بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
رات کی تاریکی میں دن کے اجالے کا خیال سراسرحماقت اور نادانی نہیں تواور
کیا ہے؟اندھیرے میں دیا جلاکرتاریکی کو مات تو دی جاسکتی ہے۔لیکن آدھی رات
کو سورج کی کرنیں نہیں پھوتا کرتی۔صبح صادق کو دیکھنے کے لیئے اندھیروں میں
سے گزرنا پڑتاہے۔تب کہیں جاکرباد صبا کے جھونکیں چلتے ہیں۔تب کہیں شفق کے
افق پر سورج کی مدہوشی دیکھنے کو ملتی ہے۔لیکین پتہ نہیں کیوں پاکستانی
عوام برسوں سے اس امید پر جی رہے ہیں کہ اچانک ہی تاریکی کا سینہ پھٹ
جائیگا اورہم سورج کا دیدار کر لینگے۔حالانکہ سب ہی جانتے ہیں کہ اس خیال
کا حقیقت سے دوردور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔لیکین پھر بھی جھوٹے آسرے اور
بناوٹی خیالات ہم لوگوں کے رخت سفر ہیں۔لیکین پشتو کا ایک شعر ہے کہ ” پہ
تدبیر بہ د کوٹے سورے بند نہ کڑی۔او دا تقدیردے چہ بہ دھغہ کوٹہ ساسی۔ “
صرف منصوبہ بنانے سے چھت کا سوراخ بند نہیں ہوگا۔بلکہ یہ تقدیرہے کہ یہ چھت
ٹھپکے گا۔بات صاف اور واضح ہے کہ جب تک ہم جستجو نہیں کرینگے، وقت اور
حالات کا مقابلہ کرناہمارے لیئے ہمیشہ کھٹن اور دشوارہوگا۔
اگر ہر قسم کے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کرآپصرف ایک محب وطن پاکستانی کی
حیثیت سے سوچیں گے۔توآپ کو محسوس ہوگا کہ اس وقت پاکستان وقت اور حالات کے
ایک انتہائی نازک موڑ پرکھڑا ہے۔جہاں اس ملک کی بقاءاور سالمیت داﺅ پر لگے
ہوئے ہیں۔ ہماری معاشی اور اقتصادی کشتی ڈھواں ڈھول ہے۔ملک میں جاری خودکش
حملوں،بم دھماکوں ،تارگٹ کلنگ اور آئے روزڈکیتی کے وارداتوںنے لوگوں کی
زندگی اجیرن بنادی ہے۔جبکہ اوپر سے بلکل سونے پہ سہاگہ کے مصداق اس ملک کے
سیاستدان اس نازک مرحلے کو بھی اپنے ووٹ بینک کوبڑھانے کے لیئے استعمال
کررہے ہیں۔الزام تراشیوں کا ایک نہ ختم ہونے والاسلسلہ تمام سیاسی دھڑوں کے
درمیان پورے زوروشورکے ساتھ جاری ہے۔جبکہ ملک حالات کے اس نہج پر پہنچ چکا
ہے کہ کبھی بھی،کسی بھی وقت اس ملک کا شیرازہ بکھرکر قصہ پارینہ بن سکتا
ہے۔لیکین باوجود اس کے اس ملک کے عوام ان سیاسی پنڈتوں کے جلسوں میں بڑے ہی
شوق کے ساتھ شامل ہوکرانکے زندہ باد کے نعرے لگا تے ہوئے نہیں تھکتے۔کیا آپ
نے کبھی سوچا ہے کہ ہم جن کے زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں انہوں نے ہمارے
مردہ بادکی تمام تر تیاری کب کی کردی ہے۔صرف چند ٹکوں کے خاطر ہمارے
اوپرگولیوں کی بوچھاڑ ہورہی ہے۔ڈرون حملوں میں معصوم اور بے گناہ لوگوں کا
قتل عام جاری ہے۔بلکہ اب تو سیدھے سیدھے افواج پاکستان بھی بیرونی جارحیت
کا نشانہ بنتے جارہے ہیں۔لیکن اسکے جواب میں ہماری سرکارکیا کرہی ہے اسکا
علم ہرپاکستانی کو ہے۔لیکن پھربھی ہر لب خاموش ہے ہر زبان پر پہرے
ہیں۔پڑوسی ملک میں امریکہ کے سفارتخانے پرحملے کے بعد دنیا کے سب سےبڑے
دہشت گرد امریکہ کا جواب کیا تھا۔فوری طور پر اپنے ملک سے ایرانی
سفارتکاروں کونکال دیا گیا۔اور اس معاملے کو بین الاقوامی سطح پر اتنی
کوریج دی گئی جیسے کہ یہ حملہ واشنگتن پرکیا گیا ہو۔لیکن مہمند ایجنسی میں
پاک فوج کے دو چیک پوسٹوں پرحملہ کرکے پاک فوج کے24اہلکاروں کی شہادت
پردنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد امریکہ کا صدر باراک اوباما معافی کے دو
شبدبولنے سے بھی انکاری ہے۔اور امریکہ کے دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے
بیان میں کہا جاتا ہے کہ امریکن صدر اس واقعہ کی معافی نہیں مانگیں گے۔کیا
ایسے میں ضروری نہیں تھا کہ پاکستانی حکومت بھی امریکی سفارتکاروں کو فوری
طورپر پاکستان چھوڑنے کی ڈیڈ لائین دیتی۔کیا یہ لازمی نہ تھا کہ ہم بھی
اپنے سفارتکاروں کو فوراًامریکہ سے واپس بلالیتے۔لیکن نہیں اقتدار کے نشے
میں مست ہمارے حکمران صرف بون کانفرنس سے بائیکاٹ اور شمسی ائیربیس کے خالی
کرنے کے سواکچھ کرہی نہیں سکتے۔جبکہ یہ فیصلے بھی عارضی اور صرف قوم کے
سامنے ایک دکھاوا ہے۔جسکا ڈراپ سین بہت جلد عوام کے سامنے ہوگا۔یہی امریکہ
ایک مرتبہ پھرشمسی ائیر بیس سے بے گناہ اور معصوم لوگوں کاقتل عام کرتا
رہیگا۔افغانستان میں برسرپیکارامریکہ اور اسکے اتحادیوں کو ایک بار
پھرپاکستان کے راستے سپلائی بحال ہوگی۔اور دہشت گردوں کا ڈون امریکہ پھر سے
پاکستان کی بقاءاور سالمیت سے کھیلواڑ کرتا رہیگا۔
ذرا اپنے گردوپیش کا جائیزہ لیکرسنجیدگی سے غور کیجیئے۔ہمارا پڑوسی دیش چین
ہم سے بہت بعد میں آزاد ہوا تھا۔بلکہ پہلی بار اقوام متحدہ میں پاکستان نے
چین کی خودمختاری کو تسلیم کیا تھا۔اور پھر جب چین کے پہلے وزیراعظم چوائین
لائے پاکستان کا شکریہ ادا کرنے کے لیئے پاکستان آیا۔تومیڈیا کے دوستوں نے
مسٹر چوائین لائے سے انگریزی زبان میںسوالات شروع کردیئے۔مسٹر چوائین لائے
بڑے تحمل کے ساتھ انکے جوابات سنتے اور پھر چائینیز زبان میں جواب دیتے۔پھر
اسکے ترجمان اسکا انگریزی زبان میں ترجمہ کرتے۔ایک صحافی نے چین کے وزیر
اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا۔کہ ہم آپ سے انگریزی میں سوال کرتے ہیں
جبکہ آپ اسکا جواب چائینیز میں دیتے ہیں۔اسکا مطلب یہ ہے کہ آپ انگریزی
زبان پر عبور رکھتے ہیں۔تو پھرآپ ہمیں جواب انگریزی میں کیوں نہیں دیتے۔ذرا
کل ہی آزاد ہوئے چین کے وزیراعظم کا جواب تو دیکھیئے۔مسکراتے ہوئے کہتے
ہیں۔کہ چین گونگا نہیں ہے چین کی اپنی ایک زبان ہے۔لیکن افسوس کہ64سال بعد
بھی ہم گونگے ہیں۔ہم آج بھی کسی اور کے رحم وکرم پر جی رہے ہیں۔ہمیں آج بھی
ہروقت یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ اگر ہمارے سروں سے امریکہ کا ہاتھ اٹھ گیا تو
ہم کیا کھائینگے۔حالانکہ اس بات پر بھی ہمارا پکاعقیدہ ہے کہ دینے والا صرف
وہ ذات الٰہی ہے جسکے قبضے میں ہماری جان ہے۔لیکن اسکے باوجود ہم کسی اور
کے محتاج ہیں۔
لیکن آج اس کالم کی وساطت سے میں پاکستانی عوام سے اس ملک کی ترقی وخوشحالی
کی بھیک مانگتے ہوئے التجا کرتا ہوں۔حضرت اقبال نے فرمایا تھا۔کہ ” خدانے
آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی۔۔نہ ہو خیال جس کو آپ اپنے بدلنے کا۔“لہٰذا
ہمیں مل کر پاکستان کی بقا اور سالمیت کے لیئے آگے بڑھنا ہوگا۔وقت اور
حالات کا تقاضا ہے کہ ہم ہر نفرت اور دشمنی کو بالائے طاق رکھ کرصرف
پاکستان کے لیئے سوچیں۔ورنہ بقول شخصے۔نہ رہیگا بانس اور نہ بجے گی
بانسری۔اگر آج بھی ہم نے حالات کی نزاکت کو محسوس نہیں کیا تو وہ دن دور
نہیں جب ہم کسی اورکے غلام ہونگے۔ہمیں گلے سے امریکہ کی غلامی کا طوق اتار
کر پھینکنا ہوگا۔ہمیں اس ملک کے حکمرانوں کوسمجھانا ہوگا کہ ہم روکھی سوکھی
کھا کر گزارا کر لینگے۔لیکین ہمیں امریکہ کی غلامی کسی صورت منظور
نہیں۔ہمیں مل کر یہ اواز اٹھانی ہوگی کہ امریکہ کا جو یار ہے۔غدارہے غدار
ہے۔اور میں وثوق سے کہتا ہوں۔کہ جس دن ہم نے امریکہ کی دوستی کو خیربادکہہ
دیا۔ہم ترقی وخوشحالی کی راہ پرگامزن ہوجائینگے۔کل ہمارا ہوگا اور مستقبل
کے حکمران ہم ہونگے۔
شکریہ کے ساتھ |