رفت و بود۔ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کی خودنوشت

ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کی خودنوشت ‘رفت و بود‘ مرزا ظفر الحسن کے قائم کردہ ادارہ یادگار غالب، کراچی سے شائع (دسمبر 2011) ہوگئی ہے۔ اس کے مرتب ڈاکٹر معین الدین عقیل ہیں۔

ابتدا میں اپنے شاگرد ڈاکٹر معین الدین عقیل کی فرمائش پر جسارت کے ادبی صفحے کے لیے ڈاکٹر ابواللیث صدیقی نے اس خودنوشت کو قسط وار تقریبا ڈیڑھ سال تک لکھا تھا۔ ستمبر 1994 میں ڈاکٹر صدیقی انتقال کرگئے۔ خودنوشت کے اصل مسودے کی نقل ڈاکٹر معین کے پاس محفوظ تھی جسے انہوں نے شائع کروا کے ڈاکٹر صدیقی کی داستان حیات کو محفوظ کردیا ہے۔

ڈاکٹر ابواللیث صدیقی 15 جون 1916 کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وکٹوریہ ہائی اسکول، آگرہ مشن اسکول اور اسلامیہ ہائی اسکول بدایوں سے مکمل کی۔ بعد ازاں انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے 1942 میں پروفیسر رشید احمد صدیقی کی زیر نگرانی پی ایچ ڈی مکمل کی۔

خودنوشت کے مقدمے میں ڈاکٹر معین الدین عقیل لکھتے ہیں کہ "ڈاکٹر ابواللیث صدیقی زمانہ طالب علمی ہی سے مضامین و مقالات لکھنے لگے تھے جو جامعہ دہلی، علی گڑھ میگزین علی گڑھ، ہمایوں لاہور، معارف اعظم گڑھ اور نگار لکھنو میں شائع ہوتے رہے۔ تنقید اور تحقیق دونوں ہی میں ڈاکٹر صاحب کی دلچسپی یکساں تھی۔ بعد میں لسانیات اور خاص طور پر اردو لسانیات ان کا محبوب موضوع بن گیا۔ ان کے پی ایچ ڈی کے تحقیق مقالے لکھنو کا دبستان شاعری نے، جو شعبہ اردو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا پہلا تحقیقی کام تھا، انہیں اسی زمانے میں شہرت سے ہمکنار کردیا تھا۔ یہ مقالہ بھارت اور پاکستان میں کئی بار شائع ہوا۔"

ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کی اہم تصانیف کے نام یہ ہیں: مصحفی اور اس کا عہد, جرات، اس کا عہد اور شاعری, نظیر اکبر آبادی، اس کا عہد اور شاعری, تاریخ زبان و ادب اردو, بیسویں صدی کا اردو ادب.

مضمامین کے تین مجموعے غزل اور متغزلین، روایت اور تجربے اور ادب اور لسانیات کے عنوانات سے شائع ہوئے۔,

ڈاکٹر معین الدین عقیل مزید لکھتے ہیں کہ " علی گڑھ سے متعلق کئی اہم اور غیر اہم شخصیات کی خودنوشت سوانح عمریاں ان تک منظر عام پر آچکی ہیں جن میں علی گڑھ کا ماحول، وہاں کی زندگی اور شخصیات کا احوال ہمارے لیے پرکشش بھی ہے لیکن ڈاکٹر صاحب کی رفت و بود ان میں کئی اعتبار سے زیادہ معلوماتی اور دلچسپ و مفید ہے۔ اس میں ڈاکٹر صاحب کے بے ساختہ اسلوب کا بھی بڑا دخل ہے۔ ان کا حافظہ بڑا قوی اور حاضر تھا اور حالات و واقعات کی جزئیات تک انہیں خوب یاد تھیں۔"

رفت و بود کی فہرست ابواب کے چند عنوانات ملاحظہ ہوں کہ عنوانات کی جاذبیت، ابواب کے متن کے پر کشش ہونے کی بجا طور پر غماز ہے:
قبیلہ کشتگاں، دکھاؤں گا تماشا دی اگر فرصت زمانے نے، تالیف نسخہ ہائے وفا کررہا تھا میں، یاد ہیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں، دیوار بار منت مزدور سے ہے خم، ہنور ایک پرتو نقش خیال یار باقی ہے، کاشانہ ہستی کہ براند ختنی ہے، نے خون دل ہے چشم میں موج نگہ غبار، بعض اکابر، لاہور کا پہلا سفر، چند تلخ حقیقتیں، ذکر کچھ شام اودھ کا، جیسے استاد ویسے شاگرد، علی گڑھ کے رجسٹرار اور ڈائننگ ہال، علی گڑھ ایک ادارہ ایک روایت، مشرقی تمدن کے کچھ نمونے، لاہور کے گنج ہائے گراں مایہ، کراچی یونیورسٹی: تازہ بستی۔

علی گڑھ کے آفتاب ہوسٹل میں ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کے ہم عصروں میں اختر حسین رائے پوری، سبط حسن، حیات اللہ انصاری، فضل الرحمن انصاری شامل تھے۔ اسی زمانے میں ان پر اپنی تعلیمی قابلیت کے سبب، علی گڑھ کے اکابرین کی خصوصی عنایت رہی۔ ان اکابرین میں سے نواب سر راس مسعود اور پپروفیسر محمد حبیب کا ذکر خاص رفت و بود میں شامل ہے۔

ڈاکٹر ابواللیث صدیقی ان محفلوں کو اور ان نابغہ روزگار شخصیات کو کراچی آکر یاد کرتے رہے۔فانی بدایونی اور اصغر گونڈوی ان میں سرفہرست تھے۔ وہ ان شعرا کی تصاویر دیکھ کر اور ان کے کلام کو پڑھ کر گزرے زمانے کو یاد کرتے تھے، اس ضمن میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ:
"کان ان آوازوں کو سننے کے لیے بے تاب ہوتے ہیں، ہیرے تلاش کرتا ہوں تو پتھر ملتے ہیں، گوہر ڈھونڈتا ہوں تو مردہ مچھلیوں کے ڈھانچے نظر آتے ہیں۔

ڈاکٹر ابواللیث صدیقی دہلی میں مقیم تھے کہ انجمن ترقی اردو کا دفتر دکن سے منتقل ہو کر دہلی آگیا۔ اس زمانے کے احوال میں انہوں نے اپنے ایک ہم جماعت دوست معین الدین دردائی کا یاس انگیز واقعہ بیان کیا ہے، دردائی صاحب انجمن کے دریا گنج والے دفتر کے ایک کمرے میں کام کیا کرتے تھے اور اسی عمارت میں رہتے تھے۔ کام کے اوقات اتنے تھے کہ دردائی صاحب کسی اور کام کے کیا بلکہ بات کرنے کے قابل بھی نہ رہتے تھے۔ ایک شام ایسی سخت طلبی ہوئی کہ دردائی صاحب رو پڑے۔ کام کرتے کرتے ان کے گھٹنوں میں تکلیف شروع ہوگئی یہاں تک کہ وہ بالکل معذور ہوگئے، انمجن نے انہیں چند ماہ کی چھٹی دے کر رخصت کردیا اور انہوں نے زندگی کے باقی چالس برس اس طرح گزارے کہ نہ کھڑے ہوسکتے تھے، نہ چل سکتے تھے، نہ لیٹتے سوتے وقت ٹانگیں سیدھی کرسکتے تھے، بعد ازاں ڈاکٹر ابواللیث صدیقی نے اپنے دوست کو کراچی بلوالیا تھا۔ معین الدین دردائی کا انتقال ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے روز ہوا۔ مرتے وقت بھی ان کی ٹانگیں سیدھی نہ ہوسکی تھیں، قبر اور مردہ گاڑی کے لیے خاص انتظام کروانا پڑا!

جب ڈاکٹر ابواللیث صدیقی اپنے دوست کو دفن کرکے واپس آرہے تھے تو انہیں وہ وقت یاد آرہا تھا جب ان کے دوست کا خاندان بہار میں زمینداروں کا گھرانہ تھا اور ایک مرتبہ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی اسٹیشن سے معین الدین دردائی کے ساتھ ان کے گھر پالکی میں گئے تھے اور واپسی پر ہاتھی پر سوار ہو کر آئے تھے۔

رہے نام اللہ کا!

رفت و بود میں جوش ملیح آبادی کا احوال موجود ہے جن سے ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کی پہلی ملاقات علی گڑھ میں دوران مشاعرہ ہوئی تھی جہاں جوش اپنے خاص شغل کے بعد اس عالم میں تشریف لائے کہ بقول ڈاکٹر صدیقی، 'جو عین غروب آفتاب کے وقت اپنا پورا رنگ لا چکا تھا'۔ جوش نے شعر پڑھا:
شیخ صاحب اور خدا کو نہ جانیں
خدا کے ساتھ کے کھیلے ہوئے ہیں

جوش کا یہ لب و لہجہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی لکھتے ہیں کہ ایک صاحب اسٹیج پر تشریف لائے، یہ ظفر احمد صدیقی تھے اور اپنی گرجدار آواز میں کہا کہ ‘جناب صدر اس طرح کا کلام یہاں برداشت نہیں کیا جاسکتا، جوش صاحب پڑھنا بند کریں"
اس بات پر مشاعرے میں ایک ہنگامہ ہوگیا۔

پاکستان بنا اور جوش صاحب کراچی چلے آئے، یہاں ایک موقع پر ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کا ان سے ایک مرتبہ پھر واسطہ پڑا، اس بار اردو کی ترقی کی خاطر بنائے جانے والے بورڈ کی تشکیل کا معاملہ و موقع تھا جس میں جوش کا عہدہ وزارت تعلیم کے بورڈ کے ادبی مشیر کا تھا۔ یہ بقول ڈاکٹر صدیقی، ہرن پر گھاس لادنے والی بات تھی۔ جوش اور بورڈ، دونوں کے معاملات بگڑتے چلے گئے اور نوبت جوش کو بورڈ سے نکالنے تک جا پہنچی۔ ایک روز وزارت تعلیم کے ایک اعلٰی عہدے دار نے ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کو علاحدہ بلا کر رازداری سے کہا: " دیکھئے نا! یہ جوش صاحب کا میدان نہیں ہے، اس ڈھب کے وہ آدمی نہیں، بورڈ کی گرانٹ محدود ہے، آپ ان کو سبکدوش کیوں نہیں کردیتے "

ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کو بڑا غصہ آیا لیکن انہوں نے ہنس کر جواب دیا:
" جناب! آپ یہ بندوق میرے یا بورڈ کے کسی ممبر کے کندھے پر رکھ کر ہی کیوں چلانا چاہتے ہیں، رہا یہ سوال کہ جوش کی پرورش ہورہی ہے اور یہ روپے کا زیاں ہے تو جناب پرورش تو اور بہت سے لوگوں کی ہو رہی ہے اور ان میں سے بیشتر کا ادبی قد جوش سے بہت چھوٹا ہے۔ یہ کام آپ کم از کم مجھ سے نہیں کروا سکتے۔"

ڈاکٹر ابواللیث صدیقی جامعہ کراچی کی تازہ بستی آباد کرنے والوں کے سرخیل تھے، وائس چانسلر بشیر احمد ہاشمی کی نگرانی میں کیمپس کی تعمیر کا کام شروع ہوا، ہاشمی صاحب ہی کیمپس کے پہلے مکین تھے اور ان کے اصرار پر ڈاکٹر ابواللیث صدیقی اساتذہ میں پہلے شخص تھے جہنوں نے اس ویرانے میں آنے کی ہمت کی۔ اس ضمن میں ڈاکٹر صدیقی بیان کرتے ہیں:

" اس وقت تک رہائشی مکان پورے طور پر نہیں بنے تھے، بجلی نہیں تھی، فلش نہیں تھا، پانی کے نلکے نہیں تھے، سڑکیں نہیں تھیں، دکانیں نہیں تھیں، ڈاکٹر اور اسپتال نہیں تھے اور کیمپس سے نیو ٹاؤن پولیس اسٹیشن تک، جو ان ایک آباد اور پر رونق علاقہ ہے، ایک ویرانہ تھا جس سے اندھیرے اجالے گزرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ اس کیمپس کی ایک ایک اینٹ ہم دونوں کے سامنے لگی، سڑکیں بنیں اور زندگی کی بہت سی آسائشیں مل گئیں لیکن تازہ بستیاں آباد کرنا بڑے حوصلے اور ہمت کا کام ہے۔ اور ہاں ہم دونوں (مصنف اور ڈاکٹر عباد الرحمن خان) کیمپس کے پہلے مکین تھے۔ کیمپس میں آخری آرام گاہ کے قیام میں بھی پہل ڈاکٹر عباد الرحمن خان نے کی۔ ایک دن پہلے تک اچھے خاصے تھے، دوسرے روز اللہ کو پیارے ہوگئے۔"

عمدہ کتابت، مصنف کی باوقار تصویر سے مزین سادہ مگر دلنشیں سرورق کی حامل 448 صفحات پر مشتمل اس خودنوشت کی قیمت 450 مقرر کی گئی ہے۔ کتاب مندرجہ ذیل پتے سے براہ راست حاصل کی جاسکتی ہے:
ادارہ یادگار غالب و غالب لائبریری
پوسٹ بکس نمبر: 2268، ناظم آباد، کراچی-74600
فون نمبر: 021-36686998
Rashid Ashraf
About the Author: Rashid Ashraf Read More Articles by Rashid Ashraf: 107 Articles with 280106 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.