بے چینی اوربے یقینی

وہ شخص نم آنکھوں کے ساتھ اللہ پاک سے شکوہ کررہا تھا کہ دنیا جہاں کے سبھی دکھ میرے مقدرمیں کیوں لکھ دیے ہیں ،شاید ہی اس دھرتی پرکوئی اورمجھ سے زیادہ بدنصیب، رنجیدہ اوردکھوں کاماراانسان ہوگا۔ابھی اس کی گریہ زاری جاری تھی کہ غیب سے آوازآئی اے بندے تم اپنے سارے دکھ اورغم تسلی سے ایک کاغذپرلکھو اورشہرسے باہر ویرانے میں کاغذوں کے ایک ڈھیرپرپھینک کروہا ں سے اپنی مرضی کاایک کاغذاٹھاکرلے آﺅمگرشرط یہ ہے کہ تم وہ کاغذاپنے گھرآکرکھولوگے ۔وہ شخص فوراًمان گیا اورخوشی خوشی شہرسے باہراس ویرانے میں گیا اوراپنے دکھوں والی چٹھی اس نے اس ڈھیرپر پھینک دی اوروہا ں سے ایک کاغذ اٹھالیا اورجب اس نے گھرآکروہ پڑھاتواس کے دکھوں سے کئی گنازیادہ غم اس کاغذ پرلکھے ہوئے تھے ۔ہم انسان کسی حال میں خوش نہیں ہیں۔

ملک میںمحض چہروں کی تبدیلی سے عوام کے دکھوں کامداوانہیں ہوگا،ریلیف کیلئے ملک میں رائج سیاسی ومعاشی نظام اورانتخابات کے طریقہ کارکی تبدیلی ناگزیرہے۔پاکستان کی غالب اکثریت کواس فرسودہ انتخابی نظام پرقطعاًاعتماد نہیں ہے ،ہمارے ہاں صرف اٹھارہ سے بیس فیصدلوگ ووٹ کاسٹ کرتے ہیں۔بابائے قوم ؒ کی وفات کے بعد سے جوبھی سیاسی اورفوجی حکمران اقتدارمیں آیااس نے اپنے پیشروسے بڑھ کرعوام کااستحصال اورلوٹ کھسوٹ کابازارگرم کیا۔اس بات کی کیاضمانت ہے کہ پیپلزپارٹی اوراس کے اتحادیوں کی حکومت ختم ہونے کے بعدجوسیاستدان اقتدارمیں آئے گاوہ قومی بحرانوں سمیت مختلف عوامی مسائل پرفوری قابوپالے گااور ملک میںدودھ اورشہدکی نہریںبہنے لگیں گی۔جولوگ میثاق جمہوریت لے کرآئے تھے انہوں نے ہی اس کومذاق جمہوریت بنادیا۔میثاق جمہوریت میں دوبڑی سیاسی پارٹیوں کے مفادات کاخیال رکھاگیا تھاسو ناکامی اس کامقدر تھی۔پاکستان کے پاس وسائل توبہت ہیں مگرکوئی سچالیڈراور قومی ایجنڈا نہیں ہے۔میاں نوازشریف اورعمران خان کی سیاسی جدوجہدبھی تبدیلی نہیں بلکہ اقتدارکیلئے ہے۔فوج قومی سیاست اورحکومت کے معاملات سے دوررہے اور صرف وہ کام کرے جس کیلئے اس کو ٹرینڈ کیا گیا ہے۔پاکستان کی باگ ڈورچلانے کیلئے سیاستدانوں کومنتخب کرنایااقتدارسے ہٹانا صرف عوام کا حق ہے۔عوام حکومت سے نجات کیلئے سڑکوں پرضرورآئیں مگراپنے روشن مستقبل کیلئے اہل قیادت کاانتخاب کریں۔جوسیاستدان ماضی میں قوم کے اعتماد پرپورانہیں اترے انہیں دوبارہ آزماناحماقت ہوگی۔

ایبٹ آبادآپریشن،میموگیٹ سکینڈل ،مہمندایجنسی چیک پوسٹ پرنیٹوکی جارحیت کے نتیجہ میں پاکستان کے24فوجی جوانوں کی ہلاکت کے باوجودامریکہ کامسلسل معذرت سے انکاراورپھراچانک صدرآصف زرداری کی علالت اورپراسراراندازسے بیرون ملک روانگی اورپیپلزپارٹی کی طرف سے اپنے شریک چیئرمین کی بیماری چھپانے کی منظم کوشش،عدالت عظمیٰ میں میموگیٹ سکینڈل کی سماعت اورجمہوریت کے مستقبل کودرپیش خطرات اورجمہوری قوتوں کے خدشات نے پاکستان میں بڑے پیمانے پربے چینی اوربے یقینی کوجنم دیا ہے۔''آج کیا تازہ اطلاع ہے اورکل کیا ہوگا''یہ وہ سوال ہے جولوگ ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں ۔افواہیں،وسوسے اورشکوک وشبہات کسی بھی ریاست کی معیشت کیلئے زہرقاتل ہیں ۔ہم کسی ماورائے آئین اقدام کی حمایت نہیں کریں گے اورجمہوریت پرشب خون مارنے کی اجازت نہیں دی جائے گی،یہ وہ کلمات ہیں جوان دنوں مادر وطن کی مختلف سیاسی پارٹیوں کی طرف سے مسلسل سنے جارہے ہیں۔ تیسری قوت کے ترجمان بھی خاموش ہیں ،انہوں نے بھی جمہوریت کودرپیش خطرات اورخدشات کی تردیدکرنامناسب نہیں سمجھا،تاہم اس حوالے سے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کی وضاحت''کیانی جمہوریت ختم نہیں کریں گے،ایساہواتوڈٹ کرمقابلہ کیا جائے گا'' ایک سوا لیہ نشان ہے۔میں سمجھتا ہوںپاک فوج اس وقت جس قسم کے چیلنجز سے نبردآزماہے وہ سیاست میں مداخلت کرنے یاحکومت چلانے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔خدارا ہمارے سیاستدان''آبیل مجھے مار''کی گردان چھوڑدیں ۔

صدرآصف زرداری کوکیا بیماری ہے ،اس سے زیادہ لوگ بیماری چھپانے اوراچانک بیرون ملک جانے کی وجوہات تلاش کررہے ہیں ۔صدرزرداری کی بیماری کے بارے میں میڈیاسمیت لوگ اپنے اپنے اندازے لگارہے ہیں مگرایوان صدرکواس رازداری کی سنگینی کااندازہ اورادراک تک نہیں ہے۔مجھے لگتا ہے صدرزرداری علاج کیلئے نہیں ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت بیرون ملک گئے کیونکہ وہاں بیٹھ کرمقتدرقوتوں کے ساتھ رازونیازکرناکافی آسان ہے۔انہیں اپنی صحت نہیں بلکہ پاکستان میں سیاسی صورتحال سنبھلنے کاانتظار ہے۔کیونکہ ایک طرف بتایا جارہا ہے کہ صدرزرداری کی طبیعت سنبھل گئی ہے اوروہ27دسمبر تک وطن واپس آجائیں گے لیکن صدرزرداری کے بقول ''ڈاکٹروں کاقیدی ہوں واپسی کی اجازت نہیں مل رہی''۔صدرزرداری کا مزیدکہنا ہے کہ ''ٹھیک ہوں؛آرٹیکل 47لاگوکیا گیا توایسے دستورکومیں نہیں مانتا''آئندہ منشورکاحصہ ہوگا۔یہ وہی دستورہے جس کوبنانے کاپیپلزپارٹی نے ہمیشہ کریڈٹ لیا۔کیا پیپلزپارٹی کی پاکستان کے ساتھ وابستگی صرف اقتدار کے ساتھ مشروط ہے ۔صدرزرداری نے بینظیربھٹو کی شہادت پر پاکستان نہ کھپے کانعرہ مستردکرتے ہوئے پاکستان کھپے کانعرہ لگا یاتھا اوراس پرانہیں خوب دادملی تھی۔لہٰذا''ایسے دستورکومیں نہیں مانتا'' کی دھمکی ان کے منصب کے شایان شان نہیں ہے۔وہ اس وقت صرف ایک سیاسی پارٹی کے شریک چیئرمین نہیں بلکہ پاکستان کے منتخب اورآئینی صدر بھی ہیں اورپاکستان کے آئین کی روسے منصب صدارت کووفاق کی علامت سمجھا جاتا ہے۔صدرزرداری جذبا تی بیانات سے گریز اورفیڈریشن کی مضبوطی کیلئے اپنا کرداراداکریں ،ہوسکتا ہے عوام پھران کے حق میں فیصلہ سنادیں مگرپاکستان کسی نئے سقوط کا دھچکابرداشت نہیں کرسکتا۔ملک میں پھیلی افواہوں کومزید ہوانہ دی جائے ورنہ سیاسی عدم استحکام میں شدت آجائے گی۔

نیٹوکی جارحیت اورامریکہ کا جارحانہ رویہ اس امرکامتقاضی ہے کہ سیاسی اوردفاعی قیادت خلوص نیت سے آپس میں سرجوڑلے مگربدقسمتی سے ہمارے ہاں توحکومت اوراہم قومی ادارے ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہیں جبکہ اپوزیشن ہرقیمت پرحکومت گرانے کے درپے ہے توپھرایسے میں پاکستان کے قومی مفادات اورسرحدوں کی حفاظت اوراٹھارہ کروڑپاکستانیوں کے منتشرہجوم کوپاکستا ن کے سبزہلالی پرچم تلے متحد کون کرے گا۔حکومت اوراداروں کے درمیان تصادم کی فضاسے پاکستان کی سا لمیت کے دشمن فائدہ اٹھاسکتے ہیں لہٰذا ایک ایک قدم پھونک پھونک کر اٹھایا جائے۔سیاستدان سیاسی اندازسے پاکستان کی وکالت اوربیرونی دباﺅکامقابلہ کریں جبکہ فوج جدید اسلحہ کے زورپرجغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کویقینی بنائے۔جوملک امریکہ سے دب جاتے ہیں وہ انہیں مزید دباتااورڈراتادھمکاتا ہے مگرایران کی طرح جوریاست بیرونی دباﺅکیخلاف ڈٹ جاتی ہے اس کی خودمختاری اورسا لمیت پرکوئی آنچ نہیں آتی۔امریکہ کی پاکستان کے ساتھ نہام نہاددوستی اس کے اپنے مفادمیںہے ،پاکستان کے ساتھ دشمنی کی صورت میں امریکہ نقصان اٹھائے گا۔پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کو سمجھا اوردرست اندازسے کیش نہیں کرایاجارہا۔سیاسی اوردفاعی قیادت کے درمیان دوریاں یاتلخیاں پاکستان کے مفاد میں نہیں ہیںاورنہ یہ وقت عام انتخابات کیلئے مناسب ہے۔پیپلزپارٹی کووفاق اورمسلم لیگ (ن) کوپنجاب میں آئینی مدت پوری کرنے دی جائے تاکہ آئندہ مینڈیٹ کافیصلہ ہمدردی کی بجائے کارکردگی کی بنیاد پرہواورپیپلزپارٹی یامسلم لیگ (ن) سمیت کوئی سیاسی جماعت یہ عذرپیش نہ کرسکے کہ انہیں آئینی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی اوران کے مینڈیٹ کااحترام نہیں کیا گیا۔پیپلزپارٹی والے توویسے بھی ایک اورسیاسی شہادت کے منتظر ہیں۔اگرزرداری حکومت شہید کی گئی تواس سے پیپلزپارٹی کوایک نئی زندگی ملے گی۔تبدیلی کیلئے انتخابات اورعوام کے فیصلے کاانتظارکیا جائے۔اگرچار برس بعدوفاقی حکومت ختم کی گئی توپیپلزپارٹی والے ایک بارپھرمظلوم بن جائیں گے اوراس سے ملک میں صوبائیت اورمنافرت کی آگ بھی بھڑک سکتی ہے۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 139672 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.