صدر زرداری کی اچانک دبئی روانگی
نے صرف ملک کے طول و عرض میں عوام کو ہی نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کے اہم
رہنماﺅں کو بھی حیران کردیا تھا۔ شکوک و شبہات کو تقویت کچھ حکومتی وزیروں
کے مختلف النوع بیانات سے ملی اور کچھ میڈیا رپورٹس سے خصوصاً جو امریکی
اخبارات سے اخذ کی گئی تھیں۔ صدر کی بیماری اپنی جگہ، اللہ صدر زرداری سمیت
تمام بیماروں کو صحت و تندرستی عطا فرمائے، لیکن اس طریقے سے انکی ملک سے
روانگی نے بہت سے معاملات کو گہری دھند میں لپیٹ دیا ہے، ”صاف چھپتے بھی
نہیں سامنے آتے بھی نہیں “ کے مصداق جتنے منہ ہیں اتنی ہی باتیں ہیں اور
کوئی بھی چیز واضح نہیں ہے۔ صدر زرداری کے قریبی لوگوں کے مطابق وہ صرف
علاج کی غرض سے دبئی گئے ہیں اور جیسے ہی ڈاکٹرز اجازت دیں گے وہ فوراً
واپس وطن آجائیں گے، جبکہ تجزیہ نگار اور مبصرین اس کے علاوہ کچھ اور ہی
باتیں کررہے ہیں۔ صدر کی روانگی سے پہلے چیئرمین سینٹ اور قائمقام صدر
فاروق نائیک سے بھی اہم ملاقات ہوئی تھی جس میں یقینا انہوں نے مستقبل کے
فارمولے پر بات کی ہوگی کہ اگر انہیں کچھ “زیادہ“ عرصہ ملک سے باہر رہنا
پڑتا ہے تو معاملات کو کس طرح چلایا جائے گا۔
صدر زرداری کا دبئی کے ہسپتال سے یہ بیان بھی سامنے آیا ہے کہ وہ ملک سے
بھاگے نہیں اور وہ بھاگنے والے ہیں بھی نہیں، ان کے بیٹے سمیت ان کا سب کچھ
پاکستان میں ہے اس لئے جو لوگ یہ سوچ رہے ہیں یا یہ چاہتے ہیں کہ وہ واپس
نہ آئیں ان کو ناکامی ہوگی۔ صدر صاحب اس سے پہلے بھی اکثر بیرونی دوروں پر
رہا کرتے تھے لیکن اس وقت اس طرح کی چہ مگوئیاں نہیں ہوا کرتی تھیں تو اب
کیا خاص بات ہوئی کہ لوگ بڑے دھڑلے سے کہہ رہے ہیں کہ وہ ملک میں واپس نہیں
آئیں گے۔ ان پر یقینی طور پر میمو گیٹ سکینڈل کا بہت زیادہ دباﺅ تھا، این
آر او کیسز بھی ایک بہت بڑی وجہ ہیں، یار دوست یہ بھی کہتے ہیں کہ زرداری
صاحب اس بات کا انتظار کریں گے کہ سپریم کورٹ میں میمو گیٹ سکینڈل کا اونٹ
کس کروٹ بیٹھتا ہے، فوج اور آئی ایس آئی کیا موقف اختیار کرتے ہیں، اگر تو
انہیں یہ یقین ہوگیاکہ فوج اور امریکہ ان کے صرف کان ”کھینچنا“ چاہتے تھے
اور اپنی مزید شرائط منوانا چاہتے ہیں تو وہ ان کی شرائط پر ہی سہی ضرور
وطن واپس آئیں گے تاکہ یہاں مارچ میں سینٹ کے الیکشن میں فتح یاب ہوسکیں
اور وزیر اعظم کو اس وقت تک سوئس عدالتوں کو خط لکھنے سے ٹال سکیں جب تک کہ
سوئس کورٹس میں ان کے خلاف چلنے والے مقدمات زائد المیعاد نہیں ہوجاتے اور
وہ مہینہ ہے اپریل کا۔ اگر صدر زرداری کسی نہ کسی طریقے سے اپریل تک خط کے
معاملے کو ٹال سکے تو راوی کم از کم این آر او کیسز کے حوالے سے چین ہی چین
لکھتا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ اس معاملہ کو کتنی سرعت سے نپٹاتی
ہے اور حکومت کو کس طرح ”مجبور“کرتی ہے کہ وہ اپنے صدر کے بارے میں سوئس
کورٹس کو خط لکھ سکے، اگر اپریل سے پہلے ”بوجوہ“ ایسا نہیں کیا جاتا، حکومت
پر دباﺅ اور وزیر اعظم سمیت ان لوگوں کے خلاف توہین عدالت کے نوٹس جاری
نہیں کئے جاتے جن کے اوپر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے تو پاکستان کے لوگ یہ
یقین کرنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ کہیں نہ کہیں کوئی ”ڈیل“ ایک بار پھر
کارفرما ہے۔ جہاں تک تعلق ہے میمو گیٹ سکینڈل کا تو یہ بات بھی اظہر من
الشمس ہوچکی ہے کہ امریکہ بھی صدر سے شدید ناراض ہے کیونکہ اس میں کوئی دو
رائے نہیں ہیں کہ منصور اعجاز کس کا ”بندہ“ ہے، وہ بندہ جو دن رات پاک فوج
اور آئی ایس آئی کے خلاف ہرزہ سرائی کرتا ہو اس کو کیا مصیبت تھی کہ ایک
ایسا معاملہ کھولے جس سے فوج اور آئی ایس آئی کو حکومت پر چڑھ دوڑنے کا
موقع مل جائے یہاں تک کہ یہ الزام بھی لگ چکا ہے کہ دو مئی والے ایبٹ آباد
والے واقعہ کا بھی صدر زرداری کو پہلے سے علم تھا، کچھ لوگ تو میاں صاحب کے
سپریم کورٹ جانے کو بھی مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں کیونکہ انہوں نے خود
حکومت کو دس دن دئے تھے لیکن چوتھے ہی روز سپریم کورٹ پہنچ گئے لیکن اس کا
جواب یہ دیا جاسکتا ہے کہ کوئی ایسا کمیشن جس کی ذمہ داریوں میں فوجداری
تفتیش بھی ہو وہ پارلیمنٹ کی کوئی کمیٹی یا کمیشن کیسے کرسکتا ہے؟ ا س کے
لئے ضروری تھا کہ پروفیشنل تفتیشیوں کو ہی یہ کام سونپا جائے، ویسے میرا
ایک دوست یہ بھی کہتا ہے کہ یہ کام پنجاب پولیس کے کسی سب انسپکٹر کے حوالے
کردیا جائے اور سارے ملزم بھی اس کے سپرد کردئے جائیں تو چند گھنٹوں میں
دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکتا ہے۔
پیپلز پارٹی کی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق صدر زرداری ستائیس دسمبر سے
پہلے پہلے ضرور وطن واپس آئیں گے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ معاملہ اتنا سیدھا
اور سادھا بھی نہیں ہے۔ اگر سپریم کورٹ میں انیس دسمبر تک فوج اور آئی ایس
آئی نے کوئی ایسا موقف اختیار کرلیا جس کے مطابق میمو گیٹ سکینڈل سچ ہے
اوراس معاملے میں صدر بھی حسین حقانی کے پیچھے موجود تھے تو شائد وہ کم از
کم ستائیس دسمبر 2011 کو تو وطن میں نہیں ہوں گے کیونکہ پیپلز پارٹی کے
ذرائع نے بھی ستائیس دسمبر 2011 نہیں کہا بلکہ صرف ستائیس دسمبر کہا ہے۔
ویسے بھی اب پیپلز پارٹی کو اگر سیاست میں پھر جادو گری دکھانی ہے تواسے
سیاسی شہادت درکار ہوگی ورنہ تو لوگ پہلے ہی بہت تنگ آچکے ہیں۔ اب یہاں ایک
آئینی سوال اٹھتا ہے کہ کتنا عرصہ صدر ملک سے باہر اس طرح کی صورتحال میں
رہیں تو وہ صدر رہ سکتے ہیں یعنی آئینی طور پر ایک منتخب صدر کتنا عرصہ ملک
سے باہر رہ سکتا ہے کہ وہ ملک سے باہر بھی رہے اور ملک کا صدر بھی رہ سکے،
اس سوال کا جواب بھی شائد سپریم کورٹ سے مانگا جائے گا اور سب جانتے ہیں کہ
کچھ لوگ فٹافٹ سپریم کورٹ جانے کو اپنی فتح سے تعبیر کرتے ہیں۔ ایک صورت یہ
بھی ہوسکتی ہے کہ صدر زرداری اپنی اہلیہ کی برسی پر اسی سال ستائیس دسمبر
سے پہلے وطن واپس آئیں، برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش میں ایک زوردار اور
دھانسو قسم کی سیاسی شہادت والی تقریر کریں اور واپس بیرون ملک سدھار
جائیں، البتہ وہ جاتے جاتے کسی کو استعفیٰ بھی تھما سکتے ہیں۔ بہرحال
ستائیس دسمبر 2011 میں کوئی زیادہ عرصہ باقی نہیں رہ گیا، تو کیوں نہ اس
وقت تک کا انتظار کرلیا جائے، اگر ایک غریب آدمی بیمار ہو ہی گیا ہے تو اسے
سکون سے علاج کرانے دیں، سیاست تو ہوتی ہی رہتی ہے....! |