اخبار میں شائع ہونے والی ایک
تصویر دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کا سیاسی مستقبل کیا
ہو گا؟ پاکستان کی حکمران پارٹی کے تمام سرکردہ قائدین اس نوجوان کی زیر
صدارت اجلاس میں موجود ہیں، جس کی عمر ابھی اچھلنے کودنے اور کھیلنے دوڑنے
کی ہے، جو ابھی اپنی تعلیم کی منازل زینہ زینہ طے کررہا ہے، جو ابھی اسمبلی
کے انتخاب میں حصہ لینے کی اہلیت تک اپنی کم عمری کی وجہ سے نہیں پہنچ سکا۔
پارٹی کے کیسے کیسے نام اس کے سامنے ہمہ تن گوش بیٹھے ہیں، اس کی ہدایات کو
حرف حرف سننے اور ان پر عمل کرنے کے جذبے سے سرشار نہایت عقیدت سے اس کے
چہرے پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ یہ سارے کے سارے لیڈر اپنے ’انڈرایج‘
چیئرمین کے اشارہ ابرو کے منتظر ہیں ، کہ اشارہ ملے اور یہ لوگ اسے حکم
کادرجہ دے کر اپنی تقریروں اور بیانات کا موضوع بنائیں۔
پارٹی چیئرمین بلاول کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں شریک پارٹی قائدین
کی اکثریت کو اپنے چیئرمین کی عمر سے کم وبیش دگنا وقت دشتِ سیاست کی سیاحی
کرتے گزر گیا ہوگا، چار دہائیوں پر محیط ان کا سیاسی تجربہ ایک طرف اوران
کی ایک خاندان سے وفاداری کا حساب دوسری طرف ۔ یہ نہیں ہے کہ نئی نسل میں
قائدانہ صلاحیتوں کا فقدان ہے، نسلِ نو ٹیکنالوجی کے جدید امور سے بخوبی
آگاہ ہے، انٹرنیٹ کے ذریعے پوری دنیا کے معاملات پرا س کی نظر ہے، حالات
حاضرہ سے وہ اچھی طرح واقف ہے، کاروبارِ حکومت پر بھی ان کی توجہ ہوتی ہے ۔
بلاول کو قیادت تو ورثے میں ملی ہے، جس کے نانا ، دادا، والدہ ، والد اور
دیگر کئی رشتہ دار وں نے عمریں ایوان اقتدار کی راہداریوں میں گزاری ہوں،
جس نے آنکھ ہی بھر پور سیاسی ماحول میں کھولی ہو، جس کی والدہ ماجدہ دو
دفعہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم رہ چکی ہوں،جس کے والد صدر مملکت کے
معزز ترین عہدے پر فائزہوں ، اسے بھلا پارٹی کے چند بابوں کی صدارت کرنے
میں کیا مشکلات پیش آسکتی ہیں، وہ تو خود اعتمادی کی دولت سے ہی اس قدر
مالا مال ہے کہ اس کی کسی تربیت کی ضرورت نہیں، کسی سہارے یا کسی تجربہ کے
چکر میں دقیانوسی اور فرسودہ خیالات کی محتاجی نہیں۔
ستم تو یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان اگر عمر یا عہدے یا تجربے میں بڑے بھی
ہوجائےں، تو وہ کسی نہ کسی شخصیت کے محتاج ہیں،پارٹی کی محتاجی کی تو بات
بنتی ہے، کہ جمہوریت پارٹی کے بنا پنپ نہیں سکتی، مگر ہمارے ہاں پارٹیاں
شخصیات کے ہاتھوں یرغمال ہیں، ان پر شخصیات کا ایسا سحر قائم ہوچکا ہے کہ
اس کا اثر عوام تک بھی پھیلا ہوا ہے،اپنے ”محبوب“ سیاستدانوں کی نو عمر
اولادوں کو بھی عوام اورمقامی قائدین ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں، مقبول پارٹیوں
کے ”مالکوں“ کی خوشامد کا جو طریقہ بھی دریافت ہوسکتا ہے ، سیاستدان اس پر
عمل کرنے پر آمادہ ہیں،بلاول کا ”بھٹو ،زرداری “ ہونا موروثی سیاست اور
عوامی غلامی کی ایک کھلی نشانی ہے۔
اخبارات کے صفحہ اول پر جگہ پانے والی ایک اورتصویر بھی یقینا قابل غور ہے
، جس میں ”سلطنت پاکستانیہ“ کے دو ولی عہد شہزادے ’ملاقات ‘کر رہے ہیں،
بلاول زرداری سے عبدالقادر گیلانی اور موسیٰ گیلانی محو گفتگو ہیں۔ خدایا
!اس سے بڑھ کر ستم ظریفی اور کیا ہوگی کہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھ کر
پروٹوکول اور عیاشی کے رسیا حکمرانوں کے یہ نوعمر اور لاابالی بچے قوم کے
مقدر کے فیصلے رقم کررہے ہیں۔ بلاشبہ مستقبل نسلِ نو کا ہی ہے ، مگر ہر کام
کا کوئی وقت ہوتا ہے۔ یہ مانا کہ پی پی کے لیڈروں کی بھٹو خاندان کی چھتری
کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں،مگر دل لگتی یہی ہے کہ یہ جمہوریت کا چلن نہیں۔ |