آج تحریک انصاف کی تاریخ کا ایک
بڑا دن ہے۔اسلام آباد میں شوکت ترین اور ان کے ساتھ دوسرے بیسیوں دوسرے
پارلیمنٹیرینز نے تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا۔ان کے آنے سے پارٹی
کو پاکستان کی مروجہ بد بودار سیاست میں ایک اہم مقام حاصل ہو گیا ہے۔یہ
لوگ تحریک انصاف کی مقبولیت اور اپنے جوڑ توڑ کی صلاحیتوں کی بناءپہ
اسمبلیوں میں پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔یہ لوگ پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ
نون ،مسلم لیگ ق اور نجانے اور کس کس گھاٹ کا پانی پئے ہوئے ہیں۔یعنی وہی
پرانے چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی۔ہم جن لوگوں سے تنگ آکے عمران عمران
کرتے پھرتے تھے۔اب وہی لوگ عمران کے کپڑے پہن کے ہمارے سامنے کھڑے ہیں اور
ہم اور ہم جیسے جو عمران کے لئے ان لوگوں کے لئے جوتے کھاتے پھر رہے تھے۔اب
اپنی پارٹی میں بھی ان ہی کے رحم و کرم پہ ہیں۔
یہ اس کارکن کی فریاد تھی جو میرے ساتھ بیٹھا عمران کی پریس کانفرنس سن رہا
تھا۔میں غلامی کا قائل نہیں پر ابھی بھی مجھے عمران سے بہت امید ہے۔میں
سوچتا ہوں کہ شاید وہ کچھ ایسا کر لے کہ میرا پیارا پاکستان قوموں کی
برادری میں برابری کے ساتھ سر اٹھا کے چلنے کے قابل ہو سکے۔لیکن اس کارکن
کا اصرار تھا کہ بھائی پاکستان کی انتخابی سیاست میں غریب کی کوئی گنجائش
نہیں۔عمران کے ساتھ ہم اس وقت آئے تھے جب اس کے ساتھ کوئی نہیں تھا ۔ہم اس
کی قائدانہ صلاحیتوں کے کرکٹ کی وجہ سے معترف تھے۔ہمارا خیال تھا کہ وہ اگر
وقار اور وسیم کو گلی محلے سے اٹھا کے بین الاقوامی سطح کا کھلاڑی بنا سکتا
ہے تو ہم بھی عمران کی قیادت میں ایک دن اسمبلیوں میں ہوں گے اور پھر وہ
قانون بنائیں گے جن کی ہمیں ضرورت ہے۔ہمیں یہی خان اور چوہدری اپنے ڈیروں
پہ بلا کے تحریک انصاف کے جھنڈے اتارنے کو کہتے تھے اور ہمارے انکار پہ
ہمارے بزرگوں کو بھی زدو کوب کیا جاتا تھا۔ہمارا خیال تھا کہ ہمارا عمران
آئے گا تو ہم ان سے بدلے بھلے ہی نہ لیں سوال ضرور کریں گے کہ تم نے آخر
کیا سمجھ کے ہم سے وہ ظلم اور تعدی کا سلوک کیوں کیا تھا۔
ہم اب سوال کس سے کریں ہمیں جوتے مارنے والا اور ہمارے بزرگوں کی توہین
کرنے والا خان تو کل اس خان کے ساتھ بیٹھا تھا۔اب ہم کس سے فریاد کریں اور
کس سے منصفی چاہیں۔میں نے اس کا غصہ ٹھنڈا کیا ۔اسے عمران کی منطق سمجھانے
کی کوشش کی اور بتایا کہ عمران کہتا ہے کہ پاکستان میں اوپر سے نیچے تک
کرپشن ہے میں اپنی پارٹی میں فرشتے تو لانے سے رہا۔انہی برے بھلے لوگوں کے
ساتھ انقلاب لانا ہے۔وہ بہت غصے میں تھا ۔کہنے لگا اگر انہوں نے ہی انقلاب
لانا ہے تو وہ انقلاب ہو گا کس کے خلاف۔کیا اویس لغاری زمینداروں کے خلاف
انقلاب لائے گا۔ کیا شاہ محمود پیروں کے خلاف انقلاب لائے گا یا شوکت ترین
صنعتکاروں کے مفادات خلاف انقلاب لائے گا۔بھائی یہ لوگ پہلے تو انقلاب
لائیں گے نہیں اس کا راستہ روکیں گے۔اگر انقلاب آیا بھی تو یہ ہم غریبوں ہی
کے خلاف آئے گا۔یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک چور اپنے خلاف قانون بنائے۔ٹیکس چور
ٹیکس چوری کی سزا بڑھانے کی بات کرے۔ہمیں عمران پہ یقین ہے لیکن یہ سمجھ
میں آگئی ہے کہ عمران کا نعرہ بھی انقلاب کا نہیں اقتدار کا نعرہ ہے۔وہ
پہلے کپتان بنے گا پھر ٹیم بنائے گا۔سلیکٹرز کون ہوں گے۔یہی خان یہی،
وڈیرے،یہی چوہدری۔ان کی سلیکشن کے نتیجے میں جو ٹیم منظر عام پہ آئے گی کیا
یہ وہی ٹیم ہو گی جس کا خواب ہم پچھلے پندرہ سال سے دیکھ رہے ہیں۔اس طرح کی
ٹیم جب معاملات سنبھالے گی تو ایک دن وہ عمران کو بھی بیچ ڈالے گی۔دستور
یہی ہے کہ اقلیت اکثریت کے ساتھ جاتی ہے۔بے چارہ عمران اکیلا کل کو اکیلا
کھڑا ہوگا اور یہ ٹیم ایک دفعہ پھر لوٹا بن کے دوسری طرف کھڑی ہو گی اور
عمران پھر ہماری طرف آئے گا۔نجانے اس وقت تک ہم کہاں ہوں گے ۔شاید کسی
جہادی لشکر میں، کسی التحریر سکوائر پہ یا کہیں پھانسی کے پھندے پہ۔
مجھے لگا اگر میں نے اسے روکنے کی کوشش کی تو وہ میرا منہ نوچ لے گا۔میں اس
کی ہاں میں ہاں ملانے پہ مجبور ہو گیا۔اس سے وہ کچھ ٹھنڈا پڑا۔پھر میں نے
اسے سمجھانا شروع کیا کہ تمہاری سب باتیں صحیح ہیں لیکن نئے لیڈر بنانا
انہیں پہلے صوبائی پھر ملکی اور پھر بین الاقوامی سطح پہ متعارف کروانا ایک
مشکل کام ہے۔ملک چلانے کے لئے تجربہ کار لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔عمران نے
کبھی بھی ایسے انقلاب کا دعویٰ نہیں کیا جس میں پرانے چہروں کو بدلنے کی
بات کی ہو وہ تو ہمیشہ نظام بدلنے کی بات کرتا ہے۔پرانے چہروں کے ساتھ
پرانے کھلاڑیوں کے ساتھ بھی میچ جیتا جا سکتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ نیا خون
بھی ٹیم میں شامل ہوتا رہے گا اوریوں ملک میں ایک سافٹ انقلاب کی بنیاد
رکھی جا سکے گی۔نظام ٹھیک ہو جائے گا تو معاشی،سیاسی، قانونی اور تعلیمی
مساوات آئے گی تو غریب کی حالت خود بخود بدل جائیگی۔ زندگی کا دستور یہی ہے
کہ اسے ایک اچھے قائد کی ضرورت ہوتی ہے۔قائد ایمان دار اور امانتدار
ہو،اللہ سے ڈرتا ہو اور دوسروں کا درد دل میں محسوس کرتا ہوتو میرے خیال
میں انقلاب کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔انقلاب تو ایک مسلسل عمل ہے جو صدیوں
جاری رہتا ہے اور پھر کہیں جا کے انقلاب کی منزل آتی ہے۔
وہ میری باتیں سنتا رہا اور سر بھی ہلاتا رہا جیسے میری باتوں سے متفق
ہو۔میں مطمئن ہو گیا ۔وہ جانے کے لئے اٹھااور جاتے جاتے کہنے لگا۔بھائی میں
نے مان لیا لیکن عمران کو میری یہ بات پہنچا دو کہ مجھے آپ پہ تو اعتبار ہے
لیکن آپ کے ان ساتھیوں کے ماضی کو دیکھ کے مجھے ڈر لگتا ہے کہیں ایسا نہ ہو
کہ کل کلاں عامر آصف اور بٹ کی طرح یہ بھی میچ فکس کر لیں اور آپ کراﺅن
پراسیکیوشن کے سامنے ان کے وکیلوں کا بندوبست کر تے پھر رہے ہوں۔ عمران
بھائی ! کیا کروں دل ہے کہ مانتا نہیں۔میں نے اسے رخصت کر کے غور کرنا شروع
کیا تو لگا کہ میں اسے قائل کرتے کرتے خود اس کی باتوں کا قائل ہو
گیاہوں۔مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا پر میری قسمت میں وہی ایک
سوراخ ہے۔وہی سوراخ جو کبھی پیپلز پارٹی میں تھا پھر نون پھر لام قاف میں
اور اب تحریک انصاف میں۔ |