ہماری نسل کے لوگوں میں شاید ہی
کوئی ایسا ہو جس نے ویرپن کا نام نہ سنا ہو۔کہا جاتا ہے کہ رابن ہڈ کے اس
دیسی اوتار کی حکومت ۶۰۰۰ مربع کلومیٹر کے علاقے پر پھیلی ہوئی تھی ۔ اس سر
پر پانچ کروڑ کا انعام تھا اس کے باوجود ۲۰ سال تک تین ریاستوں کی پولیس
اسے گرفتار نہ کر سکی ۔ اس بیچ اس نے ۱۸۴ لوگوں کا قتل کیا جن میں سے اکثر
یت پولیس کی تھی ویسے کرناٹک سرکار کا ایک وزیر بھی اس کے ہاتھوں مارا
گیا۔بالآخر اسے دھوکے سے زہر دے کر ہلاک کیا گیااور جب گاؤں والے اسے
ہسپتال لے جارہے تھے دو درجن پولیس والوں نےاس کے تین محافظوں پر بزدلانہ
ہلہ ّ بول دیا اور ان پر قابو پانے میں کئی گھنٹے لگے۔یہ ویرپن کی زندگی کا
انسانی پہلو ہے لیکن اس ایک معاشی رخ بھی ہے ۔اس نے ۲۰۰ ہاتھیوں کا شکار
کرکے ان کے دانت اور کھال کی فروخت سےتقریباً ۱۳ کروڑ روپئے کمائے ۔اسی طرح۱۱۳
کروڑ روپئے کی صندل اسمگل کی ۔ کنڑفلمی اداکار راجکمار کواغوا کرکے ۱۰۹ دن
اپنے پاس رکھا اور تین کروڑ کی پھروتی وصول کرنےکے بعد رہا کیا۔ اسی کے
ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ ساری عمر جنگلوں میں مارا مارا پھرتا رہا۔ اسکی
بیوی ایک ننھی سی کرانے کی دوکان چلاتی رہی وہ خود ایک ریڈیو کے علاوہ کسی
جدید سامان ِتعیش سے استفادہ نہیں کر سکا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ
سارا دھن دولت کہاں چلا گیا جو اس نے جمع کیا تھا؟ اس بارے میں مشہور یہ ہے
کہ وہ کسی غار میں پوشیدہ ہے جس کا علم کسی کو نہیں ہے ۔ان ناقابلِ یقین
واقعات کو اس ملک کے کروڑوں لوگ صحیح سمجھتے ہیں اس لئے کہ جو لوگ اس کے
نام پر اپنی تجوریاں بھرتے رہے وہی اس کے محافظ تھے اور وہی اس کے متعلق نت
نئی کہانیا ں گھڑ کر مشہور کردیتے تھے اور سارے لوگ اس پر یقین کر لیتے تھے۔
ایسا صرف ہمارے عظیم ملک ہندوستان میں ممکن ہے ۔ دنیا کے کسی اور حصہ میں
اس طرح کا چمتکاررونما نہیں سکتا لیکن یہاں سب چلتا ہے۔
وہ پولیس جو ویرپن کی تلاش میں برسوں جنگلوں کی خاک چھانتی رہی وہ بہار کے
پورنیہ ضلع میں کھتا ہت گاؤں کے اندر ستر سالہ محمد ایوب کے مکان پر چھاپہ
مار کر ان کے ۱۹ سالہ لڑکے آفتاب عالم کو گرفتار کر لیتی ہے ۔ آفتاب عالم
حافظِ قرآن ہے۔ اس نے دوسال قبل بہار مدرسہ بورڈ سے فوقانیہ یعنی میٹرک کا
امتحان پاس کیا اور اپنے والد کی کرانے کی دوکان پر بیٹھ گیا تاکہ اپنا گھر
چلا سکے ۔ پولیس کا الزام ہے کہ آفتاب عالم نہ صرف دہلی ،ممبئی بلکہ
بنگلور کے بم بلاسٹ میں ملوث ہے۔سوال یہ ہے کہ جو شخص اتنے بڑے شہروں میں
بم دھماکے کرتا پھرتا ہے وہ آخراپنے گاؤں کے اندر معمولی سی دوکان کیا
صرف تفریح کیلئے چلاتا ہے جیسا کہ ویرپن کی بیوی چلاتی تھی اور اس نے بھی
ان بم دھماکوں کے ذریعہ ہاتھ آنے والی دولت کو کسی غار میں چھپا رکھا ہے
اور اگر ایسا ہے کہ وہ دولت کااس کا استعمال ہی نہیں کر سکتا تو آخر اپنی
جان کو جوکھم میں ڈال کر اسے کماتا کیوں ہے؟ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے اگر
وہ خود یہ نہیں کرتا تو وہ کون ہے جو اس کے نام پر یہ سب کرتا ہے ؟ اور وہ
گرفتار کیوں نہیں ہوتا ؟
بہار میں فی الحال مسلم دوست سمجھے جانے والےوزیر اعلیٰ نتیش کمار کی حکومت
ہے لیکن اس کے باوجود آفتاب سے قبل ۵ نوجوانوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے
اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔گرفتار ہونے والوں میں سے دو کو مدھوبنی اور ایک
کو سمستی پور سے گرفتار کیا گیا۔دو نوجوان دہلی اورایک چنئی سے گرفتار ہوا
۔ دہلی پولیس کا الزام ہے کہ آفتاب بہار کے اندر انڈین مجاہدین کو قائم
کرنے میں مصروف تھاجبکہ بچہ بچہ اس بات سے واقف ہے انڈین مجاہدین صرف اور
صرف خفیہ ایجنسیوں کی افترا پردازی ہے ۔ اس کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہے۔اسے
سرکاری دہشت گردی پر پردہ ڈالنے کی غرض سے انتظامیہ نے ایجاد کیا ہے ۔ اس
کو قائم کرنے اور پھیلانے کا کام اگر کوئی کرتا ہے تو وہ صرف اور صرف پولیس
کا محکمہ ہے ۔
اب آفتاب کا آگے چل کر کیا ہوگا؟ اس سوال کا جواب راجھستان میں سامنے
آیا جہاں عدالت نے جے پور دھماکے میں گرفتار ہونے والے ۱۴ میں سے ۱۱
ملزمین کو باعزت بری کر دیا۔ان لوگوں کو ویسے تو بی جے پی کے دورِ اقتدار
میں گرفتار کیا گیا تھا لیکن ایسا نہیں ہے کہ وہاں اقتدار میں آنے والی
کانگریسی سرکار نے انہیں انصاف مہیا کروایا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ڈھائی
سال قبل کانگریسی وزیراعلیٰ اشوک گہلوت نے دہلی کے اندر داخلی تحفظ کے
اجلاس میں بڑے طمطراق کے ساتھ اعلان کیا تھا جے پور میں ہونے والے بم
دھماکے کی سازش کو طشت ازبام کر دیا گیا ہے۔ اس کا رخیر کا کریڈٹ انہوں نے
ریاستی اے ٹی ایس کو دیا ۔انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اس کارروائی میں دہلی
اور اترپر دیش کے نوجوان ملوث تھے نیز راجاتانن کے ایسے لوگوں کو بھی ملزم
پایا گیا ہےجن کا تعلق کالعدم سیمی سے تھا اور وہ اس تحریک کو دوبارہ منظم
کرنے کی کو شش کر رہے تھے ۔ عدالت نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے ان تمام الزمات
کی تردید کر دی کہ ان کا سیمی سے کوئی دور کا بھی واسطہ تھا۔ ڈسٹرکٹ جج
نیپال سنگھ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ یہ نوجوان پوری طرح معصوم ہیں ۔ دہشت
گردی تو درکنار ان کے اوپر لگائے گئے فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے
الزامات بھی بے بنیاد پائے گئے ہیں ۔
اس مقدمے میں رہا ہونے والے سہیل مودی اور اعظم گجدھر نے اخبار نویسوں کو
بتلایاکہ انہیں دوہری ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اول تو اے ٹی ایس والے خوار
کرتے رہے اور اس کے بعد جیل خانے کے اہلکار وں نے بد سلوکی کی۔ان کہنا ہے
کہ ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویہ میں حکومت کی تبدیلی سے ذرہ برابر
فرق واقع نہیں ہوا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی شکست کے بعد بڑے ارمانوں سے ان
کے رشتہ داروں نے کانگریس رہنماؤں سے اس بے بنیادکیس پر نظر ثانی کی گہار
لگائی لیکن مایوسی کے علاوہ کچھ بھی ان کے ہاتھ نہ لگا ۔اشوک گہلوت سے جب
مطالبہ کیا گیا کہ وہ کم از کم بی جے پی کی جانب سے متعین کردہ اے ٹی ایس
کے فرقہ پرست ممبران کو تبدیل کر کے اس کی تشکیل نو کریں تو اس معمولی سی
گزارش کو بھی وزیر اعلیٰ نے ٹھکرا دیا۔ ایسے میں ملزمین کے زخموں پر نمک
چھڑکنے کا کام وزیر داخلہ چدمبرم نے جے پور کا دورہ کر کے کیا ۔انہوں نے ان
معصوموں کے بٹلہ ہاؤس کے فرضی انکاؤنٹر سے جوڑ دیا۔چدمبرم کی احمقانہ
حرکت کا نتیجہ یہ ہوا کہ عیدالفطر کی نماز دیگر قیدیوں کے ساتھ پڑھنے کے
مطالبے پر جیل کے حکام نے انہیں زدوکوب کیا۔ جومسلمان کانگریس پارٹی کو
اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں ان کیلئے اس واقعہ میں سامانِ عبرت ہے ۔ ان
نوجوان نے رہائی کے بعدخود ان کو اور ان کے اہل خانہ کو ہونے والی جسمانی
اور ذہنی اذیت کیلئے وزیراعلیٰ کی جانب سے غیر مشروط معافی کا مطالبہ کیا
ہے۔
قدرت کا انتقام بھی بڑا دلچسپ ہو تا ہے۔ جس بی جے پی ان معصوموں پر جھوٹا
الزام لگایا تھا آگے چل کر اسی کے سینئر رہنما اندریش کمارپر اجمیر بلاسٹ
کیس میں ملوث ہونے کا الزام لگا اوراندریش کے ذریعہ دھماکے کی منصوبہ بندی
کی خاطر گجرات گیسٹ ہاؤس کو مختص کرانے کے شواہدسامنے آئے ۔ اس سے آگے
بڑھ کر رہا ہونے والےملزم سابق وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے اور ان کے وزیر
داخلہ گلاب چند کٹاریہ کے خلاف جھوٹے الزامات مں پھنسانے کا مقدمہ دائر
کرنے جارہے ہں ۔ یہ یناً حوصلہ افزا پشض رفت ہے ۔ اور تو اور جس پولیس
افسرنے اعظم گجدھر کو گرفتار کرنے احکامات جاری کئے وہ خود ایک فرضی
انکاؤنٹر میں جیل کی چکی پیس رہا ہے۔ جیل کے اندر جب اسکی ملاقات اعظم سے
ہوئی تو اس نے اعتراف کیا کہ ریاستی حکومت کے ایماء پر کارکردگی اور نتائج
دکھلانے کا زبردست دباؤ تھا جس کے چلتے اس نے انکاؤنٹر کیا اور خود پھنس
گیا۔ یہی گجرات میں بھی ہوا مودی کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے گجرات اے ٹی
ایس کے افسران نے عشرت جہاں ، سہراب الدین اور نہ جانے کتنے بے گناہوں
مسلمانوں پر آئی ایس آئی اور انڈین مجاہدین سے متعلق ہونے کا الزام لگا
کر ہلاک کر دیا ۔ہر انکاونٹر کے بعد یہ دعویٰ کیا جاتا کہ یہ مودی کو ہلاک
کرنے کی سازش تھی تاکہ ہندو رائے دہندگان کی نظروں میں نریندر مودی
کااحترام بڑھایا جاسکے۔اور مودی خوش ہو کر ان کی ترقی کرے اور انہیں انعام
و اکرام سے نوازے۔اس میں شک نہیں کے مودی نے ان سفاک قاتلوں کی ایک وقت خوب
پذیرائی بھی کی لیکن جب وہ ایک ایک کرکے پھنسنے لگے تو مودی نے اپنی چشمی
طوطی آنکھیں پھرلیں اور انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ٹھونس دیا۔
راجستھان مسلم فورم کی جانب سے ان نوجوانوں میں سے ہر ایک کو ۲۵ لاکھ روپئے
ہرجانہ ادا کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے ۔اس بات کا قوی امکان ہے کہ
کانگریسی حکومت اس مطالبے کو پورا کرنے پر راضی ہو جائے لیکن اہم بات یہ ہے
کہ ہر جانے کی رقم آخر کہاں سے آئیگی ؟اس بارے میں آندھرا پردیش کی
کانگریسی حکومت نے مکہ مسجد بم دھماکے کے مقدمے سے بری ہونے والے کی خاطر
جوشرمناک طریقۂ کاراختیار کیا ہے اس میں گہلوت کیلئے مشعل راہ ہے
۔ہندوستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد واقعہ ہے جبکہ پولس کےمظالم کا شکار
ہونے والے مظلومین کی خاطر حکومت نے ۷۰ لاکھ روپئے ادا کرنے کا فیصلہ
کیا۔ان نوجوانوں کو مکہ مسجد دھماکے کے لئے موردِ الزام ٹھہرا کر گرفتار
کیا گیا تھاجس کے ڈانڈے آگے چل کر ہندو دہشت گردوں سے جا ملے۔ وزیر اعلیٰ
کرن کمار ریڈی کو اپنی حکومت بچانے کی خاطر مجلسِ اتحاد المسلین کی حمایت
درکار تھی سو انہوں نے اقلیتوں کے فلاحی ادارے کی جانب سے مذکورہ رقم کی
ادائیگی کا اعلان کیا جو ۷۰ افراد کو دی جائیگی۔۲۰ لوگوں کو فرداً فرداً
تین لاکھ اور بقیہ ۵۰ لوگوں کے حصے میں بیس ہزار فی فرد۔
اس ہرجانے کی ادائیگی کا مطالبہ اقلیتی کمیشن گزشتہ ایک سال سے کر رہا تھا۔
کمیشن نے یہ سفارش بھی کی تھی کہ رقم ان پولیس اہلکاروں کی تنخواہ میں ادا
کی جائیں جو اس ظلم و زیادتی کیلئے براہ ِراست ذمہ دار ہیں لیکن حکومت اس
کے اپنے اشاروں پر کام کرنے والے اہلکاروں کی تنخواہ میں کٹوتی کی جرات
کیسے کر سکتی ہے نیز وہ اسکی اپنی نظر میں اس فضول خرچی کیلئے سرکاری خزانے
پر کیونکر بوجھ ڈال سکتی ہے اس لئے اربا بِ حل و عقد نے ایک نادر ترکیب
نکالی۔ اس رقم کی دائیگی کیلئے مکہ مسجد اور شاہی مسجد کے باغات کی خاطرجو
رقم مختص کی گئی تھی اس میں کٹوتی کر دی گئی ہے اور سرکاری حکم نامے میں
اسے اعتماد بحالی کی سعی قرار دے دیا ۔گویا حکومت کااعتماد مسلمانوں میں
بحال کرنے کی قیمت خود مسلمانوں کی جیب سے ادا کی جارہی ہے ۔ ریاست کے چیف
سکریٹری ڈاکٹر محمدعلی رفعت نے جوصفائی پیش کی اس نے کام اور خراب کردیا۔
انہوں نے فرمایا یہ صرف ضابطے کی کارروائی ہے اور اسکی ضرورت اس لئے پیش
آئی کہ اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے شعبے کے پاس کوئی رقم موجود ہی نہیں ہے
گویا مسلمانوں کو کو بے وقوف بنانے کیلئے ایک شعبہ قائم کر دیا گیا اور اس
کو کوئی رقم فراہم نہیں کی گئی جس سے کوئی کام ہو سکے۔ کانگریس پارٹی کی
منافقت کے بے شمار شواہد میں یہ ایک منفرد اضافہ ہے۔
یہ ایک تحقیق طلب موضوع ہے کہ کیا کانگریس پارٹی مسلمانوں کو احمق سمجھتی
ہے یا خود بے وقوف ہے ۔ممکن ہے یہ دونوں باتیں صحیح ہوں لیکن ایک بات ضرور
سچ ہے کہ مسلمان بے وقوف نہیں ہیں۔ فی الحال راہل گاندھی اتر پر دیش کی خاک
چھان رہے ہیں تاکہ وہاں کی خاک سے اپنے سر کا تاج بنائیں۔ انہیں اس بات کا
شدید احساس ہے کہ اس یوپی میں مسلمان ۱۸ فیصد سے زیادہ ہیں اس لئے وہ انہیں
رجھانے کی خاطر ریزرویشن کا مدعا اچھا ل رہے ہیں۔ مسلمان جانتے ہیں کہ اس
پارٹی اور حکومت کی نیت میں فتور ہے اس لئے وہ اس سے کوئی بڑی توقع نہیں
کرتے لیکن وہ اپنے اوپر ہونے والی ظلم و زیادتی اور ناروا سلوک کو آسانی سے
نہیں بھولتےاور جب ظالم کو سزا دینے پر آتے ہیں تو نہ اپنا فائدہ اور نہ
نقصان دیکھتے ہیں ۔ دراصل مسلم سیاسی رہنماوں میں اور مسلم عوام کی نفسیات
میں بہت بڑا فرق ہے ۔ اول الذکر مصلحت کوش طبقہ ہے جس نے اپنے مفادات کو
اہلِ اقتدار سے وابستہ کر رکھا ہے اور موخر الذکر اس کمزوریوں سے مبرا ہے ۔
اس لئے اگر سیاسی جماعتوں کے رہنما اپنے آس پاس پائے جانے والے سیاسی
پیادوں پر عوام کا قیاس کرتے ہیں اور ان کو بھی ان مفادپرستوں سے مشابہ
سمجھتے ہیں تو یہ ان کی فاش غلطی ہے ۔مسلم عوام اپنی بیدار مغزی کا مظاہرہ
اس سے قبل کئی مرتبہ کر چکے ہیں۔انہوں نے اپنے روایتی رہنماؤں سےکئی بار
بغاوت کی ہے اور انہیں دھول چٹائی ہے۔
وطنِ عزیز میں فی الحال ریزرویشن سے اہم مسئلہ انسانی حقوق کی پامالی کا ہے
جس کی سب سے اونچی قیمت ملک کی سب سے بڑی اقلیت چکاتی ہے ۔ ابھی حال میں
ہندوستان کے اندر حقوقِ انسانی کی صورتحال پر کام کرنے والے اقوام متحدہ کے
نامزد کردہ ایک گروپ نے اپنی مایوس کن رپورٹ جاری کی ۔اقوامِ متحدہ کے اندر
ہر ملک کی چار سالہ رپورٹ پیش کی جاتی ہے اور اس بحث و مباحثہ ہوتا ہے۔
ہندوستان پر رپورٹ مئی ۲۰۱۲ ء میں پیش ہوگی۔اس گروپ کے کنونئیر میلون
کوٹھاری کے مطابق ہندوستان کوحقوقِ انسانی کے حوالے سے اپنے قومی و بین
الاقوامی عہدوپیمان کو نبھانے کیلئے معاشی،تحفظ اور سماجی پالیسی میں
انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے ۔ انسانی حقوق کے شعبے میں کام کرنے والی
معروف قانون داںورنداگرور نے متنبہ کیا کہ گزشتہ چار سالوں میں سماجی و
معاشی شورش ا ور سیاسی اختلافات کا مقابلہ کرنے کیلئے سخت گیر قوانین وضع
کئے گئے اور حفاظتی دستوں کی تعیناتی میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے ۔ یہ
اضافے اب کشمیر یا شمال مشرق تک محدود نہیں رہے بلکہ وسطی ہندوستان کے کیر
علاقے بھی اسکی زد میں آئے ہیں۔ ان تمام علاقوں میں انسانی حقوق کی پامالی
سےنہ صرف صرفِ نظر کیا گیا بلکہ اسے حق بجانب ٹھہرایا گیا ہےجس کے باعث
عوام الناس کا نظامِ انصاف اور انتظامیہ کے اوپر سے اعتماد اٹھتا جارہا ہے
۔
محترمہ گروور کے خیال میں موجودہ کشمکش میں فوجی حکمت عملی ہندوستان کے
اقوام متحدہ میں کے اندرا ختیار کئے جانے والے اس موقف کے خلاف جس میں کہا
گیا تھا کہ ہمیں کسی مسلح بغاوت کا سامنا نہیں ہے ۔گروور کا کہنا ہے
ترقیاتی منصوبوں کو بروئے کار لانے کیلئے فوجی طاقت کو استعمال حکمت عملی
اختیار کی جارہی ہے ۔ دولت مشترکہ کے ایما پر انسانی حقوق کیلئے کام کرنے
والے ادارے کے سربراہ ماجا دارووالا کا کہنا ہے کہ ہمارے ادارے فی الحال
مایوسی کا شکار ہیں اور عوام کی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام ہورہے ہیں۔
ہماری پولس کو اصلاح کی سخت ضرورت ہے۔عدالت اور مختلف کمیشنوں کو زیادہ جوش
و ولولہ ،ذمہ داری اور جوابدہی کا احساس درکار ہے ۔ ہرموقع پر اصلاح کو ٹال
دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہزاروں حادثات رونما ہوتے ہیں اور انکی بنیاد پر
ہم قوم کی تعمیر کا کام نہیں کر سکتے۔ جاما درووالا نے جس ادارہ جاتی خستہ
حالی پراپنی تشویش کا اس کی تصدیق کولکتہ میں نجی ہسپتال کے اندرلگنے والی
آگ کی واردات سے ہوتی ہے ۔ اس حادثےمیں مرنے والوں کی تعداد ۱۰۰ کو چھورہی
ہے ۔ آگ پر قابو پانے میں پانچ گھنٹے لگے اورمریضوں کو بچانے کیلئے گھسیٹ
کرباہر لاناپڑا۔
۱۲ دسمبر کو انسانی حقوق کا عالمی دن ساری دنیا میں منایا گیا اس موقع پر
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق کی کمشنر ناوی پلے نے 2011ء کو اس
حوالے سے ایک غیر معمولی سال قرار دیا۔اقوام متحدہ کے ادارے برائے انسانی
حقوق کی کمشنر ناوی پلے کے بقول رواں سال کے دوران متعدد ملکوں میں عوام نے
اپنے حقوق کی خاطر سڑکوں پر احتجاج کیا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے متعدد
ممالک میں عوام کا جمہوریت کے لیے اٹھ کھڑا ہونا انسانی حقوق کی بحالی کی
سمت ایک مثبت پیش رفت ہے۔ناوی پلے نے اس تناظر میں خاص طور پر شمالی افریقہ
اور مشرقی وسطی ٰکا ذکر کیا۔ انہوں نے اعتراف کیامسلم دنیا کی ہوا بعد ازاں
ایک مختلف انداز میں میڈرڈ، نیویارک، لندن اور دیگر شہروں میں بھی پہونچی
اور وہاں بھی مظاہرےدیکھنے میں آئے۔گویا اس بار مسلم عوام نے اس باب میں
باقی دنیا کی رہنمائی کی ۔ پلے کہتی ہیں کہ عوام نے انسانی حقوق کی قرارداد
کے مطابق خوف سے نجات اور ہنگامی صورتحال سے آزادی کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ قابل غور حقیقت ہے کہ محترمہ ناوی پلے کا تعلق ہندوستان سے ہے اور انہوں
نے دنیا بھر کا جائزہ لیا لیکن ہندوستان کے بارے میں کسی بھی قسم کا مثبت
یا منفی تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔یہاں بابا رام دیو اور اناہزارے کی تحریک
کے ساتھ کیا معاملہ ہوا۔نکسلوادی رہنما کشن جی کو غیرقانونی طریقے سے ہلاک
کرکے کس طرح اس کا جشن منایا گیا اس کا کوئی ذکر نہیں کیا۔بھرت پور دیگر
علاقوں میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات میں کس طرح مسلمان ہندو دہشت
گردوں اور پولیس کے درمیان پس کر رہ گئے اس بارے میں بھی وہ خاموش رہیں
سوائے ایک نہایت محتاط عمومی مشاہدے کے جس اطلاق بالواسطہ ہندوستان پر بھی
ہوتا ہے ۔ناوی کہتی ہیں "اس سال کے دوران بہت سے ممالک میں حقائق اندازوں
کے برخلاف بھی نکلے ہیں۔ غیر سرکاری تنظوہنں اور حکومتی موقف میں زمین
آسمان کا فرق سامنے آیا ہے۔ اس صورتحال میں انسانی حقوق کی کونسل کے باعث
ایسے ممالک کے سرکاری اہلکاروں پر دباؤ میں اضافہ ہوا ہے"ان ممالک کانام
بھی اگر لے لیا جاتا تو شاید ہندوستان کا نامِ نامی اس میں ضرور آتا۔ |