میرے اللہ نے میرے ساتھ بہت کرم
فرمایا اور مجھے نئی زندگی عطا فرمائی۔ کسی شاعر نے کہا تھا
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
میرے ساتھ بھی یہی ہوا ۔میرے اللہ نے اس سال توفیق مرحمت فرمائی اور سفر حج
کے دوران چند ٹوٹے پھوٹے جملے لکھنے کی سعادت ملی ،پھر اللہ ہی کی مہربانی
سے ان بے ربط جملوں کو بڑی محبت اور شوق سے پڑھا گیا ۔مکہ مکرمہ کے بعد اہل
محبت مدینہ منورہ کے کالموں کے انتظار میں تھے مگر ”ہمیں سو گئے داستاں
کہتے کہتے “والا معاملہ ہو گیا ۔اور آج لمبی غیر حاضری کے بعد حاضر خدمت
ہوں اللہ نے کرم فرمایا تو اب مدینہ منورہ کے حوالے سے کچھ لکھوں گا لیکن
پہلے اس تعطل اور داستان کہتے کہتے سو جانے کی تفصیل ....ہوا یوں کہ جب
میری آنکھ کھلی تو میرا پورا جسم درد سے ٹوٹ رہا تھا ،سب سے زیادہ تکلیف سر
میں تھی ،آنکھوں کے پپوٹے خاصے بھاری تھے ،میں نے اپنے اوپر نگاہ دوڑائی
تومزید حیرت ہوئی میں عجیب و غریب لباس میں ملبوس تھا ،بازو میں کینولے اور
ڈرپس ،سر اور جسم کے دیگر حصوں کے ساتھ انوکھے انوکھے سے طبی آلات لگے ہوئے
تھے ،پھر میں نے دائیں بائیں دیکھا تو میرے گرد بہت سے شناسا چہروں کا ہجوم
تھا ۔میں حیرت سے یہ سب کچھ دیکھتا رہا کہ یہ سب کیا ہے ؟ میں کہاں ہوں ؟اور
یہ شناسا چہرے کہاں کہاں سے آکر یہاں جمع ہو گئے ؟کچھ دیر تو میں بالکل
ساکت وجامد رہا لیکن جب رفتہ رفتہ میری حیرت کی کیفیت دور ہوئی تو میں نے
ارد گرد کھڑے بھائیوں اور دوستوں پر سوالات کی بو چھاڑ کر دی ۔میرے سوالات
اور باتیں سن کر سب چہروں پر مسکراہٹ پھیلنے لگی ۔معلوم ہوا کہ میں مدینہ
منورہ کے شاہ فہد ہسپتال میں ہوں اور دو دن سے مسلسل بے ہوش رہنے کے بعد اب
ہو ش میں آیا ہوں۔یہ دو دن مدینہ منورہ سے لے کر پاکستان تک میرے سب عزیزوں
،مہربانوں اور اہل علم پر بڑے مشکل گزرے ،دعائیں کی جاتی رہیں ،نوافل ادا
کیے گئے اور بالآخر اللہ نے کرم فرما دیا اور میرے حواس بحال ہونے لگے ۔
پھر آہستہ آہستہ مجھے سب کچھ یا د آنے لگا ، سب کچھ سمجھ آنے لگا لیکن میرے
رب کا کرم دیکھیے کہ مجھے یہ یاد نہیں آسکا کہ یہ سب کچھ ہو ا کیسے ؟سوچتا
ہوں اگر یہ بھی یاد آ جاتا تو ہمیشہ کی اذیت ہوتی کہ میں کس طرح ٹریفک
حادثے سے دو چار ہو ا؟ مجھے لگی کیسے ؟ میں گرا کیسے ؟ چوٹیں کہاں کہاں
آئیں ؟ میرے رب نے یہ سب کچھ میرے ذہن کی تختی سے محو کردیا ۔دوستوں نے
بتایا کہ تین دن قبل مسجد نبوی کے قریبی چوک میں شارع ابی بکر عبور کرتے
ہوئے حادثہ ہوا۔ مرکزی شاہراہ توصاف تھی لیکن بغلی راستے سے اچانک ایک گاڑی
نکلی، ہماری اس گاڑی پر نظر پڑ گئی، ہم نے سڑک عبور کرتے ہوئے باقی حاجی
حضرات کو بھی روکنے کی کوشش کی لیکن وہ دوڑ کر پار چلے گئے ،بغلی راستے سے
نکلنے والی گاڑی کی رفتار بہت تیز تھی اور اس کا ڈرائیور کمسن اور اناڑی
تھا ، اس نے اچانک سامنے آنے والے لوگوں کو دیکھ کر یکدم بریک لگائی تو اس
کی گاڑی گھوم گئی ،میں ابھی اپنی سائیڈ پر ہی تھا،وہ گاڑی آکر مجھ سے
ٹکرائی، میں زور سے گرا اور میرا سر فٹ پاتھ پر جا لگا ،بہت بڑی اور گہری
چوٹ آئی ،لیکن اللہ کا یہ بہت کرم ہوا کہ مجھے فوری طور پر شاہ فہد ہسپتال
منتقل کردیا گیا اور علاج کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔
اب مجھے رہ رہ کر خیال آتا ہے کہ انسان کیا ہے اور انسان کی زندگی کیا ؟ایک
بلبلہ یا ایک غبارہ جو پلک جھپکنے میں تمام ہو جائے ۔سوچتا ہوں جیسے آنکھیں
بند ہوئی تھیں نہ کھلتیں تو قصہ ہی تمام ہو جاتا ؟دماغ ماﺅف ہو ا تھا شکر
ہے کہ وقتی تھااگر اللہ یادوں کے خزانے واپس نہ کرتے تو میں کیا کر سکتا
تھا؟میں نے مدینہ منورہ سے آتے ہوئے سی ٹی سکین کی سی ڈی اور دیگر رپورٹس
ساتھ لائی تھیں جب یہاں کے ایک معروف نیورو سرجن کو دکھائیں تو انہوں نے
اپنے لیپ ٹاپ میں مجھے وہ تما م مناظر دکھائے تو بہت حیران بھی ہوا اور
اللہ کا شکر بھی ادا کیا ۔وہ نیورو سرجن کہنے لگے یہ دیکھیں دو جگہوں سے آپ
کے سر کی ہڈی فریکچر ہوئی ،حالانکہ یہ بہت مضبوط ہوتی ہے ،آپ کا حادثہ بہت
شدید ہو ا،آپ نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی بچانے والے نے آپ کو بچا لیا “اور
ویسے بھی وہاں کے ٹریفک حادثو ں کے بارے میں مشہور ہے کہ ان حادثوں کے بعد
بچنا بڑا مشکل ہے ۔میں اکثر سوچتا ہوں کہ یہ سب کیا ہوا ؟تو اتنی سی بات پر
جا کر دماغ اٹک جاتا ہے کہ ”اللہ نے اپنی قدرت کا ایک رنگ دکھایا اور
بس“مدینہ منورہ کے ہسپتال ڈاکٹرز اس بات پر حیر ت کا اظہار کرتے رہے کہ
اللہ نے اس حادثے کے باوجود بھی دماغ بالکل محفوظ رکھا اور دوسرایہ کہ اللہ
کے کرم سے جس تیزی سے صحت یاب ہو رہا تھا اس پر بھی ڈاکٹرز خوشی کا اظہار
کر رہے تھے ۔
میرے اللہ کا کرم دیکھئے کہ انتہائی شدید حادثے کے باوجود اللہ نے دماغ
محفوظ رکھا ،جسم کے باقی اعضا ءبالکل سالم رہے ،اللہ نے معذوری سے بھی
بچایا ،کسی اور بڑی مشکل سے بھی محفوظ رکھا ،علاج بھی بہت اچھا ،معیاری اور
بروقت ہوا....اللہ نے اتنے کرم فرمائے کہ شمار سے باہر اور مجھ میں ان کے
بیان کی بھی سکت نہیں ۔
بھائی حفیظ اللہ کو اللہ جزائے خیر دے انہوں نے بہت احسانا ت فرمائے ،میرے
پھوپھی زا د بھائی شبیر جدہ سے اور خالد بھائی دمام سے تشریف لائے اور
مسلسل تیمار داری کی ۔بھائی افضل عباس ،بھائی عبد اللہ شریف ،ان کے والد
گرامی اور بالخصوص مدینہ منورہ میں مقیم حضرت شیخ زکریا ؒکے خادم خاص محترم
عبد القدیر ، مدینہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم بہت سے دوستوں، بھائی خرم
عباسی ،صلاح الدین ،سجاد ،ایاز اور بہت سے دوست اور مخلص بھائی اللہ نے عطا
فرمائے اور انہوں نے خوب تیمار داری کی ،بہت خیال رکھا۔حضرت مولانا پیر
عزیز الرحمٰن ہزاروی سمیت بہت سے حضرات مدینہ منورہ ہسپتال میں عیادت کے
لیے تشریف لائے۔ یہاں پاکستان میں جس جس نے سنا بہت دعائیں کیں اللہ نے مجھ
گناہگار کو اتنے لوگوں کی دعاﺅں میں حصہ عطا فرمایا ۔
اس تمام صورتحال سے گزرنے کے بعد ویسے تو بہت کچھ سمجھ آیا لیکن چند باتیں
قارئین سے عرض کرنی ہیں ۔اللہ کی قدرت اور کرم پڑھ کر ،سن کر اتنا سمجھ
نہیں آتا جتنا اللہ کی قدرت کے اظہار کے کسی مرحلے سے عملی طور پر گزرنے سے
سمجھ آتا ہے اس لیے وقت پر اللہ کاشکر ادا کرنے اور اللہ کے سامنے جھک جانے
میں ہی نجات ہے ۔ورنہ کبھی نا کبھی تو چار وناچار اس کے سامنے جھکنا ہی
پڑتا ہے۔دوسری بات یہ سمجھ آئی کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے
دنیااور آخرت کی عافیت مانگنے کی تلقین کیوں فرمائی ؟جوانی کو بڑھاپے سے
پہلے ،فراغت کو مشغولیت سے پہلے ، مالداری کو فقر سے پہلے ،زندگی کو موت سے
پہلے اورصحت کو بیماری سے پہلے غنیمت جاننے کی تاکید کیوں فرمائی ؟اللہ سب
کو اپنے حفظ وامان میں رکھیں ۔
نو (۹)دن بعد اللہ کے کرم سے ہسپتال سے فارغ ہوا تو مسجد نبوی حاضری ہوئی۔
حسنِ اتفاق سے جب نئی زندگی لے کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا تو شب جمعہ
تھی۔ میرا اللہ ہی جانتا ہے کہ اس شب کیا لطف آیا،پھر دوبارہ مکہ مکرمہ
حاضر ہو ا وہاں بھی عجیب سرور آیا ۔اپنے مالک کے کرم سے عمرہ ادا کیا ،طواف
ِوداع کیا اور پھر واپسی ہوگئی ۔یہاں پہنچا تو بہت سے اعزہ واقربا ءاور
متعلقین چشم براہ تھے ،بہت سے لوگ اپنی مصروفیات چھوڑ کر عیادت کے لیے
تشریف لاتے رہے،بالخصوص مولانا قاری محمد حنیف جالندھری ملتان سے تشریف
لائے،مولانا عبدالخبیر آزاد خطیب بادشاہی مسجد لاہور سے تشریف لائے ،جڑواں
شہروں اور قرب وجوار سے اہل علم کی بڑی تعداد نے تکلیف فرمائی ، دعاﺅ ں کا
سلسلہ جاری رہا اور بالآخر میرے اللہ کی مہربانی ہو گئی کہ ایک مرتبہ پھر
آپ حضرات سے ہمکلام ہوں ۔سب سے دعاؤں کی درخواست ہے ۔ |