قوموں کی زندگی میں بعض اوقات
ایسے واقعات بھی پیش آتے ہیں جو احساسِ شکست بن کر مسلسل انہیں کچوکے لگاتے
رہتے ہیں 16دسمبرکو سقوطِ ڈھاکہ ایک ایسا ہی واقعہ ہے جب ہمارے ازلی دشمنوں
امریکہ،بھارت اور اسرائیل کی مکروہ سازشوں نے وطنِ عزیز کو دولخت کردیاا س
میں شک نہیں کہ پاکستان کی بہادر قوم اور سپاہ نے دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا
جس کا اندازہ ہمیں اس بات سے بخوبی ہوتا ہے کہ 71ء کی جنگ میں افواجِ
پاکستان نے 65ءکی نسبت تین گنا زیادہ نشانِ حیدر حاصل کئے لیکن اِس شکست کی
بڑی وجہ ملک پرجنرل یحییٰ خاں ،جنرل نیازی اورجنرل پیرزادہ جیسے بے غیرت و
بے حمیت لوگوں کی مسلط کردہ آمریت تھی جو شیطانی اتحادِ ثلاثہ کے ہاتھوں
میں کھلونا بن کر پاکستان کے ٹوٹنے کی فکر سے بے نیاز شراب و شباب کی
محفلوں میں غرق تھی۔ذیل میں ہم چند ایسے ہی واقعات کا تذکرہ کررہے ہیں جو
اس حقیقت کو روزِ روشن کی طرح بیان کررہے ہیں کہ جس فوج کے سپہ سالار اس
طرح کی لغویات میں ملوث ہوںوہ فوج کبھی فتح سے ہمکنارنہیں ہوسکتی۔
یہ جنگ کے ابتدائی ایام تھے پاک فوج کے شاہین ہندو بنئے پر جھپٹنے کیلئے
طیاروں پرسوار ہوچکے تھے کہ ا چانک انہیں اعلیٰ کمان کی جانب سے حکم ملا کہ
ابھی آپریشن شروع نہ کیا جائے صدرِ محترم ابھی تھوڑی دیر میں یہاں تشریف
لانیوالے ہیں وہ خود تمام پائلٹوں کو ضروری ہدایات دے کر رخصت کریں گے
چنانچہ تمام پائلٹ طیاروں سے اتر کر صدر صاحب کا انتظار کرنے لگے کافی دیر
گزرنے کے بعدصدر صاحب جب تشریف لائے تو یہ دیکھ کر تمام افسران ہکا بکا رہ
گئے کہ وہ ملک جو چاروں اطراف سے خطرات میں گھراہوااورعین حالتِ جنگ میں
تھااُس کا سربراہ نشے میں دھت ڈگمگاتے قدموں اور لڑکھڑاتے لب و لہجے سے
اپنے جنگجوؤں سے مخاطب تھا ''میرے بچو بھارت پرٹوٹ پڑو اسے تباہ کردو''یہ
کہتے ہوئے صدر صاحب نے زوردار مکا بھی فضا میں لہرایالیکن اِس کے ساتھ ہی
وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکے اور منہ کے بل گر پڑے یہ ہماری عسکری
تاریخ کا ایک بدترین واقعہ تھا جو جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی یہ بتارہاتھا
کہ ہم یہ جنگ ہارجائیں گے ۔اسی طرح یہ واقعہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ جنگ جب
پورے عروج پرتھی ایسے میں اس وقت کے پاکستان مسلم لیگ کے صدر نورالامین
جنگی صورتحال پر گفتگو کیلئے یحییٰ خاں سے ملاقات کرنے ایوانِ صدر پہنچے تو
یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ایوانِ صدر میں جنرل یحییٰ سمیت متعدد افسران
شراب و شباب کی محفل میں مدہوش قہقہے لگانے میں مصروف تھے انہوں نے اس موقع
پر اگرچہ اس مجمعے کو شرم دلانے کی کوشش کی لیکن انہیں ''ہم سب سنبھال لیں
گے''کہہ کر رخصت کردیا گیا۔ایک دفعہ یحییٰ خان کراچی کے گورنر ہاؤس میں
نہارہے تھے ان کے ساتھ حکومت کے کئی اہم عہدیداران اور خواتین کی ایک بڑی
تعداد بھی شامل تھی یہ موج مستی جاری تھی کہ اس دوران ایک خاتون اچانک
تالاب سے نکلی اور بھاگتی ہوئی سڑک پر جاپہنچی یحییٰ خاں نے اس ''گستاخ''کو
سزا دینے کیلئے خود اس کے پیچھے دوڑ لگادی اور آخر کار زیرِ جامہ میں ملبوس
صدر صاحب نے لڑکی کو دبوچ ہی لیا اور کراچی کے بےشمار لوگوں سے اپنی اِس ''فتح''پرخوب
داد بھی پائی قصہ مختصر یہ کہ یحییٰ خان دِن رات نشے میں چور رہتے تھے اور
اسی وجہ سے وہ ملکی معاملات کو چلانے کی صلاحیت سے عاری ہوچکے تھے اور
ہماری شکست کی ایک بڑی وجہ ہماری قیادت کی یہی بدکرداری تھی جس کا ہمارے
دشمنوں نے خوب فائدہ اٹھایا اور ہم پستیوں میں گھرتے چلے گئے حتیٰ کہ اپنا
ایک بازو گنوابیٹھے ۔آج چالیس سال گزرنے کے بعد جب ہم موجودہ حالات کا
جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ آج ایک بار پھر ہم اُسی صورتحال
کا شکار ہوچکے ہیں جیسی 71ءمیں تھی فرق صرف یہ ہے کہ اُس وقت کی قیادت مے
نوشی اور بدکرداری میں غرق ہونے کے باعث امورِ سلطنت پر اپنی گرفت کھو کر
غیروں کے اشاروں پر چلنے پر مجبور تھی تو آج این آر او زدہ زرداری اینڈ
کمپنی کی کرپشن کی داستانیں دنیا بھر میں ا پنا ایک ''خاص مقام ''رکھتی
ہیں۔اس وقت صدر یحییٰ جنگ کے ایام میں اپنے دربارمیں حسن کے جلووں سے محظوظ
ہورہے تھے تو آج جب پاکستان سانحہ ایبٹ آباد اورمیمو سکینڈل سازش سمیت قومی
سلامتی کو درپیش متعدد چیلنجز سے دوچار ہے ایسے میں صدر صاحب اپنے معمول کے
''ٹیسٹس''کروانے کیلئے دوہفتوں سے دوبئی میں تشریف فرما ہیں ۔71ءمیں بھی
امریکہ نے پاکستان کو ساتویں بحری بیڑے کی آڑ میں دھوکہ دیا تو آج بھی ہم
اُسی امریکہ کی گود میں بیٹھے ہیں اور وہ ہمارے ہی فوجی جوانوں کو خاک و
خون میں نہلا رہاہے۔سقوطِ ڈھاکہ کا دلخراش واقعہ امتِ مسلمہ کی تاریخ میں
سقوطِ بغداد اور سقوطِ غرناطہ کے بعدبدترین واقعہ ہے جس نے مستقبل پر بہت
گہرے اور دُوررس اثرات مرتب کئے اگر ہم آئندہ ایسے واقعات سے بچنا چاہتے
ہیں تو ہمیں فوری طور پر امریکی گود سے نکل کر ازادانہ داخلہ و خارجہ
پالیسیاں تشکیل دینا ہوں گی کیوں کہ آج تک پاکستان کو ملنے والے کم و بیش
تمام ہی دکھ واشنگٹن سے ہی ہو کر آتے ہیں اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمیں
بحیثیت قوم اللہ سے گڑگڑا کر معافی مانگنا ہوگی اور اعمال صالحہ کی جانب
راغب ہونا ہوگا اس طرح اللہ تعالیٰ ضرور ہمیں ایسے حکمران بھی نصیب فرمادے
گا جو امریکہ سمیت کسی دنیوی طاقت کے آگے سربسجود ہونے کی بجائے صرف اللہ
کو سپرپاور مانیں گے اور وہی ہمیں غلامی کے اِن اندھیروں سے رہائی بھی
دلائیں گے۔ |