فوجی کی بیوی ۔ حصہ ۔ 6

دوسرے دن اتوار تھا ۔ یہ اپنے کورس میٹ سے ملنے آفیسر میس چلے گئے پروین باجی، مجھے لے کر بازار چلی گئیں وہاں سے انہوں نے مجھے ایک مکمل سوٹ لے کر دیا میں نے کافی منع کیا مگر وہ نہیں مانیں ۔ ان کے گھر کے نزدیک کوئی سو قدم پر” وینس “ سینما تھا ، ہم دونوں نے وہاں فلم آئینہ دیکھی یہ ہماری پہلی فلم تھی ۔

فلم کے بعد ہم دونوں ، پیدل چلتے ہوئے بازار گئے۔ بازار گردی کے بعد ہم وہاں سے تقریباً نو بجے واپس آئے ۔ پروین باجی اور مظہر بھائی کے ساتھ گپ شپ لگتی رہی، یہ لوگ اپنے نوشہرہ میں گزارے دن یاد کرتے رہے ۔ رات دیر گئے سو گئے اگلے دن سوموار تھا ۔ناشتے کے بعد کراچی جانے کے لئے وینس سینما کے پاس سے کراچی کی بس مل گئی ۔دونوں بس میں سوارہوئے، دو کی سیٹ پر میں کھڑکی کے ساتھ بیٹھ گئی اور یہ میرے ساتھ ۔ بس میں کراچی جانے کے لئے یہ میرا پہلا سفر تھا ۔ سپر ہائی وے کا بڑا چرچا سنا تھا لیکن دیکھنے کا اب اتفاق ہو رہا تھا ۔ سفر کی طوالت کو گزارنے کے لئے انہوں نے ایک سسپنس اور دوسرا جاسوسی ڈائجسٹ لے لیا ۔بس حیدرآبا د کے مختلف علاقوں ، گول بلڈنگ ، تلک چاڑی(چڑھائی) سے گزرتے ہوئی ۔ہیر آباد سے گزری، جو ایک خوبصورت اور پلان کی ہوئی آبادی تھی، چھ گھروں کا سیٹ تھا جس کے چاروں طرف سڑک تھی ۔ یہاں کی چلنے ٹھنڈی والی ہو اسارے گھروں سے گزرتی ۔ یہ دو سوسال پہلے نیرون کوٹ کے کھنڈرات پر تعمیر ہونے والے حیدرآباد کا یہ کلہوڑو خاندان اور ان کے مصاحبوں کا علاقہ تھا ۔ سڑک کے بائیں طرف لکشمی بلڈنگ اور تالپوروں کے مقبرے تھے ۔ بس ٹریفک کے درمیان سے گزرتی ہوئی ہالہ روڈ پر آگئی ۔یہاں بس رک گئی ۔ بس میں ڈرائی فروٹ ، فروٹ ، شربت ، کولڈ ڈرنکس ،اور نجانے کیا کیا بیچنے والوں کو ایک جتھا بس میں داخل ہوا ۔ نعیم نے مونگ پھلی ، دال سیو اور مرمرے پٹی خریدی ۔ آدھے گھنٹے کے بعد بس جب بھر گئی تو دس بجے کراچی کے لئے روانہ ہوئی ۔ کراچی حیدر آباد سے ایک سو پچاس کلومیٹر دور ہے کرایہ ، بارہ روپے فی سواری تھا ۔ بس جب ایک صاف ستھری سڑک پر مڑی تو میں نے نعیم سے پوچھا کیا یہ سپر ہائی وے ہے ۔ نعیم نے بتایا کہ سپر ہائی وے کافی دور ہے دائیں طرف ایک دیکھی بھالی بلڈنگ نظر آئی ۔ پوچھنے پر نعیم نے بتا یا یہ ، ٹیڈی پیسہ جمع کر کے بنایاآل پاکستان رجپوتانہ فیڈریشن ہسپتا ل ہے۔ جس پر مجھے یاد آیا کہ ہمارے سکول کے زمانے میں ہر دکا ن پر ایک کیلنڈر لٹکا ہوتا تھا اور اس میں ایک چھوٹا سا بکس ہوتا تھا ،جس میں لوگ ٹیڈی پیسے ڈالتے تھے ۔

بس غلام محمد بیراج سے گزرتے ہوئے جام شورو پہنچی اور سندھ یونیورسٹی کے پاس سے گزرتی ہوئی ِ سپر ہائی وے پر مڑ گئی ۔آبادی ختم ہو چکی تھی اردگرد، دورتک ویرانہ تھا ۔ ہم دونوں نے ڈائجسٹ نکال لئے ۔ پس ڈرائیور نے کان پھاڑ آواز ٹیپ چلا دی ۔میں ڈائجسٹ پڑھتے پڑھتے گاہے بگائے باہر کھڑکی سے باہر نظر ڈال لیتی اور پھر عرصے سے سسپنس ڈائجسٹ میں لکھی والی قسط وار کہانی ” دیوتا “ پڑھنے لگتی ۔ تقریباًآدھا سفر گزرا تھا تو نعیم نے جاسوسی ڈائجسٹ پڑھنا بند کر دیا ۔ پوچھا تو معلوم ہوا کہ موصوف سارا ختم کر چکے ہیں ، میں سمجھی کہ مذاق کر رہے ہیں، میں نے پوچھا کہ میں پوچھوں ِ کہنے لگے ہاں پوچھو ۔ میں نے مختلف حصوں سے پوچھا تو یہ فوراً بتا دیتے کہ یہ کہانی ہے ، میں کافی حیران ہوئی ، کیوں کہ میں نے تو صرف قسط مکمل نہیں کی اور یہ پورا ڈائجسٹ ختم کر چکے ہیں ِ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ پڑھتے نہیں بلکہ سطروں پر نظر ڈالتے رہتے ہیں، منہ سے نہیں پڑھتے اور انہیں یاد ہو جاتا ہے ۔اور میں جب تک آہستہ آواز میںزبان سے نہ دھراؤں تو پڑھ ہی نہیں سکتی ۔

تھوڑی دیر بعد ورکشاپ کا علاقہ آگیا۔ جو سفر کے درمیان کا سٹاپ ہے ، ڈھائی گھنٹے کے سفر کے بعد بنایا گیا ہے ۔ جہاں بس آدھے گھنٹے کے لئے رکی ، ہم لوگ ٹانگیں سیدھی کرنے کے لئے نیچے اترے ۔ چھوٹی چھوٹی دکانیں تھیں اور ایک اچھا سا ہوٹل تھا ۔ جس میں ہم نے چائے پی ، چائے پی کر ہم باہر نکلے تو برقعے میں لپٹی ایک لڑکی لپک کر میرے پاس آئی، ” گل تم “ یہ میری کلاس فیلو فہمیدہ تھی ۔ جو اپنی امی اور شادی شدہ بہن کے ساتھ کراچی جا رہی تھی ۔ ” کس کے ساتھ جا رہی ہو ؟ امی یا بھائی کہاں ہیں ۔ یہ کون ہے جس کے ساتھ تم چائے پی رہی تھیں ؟ ارے ، کہیں تمھاری شادی تو نہیں ہو گئی ؟ “ اس نے ایک سانس میں ڈھیر سارے سوال پوچھے ۔ ” ہاں یہ میرے شوہر ہیں “ میں نے جواب دیا ۔ ” تو تمھارا وہ لمبے کانوں والا منگیتر کہاں گیا ؟“ ۔ اس نے پوچھا ۔ فہمیدہ نے نعیم کو نہیں دیکھا تھا اور بی اے کرنے کے بعد سارے گھر والے کراچی شفٹ ہو گئے تھے لہذا میری شادی میں بھی وہ نہ آسکی ۔ میں نے ہنس کر کہا ، ” میں نے کان کتر کر چھوٹے کرا دئیے ہیں “۔ ” ارے بیویاں تو کان کھینچ کر لمبے کرتی ہیں اور تو نے چھوٹے کرا دئے“۔ فہمیدہ نے مذاق کیا ۔ ” جب تمھاری شادی ہوگی تو میں تمھارے میاں کے کان دیکھوں گی کہ تم بکرے جتنے کھینچتی ہو یا ہاتھی جتنے “۔ نعیم نے مجھے اپنی سہیلی سے بات کرتے دیکھا تو آگے بڑھ گئے تھے ، فہمیدہ کی امی مجھے دیکھ کر ہمارے پاس آگئی ور محبت سے ملیں ۔ میں نے نعیم کو اشارے سے پاس بلا کر ان سے تعارف کرایا ، نعیم نے دونوں کو سلام کیا اور امی نے نعیم کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دی اور اپنے پرس سے ایک سوایک روپے نکا ل کے مجھے دئے ۔ اور نارتھ ناظم آباد میں کھانے کی دعوت دی اور فون نمبر دیا ۔ معلوم ہواکہ اس کے پاس ، سلمیٰ پاشا اور ناہید جمیل بھی رہتی ہیں ۔ میں نے کہا ان کو بھی بلانا مزہ آئے گا ۔ بس والے نے ہارن دینا شروع کیا تو ہم لوگ بس میں بیٹھ گئے ۔ تھوڑی دیر بعد بس چل پڑی۔

نعیم نے سسپنس ڈائجسٹ پڑھنا شروع کیا اور میں نے جاسوسی ڈائجسٹ ، ڈھائی بجے ہم سہراب گوٹھ کے سٹاپ پر پہنچ گئے ۔یوسف پلازہ کے سامنے سے گزری تو میں نے نعیم کو بتا یا کہ یہاں میری چھوٹی خالہ رہتی ہیں ۔ جن کے پاس آنے کا ہمارا پروگرام آخر میں بنا تاکہ یہاں سے واپسی کے لئے بس پر بیٹھ جائیں ، کریم آباد سٹاپ کے پاس فہمیدہ اوراس کی امی اتر گئیں اور اترتے وقت دوبارہ ، کھانے پر آنے کا وعدہ لیا ۔لالو کھیت پوسٹ آفس کا سٹاپ آیا تو میں نے نعیم کو بتایا کہ یہاں ابا نے گھر لیا ہوا ہے ، جہاں ہم آکر ٹھیرتے ہیں ۔ تین ہٹی ، گرومندر کے پاس بس بندر روڈ پر آگئی ، مزار قائد سے گزرتی ہوئی بندو خان کباب کے پاس رکی ۔ بس نے بولٹن مارکیٹ جانا تھا اور ہم نے ، سٹیشن آفیسرز میس کے گیسٹ روم ، نعیم کا پروگرام تھا کہ دن بھر گھومیں پھریں ، رشتہ داروں سے ملیں اور رات کو واپس ، پونے چار بجے ہم ٹیکسی میں گیسٹ روم پہنچے ۔ گیسٹ روم کا کرایہ بیس روپے روزانہ تھا ۔ نعیم نے ویٹر کو بتایا کہ ہم صرف ناشتہ کیا کریں گے ۔ ابھی صرف چائے لے آؤ۔ تھوڑاآرام کر کے ہم تیار ہو کر بوہری بازار کی سیر کو نکلے ۔ وہاں سے محمود آباد نمبر دو ، ان کے دوست افتخار کے گھر پہنچے ، محمود آباد سے نعیم نے کلو مکس مٹھائی لی جو بارہ روپے کلو ملی ۔ نعیم کی یہ عادت ہے کہ کسی کے بھی گھر جاتے ہیں تو کچھ نہ کچھ لے کر ضرور جاتے ہیں ۔ پہلے ، مٹھائی زیادہ ہوتی تھی پھر کیک اور اب آئس کریم ۔ فروٹ یہ صرف بیماروں سے ملتے وقت لے کر جاتے ہیں ۔ افتخار بھائی گھر پر تھے ۔ انہیں دیکھ کر گالیاں دیتے ہوئے گلے ملے اور مجھے دیکھ کر ایک دم چپ ہو گئے ۔ اور معذرت کرنے لگے ۔ اور نعیم کو ڈانٹا ، فون کر دیتے کہ بھابی کے ساتھ آرہے ہو۔ انہوں نے کہا ، کہ پھر تمھاری شرافت کا کیسے پتا چلتا ۔افتخار بھائی کی امی اور ابو نے سر پر ہاتھ پھیرا دونوں ستر سال سے اوپر کے پیٹے میں تھے دونوں نے دعائیں دیں ان کی بڑی بہن ” رفو آپا“ گرم جوشی سے ملیں ۔ تھوڑی دیر بعد افتخار بھائی کی امی نے پوچھا ، ” ارے دلہن ، سٹلائیٹ ٹاؤن میں ہماری بیٹی قمر النساءبھی رہتی ہے ۔ تم ملیں ان سے ؟“ میں نے جواب دیا نہیں ۔ وہ حیرت سے بولیں نعیم نے تمھیں ان کے بارے میں نہیں بتایا ۔ جس پر تفصیل معلوم ہوئی تو پتا چلا، اوہو یہ، تو میری کلاس فیلو خالدہ قمر کی نانی ہیں ۔ تھوڑی دیر بعد ان کے ایک اور دوست ، اسلم بھی آگئے ۔ اب یہ دونوں بضدکہ ہمیں وقت دو ہم تمھیں ڈنر دیں گے انہوں نے کہا ابھی نہیں اگلے دورے میں ۔ میں اسلم بھائی اور نعیم کے ساتھ ان کے گھر گئی ان کی امی ، بہن ثریا اور چھوٹی بہن روبی سے ملاقات ہوئی ، گھنٹے بعد پھر افتخار بھائی کے گھر آئے ۔ کھانا کھایا ، پھر اسلم بھائی اور افتخار کے ساتھ ہم کار میں ، صدر پہنچے وہاں انہوں نے پہلوان کی قلفی کھلائی ۔ اور پھرہمیں گیسٹ روم چھوڑ دیا اور پوچھا کل کا کیا پروگرام ہے ۔ انہوں کہا ، کہ کل شاید گھومیں پھریں پھر شام کو ماموں کے گھر جانا ہے ۔ اسلم نے کہا ٹھیک ہے میں تمھیں کلفٹن چھوڑ دوں گا آٹھ بجے تیار رہنا ۔

افتخار بھائی اور نعیم کی دوستی ، نعیم کے 1970میں کراچی آنے کے بعد ہوئی ، نعیم کے گھر والے 1971میں میرپورخاص سے کراچی شفٹ ہوئے تو محمود آبا د نمبر دو میں کرائے کا مکان لیا ۔ مگر تین مہینے میں ہی ان کی امی اکتا گئیں اور یہ لوگ واپس شفٹ ہو گئے ۔ نعیم چونکہ ، ملازمت کر رہے تھے ۔لہذا یہ کراچی ہی میں رہے ۔ نعیم کو فوج میں دو سال کی لازمی ٹریننگ کے لئے ، ملیر کینٹ بلا لیا تھا ۔ انہوں نے غالباً اکتوبر تک ٹریننگ کی ، یہ میرپورخاص آئے وہاں پی اے ایف میں ایرمین کی سلیکشن کے لئے ٹیم آئی تھی ، ان کے تین دوست ، پی اے ایف میں سلیکشن کے لئے ڈاک بنگلے گئے ساتھ ان کو بھی لے گئے ۔ وہاں سلیکشن ٹیم کے انچارج فلائینگ آفیسر نے ایر فورس کے بارے میں لیکچر دیا تو یہ بہت متاثر ہوئے ۔ کیوں کہ بقول ان کے یہ لنگر سے بالٹی میں دال لا لا کر تھک گئے تھے ۔جبکہ ایرمین کے لئے میس تھے اور ، سلیکشن ٹیم کے ساتھ آئے ہوئے ایر مین ، بہترین سرمونیل ڈریس پہنے ہوئے تھے ۔انہوں نے سائینس میں میٹرک کیا تھا ،لہذا ان کو بہترین گریڈ یعنی ” اے “ ملنے کا مژدہ سنایا یہ قائل ہو گئے اور سلیکشن کے لئے فارم بھر دئے ۔ تمام امتحان میں پاس ہوگئے ۔ میرپورخاص سے چالیس میں سے نو لڑکے سلیکٹ ہوئے ۔ دو ان کے کلاس فیلو تھے ۔ سلیکشن ٹیم نے انہیں ، لیٹر تھما دیا اور کہا کی سات نومبر کو کراچی سلیکشن اور ریکروٹمنٹ سنٹر میں سامان کے ساتھ پہنچ جائیں اور وہاں سے کوہاٹ ٹریننگ سنٹر جانا ہے ۔ یہ ملیر کے بجائے کوہاٹ چلے گئے اور وہاں سے چھ مہینے بعد ، ٹیکنیکل ٹریڈ لے کر ،کراچی کورنگی کریک ٹریننگ سنٹر آگئے ۔ غالبا مئی 1971تھا ۔ جون میں ان کے گھر والے بھی کراچی آگئے ۔ مگر پھر کراچی میں رہنے کا ان کی امی کا پلان اس وجہ سے منسوخ ہوا ، کہ کراچی اجنبیوں کا شہر تھا ۔ اللہ جنت نصیب کرے وہ کہتی تھیں، کہ اگر یہاں میری وفات ہوئی تو جنازے میں صرف گھر والے ہی ہوں گے ۔

دوسرے دن منگل کو ، اسلم بھائی اور افتخار گاڑی لے کر میس آئے اور ہمیں کلفٹن لے گئے وہاں، ہمیں ڈراپ کیا اور اسلم بھائی نے بتایا کہ میں آپ کو ٹھیک ڈھائی بجے لینے آؤں گا ۔ہاں کھانا نہیں کھانا ۔ اور وہ دونوں اپنے آفس کے لئے نکل گئے ۔ دونوں نے اپنی فوڈ ڈسٹریبیوشن کمپنی بنائی تھی اورکلفٹن ہی میں دو تین سکولوں میں ، بیکری آئیٹم بچوں کے لئے سپلائی کرتے تھے ۔ کلفٹن ہم دونوں کا کئی دفعہ دیکھاہوا تھا ان کا اسلم بھائی اور افتخار کے ہمراہ میرا ، اپنے امی ابو اور بھائیوں کے ساتھ ۔ ہم دونوں ساحل پر چلتے رہے انہوں نے کہا میں تیرتا ہوں ، لیکن میں نے ڈر کی وجہ سے منع کر دیا ۔ میں نے سیپ اور گھونگھوں کے بنے ہوئے ایک اور دو دو روپے کے بندے ، ڈیکوریشن پیس اور دیگر چیزیں خریدیں ، اونٹ کی سواری کی ،ا نہوں نے اکیلے گھوڑا دوڑایا ، پھر ڈاجم کا ر میں بیٹھے ۔

سوا دو بجے ہم دونوں آئسکریم لے کر کلفٹن کے سب سے بہترین بلڈنگ کی طرف چل پڑے جو ” جہانگیر کوٹھاری پریڈ“ کے نام سے مشہور ہے یہ سرخ پتھروں سے بنایا ہوئی ایک شاندار یادگار ہے ۔

یہ کراچی کے سیٹھ ”جہانگیر ہورمس جی کوٹھاری“ نے 1920میں تین لاکھ روپے کی لاگت سے بنا کر کراچی کے عوام کو تحفہ دیا یہ دو حصوں پر مشتمل ہے ۔ ایک عمارت ہے اور دوسرا سمندر میں دور تک گیا ہوا چارسو میٹر کا طویل راستہ ۔ عمار ت کا افتتاح ، اس وقت بمبئی کے گورنر ، سر جارج لائیڈ لائیڈ کی بیوی ، نے پانچ جنوری اور اکیس مارچ 1921میں کیا اور اسے لیڈی لائیڈ جیٹی اور لیڈی لائیڈ پویلین کے نام سے موسوم کیا ۔

ہم جب ” لیڈی لائیڈ پویلین “ پہنچے تو اسلم بھائی اور افتخار بھائی موجود تھے ۔ ہمیں لے کر ” جان بروسٹ“ صدر پہنچے ۔ وہاں ہم نے دوپہر کا کھانا کھایا، اتنا مزیدار بروسٹ تھا کہ اس کے بعد جب بھی ہم نے کراچی وزٹ کیا تو ”جان بروسٹ “ضرور کھایا اور پھر ہمیں میس چھوڑ کر دونوں اپنے کام پر چلے گئے ، ہم نہادھو کر ، کینٹ ریلوے سٹیشن آئے ۔ جہاں سے انہوں نے ماموں کے گھر فون کیا ۔ اور اپنے ماموں زاد بھائی شاہد کو بتایا کہ ہم پانچ بجے شیرشاہ کے ریلوے سٹیشن پہنچ جائیں گے ۔ کراچی مں سرکلر ریلوے ، عوام کے لئے بہترین سواری تھی ، ٹرام تو خیر ختم ہو گئی تھی لیکن سرکلر ریلوے باقی تھی ۔ چار آنے کا ٹکٹ لے کر آپ جہاں تک وہ ریل جاتی ہے آپ مزے سے گھومتے رہیں اور ایک روپے میں پورے کراچی کی سیر کر لیں ۔ خیر ہم دنوں ٹکٹ لے کر سرکلر ریلوے میں بیٹھے ، اور کراچی کے نظارے دیکھتے ہوئے پانچ بجے ، شیر شاہ پہنچ گئے ۔ شاہد وہاں سوزوکی کے ساتھ موجود تھا ، ہم اس کے ساتھ بیٹھ کر ، بلدیہ ٹاؤن میں ان کے ماموں حنیف محمد خان کے گھر پہنچے ۔

وہاں ان کی تینوں ماموں زاد بہنیں اپنے بچوں کے ساتھ نعیم بھائی کی دلہن سے ملنے آئی ہوئی تھیں ، نعیم نے ہر ایک کے لئے مٹھائی لی تھی اور ماموں کے گھر کےلئے بھی ، ماموں کے کل آٹھ بچے ہر بیٹی کے دودو بچے ، ایک ڈبہ ختم ، سب نے مٹھائی کےلئے شور مچانا شروع کر دیا ، نعیم نے کہا تمھارا حصہ تم لوگوں کے گھر آکر دوں گا۔مگر پھر مجبوراً ، باقی تین ڈبے بھی کھولنے پڑے ، خوب باتیں اور بچوں کے ساتھ نعیم نے ، ہر گیم کھیلی ۔تمام بچے نعیم ماموں کے پیچھے ، کبھی کبھی میرے پاس بھی آئیں ۔ کھانا لگا بہنوں کے شوہر بھی آگئے ۔سب نے مل کرکھانا کھایا ۔ ہم نے جانے کی اجازت مانگی ، انکا ر ہو گیا نہیں یہاں رہو ۔ بہت کہا کہ ہم کپڑے نہیں لائے ، مگر اجازت نہیں ملی ۔ کھانے کے بعد ہم سب چھت پر آگئے ِ پورے چھت پر دری بچھی تھی اور بسترے لگے ہوئے تھے ، تمام لڑکے چھت پر اور تمام خواتین کے کمروں میں سونے کا انتظام کیا خیر رات دیر تک گپیں اور کہانیاں چلتی رہیں میں خاموش تماشائی تھی ۔ دو بجے سونے کی تیاری شروع ہوئیں ہم نیچے آگئے ، مجھے اور نعیم کو زاہد نے اپنا کمرہ دیا لیکن نعیم نے اوپر سونے کو ترجیح دی تو ساری لڑکیوں نے مل کر اپنے کمرے سے چارپائیاں صحن میں نکالیں اور فرش پربستر لگا دئے ، ایک بہن نے اپنے کپڑے مجھے دئے ۔ زاہد کے کپڑے نعیم کو دئے ۔ اب لیٹ کر باتیں شروع کر دیں اور باتیں کرتے کرتے آہستہ آہستہ نیند کی آغوش میں پناہ لیتے گئے ۔ صبح معلوم ہوا کہ لڑکے بھی کوئی چار بجے سوئے ، ناشتے کے بعد عفت (ماموں زاد بہن ) نے بتایا کہ آپ دونوں کے کپڑے میں نے رات کو دھو کر صبح استری کرکے لٹکا دئے ہیں ۔ جب چلنے لگیں تو بتادینا لادوں گی ۔ دوپہر کے کھانے کے بعد شاہد نے ہمیں شیرشاہ ریلوے سٹیشن پر چھوڑ دیا ،۔

ہم سرکلر میں بیٹھ کر کینٹ ریلوے سٹیشن پہنچے وہاں سے بوہری بازار آئے یہاں میں نے ان کی بہنوں اور بھائیوں اور اپنی بہن اوربھتیجوں اور بھتیجیوں کے لئے شاپنگ کرنی تھی ۔ میں نے ان کی دونوں بہنوں کے لئے الگ الگ ڈیزائین اور رنگوں کے سوٹ پسند کئے ، انہوں نے کہا کہ ایک ڈیزائن اور ایک ہی رنگ کے دونوں بہنوں کے لئے لے لیں ، میں نے بڑا کہا یہ نہ مانیں ، میرے خیال میں دونوں کا ایک جیسے سوٹ لینے سے بہتر ہے وہ سکول یونیفارم ہی پہن لیں ۔ مگر یہ نہیں مانے ۔ خیر مجبوراً لینے پڑے بھائیوں کے کپڑوں پر انہوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا ۔ مجھے کچھ بندے پسند آئے ، میں نے اپنے ، ان کی بہنوں اور چھوٹی بہن کے لئے پسند کئے یہاں بھی انہوں نے کہا کہ دونوں کے لئے ایک جیسے بندے لو ۔ میں نہیں مانی اور کہا لڑکیوں کی پسندمیں جانتی ہوں اس میں آپ نہ بولیں ۔ انہوں نے کہا کہ دیکھ لو نتیجہ تم بھگتو گی ، میں بیچ میں نہیں آؤں گا ۔ان دونوں میں یقیناًلڑائی ہو گی ۔اپنی بہنوں کو میں تم سے زیادہ جانتا ہوں انہیں ، ہمیشہ ایک جیسی چیزیں دلائی جاتی ہیں حد تو یہ کہ دونوں اپنی اپنی پسند سے کوئی چیز خریدیں تو گھر پہنچ کر ان میں سے ایک کی رائے بدل جاتی ہے ۔ خیر میں نے اپنی پسند سے ان کے لئے بندے لے لئے ۔ شاپنگ کے بعد ہم نے ” جان بروسٹ “سے کھانا کھایا اور پیدل اپنے روم میں آگئے ، وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ ، افتخار اور اسلم بھائی آئے تھے ۔ لیکن ہمیں نہ پاکر وہ ، بازار سے بروسٹ لا کر چھوڑ گئے ہیں ۔ خیر دوبارہ کھانا کھایا اور سو گئے ۔ صبح اٹھے تو میں نے کہا اب خالہ کے ہاں فون کر کے انہیں بتانا ہے کہ شام کو ہم ان کے ہاں آئیں گے ۔ میس سے خالہ کے ہاں فون کیا انہیں بتایا وہ بہت خوش ہوئیں ۔ انہوں نے پوچھا کہاں ٹہری ہو ، میں نے بتایا کہ صدر میں سٹیشن میس میں ۔ خالہ نے کہا ٹھیک ہے ۔

ہم دونوں پھر ، گیارہ بجے صدر گھومنے نکلے ، شاپنگ کی ، پہلوان کی قلفی کھائی ، جان بروسٹ کھایا ڈھائی بجے کمرے میں آئے ویٹر نے بتایا کہ دو گھنٹے سے کوئی مہمان انتظار کر رہا ہے ۔ نعیم ، میس کے ویٹنگ روم میں گئے ۔ وہاں انیس بھائی (میرے خالہ زاد بھائی ) بیٹھے تھے نعیم ان کو لے کر آئے ، انہوں نے میرے سر پر ہاتھ رکھا او ر کہا یہاں کیوں ٹہری ہو ، سامان باندھو، اور چلو اور زبردستی ہمیں ساتھ لیا ۔ نعیم نے بقایا جات ادا کئے اور بتایا کہ اب ہم نہیں آئیں گے اور ہم گاڑی میں بیٹھ کر خالہ کے گھر کی طرف فیڈرل بی ایریا روانہ ہوگئے ۔
Gul Naeemuddin
About the Author: Gul Naeemuddin Read More Articles by Gul Naeemuddin: 12 Articles with 134808 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.