاتھا۔ نیٹواور ہماری
کمان کے باہمی رابطے تھے۔ ہمیں کسی فضائی حملے کا اندیشہ ہی نہ تھا۔ لیکن
وہاں اینٹی ایر کرافٹ گن کا ہونا ضروری تھا۔ تاہم میجر مجاہد نے اپنی گن سے
ایک ہیلی کوپٹر کونشانہ بنالیا اور وہ گرکر تباہ ہوگیا۔ ہمارے کئی افسران
اور جوان جام شہادت پی چکے تو دشمن نے از خود واپسی کی راہ لی۔یہ واقعات سن
کر تعجب ہوا کہ ارباب اقتدارواختیار تو کچھ اور ہی بتاتے ہیں۔ یہاں سوال
اٹھتا ہے کہ اتنی بڑی تعدادمیں دراندازی کرتے ہوئے دشمن پاکستان کے اندر
تین صد میٹر سے زائد کیوں آیا؟ یہ کون لوگ تھے۔ لاشوں سے شناخت ہوئی ۔ہندو،
یہودی،عیسائی اور افغانی تھے۔ انکا رات کی تاریکی میں پاکستان میں داخل
ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ پاکستان میں خودکش حملے اور بم بلاسٹنگ امریکی
سازش ہے۔ یہ سارے کام امریکہ کی سرپرستی میں ہورہاہے۔ ڈیڑھ گھنٹہ تو کیپٹن
عثمان علی نے انہیں مصروف رکھا اور انکی شہادت کے بعد بھی آدھ گھنٹہ سے
زائد نیٹو فورسز کی کاروائی جاری رہی۔ اوباما جھوٹ بولتا ہے یا زرداری ۔ یہ
سب کچھ انجانے میں ہوا۔ کیسی غلط فہمی ہوئی؟ کیا اس علاقے میں کسی اور سے
بھی امریکہ برسرپیکار ہے؟ نیٹو نے تو حملہ کیا سو کیا۔ ہماری فورسز کی طرف
سے اپنی فوج کی کیا مدد کی گئی۔ انہیں اسی لیئے اینٹی ایر کرافٹ گنیں نہ دی
گئیں کہ نیٹوہیلی کوپٹر بلا خطر کاروائی کریں۔ جب پاک فوج کی ہائی کمان کو
اطلاع ملی اور فوری امدادی یا جوابی کاروائی نہ کی گئی۔ اسکے بارے تو سب کو
معلوم ہے کہ تینوں فورسز پر سپریم کمان زرداری کی ہے۔ بقول شرمیلا فاروقی
کیا صدر صاحب سو نہ رہے تھے رات کے دو تین بجے انہیں کیسے جگایا جائے( یہ
باتیں اس نے چند روز قبل ایک T.V. چینل پر کہیں اور پھر ناراض ہوکر چلتی
بنیں۔ زرداری کیا جانے کہ ملک کا دفاع کیا ہوتا ہے وہ تو زر کا دفاع جانتے
ہیں کہ وہ سوئٹزر لینڈ کے بینک میں ہی محفوظ کرتے ہیں۔جب ایبٹ آباد کا
واقعہ ہوا تھا تو اس وقت ہمارے دفاعی ذمہ داران نے کہا تھا ہم سب کچھ
کرسکتے ہیں حکومت ہمیں اجازت دے۔یہ باتیں قوم کومعلوم ہیں ۔ ہمارے حکمران
جھوٹ بولتے رتی بھر جھجھک محسوس نہیں کرتے کہ حکمرانوں کا ایک مقام ہوتا ہے
انکی بات قوم کی ترجمانی ہے۔ جناب شاہ محمودقریشی ہیں اور قریشی غیرت اور
عزت کاسودا نہیں کرتے چاہے انہیں جان دینی پڑجائے۔انہوں نے کیا خوب فرمایا
کہ زرداری کے صدر ہوتے ہوئے ہمارے ایٹمی اثاثے محفوظ نہیں۔ بالکل درست
فرمایا۔ بلکہ میں تو مہمند ایجنسی کے واقعہ کے تناظر میں کہوں گازرداری کے
سپریم کمانڈر ہوتے ہوئے ہمارا کچھ بھی محفوظ نہیں حتٰی کہ ہماری مسلح افواج
بھی۔ بایں وجہ کہ کسی بھی جارحیت کا جواب دینے کے لیئے مسلح افواج اسی وقت
کاروائی کرسکتی ہیں جب سپریم کمانڈر انہیں حکم دے۔ اور زرداری نے ایسے
احکامات دے کر سوئٹزر لینڈ کے بنکوں میں جمع شدہ قوم کالوٹاہوا سرمایہ ضبط
کرانا ہے۔ قوم کوطفل تسلی دی جارہی ہے کہ شمسی ایر بیس خالی کرانا بڑا
کارنامہ ہے۔ اور وہ جو ملک میں مختف مقامات پر امریکی مراکز ہیں ۔مثلا
تربیلا کا کیمپ ۔سپلائی روک دی۔ کنٹینر کھولیں دیکھیں ان میں کیا کچھ ہے۔
اگر کھانے پینے کا حلال سامان ہے تو اپنے ملک کے غریب عوام میں تقسیم
کردیں۔پرویز مشرف اور موجودہ حکمران تو کہتے تھے کہ پاکستان میں کوئی
امریکی اڈا نہیں ۔ اب شمسی ایر بیس نکلا ابھی کئی اور بیس نکلیں گے۔ ہمارے
شہدا کا خون رنگ لا رہا ہے۔ جس جرات اور بہادری کی مثال ہمارے فوجیوں نے
قائم کی قوم انکو خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔ اور اپنے سالاراعلٰی سے مطالبہ
کرتی ہے کہ کیپٹن عثمان علی، میجر مجاہد،اوردیگرشہدا کونشان حیدر عطا
کیاجائے۔ میں نے سطور بالا میں مہمندایجنسی کے واقعات جناب محمد افضل اور
جناب محمد امجد صاحبان(کیپٹن عثمان علی شہید کے حقیقی ماموں) سے سنے جو
انہوں نے شہید کے تابوت کے ساتھ آنے والے فوجی حضرات سے سنے تھے۔ جو میڈیا
نے پیش کیا وہ کچھ اورہے ۔ جب ڈاکو گھر میں گھس آئیں تو انہیں مارنا جرم
نہیں۔ جب غیر ملکی ہمارے ملک کی سرحد عبور کرکے رات کے اندھیرے میں کیا نیک
نیتی سے آئے تھے؟ دوسری بات یہ کہ وہ مکمل طور پر جدید اسلحہ سے لیس تھے،
تیسری بات یہ کہ نیٹو ہیڈکوارٹر کے ساتھ انکا پورا رابطہ تھا، چوتھی بات کہ
انکی اطلاع پر نیٹو کمانڈرنے انہیں خطرہ میں دیکھتے ہوئے فوری طور پر بھر
پور کور (COVER) دیا۔اسی دوران ہمارے فوجیوں نے بھی اپنی ہائی کمان کو
اطلاع دی لیکن سپریم کمانڈرسو رہے تھے اور امریکہ سرکار حملہ آور تھی، جسکے
حملوں اور قتل و غارتگری کے جواب میں ہمارے حکمران سوچ بھی نہیں سکتے۔
کیونکہ روزانہ ڈرون حملوں میں ہمارے کتنے لوگ شہید ہوچکے۔ اس افراتفری میں
یقینا دہشت گرد پاکستان کے مختلف علاقوں میںپہنچ چکے ہونگے۔ ہماری حکومت نے
اپنے 28 کے قریب افسروں اور جوانوں کے خون کا کیا بدلہ لیا۔ کیا نیٹو کو
سپلائی مستقل طور پر بند کردی گئی ہے؟ ہمارے وزیر اعظم کے بیانات سے ظاہر
ہورہا ہے کہ بس چند ایک روز میں برف پانی بن کر بہ جائے گی۔ نیٹو کی سپلائی
بحال ہوجائے گی۔ رہا شمسی ایر بیس کامعاملہ تو کیا وہ امریکہ کے باپ کا ہے
ہمارے حکمران تو امریکی ڈالروں پر سبھی کچھ قربان کررہے ہیں۔مہمند ایجنسی
میں افواج پاکستان پر حملہ قوم نے قبول نہیں کیااور نہ کرے گی۔ بون کانفرنس
میں عدم شرکت کے کیا ثمرات ہیں۔ کیا نیٹو ممالک کے ساتھ سفارتی، فوجی
تعلقات ختم کردیئے گئے؟ ایسا ہرگز نہیں۔ موجودہ حکمران پاکستان کے لیئے
سیکوریٹی رسک بن چکے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کے جناب محمد اعظم کا سینٹ
اور جمعیت سے استعفی ملک کو درپیش خطرات کی عکاسی کرتا ہے۔ مولوی فضل
الرحمن کی مولویت کا پردہ بھی چاک ہوگیا کہ وہ کتنے مخلص ہیں۔ وزیر اعظم
پاکستان کا کردار اس وقت خلافت عباسیہ کے وزیراعظم ابن علقمی سے مختلف نہیں
کہ جس نے سازش کو پروان چڑھاتے ہوئے فوجیوں کو رخصت پر بھیج دیااور ہلاکوکو
موقع فراہم کیا جس نے بغداد میں مسلمانوں کا قتل عام کیا ۔ دریائے دجلہ خون
سے رنگین ہوا۔ عظیم کتب خانے اور درس گاہیں تباہ ہوگئیں۔ لیکن اس وقت
پاکستان کے عوام مستعد ہیں اور ایسی کوئی داستان اب نہیں دہرانے دی جائے گی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی فوج کے سالار اعلی ایسے صدر اور وزیر اعظم
کی طرف نہ دیکھیں بلکہ ملکی دفاع اور ملکی آزادی و مختاری کو قائم رکھنے کے
فوری اقدامات کریں۔ قوم انکے ساتھ ہے۔ شہید کیپٹن کے اہل خانہ سے کافی طویل
ملاقات کے بعدان احباب کے ہمراہ قبرستان گئے جہاں کیپٹن عثمان علی شہید کی
مرقد بنائی گئی۔ کس شان سے سوتا ہے جواں ہمارا۔یوں محسوس ہوا کہ قبر ہنگامہ
خیز ہے۔ ہم نے اللہ کا کلام تلاوت کرکے شہید اور تمام اہل قبور کو ایصال
ثواب کیا۔ قبر پرپھول نچھاور کیئے۔ ایک بات عرض کردوں کہ شہید ہمیں کتنے
پیارے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عثمان علی شہید کی
مرقدپرمقبرہ تعمیر کیا جارہا ہے۔ اس روز گہری بنیادیں کھودی جاچکی تھیں۔
ہمارے استفسار پر بتایاگیا کہ ساہیوال کے ایک شخص نے کہا کہ جیسا چاہوگے
ویسا ہی مقبرہ میں اپنی جیب سے تیار کراﺅں گا۔ اس نے فوری طور پرتعمیری کام
شروع کرادیا ہے۔ اللہ اسے جزائے خیر عطا فرمائے جو اللہ کی راہ میں شہید
ہونے والوں سے اس قدرعقیدت رکھتا ہے۔ آمین۔ |