اقوام متحدہ کے نام

نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن جسے عرف عام میں نیٹو کہا جاتا ہے اس کی بنیاد چار اپریل 1949ءکو رکھی گئی ۔ یہ اتحاد اٹھائیس چھوٹے بڑے یورپین ممالک پر مشتمل ہے جن میں آئس لینڈ جیسے تین لاکھ بیس ہزار آبادی والی چھوٹی سی ریاست سے لے کر فرانس جرمنی ترکی برطانیہ اور امریکہ جیسے ممالک شامل ہیں جو اقوام متحدہ کے دیگر ممبر ممالک کا کل پندرہ فی صد ہیں۔نیٹو کا بظاہر مقصد باہمی خانہ جنگی کا خاتمہ اور بیرونی خطرات کا مقابلہ تھا۔ نیٹو نے اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے یوگوسلاویاسے لے کر عراق ، افغانستان اور لیبیا سے ہوتے ہوئے اب پاکستان کی سرحد پر ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور یہاں کی عوام کا ناک میں دم کر رکھا ہے۔نیٹو کی طرف سے اپنے مفادات کے تحت دنیا بھر میں کہیں حکومتوں کو گرایا جا رہا ہے تو کہیں حکومت مخالفوں کو، گویا دنیا کے امن کو تہہ و بالا کرکے لوٹ مار کابازار گرم کر دیا گیا ہے۔اسی طرح انٹرنیشنل سیکیورٹی اسسٹنس فورس المعروف ایساف بون کانفرنس کے نتیجے میں سال 2001ء میں معرض وجود میں آئی اور پھر بتدریج اس کی ذمہ داریوں میں اضافہ کیا جاتا رہااور آج یہ افغانستان کے کنگ میکر ہیں۔ایساف اور نیٹو اس وقت افغانستان میں اپنے ہی بچھائے ہوئے جال سے پاؤں چھڑانے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں اس کوشش میں وہ اپنے دوست اوردشمن کی پہچان بھول گئے ہیں۔ ہمسایہ ملک پاکستان جس نے عالمی امن کے قیام کے نام پر نیٹو اور ایساف فورسسز کو ہر مرحلے پر ہر ممکن مدد فراہم کی ، اب اسی ملک کی مسلح افواج ان کے نشانے پر ہیں۔غرور اور تکبر میں گندھے ہوئے گورے اونچی اڑانیں بھرتے ہوئے ہیلی کاپٹروں میں آتے ہیں اور اقوام متحدہ کے ہی ممبر ملک پاکستان کی سرحدوں کو پامال کرتے ہوئے پاکستانی علاقے میں داخل ہوتے ہیں، دوست ملک کی فوجی چوکیوں کو نشانہ بناتے ہوئے درجنوں فوجیوں کو موت کے گھاٹ اتار کر واپس چلے جاتے ہیں اور اقوام متحدہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ، کیوں؟ اس لئے کہ پاکستان ایک کمزور ملک ہے اور یہ عالمی اداروں سمیت امریکہ جیسے ملکوں سے امداد لیتا ہے یا اس لئے کہ یہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اس کی وجہ بھارت کی ہمسائیگی ہے یا کچھ اور لیکن دنیا کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے ۔ پاکستانی قوم نے ہر شعبے میں اپنی کارکردگی کا لوہا منوایا ہے۔اور غربت کے باوجود ایسے ایسے کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں جو سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہونے والی اقوام بھی نہیں کر سکیں۔

عالمی برادری نے پاکستان کو ایک نئے امتحان سے دوچار کر دیا ہے موجودہ حالات میں ان تمام ممالک کے لئے یہ سوچ کا مقام ہے جو اقوام متحدہ کے ممبر ممالک تو ہیں لیکن ان کی حیثیت عالمی برادری کی نظر میں کسی دیہی علاقے کے کمی کمین سے ذیادہ نہیں ہے ۔ان ممالک میں اکثریت اسلامی ممالک کی ہے جو قدرتی وسائل سے مالا مال تو ہیں لیکن ان کو استعمال میں لانے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ برطانیہ ہو یا جرمنی ، امریکہ ہو یا کوئی دوسرا ملک انہیں ایسے ممالک کی خودمختیاری اور اور سلامتی کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے ساتھ تعلقات رکھنے چاہیے نہ کہ وہ انہیں روندتے ہوئے اپنے مفادات کی خاطر دنیا بھر کے سامنے انہیں ذلیل و رسوا کریں۔ ایسی صورت حال میں اقوام متحدہ وہ واحد ادارہ یا پلیٹ فارم ہے جسے زور آور ممالک کے کسی بھی ایسے جارحانہ اقدام کی نہ صرف مذمت کرنی چاہیے بلکہ ایسے ممالک کو ایک مہذب ملک کے طور پر اقوام عالم کے ساتھ روابط کے لئے پابند بنانا چاہیے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ کا ادارہ رفتہ رفتہ اپنی اہمیت اور افادیت کھوتا جا رہا ہے ۔ اقوام متحدہ کے جانبدار رویے اور اس کی منظور کردہ قراردادوں پر چند غنڈہ گرد طبیعت کے ممالک کے عملدرآمد نہ کرنے یا اقوام متحدہ کا عمل درآمد نہ کروا سکنے کی وجہ سے اس عالمی ادارے کی ساکھ آئے روز متاثر ہو رہی ہے اور آنے والے قریبی وقت میں بہت سارے ممالک کے اس ادارے پر عدم اعتماد کی فضا بنتی جارہی ہے ایسے میں ضروری ہے کہ عالمی نوعیت کے اس ادارے کو نہ صرف اپنی بقا بلکہ عالمی امن اور عالمی مسائل کے پر امن حل کے لئے اپنی افادیت اور اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کردار ادا کرنا چاہیے جس سے اب تک وہ قاصر ہے۔

اقوام متحدہ کے دیگر ممبر ممالک جن میں چین اور روس جیسے ممالک شامل ہیں اور ان کی بات وزن بھی رکھتی ہے ان ممالک کا عالمی امن کے لئے کردارلائق تحسین ہے لیکن ایسی صورت حال میں ان ممالک کی کارکردگی بھی متاثر ہو رہی ہے اور یہ صورت حال متاثرہ ممالک کے لئے تشویش کا باعث بن رہی ہے۔

ایران میں کچھ لوگوں نے احتجاج کرتے ہوئے برطانیوی سفارت خانے کا گھیراؤ کیا اور وہاں توڑ پھوڑ کی ، پولیس عوام کو روکنے کے لیے وہاں موجود تھی اور اس نے عوام کو منتشر کرنے کے لئے فوری ردعمل ظاہر کیا اور بغیر کسی جانی یا بھاری نقصان کے عوام کو بہت جلد منتشر کر دیا اس پر بھی یورپی ممالک نے خوب آگ اگلی اور ایران کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں جبکہ دوسری طرف انہیں ممالک کی مشترکہ فورسسز نے کتنی بار پاکستانی سرحدوں کو پامال کرتے ہوئے فوجی چوکیوں کو نشانہ بنایا کئی چوکیوں کے تباہ اور قیمتی جانوں کے ضیاع پر اس ملک کو خاموش رہنے کے مشورے دیئے جا رہے ہیں۔ عجیب تضاد ہیں ان ممالک کے فکرو عمل کا۔

ابھی بھی وقت گزرا نہیں ہے اقوام متحدہ کو چاہیے کہ چند ممالک کے ذاتی مفادات کو تحفظ دینے کے بجائے تمام ممالک کو ایک نظر سے دیکھے اور اقوام متحدہ کے ممبر ممالک جن کے امریکہ اسرائیل اور برطانیہ جیسے ممالک سے اچھے تعلقات ہیں انہیں چاہیے کہ وہ انہیں دنیا بھر میں شرانگیزیوں سے باز رہے کا مشورہ دیںتاکہ اس دنیا کو جہنم بننے سے روکا جا سکے ورنہ دوسرے ممالک میں بھڑکائی گئی آگ کے شعلے یقینا ان کے دامن تک بھی پہنچیں گے۔

ایسے میں اقوام متحدہ جیسے ادارے کی ناکامی اور حالات کی نزاکت کا اگر بروقت اندازہ نہ کیا گیا تو ہمیں خدشہ ہے کہ آئے روز بڑھتے ہوئے آگ اور خون کا یہ کھیل کہیں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے ۔اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اس غیر ذمہ داری کی ساری ذمہ داری ان ممالک پر ہو گی جو اس وقت اپنے آپ کو ساری دنیا کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔
Azhar Ul Hassan
About the Author: Azhar Ul Hassan Read More Articles by Azhar Ul Hassan: 16 Articles with 14062 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.