میں شروع دن ہی سے ان لوگوں میں
شامل ہوں جو پیپلز پارٹی سے کسی بھی قسم کا کوئی حسن ظن نہیں رکھتے۔خدا
لگتی کہوں تو میں نے اس پارٹی کے خلاف اندر ہی اندر قدرے بغض ہی پال رکھا
ہے۔اس کیفیت میں آپ کو کسی کی اچھائی تو سرے سے نظر ہی نہیں آتی۔مجھے بھی
اللہ گواہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی اچھائیاں بھی ہمیشہ برائیاں ہی نظر آتی
رہیں۔پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کو پہلا باقاعدہ آئین
دیا۔انہوں ہی نے پاکستان کے دفاع کی ضمانت ایٹمی پروگرام شروع کیا۔سوچوں
اور پھر گنوانا شروع کروں تو پیپلز پارٹی کی ملک کے ساتھ کی گئی کچھ اور
نیکیاں بھی شاید یاد آ جائیں۔میں لیکن انہیں کیوں یا د کروں۔ہم بس ان لوگوں
میں سے ہیں جن کو پیپلز پارٹی نہیں بھاتی اور جو پیپلز پارٹی کو نہیں
بھاتے۔مجھے شروع دن ہی سے یہ یقین ہے کہ یہ غیر اسلامی اور سیکولر جماعت ہے
اور میں ابھی تک پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ پہ یقین رکھتا ہوں۔
اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ میں مارشل لا یا کسی غیر جمہوری نظام حکومت کا
حامی ہوں۔مروجہ سیاست کی تمام تر برائیوں اور خامیوں سمیت میرا ابھی تک یہ
یقین ہے کہ جمہور کو فیصلہ کرنے کا ا ختیار دیا جائے تو اجتماعی دانش کو
اللہ کی مدد حاصل ہوتی ہے۔ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ بند کمروں میں جمہور کے
فیصلوں کو بدل دیا جاتا ہے۔جعلی ووٹوں سے نتائج کچھ کے کچھ ہو جاتے ہیں۔ملک
کی غالب اکثریت موجودہ سیاسی اور انتخابی نظام سے اتنی متنفر ہے کہ اسے
انتخابی سرگرمیوں سے کسی قسم کی کوئی دلچسپی ہی نہیں ہوتی۔الیکشن کا سارا
دن وہ گھروں میں بیٹھ کر فلمیں دیکھتے یا بچوں کے ساتھ پکنک مناتے گزار
دیتے ہیں۔بہت سارے حلقوں میں تو ملک کی غالب اکثریت یعنی خواتین کو ووٹ
ڈالنے ہی کا حق نہیں۔اگر آپ ایک ملک کے شہری ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ
اس کے قوانین کا احترام نہ کریں۔ملک کی طرف سے عائد کردہ ذمہ داریاں پوری
نہ کریں اور پھر آپ اپنے آپ کو اس ملک کا شہری بھی تصور کریں۔میرے بس میں
ہو تو ووٹ ڈالنا لازم قرار دے دوں اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے کے لئے
باقاعدہ سزا مقرر کروں۔جب آپ پہلی اینٹ رکھتے وقت اپنے آپکوتعمیر سے علیحدہ
رکھتے ہیں تو پھر بعد میں آپ کو قطعاََ کوئی حق نہیں کہ آپ عمارت کی
اچھائیاں یا برائیاں گنوائیں۔
وطن عزیز میں آجکل ہم اسی مسئلے کا شکار ہیں۔کل جب انتخاب کا وقت تھا تو
کچھ لوگوں نے تو سرے سے انتخابات ہی کا بائیکاٹ کر دیا اور جنہوں نے
بائیکاٹ نہیں کیا انہوں نے بھی کسی طرح کے عمل اور رد عمل کا اظہار نہیں
کیا۔اس کے نتیجے میں دو پارٹیوں کی حکومتیں بن گئیں اور باقی پارٹیاں جنہوں
نے انتخاب میں حصہ لیا تھا شامل باجہ ہو گئیں۔اب ہر طرف اقتدار ہی اقتدار
تھا اپوزیشن تو تھی نہیں۔سرکار آصفیہ نے اس کے بعد ان شامل باجوں کی وہ گت
بنائی کہ اب یہ سارے ہاتھ لگا لگا کے دیکھتے ہیں اور انہیں سمجھ نہیں آتی
کہ ان کے ساتھ ہوا کیا ہے۔اب سینٹ کا الیکشن سر پہ ہے۔نوشتہ دیوار ہے کہ
پیپلز پارٹی اپنے گرو کی حکمت عملی کی بنا پہ سینٹ کا الیکشن جیت جائے
گی۔بس یہی مروڑ ہے جو کچھ پیٹوں میں رہ رہ کے اٹھتا ہے۔میں مانتا ہوں کہ
پیپلز پارٹی کی حکومت میں جو لوگ نظام حکومت چلانے کے ذمہ دار ہیں۔وہ
نالائق تو ہیں ہی بے انتہا کرپٹ بھی ہیں۔ انہیں اپنی تجوریاں بھرنے سے غرض
ہے۔لیکن پیپلز پارٹی کی یہ عادت نئی تو نہیں۔جب جب پیپلز پارٹی کی حکومت
آئی ہے انہوں نے کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم کئے ہیں لیکن یہ تو میں سوچتا
ہوں یا مجھ جیسے کچھ لوگ۔ملک کی اکثریت پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتی ہے۔اسی
اکثریتی ووٹ کی بنیاد پہ اس کی حکومت بنی ہے۔اسی بناء پہ وہ اب سینٹ کے
الیکشن میں بھی جیتے گی تو یہ اس کا حق ہے۔اس پہ اب واویلا اور پیٹ میں
مروڑ کیوں۔
آپ جمہور کی حکومت کی بات کرتے ہیں تو جمہور کے فیصلے کے مطابق یہ پیپلز
پارٹی کا حق ہے۔اگر کچھ لوگوں نے اندر خانے جمہور کا فیصلہ بدل کے اس میں
ہیر پھیر کر کے پیپلز پارٹی کو حکومت دلوائی ہے تو بھی اب انہیں اس قصور کو
بھگتنا چاہئیے۔عالم یہ ہے کہ اب لوگ پیپلز پارٹی کا نام بھی سننا پسند نہیں
کرتے۔اگر کسی بھی طریقے سے اس حکومت کو ختم کیا جاتا ہے تو ایک طرف تو یہ
جمہوری اصولوں کی مکمل نفی ہو گی تو دوسری طرف یہ ملکی سلامتی کے لئے بھی
ایک بڑا مسئلہ ہو گا۔آصف زرداری سے کوئی یہ توقع نہ رکھے کہ وہ ملک کی
سلامتی اور قومی مفاد کے چکر میں پڑنے والے انسان ہیں۔اللہ انہیں سلامت
رکھے وہ تو شطرنج کے کھلاڑی ہیں اور شطرنج کا کھلاڑی شہہ مات کے لئے اپنا
سب کچھ داﺅ پہ لگا سکتا ہے۔ہو سکتا ہے ایک اور شیخ مجیب کل کلاں آپ کے
سامنے کھڑا ہو کے اپنے چھ نکات آپ کے سامنے پیش کر رہا ہو۔اس لئے ضروری ہے
کہ پیپلز پارٹی کو کسی بھی طرح اس کی مدت پوری کرنے دی جائے۔تاکہ اگر انہوں
نے جانا ہے تو وہ عوام کی عوام کے ووٹ کی طاقت سے جائیں ناکہ کسی سازش کے
نتیجے میں۔
ہر پاکستانی سیاستدان خواہ وہ پیپلز پارٹی کا ہو یا اپوزیشن کا اس کے دل کے
نہاں خانے میں یہ خواہش تو بہر حال موجود ہے کہ کاش دنیا میں کوئی ایسا
ریموٹ کنٹرول بن جائے کہ وہ بٹن دبائے اور آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی
ہاتھ باندھے اس کے سامنے حاضر ہو جائے۔یہ غریب یہ نہیں جانتے کہ وہ ریموٹ
امریکہ نہیں بنا سکتا۔اگر عوام یہ یقین کرنے کو تیار ہو جائیں کہ ہمارے
سیاست دان ہماری فوج سے زیادہ محب وطن ہیں اور انہیں یقین ہو کہ وہ ملکی
مفاد کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کریں گے تو آرمی چیف تو کیا امریکن آرمی چیف
بھی ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا ہو گا۔لیکن اگر آپ اپنے ہی ملک اور فوج
کے خلاف دشمن سے ساز باز کریں گے تو پھر آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ آپ پہ کون
اعتبار کرے گا۔آخر کیا وجہ ہے کہ ملک کی اکثریت فوجی اقتدار کو پسند نہیں
کرتی اس کے باوجود ہر قومی ایشو پہ قوم ہمیشہ فوج کی طرف سے آنے والے مﺅقف
ہی کی حمایت کرتی نظر آتی ہے۔
میمو سکینڈل اور اس کے بعد زرداری کی بیماری اور دوبئی جانے سے ایسا لگتا
تھا کہ بس اب سب کچھ ہی لپٹنے کو ہے لیکن سلام !چیف نے سب سنبھال لیا۔ جنرل
نے بگڑی بات بھی یوں سنواری کہ ایک دنیا اس کی دا دینے پہ مجبور ہے۔صرف کچھ
لوگ جو اس سارے قصے میں اپنے سوکھے دھانوں کو بھی گیلا کرنا چاہ رہے تھے وہ
مایوس ہیں۔ باقی سارے راضی کہ چلو ہمیں ہمارا گمشدہ صدر بھی مل گیا اور ایک
بحران بھی ٹل گیا۔افسوس اس بات کا کہ اس بحران کو بھی جنرل کیانی نے ٹالا
حالانکہ اسے ٹالنے کی ذمہ داری وزیر اعظم کی تھی چیف کی نہیں۔ |