کشمیر فال ----- ڈھاکہ فال

اولیاءکرام کے واقعات میں تحریر ہے کہ حضرت شیخ ابوالحسن ؒ کے والد ماجد رنگ ریز تھے ان کی یہ خواہش تھی کہ آپ بھی یہ ہی کام سیکھ لیں تاکہ ان کا ہاتھ بٹاسکیں حضرت شیخ ابوالحسن ؒ کو اس کام سے کوئی رغبت نہ تھی بلکہ آپ ہر وقت صوفیاءکرام کی مجالس میں شریک رہتے اور فارغ وقت میں بھی اللہ کی عبادت کرتے رہتے آپ کو اللہ تعالیٰ نے بہت بلند مرتبہ عطافرمایا آپ کا مزار مصر میں ہے ۔

ایک مرتبہ آ پ کے والد صاحب نے آپ سے کہا مجھے ایک بہت ضروری کام ہے تھوڑی دیر بعد واپس آجاﺅں گا مگر کچھ کام بہت جلدی کا ہے یہ کپڑوں کا ڈھیر پڑاہے ان کو رنگ دینا ۔

آپ اپنے والد صاحب کے جانے کے بعد نماز نفل اداکرنے میں مصروف ہوگئے جب آپ کے والد صاحب واپس آئے تو انہوں نے دیکھا کہ کپڑے اسی طرح پڑے ہیں یہ دیکھ کر انہیں بہت غصہ آیا اور وہ آپ پر سخت ناراض ہوئے آپ نے والد صاحب کے ناراضگی دیکھی تو تمام کپڑے اُٹھاکر ایک رنگ والے گڑھے میں ڈال دیئے یہ دیکھ کر آپ کے والد صاحب کا غصہ اور بھی بڑھ گیا کیونکہ دوکان میں ہر رنگ کا علیحدہ گڑھا بنا ہوا تھا اور آپ نے تمام کپڑے ایک رنگ والے گڑھے میں ڈال دیے تھے وہ غصے سے بولے تم نے سب کپڑوں کو ضائع کر دیاہے ہر کپڑے کو الگ الگ رنگ میں رنگنا تھا اب میں لوگوں کو کیا جوا ب دوں گا ۔

حضر ت ابوالحسن ؒ نے یہ سن کر اپنا ہاتھ گڑھے میں ڈال کر سب کپڑے باہر نکال دیے آپ کے والد صاحب یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ہر کپڑا اسی رنگ میں رنگا ہوا تھا جس کی خواہش کپڑے کے مالک نے کی تھی آپ کی یہ کرامت دیکھ کر آپ کے والد محترم نے آپ کو اپنے حال پر چھوڑدیا اور راہ ِ تصوف کے لیے آزادکردیا۔

قارئین 16دسمبر 1971ءوہ منحوس دن ہے کہ جس دن اپنوں اور بیگانوں کی سازشوں کے تحت پاکستان دولخت کیاگیا خطہ زمین پر دنیا کی سب سے بڑی اور واحد نظریاتی اسلامی مملکت کو دوٹکڑے کرنے میں جہاں ہمارے ازلی دشمن بھارت نے کھل کر اپنا کام کیا وہاں کئی دوستی کے دعویداروں نے زبان سے تو دوستی کے نغمے گائے لیکن حقیقت میں پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ان دوست نما دشمنوں میں سرفہرست انکل سام تھے مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی ،بھارتی ایجنٹوں کے ساتھ ساتھ مختلف ممالک کی فورسز بھی ملوث تھیں افواج پاکستان اس وقت چومکھی جنگ لڑرہی تھیں کئی دنوں بلکہ کئی ہفتوں تک بین الاقوامی اور قومی میڈیا پر یہ خبریں چلتی رہیں کہ مشرقی پاکستان گھری پاکستانی فوجوں کی مدد کے لیے انکل سام کا ”ساتواں بحری بیڑا “روانہ ہوچکاہے اور پہنچنے ہی والاہے شب وروز گزرتے گئے اور 16دسمبر کا وہ منحوس دن آپہنچاکہ جب جنرل نیازی نے 90ہزار سے زائد پاکستانی فوجیوں سمیت ہتھیار ڈال دیئے یہاں پر ہم ایک تاریخی حقیقت رقم کرتے چلیں کہ ہتھیار ڈالنے والے فوجیوں کی تعداد کا ذکر تو ہر مورخ نے کیا لیکن ان گمنام ہوجانے والے پاکستانی فوجی مجاہدوں کا ذکر کرنا ہم بھول گئے کہ جنہوں نے ہتھیار ڈالنے کا حکم ماننے سے انکار کردیا اور عزت اور غیرت والی شہادت کو بے عزتی اور بے غیرتی والی زندگی پر ترجیح دی اور ٹیپو سلطان شہید ؒ کے اس قول پر عمل کیا کہ ”شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے “

یہ فوجی مجاہد گمنام ہوکربھی امر ہوگئے اور انہوںنے اس وطن کی خاطر اپنی جان قربان کردی ۔

قارئین اس حادثے کی وجوہات جاننے کے لیے حمود الرحمن کمیشن قائم کیاگیا اس کمیشن نے اس حادثے کی مکمل تحقیقات کرنا تھیں اور طے کرنا تھا کہ ڈھاکہ فال کا ذمہ دار کون ہے آج 30برس گزر چکے ہیں لیکن مجرموں کو عوام کے سامنے بے نقاب نہیں کیاگیا ڈھاکہ فال کے حادثے پر صرف پاکستانی نہیں بلکہ پورا عالم اسلام رویا اس حادثے کے بعد پاکستان میں ذوالفقارعلی بھٹو شہید کو اقتدار ملا او روہ اس حالت میں کہ پاکستان دولخت ہوچکاتھا ،90ہزار سے زائد پاکستانی فوجی بھارت کی قید میں تھے ،پورا پاکستان نفسیاتی شکست خوردگی کا شکار تھا اور کوئی بھی اس بات کی ضمانت دینے کے لیے تیار نہ تھا کہ یہ بچا کھچا پاکستان کتنے دن تک اپنے وجود کو برقرار رکھ پائے گا ذوالفقارعلی بھٹو نے اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ بصیرت او رذہانت کو استعمال کرتے ہوئے بھارت سے اپنے فوجی بھی رہا کروائے ،1974ءمیں بھارت کی طرف سے شروع کیے جانے والے ایٹمی پروگرام کے جواب میں فخر ملت اسلامیہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ڈویلپ کرنے کے لیے زمہ داریاں دیں ،اسلامی سربراہی کانفرنس کروائی ،ملک کو پہلا آئین دیا ،قادیانیوں جیسے انتہائی خطرناک لوگوں کو غیر مسلم قرار دیا اور ایسے ان گنت کارنامے انجام دیے کہ دوست دشمن سب ان کی تحسین کرنے پر مجبور ہوگئے ۔

قارئین یہ ذوالفقارعلی بھٹو ہی تھے کہ جنہوںنے سلامتی کونسل میں گزشتہ حکومت کے دوران ولولہ انگیز تقریر کرتے ہوئے کاغذات پھاڑ کر ہوا میں پھینک دیے اور تاریخی جملہ اداکیا کہ ”ہم کشمیر کی آزادی کے لیے ہزار سال جنگ لڑیں گے “یہ تو وہ پس منظر ہے کہ جوہم نے آج کے موضوع کے حوالے سے آپ کے سامنے بیان کیا ذوالفقارعلی بھٹو کو جنرل ضیاءالحق نے پھانسی پر لٹکا دیا اور دس سالہ فوجی دور کے بعد بینظیر بھٹو کو اقتدار ملا بینظیر بھٹو کے اس دور حکومت میں بھارتی پنجاب میں سکھوں کی تحریک آزادی کو کچل کررکھ دیا گیا اور سیاسی مخالفین کا یہ کہنا ہے کہ پاکستان کی اس وقت کی حکومت نے بھارت کو ان سکھوں کی فہرستیں فراہم کیں جو بھارت کے لیے درد سر بنے ہوئے تھے خیر ہم الزامات اور انکے جوابات کی تفصیل میں نہیں جاتے بینظیر بھٹو کے بعد میاں محمد نواز شریف کو اقتدار ملا اور اس کے بعد ایک ایک بار ان دونوں کو دوبارہ حکومت ملی ۔2000ءتک ”تحریک آزادی کشمیر “اسی زور اور شدومد کے ساتھ جاری رہی جس کا اعلان ذوالفقارعلی بھٹو نے اقوام عالم کے سامنے شیر کی طرح دھاڑ کرکیا تھا کہ
”ہم کشمیر کی آزادی کے لیے ہزار سال تک جنگ لڑیں گے “

”بلی مارکہ کمانڈوطبلے والی سرکار “جناب جنرل مشرف نے پہلے تو 9/11کے بعد امریکی دھمکیوں ،لالچ اور دیگر کئی خواہشات کی پیروی کرتے ہوئے پاکستان کی افغان پالیسی رول بیک کی اور اس کے بعد ایسا بیک گئیر لگایا کہ تمام قومی معاملات پر ”سب سے پہلے پاکستان “کا جھوٹا اور دھوکا دینے والا ٹھپہ لگاکر ہر قومی ایشوکو ابہام میں ڈال دیا اور حتی کہ فلک نے وہ دن بھی دکھایا کہ یوں لگا کہ جیسے ”ڈھاکہ فال “کے بعد ”کشمیر فال “بھی ہوچکاہے جنرل مشرف نے وہ کام کیے کہ پوری دنیا میں آباد کشمیری تڑپ اٹھے اور حتیٰ کہ برطانوی ہاﺅ س آف لارڈز کے پہلے تاحیات مسلمان رکن لارڈ نذیر احمد بھی یہاں تک کہنے پر مجبور ہوگئے کہ جنرل مشرف نے کشمیر پالیسی کو وہ نقصانات پہنچائے ہیں کہ ان کا ازالہ ناممکن ہے ۔

قارئین آج ڈکٹیٹر مشرف کو ملک سے گئے تین سال سے زائد عرصہ گزر چکاہے ”جمہوریت ہی سب سے بڑا انتقام ہے “کا دل کش نعرہ لگانے والے اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے ہیں پاکستان پیپلزپارٹی کے ان لوگوں کو اقتدار ذوالفقارعلی بھٹو اور بینظیر بھٹو کے خون کے صدقے ملاہے کشمیر کے نام پر بننے والی پاکستان پیپلزپارٹی کشمیر کو بھول چکی ہے اور آج ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کے قاتل بھارت کو ”موسٹ فیورٹ نیشن “کا اعزاز دیاجاچکاہے کشمیری آج سمجھ رہے ہیں کہ ان کا بڑا بھائی ان سے دست کش ہوچکاہے بقول غالب

دیاہے دل اگر اس کو بشر ہے کیاکہیے
ہوا رقیب توہو ،نامہ بر ہے کیاکہیے
زہے کرشمہ کہ یوں دے رکھاہے ہم کو فریب
کہ بن کہے ہی انہیں سب خبر ہے کیاکہیے
تمہیں نہیں ہے سر ِ رشتہ وفا کا خیال
ہمارے ہاتھ میں کچھ ہے مگر ،ہے کیا؟کہیے
کہاہے کس نے کہ غالب برانہیں لیکن
سوائے اس کے کہ آشفتہ سر ہے کیاکہیے

قارئین کشمیری پاکستان سے ایمان کی حد تک محبت رکھتے ہیں لیکن یہ بھی کوئی بات نہیں کہ سیاسی اختلافات اور دشمنیاں اس حدتک بڑھ جائیں کہ تحریک آزادی کشمیر کے لیے سب سے بلند آواز رکھنے والے لارڈ نذیر احمد کو تو آزادکشمیر کی مجاوروں کی حکومت ”ناپسندیدہ شخصیت “قرار دے دے اور ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے بھارت کو ”موسٹ فیورٹ نیشن “قراردے دیاجائے بقول شاعر

آپ خود اپنی اداﺅں پہ زرا غور کریں
ہم جو کچھ عرض کریں گے تو شکایت ہوگی

ڈھاکہ فال کے بعد کشمیر فال کی طرف کے سفر کو روکا جائے یہی ہماری درخواست اور دکھے دل کی التجا ہے ۔

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک کرایہ دار گھر دیکھنے کے لیے آیا تو ہمسائے میں رہنے والے صاحب اسے کہنے لگے ”یہ گھر بالکل نہ لیجئے گا یہاں صرف گدھے رہ سکتے ہیں “کرایہ دار نے حیران ہوکر پوچھا آپ کو کیسے پتہ چلا ؟
وہ صاحب اطمینان سے کہنے لگے
”جناب میں خود اس گھر میں تین ماہ رہ چکاہوں “

قارئین یوں لگتاہے کہ موجودہ حکومت اپنے ذہن سے بلکہ اپنے پیش رو جنرل مشرف کے ذہن سے سوچتی ہے ورنہ ذوالفقارعلی بھٹو کے اصلی وارث کبھی بھی کشمیر سے دست بردار نہیں ہوسکتے ۔۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 374463 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More