ہندستانی پارلیمنٹ : مسلم مسائل پر خاموش کیوں ؟

گذشتہ دو ہفتے سے ہندستان میں سیاسی ڈرامے بازی کی جو تصویریں سامنے آرہی ہیں وہ افسوسناک ہے ۔ جب سے پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس شروع ہوا ہے اب تک پارلیمنٹ میں کوئی اہم کاروائی نہیں ہوسکی۔ اپوزیشن پارٹیوں نے پہلے ہی سے بر سر اقتدار سیاسی پارٹی کو کٹگھرے میں کھڑا کرنے کی بات کی تھی سو وہ بہت ہی مضبوطی کے ساتھ اپنے منشا پر عمل کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو معطل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیںٕ ۔یہ تو اچھی بات ہے کہ اپوزیشن پارٹی مضبوط رہے تاکہ بر سر اقتدار پارٹی کو منمانے ڈھنگ سے کام کرنے کی مہلت نہ دے ۔ لیکن یہاں معاملہ یہ نہیں ہے بلکہ معاملہ یہ ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں یہ چاہتی ہیں کہ کیسے اس حکومت کا خاتمہ ہو تاکہ انھیں اقتدار میں آنے کی مہلت مل جائے ۔ اسی لیے وہ ہر ایشو پر بلاوجہ اشتعال دیکھانے میں ساری طاقت صرف کرتے ہیں ۔ وہ عوام کو یہ پیغام دینے کی کوشش میں مصروف ہیں کہ بر سر اقتدار پارٹی حکومت چلانے میں ناکام ہو چکی ہے اور اب اس کو کوئی حق نہیں ہے کہ وہ حکومت میں بنی رہے ۔ اپوزیشن پارٹیوں کا یہ رویہ افسوسناک اس لیے ہے کہ وہ کسی ایسے مسئلے کو لے کر اگر حکومت کو گھیرنے کی کوشش کریں جو ملک کے حق میں ہو تو کوئی حرج نہیں لیکن ان کا سارا زور اس بات پر ہوتا ہے کہ حکومت ناکام ہے ۔ اس کے لیے انھیں انا ہزارے نام کا ایک کھلونہ ہاتھ لگ گیا ہے ۔ اس کھلونے سے وہ اس طرح کرتب کر رہے ہیں جیسے وہ ملک کے سب سے بڑے بہی خواہ ہوں۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ آج کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی ہی وہ پارٹی ہے جس نے ملک کی جمہوریت کو تار تار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ، یہی وہ پارٹی ہے جس نے بابری مسجد کو شہید کیا ، ان کے وہی لیڈر جو بابری مسجد کے گنہگار ہیں ، آج پارلیمنٹ میں چیخ چیخ کر باتیں کر رہے ہیں ، انھیں کوئی آئینہ دیکھانے والا نہیں ہے۔ اگر انھیں کوئی آئینہ دیکھا ئے تو شاید انھیں شرم تو آئے گی اور ان کی آواز تو پست ہوگی ۔ کیا اس پارلیمنٹ میں کوئی ایسا نہیں ہے کہ انھیں آئینہ دیکھا سکے؟آج وہ انا ہزارے کی حمایت صرف اس لیے کر رہے ہیں کہ اس بہانے وہ حکومت کو جھکانا چاہتے ہیں ۔ اگر کانگریس کی جگہ یہ خود حکومت میں ہوتے تو وہ بھی یہی کرتے ۔ کیونکہ خود انا ہزارے کی پوری تحریک کا اگر بغور جائزہ لیا جائےتو یہی معلوم ہوتا ہے کہ انا ہزارے کی تحریک پارلیمنٹ کو زیر کرنے کی تحریک ہے ۔ انا اور ان کی پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ وہ پارلیمنٹ سے بھی اوپر ہیں ۔ان کی یہ مہم اپنی جگہ پر لاکھ سہی مگر وہ پارلیمنٹ کو زیر نہیں کرسکتے ۔ خیر مجھے صرف اتنا کہنا ہے انا ہزارے کو ایک سیاسی پارٹیاں ایک کھلونے کی طرح استعمال کر رہے ہیں اور یہ سارا کھیل پارلیمنٹ میں کھیلا جا رہا ہے اس پارلیمنٹ میں جو جمہوری نظام کا سب سے بڑا اداراہ ہے جس کا احترام تو دور اب اس کو سیاسی پارٹیوں نے سیاسی اکھاڑا بنا دیا ہے ۔

اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ اسی سر مائی اجلاس میں اور کئی اہم مسائل پر بحث ہونی تھی جو اب پس پشت ہی نہیں بلکہ وہ سب کے سب سرد خانے میں رکھ دئے گئے ہیں ۔ مسلمانوں کے حوالےسے ایک اہم تجویز انسداد فرقہ واریت مخالف بل بھی زیر غور تھی مگر اس پر بھارتیہ جنتا پارٹی کا موقف یہ ہے کہ اس بل کی کوئی ضرورت نہیں ۔اسی لیے وہ پارلیمنٹ کو ایسے مسائل اور معاملے میں الجھائے رکھنا چاہتی ہے کہ تاکہ اس طرح کے بل کو پیش کرنے کی نوبت ہی نہیں آئے ۔اس کے علاوہ خود بر سر اقتدار پارٹی بھی اس معاملے میں مخلص نہیں کیونکہ اس بل کے حوالے سے کانگریس نے انتکاب کے دوران ہی وعدہ کیا تھا مگر اس نے بھی اس معاملے میں پہل نہیں کی ورنہ اس پورے آٹھ سال میں اس بل کو پاس نہیں کیا جاسکتا تھا یہ ماننے والی بات نہیں ہے ۔ کانگریس بڑے بڑے ایشو کو اپوزیشن پارٹیوں کی پرواہ کیے بغیر کئی بل پاس کرالیے تو اس بل کو پاس کرانے میں کیا مضائقہ تھا ۔ بات صرف اتنی ہے کہ کانگریس بھی مسلم مسائل پر سنجید ہ نہیں ہے ۔

آج اپوزیشن پارٹیاں چھوٹی چھوٹی باتوں پر پارلیمنٹ کو معطل کر دیتی ہیں لیکن کانگریس جو حکومت میں ہے اسے بھی کئی اسے ایشو ہاتھ آئے مگر وہ خاموش رہی ۔ مثلاً عشرت جہاں انکاونٹر معاملہ اور گجرات میں بر سر اقتدار بی جے پی کی بد عنوانیاں او ر مسلم مخالف سر گر میاں ، مگر کانگریس سمیت لیفٹ پارٹیاں بھی خاموش کیوں ہیں ؟ اس کا جواب ہم مسلمانوں کو مل جل کر پوچھنا چاہیئے ۔ مسلمانوں کے ریزرویشن کے حوالے سے بھی یہی معاملہ ہے ۔ اس ملک میں مسلمان سب سے زیادہ پسماندہ ہے لیکن اس کے فلاح اور بہبود کے لیے کوئی اقدام کیوں نہیں کیا جارہا ہے ۔ مسلمانوں کے حوالے سے اتنے ایشو پارلیمنٹ میں پینڈینگ ہیں ، ان پر کوئی آواز کیوں نہیں بلند ہورہی ہے ؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے بارے میں تمام ممبران پارلیمان سے بھی پوچھنا چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ اس حکومت کو بھی گھیرنا چاہیے ۔ اس حکومت نے صرف دیکھاوے کے لیے اقلیتی امور کی وزارت قائم کی لیکن اس وزارت کے کارکردگی کیا ہے ؟ یہ سوال بھی اٹھانے کی ضرورت ہے اور مسلمانوں کے لیے نام نہاد جو اسکیمیں بنائی ہیں ان کے نفاذ کے لیے اب تک حکومت نے کیا اقدام کیا یہ سب وہ سوالات ہیں جن کی گونج پارلیمنٹ میں سنائی دینے چاہیے تھی لیکن آج تک کبھی کوئی آواز مسلمانوں کے حقوق کے لیے سنائی نہیں دی ۔ اس کے لیےتمام سیاسی پارٹیاں قصوروار ہیں ۔اور کسی حد تک مسلمان بھی ذمہ دار ہیں کیونکہ انھوں نے کبھی اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے متحد ہوکر کوئی تحریک چلائی اور نہ کوئی مہم کا آغاز کیا ۔ اگرہندستانی مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ انھیں بیٹھے بیٹھائے انھیں تمام حقوق مل جائیں گے تو وہ خام خیالی میں ہیں کیونکہ اس جمہوری نظام میں اپنے حقوق کے لیے لڑنا ہوگا ۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ مسلم امہ کئی خانوں میں بٹی ہوئی ۔ مسلک و مشرب کے نام پر ان کے درمیان اتنے جھگڑے اور اتنی دوریاں ہیں کہ یہ متحد نہیں ہوسکتے لیکن یہ بات تمام مسلم گروپ کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ جب ملک میں فرقہ وارانہ فسادات و ہوتے ہیں تو اس وقت یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کون کس جماعت سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس وقت تمام مسلمان صرف مسلمان ہوتے ہیں اور انھیں مسلمان کے نام پر ہی مارا جاتاہے ۔ اس لیے کم از کم یہ حقیقت سامنے رکھ کر ہندستان میں تمام مسلم امہ کو ایک پلیٹ فارم پر آنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کا استحصال نہ ہوسکے اور نہ ان کے حقوق سلب کیے جاسکیں ۔ ہندستانی مسلمانوں کو بدلتے وقت کے تناظر میں اپنے وجود اور بقا کے لیے متحد ہونا پڑے گا اور انھیں تمام اختلافات کو دور کر کے ایک پلیٹ فارم پر بھی آنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے علاوہ سیاسی پارٹیوں کو یہ بتا نا بھی ہوگا کہ مسلمانوں کے ووٹ کے بغیر وہ کامیاب نہیں ہوسکتے اور ممبران پارلیمان کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ ہندستان میں مسلمان دوسری بڑی اکثریت ہے اس لیے ان کے مسائل کو بھی پارلیمنٹ میں پیش کرنا ہوگا۔اگر یہ ملک جمہوری ملک ہے تو مسلمان کے ساتھ ناانصافی کیوں یہ بات بھی حکومت ہند اور تمام سیاسی پارٹیوں کو ذہن نشین کرنا ہوگی۔
Dr Khawaja Ekram
About the Author: Dr Khawaja Ekram Read More Articles by Dr Khawaja Ekram: 2 Articles with 1217 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.