صدر زرداری میڈیا میں رہنے کا فن
جانتے ہیں۔ وہ سیاست دان نہیں ہیں لیکن ان کی سیاست نے سب کی سیاست کو مات
دے دی ہیں۔ سیلاب ہو یا میمو اسکنڈل، پارلیمنٹ سے خطاب ہو۔ یا ایم کیو ایم
سے سمجھوتا، کرپشن الزامات ہو یا عارضہ قلب اور دبئی کا دورہ آصف زرداری
عالمی ذرائع ابلاغ کی سرخیوں اور الیکٹرونک میڈیا کی سرخ آنکھ کی زد میں
رہتے ہیں۔ صدر کے دل کے دورے کی خبر اور انتہائی عجلت میں ائر ایمبولینس
میں ان کی دبئی روانگی نے میڈیا کو خوب قیاس آرائیوں کا موقع دیا ۔ صدر
زرداری کی صحت کے بارے میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے لندن سے اپنے
پارٹی کارکنوں کی طرف سے تشویش کا اظہار کیا اور عوام سے دعائے صحت کی اپیل
کی۔مسلم لیگ(ن)کی طرف سے محتاط تبصرے میں احسن اقبال نے کہا کہ صدر کی
صحتیابی کے لئے دعاگو ہیں تاہم ایسی حکومت کا ہارٹ فیل ضرور ہوناچاہیے۔ غیر
ملکی اخبارات نے اس صورتحال پر معنی خیز تبصرے کئے ۔ امریکی جریدے فارن
پالیسی نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ صدرزرداری کی اچانک دبئی
روانگی سے ظاہر ہوتاہے وہ استعفےٰ دے رہے ہیں جریدے نے امریکی حکومت کے ایک
سابقہ عہدیدار کے حوالے سے کہا ہے کہ امریکہ کے ذمے داروں کو دل کا معمولی
دورہ پڑنے کے بارے میں آگاہ کر دیا گیاہے انہیں یہ بھی بتایا گیاہے کہ صدر
زرداری خرابی صحت کے باعث استعفےٰ بھی دے سکتے ہیں جریدے کے مطابق صدر
مملکت نے میمو گیٹ سکینڈل کے بارے میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب
کرناتھا اس خطاب کو اب غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیا گیا ہے جریدے نے
امریکی حکومت کے ایک سابقہ عہدیدار کے حوالے سے لکھاہے کہ گزشتہ ہفتے کے
اختتام پر جب صدر اوبامہ نے صدر زرداری سے فون پرگفتگو کی تھی تو صدر
زرداری لاتعلق اورپریشان تھے پاکستان کے صدر میمو گیٹ سکینڈل پر بڑھتا ہوا
دباﺅ محسوس کر رہے ہیں گھیرا تنگ ہوتا جا رہاہے اب صرف وقت کی بات ہے سابقہ
عہدیدار کے مطابق امریکی حکومت میں توقع کی جا رہی ہے کہ صدر زرداری مستعفی
ہو سکتے ہیں یہ ان ہاﺅس تبدیلی کا آپشن ہے جس کے بارے میں بات ہوتی رہی ہے
ساﺅتھ ایشیا سنٹر کے ڈائریکٹر شجاع نواز کے مطابق صدر زرداری استعفےٰ دے
دیں گے اس طرح سویلین حکمرانی کو محفوظ کر لیاجائے گا ۔امریکی اخبار نیو
یارک پوسٹ نے کہا ہے کہ صدر زرداری کی دبئی روانگی میمو سکینڈل کے دوران
سامنے آئی ہے اس اسکینڈل کے باعث زرداری انتظامیہ پر دباﺅ میں اضافہ ہواہے
۔
برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق کہا جا رہا ہے کہ صدر زرداری خرابی صحت کی
آڑ میں استعفےٰ دے دیں گے کیونکہ فوج کی جانب سے دباﺅ بڑھ رہاہے صدر ملٹری
اسٹیبلشمنٹ میں بہت زیادہ مقبول ہیں غیر ملکی میڈیا کی ان تمام اطلاعات کو
یکسر غلط نہیں قرار دیاجاسکتا ۔ اس بارے میں صدر کے ترجمان کے بیانات
تضادات کا مجموعہ تھے۔ پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کے ترجمان فرحت اللہ
بابر نے پہلے کہا کہ صدرِ پاکستان طبی معائنے کے لیے دبئی گئے ہیں اور
انہوں نے صدر کی سرگرمیوں کے بارے میں بعض ذرائع ابلاع کی جانب سے پھیلائی
جانے والی افواہوں کو غلط قرار دیا ہے۔
بدھ کی صبح جاری کردہ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ صدرِ پاکستان پہلے سے
طے شدہ پروگرام کے تحت اپنے بچوں سے ملنے اور طبی معائنے کے لیے دبئی گئے
ہیں۔
صدر زرداری کے ذاتی معالج کرنل سلمان کے مطابق تجویز کردہ طبی ٹیسٹ معمول
کے مطابق ہیں اور یہ قلب اور شریانوں سے تعلق رکھنے والی کیفیت کے بارے میں
ہیں جن کی تشخیص اس سے قبل ہوئی تھی۔
صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر نے بتایا کہ میڈیا پر آنے والی اطلاعات کے
برعکس صدر زرداری علاج یا طبی معائنے کے لیے کسی ہسپتال نہیں گئے بلکہ
انھوں نے منگل کی شام پہلے چیئرمین سینٹ فاروق نائک، اور وزیرِاعظم سید
یوسف رضا گیلانی اور وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک کے ساتھ الگ الگ ملاقاتیں
بھی کی تھیں۔
بی بی سی اردو سروس نے اپنے تبصرہ نما خبر میں بتایا کہ فرحت اللہ بابر نے
صدر کی دبئی روانگی کے بارے میں جو خبر جاری کی تھی اس کا متن معمول سے ہٹ
کر محسوس ہوتا ہے جس کی وجہ سے ہی مقامی ذرائع ابلاغ میں قیاس آرائیاں ہو
رہی ہیں۔
ان قیاس آرائیوں کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ صدر کی دبئی روانگی سے
قبل چیئرمین سینیٹ جو صدر کی غیر موجودگی میں قائم مقام صدر ہوتے ہیں، ان
سے اور وزیراعظم اور وزیر داخلہ سے ملاقات کی خبریں بھی صدارتی ترجمان نے
جاری کی ہیں۔
حالانکہ ماضی میں صدر کی بیرون ملک روانگی سے قبل ان کی اس طرح کی مصروفیات
کے بارے میں خبریں یا تو مخفی رکھی جاتی ہیں یا پھر اس بارے میں بہت ہی کم
بتایا جاتا ہے۔
صدر آصف علی زرداری کے خلاف مختلف ذرائع سے میڈیا کے ایک حصے میں مسلسل
خبریں نشر یا شائع ہو رہی ہیں کہ صدر آصف علی زرداری مستعفی ہونے والے ہیں
اور شاید واپس وطن نہیں آئیں گے۔
لیکن صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے ان خبروں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے
اسے ’قیاس آرائی، خیالی اور غیر درست‘ قرار دیا ہے۔
حالانکہ ماضی میں فرحت اللہ بابر، صدر سے منسوب کسی خبر کی تردید کے متن
میں ’من گھڑت، بے بنیاد اور جھوٹی‘ خبروں جیسے الفاظ استعمال کرتے رہے ہیں۔
دوسری جانب
وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے بیان میں کہا جارہا تھا کہ صدر زرادری
اپنے بچوں کے اصرار پر دبئی گئے ہیں۔ جبکہ پاکستان کی حکمران جماعت پیپلز
پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی سے
ملاقات کی ہے۔
وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر زرداری پہلے
سے موجود عارضہ قلب سے متعلق علامات کے بعد دبئی گئے ہیں۔
بیان کے مطابق دبئی میں ابتدائی میڈیکل ٹیسٹ کیے جانے پر ڈاکٹروں نے ان کی
حالت کو تسلی بخش قرار دیا ہے۔’ڈاکٹروں نے ابھی تشخیص کرنی ہے کہ آیا صدر
کی طبعیت پہلے سے زیرِ استعمال ادویات کے ناموافق ردعمل کے نتیجے میں خراب
ہوئی ہے یا ان کو پہلے سے لاحق عارضہ قلب کی وجہ سے ہوئی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ صدر ابھی ڈاکٹروں کی زیر نگرانی رہیں گے اور
ڈاکٹروں کی ہدایت پر ہی واپس وطن آ کر اپنی معمول کی ذمہ داریاں سنبھالیں
گے۔وزیر اعظم ہاؤس سے جاری ایک دوسرے بیان میں کہا گیا ہے کہ ایم کیو ایم
کے سربراہ الطاف حسین اور جمعیت علماء اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل
الرحمان نے وزیراعظم گیلانی کو فون کر کے صدر کی صحت کے متعلق دریافت کیا۔
امریکی سر کاری ریڈیو وائس آف امریکہ ترجمان کے حوالے سے اس خبر میں بتایا
ہے کہ دبئی کے اسپتال میں زیر علاج صدر آصف علی زرداری کو جمعرات کے روز
انتہائی نگہداشت کے یونٹ سے کمرے میں منتقل کر دیا گیا ہے جہاں وہ اس وقت
آرام کر رہے ہیں۔
ترجمان کے بقول اب تک کیے گئے تمام طبی معائنوں اور لیبارٹری کے تجزیوں کے
نتائج ڈاکڑوں نے نارمل قرار دیے ہیں اور صدر پاکستان کی صحت کے بارے میں
کوئی تشویش کی بات نہیں ہے۔
پاکستانی صدر عارضہ قلب کی علامات کے بعد منگل کی شب ہنگامی طور پرعلاج کے
لیے دبئی چلے گئے تھے اور بیرون ملک ان کی اس اچانک روانگی کی وجہ سے مقامی
اور بین الاقوامی میڈیا میں صدر زرداری کے مستعفی ہونے کی قیاس آرائیوں کا
نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ تاہم صدارتی ترجمان نے امید ظاہر کی ہے کہ
صدر کی صحت یابی کی خبر کے بعد یہ قیاس آرائیاں دم توڑ دیں گی۔
جمعرات کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی صدر زرداری کی علالت کا معاملہ
اٹھایا گیا اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اراکین کو بتایا کہ صدر مملکت
تیزی سے صحت یاب ہو رہے ہیں۔ اجلاس کے بعد نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے
وزیراطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ ذرائع ابلاغ میں کی جانے والی قیاس
آرائیوں کی وجہ غیر متعلقہ حکومتی نمائندوں سے رابطہ کرکے تخیلاتی خبروں کی
تشہیر تھی۔
پاکستانی صدر کی دبئی روانگی سے محض دو روز قبل ان کے ترجمان نے اعلان کیا
تھا کہ وہ عاشورہ کے بعد پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے جس میں
وہ نیٹو حملے اور میمو گیٹ اسکینڈل پر حکومت کا موقف پیش کریں گے۔ بی بی سی
نے ایک اور خبر میں لکھا کہ پاکستان کے اقتدار کے ایوانوں میں پسِ پردہ کچھ
ایسی سرگرمیاں محسوس ہوتی ہیں جس سے پاکستانی سیاست میں ایک بھونچال پیدا
ہوسکتا ہے۔بظاہر نظر نہ آنے والی اِن درپردہ سرگرمیوں کو جھانکنے والے بعض
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسا اقتدار کی سازشوں کا کھیل لگتا ہے جس سے
جمہوری نظام کو سخت خطرات محسوس ہوتے ہیں۔در پردہ اقتدار کے ایوانوں کے اہم
کھلاڑیوں کی سرگرمیوں کے بارے میں جب صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر سے بات
ہوئی تو وہ واضح طور پر کچھ بتانے سے توگریزاں نظر آئے۔
لیکن ان کی باتوں سے صاف صاف محسوس ہوا کہ ’حالات اچھے نہیں ہیں۔‘ تاہم
انہوں نے اس تاثر سے اتفاق کیا کہ ایوان صدر پر کئی اطراف سے دباؤ بڑھ رہا
ہے اور اب کی بار ماضی کی نسبت صورتحال نہایت پیچیدہ ہے۔
جس میں متنازعہ میمو کے معاملے کی میاں نواز شریف کی درخواست پر سپریم کورٹ
میں سماعت، پارلیمان کو متنازعہ میمو کی تحقیقات کرنے میں مشکلات، ذوالفقار
مرزا کا متحدہ کے خلاف کارروائی پر پارٹی قیادت سے اختلافات اور شاہ محمود
قریشی کی جانب سے جوہری پروگرام کے صدر کی وجہ سے غیر محفوظ ہونے کے
الزامات بھی شامل ہیں۔
پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کی خرابیِ صحت کی بنا پر اچانک دبئی روانگی
کے بعد بدھ کو صدر کے صاحبزادے اور حکمران پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول
بھٹو زرداری نے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی سے تفصیلی ملاقات بھی کی
ہے۔بلاول بھٹو زرداری نے اس ملاقات میں سندھی ٹوپی پہن رکھی تھی اور عام
طور پر وہ سندھی ٹوپی پہننے سے گریز کرتے ہیں۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ جب ان کے والد خرابی صحت کی وجہ سے دبئی میں طبی
معائنہ کرا رہے ہیں ایسے میں بلاول بھٹو پاکستان میں سیاسی امور نمٹا رہے
ہیں۔
وزیر اعظم کہتے ہیں کہ صدر آصف علی زرداری ابھی مکمل صحتیابی تک دبئی میں
ڈاکٹروں کی زیر نگرانی رہیں گے۔
ایک اہم بات یہ بھی وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے بیان میں بتائی گئی ہے
کہ ابھی اس بات کا تعین ہونا باقی ہے کہ صدر کی طبیعت دوائی کھانے سے بگڑی
یا پہلے سے جو انہیں عارضہ قلب لاحق ہے اس کی وجہ سے خراب ہوئی۔
صدر آصف علی زرداری کی طبی معائنے کے لیے اچانک دبئی روانگی کے بعد بعض
مقامی ذرائع ابلاغ میں قیاس آرائیوں کا ایک ‘فلڈ گیٹ’ کھل گیا ہے۔
کچھ مقامی ٹی وی چینل تو صدر کے مستعفی ہونے اور ان کے واپس وطن نہ لوٹنے
کے بارے میں بھی قیاس آرائیاں کر رہے ہیں۔
لیکن صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے ایسی تمام قیاس آرائیوں کو مسترد کیا
ہے اور ان کا کہنا ہے کہ
صدر استعفیٰ دیں گے اور نہ ہی بیرون ملک زیادہ قیام کریں گے۔
ان کے بقول صدر مملکت جلد صحتیابی کے بعد واپس وطن آئیں گے اور ہر قسم کے
حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔
ادھر صدر آصف علی زرداری کے قریبی دوست اور پیٹرولیم کے وفاقی وزیر ڈاکٹر
عاصم نے مقامی ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر کو دبئی کے
ہسپتال کے ‘آئی سی یو’ وارڈ میں رکھا گیا ہے۔
البتہ ان کا کہنا ہے کہ ایسا اس لیے کیا گیا ہے کہ تاکہ وہ عیادت کرنے
والوں سے دور رہیں اور آئندہ چار پانچ روز میں صدر آصف علی زرداری واپس
پاکستان پہنچ جائیں گے اور میڈیا سے بات چیت کریں گے۔ ایک عربی ویب سائٹ
العربیہ ڈاٹ نیٹ نے اس بارے میں تفصیلات کچھ یوں بیان کی۔،،پاکستان کے صدر
آصف علی زرداری عارضہ قلب میں مبتلا ہونے کے بعد علاج کے لیے اچانک دبئی
چلے گئے ہیں جس کے بعد ملک میں ان کے حوالے سے طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی
جارہی ہیں اور افواہیں گردش کر رہی ہیں۔اسلام آباد میں وزیر اعظم ہاوس کی
جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ''صدر آصف زرداری ابھی دبئی
میں زیرعلاج رہیں گے اور ڈاکٹروں نے اجازت دی تو اس وقت ہی وہ واپس آکراپنے
فرائض انجام دیں گے۔معالج ان کی تشخیص کررہے ہیں کہ کہیں ان کی حالت ان
ادویہ کے ری ایکشن سے تو نہیں بگڑی، جو وہ لے رہے تھے''۔بیان کے مطابق
حکمران جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے چئیرمین اور صدر کے بیٹے بلاول بھٹو
زرداری نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کی جس میں صدر زرداری کے
عارضہ قلب کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر کے
بچوں نے ان کے دبئی جانے پر اصرار کیا تھا۔دبئی میں ابتدائی تشخیص سے معلوم
ہوا ہے کہ صدر کی حالت بہتر ہے اوران کا میڈیکل چیک اپ کرنے کے بعد ڈاکٹروں
نے ان کی حالت کو تسلی بخش قراردیا ہے۔امریکی میگزین ''فارن پالیسی'' نے
صدر آصف زرداری کے حوالے سے ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ طبی وجوہات
کی بناء پر صدارت سے استعفیٰ دے سکتے ہیں اور صدر زرداری امریکی صدر براک
اوباما سے گفتگو کے دوران بھی میمو کے معاملے پر دباو کا شکار تھے۔ لیکن
حکومتی حلقوں کی جانب سے اس خبر کی سختی سے تردید کی گئی ہے اور واضح کیا
گیا کہ صدر آصف زرداری پہلے سے عارضہ قلب میں مبتلا ہیں اور وہ طے شدہ
شیڈول کے مطابق معمول کا طبی معائنہ کرانے دبئی گئے ہیں۔ امریکا کے ایک
سابق عہدے دار نے میگزین ''دی کیبل'' کو بتایا کہ ''واشنگٹن کو مطلع کیا
گیا ہے کہ صدر آصف زرداری کو سوموار کی رات دل کا ایک معمولی دورہ پڑا تھا
اور اس کے بعد انھیں ایک ائیرایمبولینس کے ذریعے دبئی لے جایا گیا''۔
فارن پالیسی میگزین کی ویب سائٹ پر پوسٹ کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس
سے ایک روز صدر اوباما کے ساتھ نیٹو حملے کے حوالے سے ٹیلی فون پر گفتگو کے
دوران آصف علی زرداری دباؤمیں لگ رہے تھے اور ان کی گفتگو میں تسلسل نہیں
تھا۔ اس سابق امریکی عہدے دار کے بہ قول ''اب گرفت مضبوط کی جارہی ہے اور
دنوں ہی کا معاملہ رہ گیا ہے''۔ان کا اشارہ غالباً پاکستان پیپلز پارٹی کی
حکومت کی جانب تھا.
سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹویٹر پر بھی صدر زرداری کے ملک سے چلے جانے کے
حوالے سے طرح طرح کی افواہیں گردش کررہی ہیں اور منگل کی رات یہ افواہ بھی
پھیلائی گئی تھی کہ فوج نے اقتدار سنبھال لیا ہے لیکن تھوڑی دیر بعد ہی اس
خبر کو پوسٹ کرنے والے نے اس کو واپس لے لیا۔
واضح رہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی مرکزی حکومت کو اس وقت میمو اسکینڈل کی
وجہ سے آرمی ،عدلیہ اور حزب اختلاف کی جانب سے سخت دباو کا سامنا ہے. صدر
آصف زرداری پر یہ الزام عاید کیا جارہا ہے انھوں نے واشنگٹن میں سابق
پاکستانی سفیرحسین حقانی کو مئی میں پاک آرمی کے خلاف امریکا کے سابق
چئیرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ایڈمرل مائیک مولن کو ایک خط لکھا تھا جس میں
ان سے سول حکومت کی مدد کے لیے کہا گیا تھا۔گذشتہ قریباً چار سال کے دوران
حکومت کی اپنی کارکردگی بھی کوئی اتنی قابل فخر نہیں رہی ہے۔اس وقت تمام
حکومتی اداروں میں بدعنوانیوں کے قصے عام ہیں، مہنگائی روزافزوں ہے جس کی
وجہ سے عوام بھی اس سے نالاں ہیں۔حزب اختلاف کی بڑی جماعت مسلم لیگ نواز
اور سابق کرکٹ لیجنڈ عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف حکومت کے خلاف
تحریک چلا رہے ہیں۔
پی پی پی کی حکومت کی کارکردگی سے اس کے مخالفین کے علاوہ اس کی اتحادی
سمجھے جانے والی جماعتیں بھی ناخوش ہیں۔اس کی ایک اتحادی جماعت جمعیت علماء
اسلام کے سینیٹر سابق وفاقی وزیر، اعظم سواتی نے بدھ کو پارٹی اور سینیٹ کی
رکنیت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں کرپشن، بے روزگاری،
لاقانونیت اور مہنگائی کی وجہ سے وہ مستعفی ہورہے ہیں کیونکہ ملک کو درپیش
بحرانوں سے نمٹنے میں سینیٹ کا ادارہ اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہا
ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام اراکین پارلیمنٹ کو استعفیٰ دے دینا چاہیے
جرمنی ریڈیو ڈوئچے ویلے کی ایک اور خبر میں صورتحال کا جائزہ کچھ یوں لیا
گیا۔
زرداری کے مستعفی ہونے کی قیاس آرائیاں
’میمو گیٹ‘ اسکینڈل سامنے آنے کے بعد 56 سالہ صدر زرداری اور ان کی حکومت
سیاسی مخالفین کی طرف سے مسلسل دباؤ میں ہے جو مبینہ مکتوب لکھنے کا جرم
ثابت ہونے پر صدر اور امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی پر غداری
کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں اپوزیشن رہنما نواز
شریف کی طرف سے عدالت عظمیٰ میں دائر ایک آئینی درخواست بھی زیر سماعت ہے۔
منگل کو سینٹ کے چیئرمین فاروق نائیک نے صدر زرداری سے اسلام آباد میں
ملاقات کی
پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ دل کا معمولی
دورہ پڑنے کے بعد وہ علاج کے لیے دبئی گئے ہیں جہاں اس وقت ایک اسپتال میں
ڈاکٹر ان کی نگہداشت کر رہے ہیں۔لیکن مقبولیت کھوتے پاکستانی صدرکی اچانک
بیرون ملک روانگی کے بعد بدھ کومقامی ذرائع ابلاغ میں تمام دن صدر کے
مستعفی ہونے کی قیاس آرائیاں کی جاتی رہیں۔
صدر کو اتوار کے روز سینے میں اچانک درد محسوس ہوا اور ڈاکٹروں نے اسے ایک
سنجیدہ معاملہ قرار دے کر انھیں علاج کے لیے فوری طور پر لندن یا دبئی جانے
کا مشورہ دیا۔
تاہم ذرائع کے مطابق مختلف طبی مسائل کا شکار آصف علی زرداری نے حسب معمول
اس مرتبہ بھی اپنی بیماری کو معمولی مسئلہ قرار دے کر ڈاکٹروں کے مشورے کو
نظر انداز کردیا۔
لیکن جب انھوں نے اپنے تمام قریبی رفقا کی بات ماننے سے انکار کر دیا تو
بیرون ملک مقیم ان کے بچوں کو وطن واپس بلایا گیا تاکہ وہ اپنے والد کو
علاج کے لیے بیرون جانے پر آمادہ کر سکیں جس میں انھیں کامیابی بھی ہوئی۔
ایوان صدر کے ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ صدر زرداری کو دبئی
روانہ کرنے کے بعد ان کے اکلوتے بیٹے اور حکمران پیپلز پارٹی کے چیئرمین
بلاول بھٹو وطن میں رک گئے۔
وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں بلاول کی پاکستان میں
موجودگی اور بدھ کو وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے ان کی ملاقات کی تصدیق کی
گئی ہے اور اس بات کی بھی تصدیق کی گئی ہے کہ اپنے بچوں کے اصرار پر صدر
زرداری علاج کے لیے دبئی جانے پر آمادہ ہوئے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر کو
لاحق عارضہ قلب کی وجہ سے ہونے والی تکلیف کے باعث وہ دبئی علاج کے لیے گئے
ہیں اوراس وقت ان کی حالت مستحکم ہے۔ بیان کے مطابق ڈاکٹروں کے مشورے پر
عمل کرتے ہوئے وہ وطن واپس آ کر ا پنے معمول کے فرائض انجام دیں گے۔
صدر زرداری کو چھ سال قبل بھی دل کا دورہ پڑا تھا جس کے بعد سے وہ باقاعدگی
سے علاج کے لیے ادویات لے رہے ہیں۔
لیکن اس سے قبل ایوان صدر سے منگل کی شب جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا تھا
کہ پاکستانی صدر معمول کے طبی معائنے کے لیے دبئی گئے ہیں۔
ان متضاد بیانات کے بعد ملک میں یہ قیاس آرائیاں زور پکڑنا شروع ہو گئیں کہ
صدر زرداری مستعفی ہو رہے ہیں جس کی وجہ امریکی قیادت کو لکھا گیا ان سے
منسوب میمو یا خط ہے جس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ نے ایک تفتیشی کمیشن
قائم کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔ ذرائع نے ان اطلاعات کو بھی مسترد کیا ہے کہ
دبئی راونگی کے لیے صدر کو ایمبولینس میں جہاز تک لے جایا گیا بلکہ اس کے
برعکس مسٹر زرداری ائرپورٹ جانے کے لیے خود چل کر گاڑی میں بیھٹے۔ ان ذرائع
کا کہنا ہے کہ پاکستانی صدر کی حالت تشویش سے باہر ہے اور وہ چند روز تک
دبئی اسپتال میں زیر علاج رہیں گے۔
’میمو گیٹ‘ اسکینڈل سامنے آنے کے بعد 56 سالہ صدر زرداری اور ان کی حکومت
سیاسی مخالفین کی طرف سے مسلسل دباؤ میں ہے جو مبینہ مکتوب لکھنے کا جرم
ثابت ہونے پر صدر اور امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی پر غداری
کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔اس سلسلے میں اپوزیشن رہنما نواز شریف
کی طرف سے عدالت عظمیٰ میں دائر ایک آئینی درخواست بھی زیر سماعت ہے۔
گزشتہ ہفتے ایوان صدر کے ترجمان نے اعلان کیا تھا کہ عاشورہ کے بعد صدر
زرداری پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے جس میں وہ میمو گیٹ
اسکینڈل اور پاکستانی فوجی چوکیوں پر نیٹو کے مہلک حملے پر اپنا موقف پیش
کریں گے۔ ان کا یہ خطاب اب ملتوی کردیا گیا ہے۔ان کی حکمران پیپلز پارٹی پر
اس وقت بدعنوانی، ناقص انداز حکمرانی اور اقربا پروری کے الزمات روز مرہ کا
معمول بن چکے ہیں جبکہ عدالت عظمیٰ کے احکامات پر عملدرآمد میں حیل وحجت پر
بھی ناقدین کی طرف سے کڑی تنقید کی جا رہی ہے۔
پیپلز پارٹی کی مقبولیت کے بارے میں کیے گئے گیلپ پاکستان کے حالیہ سروے
میں 71 فیصد افراد نے موجودہ حکومت کے خاتمے کو ترجیح دی تھی۔پی پی پی کی
مخلوط حکومت کے فوج کے ساتھ تعلقات میں تناؤ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں جبکہ
اس وقت پاکستان اور امریکہ کے تعلقات بھی اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر
رہے ہیں۔صدر زرداری اور ان کی جماعت پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کو نومبر
کے اوائل سے شدید سیاسی دباؤ کا سامنا ہے جس کی وجہ صدر سے منسوب امریکی
قیادت کو بھیجا گیا مبینہ خط ہے جس میں پاکستان کی فوجی قیادت کی برطرفی کے
لیے امریکہ سے مدد مانگی گئی تھی۔واشنگٹن میں سابق پاکستانی سیفر حسین
حقانی پر الزام ہے کہ وہ اس خط کے مصنف تھے اور امریکی حکام تک اسے پہنچانے
کا کام انھوں نے پاکستانی نژاد امریکی شہری منصور اعجاز کو سونپا تھا۔
لیکن حسین حقانی اور وزیراعظم گیلانی کی حکومت ان الزامات کر رد کر چکے ہیں
اور پارلیمان کی کمیٹی برائے قومی سلامتی کو اس پورے معاملے کی تفیتیش کا
کام سونپا گیا ہے۔
لیکن اسی اثنا میں اپوزیشن رہنما نواز شریف نے میمو گیٹ اسکینڈل کی تحقیقات
کروانے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے جس پر اپنے ابتدائی حکم میں
عدالت عظمیٰ نے تمام فریقین کو تحریری بیانات داخل کرنے کے لیے 15 دن کی
مہلت دے رکھی ہے جو 16 دسمبر کو پوری ہو گی۔اس درخواست میں نواز شریف نے
صدر زرداری، حسین حقانی، وفاق، آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور آئی
ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا کو فریق بنا رکھا ہے۔
ادھر برسلز میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوے امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے
توقع ظاہر کی ہے کہ صدرزرداری صحت یاب اورجلد وطن واپس جاکر اپنی ذمہ
داریاں دوبارہ سنبھال لیں گے صدر زرداری دبئی کے ایک اسپتال میں زیرعلاج
ہیں، وہ کئی دیگر بیماریوں میں بھی مبتلا رہے ہیں جس میں ریڑھ کی ہڈی کی
سنگین تکلیف، ذیابیطس، بلند فشار خون، جذباتی عدم استحکام، یادداشت اور
ارتکاز کا مسئلہ، انشقاق ذہنی، انتشار و ذہنی افسردگی شامل ہیں، صدر مملکت
منگل کو دل کی تکلیف میں مبتلا ہوئے جب انہیں چند روز بعد اپنے اعلان شدہ
شیڈول کے مطابق پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنا تھا اور میمو
اسکینڈل پر سپریم کورٹ کو جوا ب بھیجنا تھا۔ صدر زرداری کی بیماریوں کے
حوالے سے قومی و بین الاقوامی میڈیا میں کئی برسوں سے مختلف خبریں آتی رہی
ہیں، ان رپورٹس کے علاوہ محترمہ بے نظیربھٹو نے خود اپنی کتاب میں اپنے
شوہر کی خراب صحت کے بارے میں لکھا تھا کہ وہ تقریباً مرچکے تھے، آصف
زرداری کے صدارتی الیکشن کے موقع پر روزنامہ فنانشل ٹائمز نے پیپلز پارٹی
کے شریک چیئرمین کے ہیلتھ سرٹیفکیٹ کی دستاویزی تفصیلات شائع کی تھیں جو
مختلف عدالتوں میں جمع کرائے گئے تھے، سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو
نے اپنی آخری کتاب میں انکشاف کیا تھا کہ آصف زرداری شدید بیمار شخص ہیں ان
کی زندگی خطرے میں تھی جب 2005میں نیویارک کے اسپتال میں ان کا علاج شروع
ہوا تھا، بے نظیر بھٹو نے اپنی کتاب ”ری کنشلشن۔ اسلام۔ ڈیموکریسی اینڈ
ویسٹ“ میں رقم کیا تھا کہ ان کے شوہر کی صحت ٹھیک نہیں، صفحہ 224 پر شہید
وزیراعظم لکھتی ہیں کہ ”جب 2005 میں میرے شوہر دبئی میرے اور میرے بچوں کے
پاس آئے تو وہ ایک ڈاکٹر کے بقول دل کے جان لیوا حملے کے قریب تھے۔“آصف
علاج کے لئے نیویارک چلے گئے، میں ہر تیسرے ہفتے انہیں دیکھنے امریکا جاتی
تھی، سیڑھیاں چڑھنے اترنے سے تکلیف ہوگئی اور میرے گھٹنے کا آپریشن ہوا، جب
میں اس وقت کے دوران اپنی والدہ کی بیماری کو دیکھتی ہوں تو وہ 2003 میں
تقریباً مرنے کے قریب تھیں اور 2005 میں شوہر کی بیماری کو دیکھتی ہوں تو
وہ بھی مرنے کے قریب تھے۔ 25اگست 2008 کو فنانشل ٹائمزنے ڈاکٹروں کی جمع
کردہ دستاویزات کے حوالے سے خبر دی تھی کہ پاکستان میں صدارت کے اہم ترین
امیدوار آصف علی زرداری سال گزشتہ سے سنگین نفسیاتی مسائل میں مبتلا رہے
ہیں، ان کی دو سال کی طبی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ذہنی انتشار اور
دماغی عدم توازن کے امراض کی تشخیص کی گئی تھی۔ اخبار نے عدالتی دستاویز کے
حوالے سے بتایا تھا کہ نیویارک شہر کے ایک ماہر نفسیات فلپ سالٹیل نے مارچ
2007 میں تشخیص کی تھی، آصف زرداری کی اسیری نے انہیں جذباتی عدم استحکام
اور یادداشت و ارتکاز کی بیماری میں مبتلا کردیا ہے۔ ڈاکٹر نے عدالت کو
لکھا تھا کہ وہ کم از کم ایک سال تک زرداری کی ذہنی صحت میں بہتری کی
پیشگوئی نہیں کرسکتا، نیویارک کے ایک اور ماہر نفسیات اسٹیفن ریچ کے حوالے
سے اخبار نے بتایا تھا کہ ”آصف زرداری کو اپنی اہلیہ اور بچوں کی تاریخ
پیدائش بھی یاد نہیں، وہ مسلسل خوفزدہ ہیں اور خودکشی سے متعلق سوچتے ہیں۔“
”آصف زرداری نے اپنی طبی دستایزات کو انگلش ہائی کورٹ (اب کالعدم) میں کیس
کی سماعت ملتوی کرانے کے لئے کامیابی سے استعمال کیا جہاں حکومت پاکستان نے
ان پر مبینہ بدعنوانی پر مقدمہ دائر کیا تھا، یہ کیس سرے محل کے حوالے سے
تھا۔
متحدہ عرب امارات کے ایک اخبارنے صدر زرداری کے ساتھی کے حوالے سے دعویٰ
کیا ہے کہ صدر ابھی چند ہفتے وطن واپس نہیں آئیں گے۔ اخبار کا کہنا ہے کہ
صدر کو اگرچہ آئی سی یو سے کمرے میں منتقل کردیا گیا ہے تاہم وہ ابھی چند
ہفتے ڈاکٹروں کی زیر نگرانی رہیں گے۔واضح رہے کہ صدر کی بیماری کے حوالے سے
ملک میں کئی طرح کی چہ مگوئیاں کی جارہی ہیں۔
اس بارے میں صدر کی ہمشیرہ فریال تالپور کا کہنا ہے کہ صدر کی طبیعت بہتر
ہے اور چند دن میں واپس آجائیں گے جبکہ ایوان وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ صدر
ڈاکٹروں کی اجازت کے بعد ہی وطن واپس آئیں گے۔ ڈاکٹر اس بات پر اتفاق کرتے
ہیں کہ کسی اِنسان پر لگائے جانے والے الزامات کا بھی اِنسانی دل و دماغ پر
نہایت شدیداثرہوتاہے اور یہی وجہ ہے کہ اِنسان جلد یا بدیر امراضِ قلب یا
اعصابی امراض میں مبتلاہوجاتاہے۔ کوئی شخص بڑااور طاقتورترین کیوں نہ ہو وہ
بھی اندورنی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا ضرور شکار ہو جاتا ہے۔ صدر زرداری بھی گوشت
پوشت کے آدمی ہیں۔ جو سینے میں ایک حساس دل رکھتے ہیں۔ ان خبروں نے ان کے
دل اور اعصاب پر ایسااثرڈالاکہ صدریکایک عارضے قلب میں مبتلاہوکر اپنادل
تھام کر راتوں رات اپنے معالجین کے ہمراہ دبئی روانہ ہو گئے۔ صدر کی حالت
طبی لحاظ سے تو بہترہے مگر سیاسی اعتبار سے خراب کے اشارے ہیں۔ امریکی
انتظامیہ بھی صدر کی اِس اچانک بیماری سے پریشان ہے اور اِس نے بھی وائٹ
ہاوس میں امریکی تھنک ٹینک کے ہمراہ صدر زرداری کی بیماری کے بعد کی
پیداہونے والی صورتحال پر غوروخوص کرنا شروع کر دیا ہے۔ دوسری جانب ایک
امریکی جریدے فارن پالیسی میں مضمون نگار جوش راگن نے بڑے وثوق کے ساتھ یہ
دعوی کیاہے کہ صدرآصف علی زرداری میموگیٹ اسکینڈل پر شدیددباو میں ہیں اور
طبی بنیادوں پر صدارت کے عہدے سے مستعفی ہوسکتے ہیں اور ساتھ ہی اِس جریدے
نے یہ بھی لکھاہے کہ امریکی حکومت میں یہ سوچ بڑی تیزی سے بڑھتی جارہی ہے
کہ کیا صدر زرداری اپنے سنگین ہوتے معاملات میں سے دودھ میں سے مکھی کی طرح
نکل جانے کا کوئی بہانہ یا راستہ تلاش کر رہے ہیں جریدہ لکھتاہے کہ امریکی
انتظامیہ کا ایک خیال یہ بھی ہے کہ صدر کے گردگھیراتنگ ہورہاہے اور اب یہ
صرف کچھ وقت کی با ت ہے اور اِس کے ساتھ ہی امریکی جریدے نے بلا حیل وحجت
یہ بھی دعوی کیاہے کہ امریکی انتظامیہ کی پاکستانی حکام سے اِن ہاوس تبدیلی
کے آپشن پر بھی بات چیت جاری ہے۔
ایسے میں اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے صدر آصف علی زرداری کابھی سخت ترین
امتحان شروع ہوچکاہے کہ وہ اپنی بیماری اور اپنی عہدے صدارت کے حوالے سے
اپنی صفائی میں واپس پاکستان آکر کیاکچھ کہناچاہیں گے۔
امریکہ نے پاکستان میں فوج کے اقتدار میں آنے کی افواہوں کو ردّ کر دیا ہے۔
واشنگٹن حکام کا یہ مؤقف پاکستانی صدر آصف علی زرداری کی بیماری کی خبروں
پر ردِ عمل کے طور پر سامنے آیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی نے بدھ
کو کہا: ”ہم نے رپورٹیں دیکھی ہیں۔ ہم ان کی صحت کی جلد بحالی کی امید کرتے
ہیں۔“
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر سے جب پوچھا گیا کہ کیا پاکستانی
صدر کے خلاف خاموش بغاوت کے عمل پر امریکہ کو پریشانی ہے تو انہوں نے کہا
کہ ایسی قیاس آرائیوں پر یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے اور نہ ہی ایسی
کوئی تشویش ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ان کے قریبی ساتھیوں نے
اس باتوں کو خارج از امکان قرار دیا ہے کہ صدر استعفی دے دیں گے۔ |