سقوطِ ڈھاکہ سے سبق سیکھنے کی ضرورت

16دسمبر 1971ءہماری ملکی تاریخ میں سیاہ ترین دن کے طورپر جانا جاتا ہے جب اپنوں کی، غلطیوں، انا پرستی اور عدم برداشت کے رویے نے قائدؒ اور اقبالؒ کے پاکستان کو دولخت کردیا۔ سقوطِ ڈھاکہ نے ہماری قومی حمیت، وقار اور غیرت میں ایسی دراڑ ڈالی جسے شاید ہی پورا کیا جاسکے۔ ہمارا ازلی دشمن قیام پاکستان سے ہی جو زہر ہمارے خلاف پالتا رہا تھا ، اس کی مکارانہ پھنکار نے ہماری پوری قوم پر سکتہ طاری کردیا تھا۔ اصل میں وہ دنیا کے سامنے ثابت کرنا چاہتا تھا کہ برصغیر کے مسلمانوں نے دوقومی نظریئے کی بنیاد پر اپنے لئے علیحدہ مملکت کا جو مطالبہ کیا تھا وہ سراسر غیردانشمندانہ اور غلط تھا۔اسی چیز کو مدنظر رکھ کر وہ روزِ اول سی ہی ہمارے خلاف سازشوں کے جال بن رہا تھا اور ہماری کمزوریوں پر نظر جمائے بیٹھا تھا۔ جنگ ستمبر1965ءمیں اس نے ہماری سرحدوں پر پہلا وار کیا تو ہماری دلیر افواج اور بہادر قوم اس کے سامنے ڈٹ گئی۔ اس جنگ میں ذلت آمیز شکست کے بعد بھارتی قیادت کی سوچ میں واضح تبدیلی پیدا ہوئی کہ پاکستان کو طاقت سے شکست نہیں دی جاسکتی بلکہ مکارانہ سازشیں ہی اس کے لئے زہر قاتل ثابت ہوسکتی ہیں۔ اسی چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے پاکستان میں سازشوں کے جال بننے کے لئے ایک وسیع نیٹ ورک ترتیب دیا۔ اس نے مشرقی پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ اپنے تربیتی کیمپ قائم کئے جہاں مشرقی پاکستان کے نوجوانوں کی برین واشنگ کی جاتی اورا نہیں اسلحہ و پیسہ فراہم کیا جانے لگا۔ ان نوجوانوں کی مسلح علیحدگی پسند تنظیمیں بنائی گئیں جن کے ذریعے امن عامہ کی صورتحال میں بگاڑ پیدا کیا گیا۔ ان تنظیموں نے آہستہ آہستہ سول نافرمانی شروع کی اور اس طرح نفرت کا ناسور پھیلتا ہی چلا گیا۔ بھارتی ایجنٹوں نے بنگالی خواتین کی آبروریزی کر کے الزام پاکستانی سپاہیوں پر تھوپنا شروع کردیا۔ جس سے بنگالی حکمرانوں اور فوج سے متنفر ہوتے چلے گئے ۔ ان حالات میں جب صبر و تحمل اور برداشت ہی جیتنے کی کنجی ہو،ہمارے حکمرانوں میں یہ جذبات ناپید ہوگئے۔ وہ غلطیوں پر غلطیاں دہراتے ہی چلے گئے اوربغاوت کی آگ نے بے قابو ہر کر ہمارے آشیانے کے ایک حصے کو ہم سے جدا کردیا۔سقوطِ ڈھاکہ نے ہمارے لئے بہت سے سبق چھوڑے ۔ پہلا سبق یہ کہ جرم ضعیفی کی سزاہے مرگِ مفاجات۔ یعنی ہر وقت اپنے گھوڑے تیار رکھو۔ دوسری یہ کہ اندرونی استحکام، امن اور سب سے بڑھ کر قومی یکجہتی دفاع کو ناقابل تسخیر بنا دیتی ہے۔ بھارت کے ناپاک عزائم کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے اپنے گھوڑے تیار رکھنے کی پالیسی اپنائی اوردفاعی میدان میں خودانحصاری کی منزل حاصل کرلی۔ بھارت نے ایٹم بم بنایا تو پاکستان نے بھی جوابی دھماکے کرکے اس کا غرور خاک میں ملا دیا۔

پھر منزل نامہ تبدیل ہوتا ہے۔ بھارت تو ہمارا ابدی دشمن تھا ہی 9/11کے واقعہ کے بعد امریکی افواج افغانستان اتریں تو ہماری مغربی سرحد بھی غیر محفوظ ہوگئی۔ اس وقت کے حکمرانوں نے پھر ایسی غلطی دہرائی جس کا خمیازہ ہم دہشت گردی، افراتفری، لاقانونیت اور معیشت کی زبوں حالی کی شکل میں بھگت رہے ہیں۔ حتیٰ کہ ہماری سلامتی اور وجود خطرات درپیش ہوگئے۔ دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی اس نام نہاد جنگ نے پاکستان کو پھر مشرقی پاکستان جیسی صورتحال سے دوچار کردیا۔ اس بے چہرہ جنگ نے پاکستان کے چپے چپے کو خون آلود کردیا۔ ہزاروں شہری اور فوجی اس جنگ کی بھینٹ چڑھ گئے۔ امریکہ کی دوستی آہستہ آہستہ دشمنی میں بدلتی گئی۔ مشرف کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد حالات مزید دگرگوں ہوتے چلے گئے۔ 2مئی کو امریکہ نے ایبٹ آباد میں اسامہ ہنٹ آپریشن کے چکر میں پاکستان کی سالمیت کو روندھ ڈالا۔ محب وطن حلقوں نے اس جارحیت کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے بھی بڑا سانحہ قراردیا۔ اس واقعہ نے پاکستان کی فوجی و سیاسی قیادت کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کم ترین سطح کو چھونے لگے۔ سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو کے حملوں جس میں دودرجن کے قریب فوجی افسر اور جوان شہید ہوئے ، پاکستان کی فوجی و سیاسی لیڈر شپ نے سخت موقف اختیار کیا۔ فوری طور پر نیٹو کی سپلائی لائن بند کردی گئی اور شمسی ائر بیس امریکہ سے خالی کروا لیا گیا۔ اب تعلقات ایک ڈیڈ لاک کی شکل اختیار کرتے نظر آرہے ہیں۔ بعض دانشور اورتجزیہ نگار تو یہاں تک عندیہ دے رہے ہیں کہ امریکہ اگلے سال پاکستان پر باقاعدہ حملہ کرنے والاہے۔ دوسری طرف بھارت ابھی تک ہم پر دراندازی اور دہشت گردی کے الزام لگا رہا ہے۔ممبئی حملوں میں وہ مسلسل پاکستان کو دباﺅ میں رکھے ہوئے ہے۔ حتیٰ کہ اس نے سرجیکل اسٹرائیک کی بھی ٹھانی پر اسے ابھی تک ایسا کرنے کی جرات نہیں ہوئی۔

اس منظر نامے کے پیش نظر ہماری سیاسی و عسکری قیادت کو سوچنا چاہئے کہ کہیں ان کی غلطیوں سے ہمیں (خاکم بدہن) مشرقی پاکستان جیسی صورتحال سے دوچار نہ ہونا پڑ جائے۔ دانشمندی کا تقاضا یہی ہے کہ تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے اب تمام فیصلے قومی مفادات میں کئے جائیں۔ امریکہ سے جتنی جلدی ہو جان چھڑا لی جائے۔ فوری نہیں تو بتدریج ایسا ممکن ہے۔ ہم نے نیٹو سپلائی بند کردی، شمسی بیس خالی کروا لیا اسی طرح آگے بڑھا جاسکتا ہے۔ مگر اس کے لئے ہمیں بیرونی امداد کی بجائے خود انحصاری کا اصول اپنانا پڑے گا۔ہمارے لیڈرز کو امریکہ کی بجائے ملک و قوم سے مخلص ہونا پڑے گا۔ ہمیں قومی یکجہتی دلوں میں بسانی ہوگی۔ صوبائیت ، فرقہ واریت اور لسانی تفریقوں میں بانٹنے والوں کے اصل چہروں کو بے نقاب کرنا ہوگا۔ہمیں اپنے دلوں میں جھانک کر یہ دیکھنا ہوگا کہ کہیں ہمارا جذبہ حب الوطنی مانند تونہیں پڑ گیا۔یہاں اس بات کا تعین کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ ہمارے چھوٹے چھوٹے مفادات کیا ہمیں پھر سے اسی راستے پر نہیں لے گئے جس نے ہمیں دولخت کردیا تھا؟ آج سولہ دسمبر ایک تاریک رات نہیں بلکہ ایک مشعل اور ایک دیا ہے جس کی روشنی میں دیکھتے ہوئے ہم اپنی غلطیوں کو تلاش کرکے پاکستان کو اپنوں اور غیروں کی سازشوں سے بچاسکتے ہیں، اپنی آزادی کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔
Ibn-e-Shamsi
About the Author: Ibn-e-Shamsi Read More Articles by Ibn-e-Shamsi: 55 Articles with 34871 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.