کشکول اور ہم

اولیائِ کرام کے واقعات میں تحریر ہے کہ ایک شخص حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کی ”یا حضرت میرے حق میں دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ میری غربت اور تنگدستی دور فرما دے۔“
آپ ؒ نے اُس شخص کی جانب ایک نظر دیکھا اور پھر فرمانے لگے۔
”اگر میں تجھ سے یہ کہوں کہ میری نظر اللہ تعالیٰ کے عرش تک پہنچتی ہے تو کیا اس بات کا یقین کر لو گے۔“
وہ شخص بولا یا حضرت بالکل یقین کر لوں گا بلکہ میرا اعتقاد تو آپ پر اس سے بھی زیادہ ہے۔ اس پر حضرت بختیار کاکیؒ نے فرمایا ۔
”اچھا جب تم کو مجھ پر اتنا اعتقاد ہے تو میں تم سے کہتا ہوں کہ چاندی کے وہ 80ٹکے جو تم نے اپنے گھر میں چھپا کر رکھے ہیں پہلے اُن کو خرچ کر لو پھر آکر مجھ سے اپنی غربت کی شکایت کرنا۔“
یہ سن کر وہ شخص بہت شرمندہ ہوا اور اسی حالت میں چپ چاپ وہاں سے واپس چلا گیا۔

قارئین! 1947ءمیں آزادی حاصل کرنے کے بعد سے اب تک پاکستان میں جس چیز نے ہر دورِ حکومت میں دوام اور فروغ حاصل کیا ہے وہ ہے کشکول! یاد رکھئے جو ہاتھ بھیک مانگنے کے لیے ایک مرتبہ غیرت اور خود داری کو ترک کر دیتے ہیں دوبارہ اُن کا اپنی اصلی ڈگر پر واپس جانا مشکل کام ہو جاتاہے۔نواب زادہ لیاقت علی خان کے بعد کے دورِ حکومت میں پاکستان نے انکل سام سے گندم کی امداد لی۔شہاب نامہ کے مصنف قدرت اللہ شہاب تحریر کرتے ہیں کہ انہوں نے جب یہ سنا کہ کراچی بندرگاہ پر بحری جہاز سے یہ گندم اتارنے کے بعد اُونٹوں پر لاد کر اُن کے گلے میں ”تھینک یو امریکہ“ کے بورڈ لگا کر پبلسٹی سٹنٹ کیا جائے گا تو انہوں نے اس کی مخالفت کی۔گورنر جنرل غلام محمد نے اس پر قدرت اللہ شہاب کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ ایک تو تم لوگ مانگ کر گندم کھاتے ہواور اوپر سے امریکہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بُرا مناتے ہو۔ اس پر قدرت اللہ شہاب نے برجستہ جواب دیا کہ جناب ہماری خیر ہے لیکن کہیں بے زبان اُونٹ بُرا نہ منا جائیں۔

خیر کشکول کا یہ سفر وہاں سے شروع ہوا اور آج اُس مقام پر آن پہنچا کہ نیٹو فورسز نے پاکستانی افواج پر حملہ کرتے ہوئے 26فوجی شہید کر دیئے۔ اس پر پاکستان نے جب شدید احتجاج کرتے ہوئے نیٹو فورسز کی سپلائی لائن کاٹ دی تو پہلے تو امریکہ نے کسی قسم کا سنجیدہ نوٹس نہ لیا اور اب پینترے بدلتے ہوئے کبھی پاکستان کی منتیں کی جارہی ہیں اور کبھی پاکستان کو دھمکیاں دی جارہی ہیں کہ اگر نیٹو فورسزکی سپلائی بحال نہ کی گئی تو پاکستان سنگین ترین نتائج کے لیے تیار ہو جائے۔پینٹا گون کے اعلیٰ عہدیداران پاکستانی وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر کو سخت سے سخت پیغامات دینے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور افواجِ پاکستان کے سپریم کمانڈر جنرل اشفاق پرویز کیانی اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل شجاع پاشا کی مکمل حمایت اور پشت پناہی کی بدولت حنا ربانی کھر پینٹاگون کے سخت پیغامات کا جواب سخت ترین انداز میں دے رہی ہیں جہاں پر اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا یہ سلسلہ جاری ہے وہیں پر کچھ آوازیں دبے انداز میں یہ بھی بلند ہونا شروع ہو گئی ہیں کہ امریکہ کے ساتھ پاکستان اچھے تعلقات چاہتا ہے، اگر امریکہ اپنا رویہ درست کر لے تو نیٹو سپلائی بحال کر دینی چاہیے ، امریکی امداد کے بغیر پاکستان کا معاشی نظام چلنا ناممکن ہے وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔

قارئین ! یہ آوازیں بلند کرنے والے لوگ وہی ہیں جو کروڑوں پاکستانیوںکے نام پر پوری دنیا میں کشکول لے کر پھرتے ہیں اور جمع ہونے والی بھیک اپنے سویٹزرلینڈ کے بینک اکاﺅنٹس میں جمع کروا کے بغلیں بجاتے پھرتے ہیں۔سمجھ نہیں آتا کہ ایک طرف تو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل یہ رپورٹ شائع کرتی ہے کہ پاکستانی قوم کے ایک سو ارب ڈالر سے زائد کی رقم سوئس بینکوں میں جمع ہے اور دوسری جانب ہمارے حکمران اور بے غیرت پالیسی ساز آج کی بیان کردہ حکایت کے عین مطابق اپنی غربت کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔

ذلالت کی انتہایہ ہے کہ ان لوگوں کو جواب دینے کے لیے نہ تو اپوزیشن اپنا کردا ر اداکرتی ہے اور نہ ہی پاکستانی عوام اس کا دندان شکن جواب دیتے ہیں۔
بقول غالب
کسی کو دے کے دل کوئی نواسنجِ فغاں کیوں ہو
نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زبان کیوں ہو
وہ اپنی خُو نہ چھوڑیں گے، ہم اپنی وضع کیوں بدلیں
سُبک سربن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو
نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تُو غالب
ترے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو

قارئین!میاں محمد نواز شریف کی پچھلی حکومت کے دوران ایک نعرہ لگایا گیا کہ ہم کشکول توڑ کر خود انحصاری اپنائیں گے اور تمام قرضوں سے نجات حاصل کریں گے۔یہ قرضے ادا کرنے کے لیے پوری دنیا میں ایک مہم شروع کی گئی اور تارکینِ وطن پاکستانیوں اور مقامی لوگوں نے مل کر اربوں روپے یہ قرضے اتارنے کے لیے اکٹھے کئے۔آج بھی مسلم لیگ (ن) کے سیاسی مخالفین یہ جائز سوال کرتے ہیں کہ وہ اربوں روپے جو اکٹھے کئے گئے تھے اُن کا آڈٹ عوام کے سامنے پیش کیا جائے کہ وہ رقم کہاں خرچ کی گئی اور کس کا قرضہ اُتارا گیا۔میاں محمد نواز شریف یقینا ایک دیانتدار سیاستدان ہیں لیکن یہ جائز سوال اُن کے سیاسی سفر کے دوران اُس وقت تک اُن کا پیچھا کرتا رہے گا جب تک وہ آڈٹ رپورٹ عوام کے سامنے پیش نہیں کرتے۔

قارئین!یہاں پر ایک اور بڑی دلچسپ بات آپ کے سامنے پیش کرتے چلیں کہ جب سے انکل سام کے ساتھ پاکستان کی دوستی ختم ہوئی ہے تب سے لے کر اب تک ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور پورے پاکستان میں ایک بھی خود کش دھماکہ نہیں ہوا اور ہمارے پیارے وزیرِ داخلہ جناب رحمان ملک نے پورے الیکٹرانک اورپرنٹ میڈیا کے سامنے طالبان کا شکریہ بھی ادا کیا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ طالبان جنگ وجدل چھوڑ کر ہمارے ساتھ مل کر پاکستان کی خوشحالی کے لیے کام کریں۔بقول شاعر
وہ سیاہی جو میرے نامہ اعمال میں تھی
تیری زلف میں پہنچی تو حُسن کہلائی

کل تک جب میاں محمد نواز شریف اور عمران خان طالبان اور قبائیلیوں کو محب وطن پاکستانی قرار دیتے تھے تو یہی رحمان ملک رانا ثناءاللہ اور نواز شریف کے ساتھ ساتھ عمران خان کو بھی القاعدہ اور طالبان کا ساتھی قرار دیتے تھے اور آج یہی رحمان ملک اُنہی طالبان کے ساتھ مل کر پاکستان کی خوشحالی کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں۔
جانے کس کس کی موت آئی ہے
آج رُخ پر کوئی نقاب نہیں

قارئین! یہ بات طے ہے کہ اگر ہم اس خطہ زمین پر عزت کے ساتھ جینا چاہتے ہیں ، اپنے فیصلے خود کرنا چاہتے ہیں، عوام کو خوشحالی کی نعمت سے مالا مال کرنا چاہتے ہیں اور تمام اقوامِ عالم میں عزت اور سرخروئی کے ساتھ جینا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں اپنا کشکول توڑنا ہو گا۔یہ کشکول توڑنے کے لیے ایک لمحہ¿ فیصلہ چاہیے اور اُس کے بعد اُس فیصلے پر ڈٹ جانا ہو گا۔

قارئین ہم نے گزشتہ تین ماہ کے دورانFM93ریڈیو آزادکشمیر سے ڈاکٹر عبد القدیر خان، ڈاکٹر عطاءالرحمان ، عمران خان، لارڈ نذیر احمد، میاں منظور وٹو، خرم جہانگیر وٹو، سردار عتیق احمد خان، سردار عثمان عتیق، راجہ فاروق حیدر خان، سردار سکندر حیات خان،مبشر لون،مسفر حسن، سردار خالد ابراہیم، راجہ مصدق خان، احسن اقبال ، راجہ ظفر الحق، افسر شاہد ایڈووکیٹ، صدیق الفاروق، عبد الرشید ترابی سے لے کر پیپلز پارٹی ، پاکستان مسلم لیگ (ن)، مسلم کانفرنس، تحریکِ انصاف اور تمام قومی جماعتوں کے وزراء، MNAs،ممبران قانون ساز اسمبلی اور رہنماﺅں سے تفصیلی انٹرویوز کئے۔ تمام قیادت میں ایک بات پر اتفاقِ رائے دکھائی دیا کہ وہ اب عزت اور غیرت کے ساتھ اس دنیا میں جینا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے ڈاکٹر عبد القدیر خان، ڈاکٹر عطاءالرحمان اور لارڈ نذیر احمد جیسی معتبر ہستیوں کی خدمات سے استفادہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔یہی آج کی آواز اور ہماری آج کی التجا ہے۔

آخر میںحسبِ روایت لطیفہ پیشِ خدمت ہے۔
ایک ریل گاڑی میں کچھ ڈاکو گھس آئے اور با آوازِ بلند اعلان کیا تمام مسافر اپنا سب کچھ ہمارے حوالے کر دیں۔ایک مسافر چُپ کر کے بیٹھا رہا باقی سب نے اپنا سامان ڈاکوﺅں کو دے دیا۔ ایک ڈاکو اُس خامو ش مسافر کے پاس جا کر کہنے لگا۔ اپنا مال نکالو۔
وہ مسافر منہ پر اُنگلی رکھ کر بولا۔
”بھائی میں گونگا بہرا ہوں مجھے سنائی نہیں دیتا“

قارئین ! ہمیں لگتا ہے کہ بھیک مانگنے والے ہمارے عادی بھکاری لیڈر بھی لفظ غیرت کے معاملے میں گونگے اور بہرے ہیں۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 339573 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More