صدرمملکت آصف علی زرداری کے
پاکستان پہنچنے کے ساتھ ہی ان کی واپسی کے حوالے سے دو ہفتوں سے جاری چہ
مگوئیاں اور افواہیں دم توڑ گئیں۔ ذرائع ابلاغ کے بڑے بڑے دانشور سائنسی و
سیاسی اصولوں کی روشنی میں جو قیاس آرئیاں کررہے تھے ان کے دعوے دھرے کے
دھرے رہ گئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے مخالفین کی امیدیں دم توڑ گئیں جبکہ
جیالوں میں زندگی کی راعنائیاں پھر لوٹ آئیں۔ صدر زرداری دبئی سے اس وقت
روانہ ہوئے جب ہمارے ہاں کئی اخبارات کی کاپیاں ڈاﺅن ہوچکی تھیں یا کم از
کم بہت سی اخباروں کے ادارتی صفحات چھپ چکے تھے۔ لہٰذا ان کی وطن واپسی کے
روز جو مضامین چھپے ، انہیں پڑھ کر قاری خوب محظوظ ہوئے۔ بہرحال زرداری کی
وطن واپسی سے پیپلز پارٹی کوحکومت کو گویا اِک نئی زندگی عطا ہوئی ہے۔
لیکن زرداری کی روانگی یا واپسی پر عام آدمی کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑا۔
اسے کوئی خوشی ہوئی نہ رنج ۔ وہ تو معمول کے مطابق اپنے بال بچوں کے لئے
دووقت کی روٹی کا بندوبست میں ہی الجھا رہا۔ اسے سیاست کے اکھاڑوں کی کیا
خبر۔ کون جیتا کون ہارا اس کی زندگی جیسے تھی ویسے ہی رہی۔ ایک مسلسل عذاب۔
کل بجلی کے لئے وہ ترس رہا تھا آج گیس کے لئے سراپا احتجاج ہے۔ کل اسے بجلی
کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے بیروزگار ہونا پڑا تھا آج گیس کی کمیابی کی وجہ سے
اسے نوکری نہیں مل رہی ۔ اوپر سے مہنگائی کے تازیانے اس کی مَت ہی ماردی
ہے۔صدر آئے یا جائے اسے کیا۔ ویسے بھی اب زیادہ تر لوگ یہ جان چکے ہیں کہ
صدر کا کام تو نظام مملکت چلانا ہے۔ پاکستان میں کون سانظام ہے جسے صدر کی
ضرورت ہے؟ یہاں تو کوئی نظم ونسق نہیں۔ ہماری خارجہ پالیسی ہے نہ داخلہ۔سب
بااختیار صرف اپنے اپنے مفادات کے چکر میں ہیں۔ کوئی حکومت کو بلیک میل
کرکے اپنا میل صاف کررہا ہے تو کوئی اس کی گود میں بیٹھ کر مراعات حاصل
کررہا ہے۔
زرداری حکومت کو اقتدار میں آئے چار سال ہونے کو ہیں مگر تاحال وہ عوام کے
لئے کوئی بھی ریلیف کا بندوبست نہیں کرسکی۔ ان کے سیکڑوں مشیروں اور وزیروں
نے سکیمیں اور پروگرام تو بہت سے بنائے مگر وہ عوام کے لئے نہیں بلکہ اپنی
جیبیں گرم کرنے کے لئے تھے۔ وہ عوام کو ریلیف یا بنیادی ضروریات تو کیا
مہیا کرتے، الٹا اپنے ہی اللے تللوں کے لئے آئی ایم ایف سے قرضے لے کر ان
کا بوجھ بھی عوام پر ڈال دیا۔ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کا نتیجہ یہ نکلا
کہ بجلی گیس اور دیگر گھریلواشیاءکے بلوں میں کئی کئی گنا اضافہ ہوگیا۔
بجلی کے فی یونٹ نرخ بڑھائے جانے لگے۔ ٹیکنو کریٹ ، مشیر اور معیشت کے
ماہرین عوام کو کوئی فائدہ پہنچانے کی بجائے حکومت کو ٹیکس لگانے اور بجلی
بڑھانے کے فارمولے دیتے رہے۔ پہلے سو یونٹ کے نرخ یہ ہونگے ، اس سے اوپر پر
اتنے گنا ہوجائیں گئے۔ رات اوردن کے نرخ علیحدہ علیحدہ۔ اس طرح جمہوریت کی
دعوے دار، ”عوام دوست“ اور سب سے بڑھ کر بھٹوازم پر چلنے کا دعویٰ کرنے
والی حکومت دراصل عوام کے لئے کسی ڈکٹیٹر سے کم ثابت نہیں ہوئی۔
بے نظیر کے قاتل ابھی تک گرفتار نہیں ہوسکے۔ ق لیگ جسے زرداری نے قاتل لیگ
قراردیا تھا، آج زرداری کی سیاسی زندگی کے لئے آب حیات کی حیثیت اختیار
کرچکی ہے۔ مشرف سے جان چھڑائی جا چکی مگر اس کی پالیسیاں ابھی بھی جاری و
ساری ہیں۔ چارٹر آف ڈیموکریسی پر گردوغبار کی دبیز تہہ جم چکی ہے۔ امریکہ
اور اس کے اتحادی ہماری اینٹ سے اینٹ بجارہے ہیں مگر ایوان صدر خاموش
تماشائی بنا ہوا ہے۔ ایبٹ آباد کے معاملے میں سخت موقف کی بجائے الٹا اس کی
تعریف میں مضمون لکھا گیا۔ پاک امریکہ تعلقات ، نیٹو حملوں اور ایبٹ آباد
اپریشن کے حوالے سے قوم ابھی سنبھل نہ پائی تھی کہ میموگیٹ سکینڈل سے اسے
گھیر لیا۔ جس کے مطابق زرداری نے اپنے معتمد خاص حسین حقانی کے ذریعے
امریکی حکومت سے ’جمہوریت بچانے‘ وغیرہ کے حوالے سے مددطلب کی تھی اور اس
کے بدلے امریکہ کے مطالبات ماننے کا عندیہ بھی دیا تھا۔ اس معاملے پر عوامی
ردعمل کافی سخت اور نمایاں ہے۔ کہاجاتا ہے کہ پاکستان میں امریکی مداخلت
اور بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قراردینے کا فیصلہ بھی اسی میمو گیٹ کی ایک
کڑی تھی۔
زرداری کی وطن واپسی سے کم از کم سیاسی حلقوں میں جاری خوامخواہ کی
بدگمانیوں، خدشات، افواہوں کا کسی حد تک خاتمہ ہوجائے گا مگر سوال پھر وہی
ہے کہ کیا زرداری کی وطن واپسی کے بعد حالات بدستور ویسے ہی رہیں گے کیا
عوام کی حالت وہی رہے گی کیا ہمارے اندرونی و بیرونی معاملات میں کوئی فرق
آئے گا کیا ہماری معیشت سنبھل جائے گی کیا مہنگائی کے عفریت سے نجات مل
جائے گی اور سب سے بڑھ کر کیا بھٹو کی پارٹی جس مقصد اور نظریے کے تحت وجود
میں آئی تھی، زرداری اسی مشن پر چل پڑیں گے۔ ان سوالوں کا جواب کسی کے پاس
نہیں بلکہ سب اپنا سر نفی میں ہلاتے نظر آتے ہیں۔
مگر چند افراد اب بھی راکھ کے ڈھیر سے امیدوں کے پھول چننے کی کوشش کررہے
ہیں۔ وہ افسردہ اور مایوسی کے ماحول میں بھی دل پھرنے کی آس لگائے بیٹھے
ہیں۔ دل کب پھر جائے، کب بدل جائے کسی کو پتہ نہیں چلتا۔ اللہ تعالیٰ نے
زرداری کو صحت عطا فرمائی ہے۔ ہوسکتا ہے اس امتحان نے ان کا دل پھیر ڈالا
ہو۔ سیانے کہتے ہیں برائی او ربھلائی میں صرف ایک باریک سی لکیر کارفرما
ہوتی ہے۔ اِ س طرف سے اُس طرف جانا مشکل ضرور ہوتا ہے مگر ناممکن نہیں۔ اگر
اللہ تعالیٰ زرداری کو دوبارہ اس مٹی پر لے آیا ہے تو اب انہیں خول و خوف
سے نکل کر عوامی و انقلابی اقدامات کرنے چاہئیں۔ اگر انہوں نے واقعی خود کو
ایک عوامی لیڈر کے طور پر منوا لیا تو آئندہ وہ جہاں بھی جائیں گے، عوام ان
کے ساتھ ہوں گے اورپھر ان کے اقتدار کو خطرہ ہوگا نہ کسی کو افواہیں
پھیلانے کی جرات۔ |