ڈاکٹر فوزیہ چوہدری
وطن عزیر پاکستان کے جغرافیائی محل وقوع نے افغانستان میں جاری امریکی
افغان جنگ کے حوالے سے امریکہ کو نتھ ڈال دی ہے لیکن امریکہ کھل کر اس کا
اعتراف نہیں کررہا ۔ ایک طرف امریکہ نیٹو سپلائی کھولنے کے لیے پاکستان سے
بار بار کہہ رہا ہے لیکن دوسری طرف وہ خطے سے جڑے اپنے مفادات سے دستبردار
ہونے کے لیے بھی تیار نہیں ہے اور نہ صرف یہ کے تیار نہیں ہے بلکہ ان
مفادات میں کسی قسم کی قدغن لگنے کے لیے بھی تیار نہ ہے۔ نیٹو سپلائی بند
ہونے کے بعد اگرچہ امریکہ نے متبادل راستے تلاش کرلیے ہیں لیکن ان متبادل
راستوں میں پاکستان کی سی بات کہاں۔۔۔؟ ایک تو ان شمالی راستوں سے امریکہ
اور نیٹو کو سپلائی بہت مہنگی پڑ رہی ہے اور دوسرا امریکہ کے منہ کو مفت کی
لگی ہوئی تھی اور طور خم کے راستے ہونے والی سپلائی امریکہ کے لیے فری پہنچ
رہی تھی۔دس سال تک پاکستان کی سڑکیں اور راستے امریکہ اور نیٹو کو سپلائی
فراہم کرتے ہوئے جس طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئے ہیں اس کے لیے تو امریکہ نے
کبھی بھی پاکستان کو ایک پینی بھی ادا نہیں کی ۔ اور جس امداد کے دینے کا
امریکہ آئےروز ڈھنڈورا پیٹتا رہتا ہے وہ امداد کسی فری کھاتے میں نہیں ہے
بلکہ اس امداد کے عوض وہ پاکستان سے بھاری خدمات وصول کرتا رہا ہے۔دراصل
امریکہ کی مثال تو ”ہماری بلی ہمیں کو میاﺅں“ والی ہے پاکستان سے فائدہ بھی
اٹھارہا ہے لیکن اس کا اقرار بھی نہیں کر رہا بلکہ الٹا رعب ڈال رہا ہے۔
پاکستان نے جواب میں اپنے اصولی موقف کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ
اگر نیٹو کی سپلائی کھلوانا چاہتا ہے تو اسے پاکستان کی خود مختاری کی
ضمانت دینا ہوگی یہ کہ مستقبل میں ایبٹ آباد طرز کا آپریشن نہیں ہوگا ،
ڈرون حملے بند ہونگے اور اگر امریکہ کو کوئی مصدقہ انٹیلی جنس رپورٹ ملتی
ہےتو کاروائی کے لیے پہلے پاکستان کو آگاہ کرناہوگا۔مگرامریکہ الٹا پاکستان
کو ہی موردِالزام ٹھہرا رہا ہے پہلے تووہ نیٹو حملے کےخلاف انکوئری کا کہتا
رہا لیکن انکوئری رپورٹ میںبھی اس نے گول مول موقف ہی اختیار کیا ہے کہ ان
حملوں میں دونوں ممالک ہی کی غلطی تھی۔بھلا امریکہ سے کوئی پوچھے کہ
پاکستان کی غلطی کس طرح تھی۔۔۔؟ کون اپنی ہی فوج کا اتنا بڑا نقصان کرتا
ہے۔آخر کار ایک دن امریکہ کو اپنی یہ غلطی ماننا پڑےگی ۔امریکہ پاکستان کا
اصولی موقف ماننے سے پہلے تو انکار کرتا رہتا ہے لیکن جب حالات و واقعات سے
یہ صورتحال واضح ہوجاتی ہے تو امریکہ کو ماننا ہی پڑتاہے۔یہ بات بھی امریکہ
ایک دن ضرور مانے گا کہ سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو کے جہازوںنے جو اندھا دھند
فائرنگ کر کے پاکستان کی عسکری قوت کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے وہ
نیٹو کی کھلی اور ننگی جارحیت تھی۔
نیٹو کی پاکستان کے راستے سپلائی بند ہونے پر امریکہ کو چھٹی کا دودھ تو
یاد آہی گیا ہے اور اب امریکن اپنی پوزیشن پر نظر ثانی کر کے کسی نہ کسی
طور اپنی پوزیشن صاف کرنے کی فکر میں ہیں امریکہ نے ایک نئی کلاہ بازی یہ
کھائی ہے کہ امریکہ کی اصل دشمنی طالبان سے نہیں ہے بلکہ القاعدہ سے تھی
اور وہ بھی اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد کسی حد تک کمزور پڑ چکی ہے ۔یہ
بات امریکہ کے نائب صدر جوبائیڈن نے کہی ہے کہ طالبان ہمارے دشمن نہیں ہیں
بلکہ القاعدہ امریکہ کا دشمن تھا۔بلکہ طالبان کے ساتھ تو ہمارے لیے بات
کرنا آسان ہے بنسبت القاعدہ کے ۔۔۔ گویا امریکہ اب اس بات پر آرہا ہے جو
پچھلے سات آٹھ سال سے پاکستان کہہ رہا تھا امگر امریکہ کی سمجھ میں نہیں
آرہا تھا یا پھر وہ سمجھنا ہی نہیں چاہتا تھا ۔پاکستان کی سیاسی اور عسکری
قیادت امریکہ کو یہی باور کرانے کی کوشش میں تھی کہ طالبان جن کا تعلق خواہ
پاکستان سے ہے یا پاکستان سے باہر کسی ملک سے ان کو القاعدہ کے ساتھ ملا کر
نہ دیکھا جائے ۔ طالبان وہ مقامی لوگ ہیں جنہیں آپ ناراض گروپ بھی کہہ سکتے
ہیں ۔ان کے اپنے علاقوں کے حوالے سے کچھ تحفظات ہیں جنہیں بات چیت کے ذریعے
سے دور کیا جاسکتا ہے ۔لیکن امریکہ پاکستان کی بات پر کان دھرنے کو تیار نہ
تھا۔سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی کہ امریکہ کو اب یہ بات کیسے سوجھی ہے خود
تو وہ طالبان کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھانے جارہا ہے اور پاکستان کو شمالی
وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف ایکشن کر کے لیئے کئی سال سے کہہ رہا
ہے اور پاک امریکہ تعلقات میں یہ حالیہ تعطل بھی اسی وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ
پاکستان ان طالبان کو اپنا دشمن نہیں سمجھتا اور یہ دشمن ہیں بھی نہیں۔ دیر
آئد درست آید کے مصداق اگراب بھی امریکہ کی سمجھ میں یہ بات آگئی ہے تو بھی
غنیمت ہے۔لیکن یار لوگ اس پر بھی پھبتیاں کس رہے ہیں اور باتیں بنارہے ہیں
کہ امریکہ کو اب یہ بات یاد آئی ہے۔جب نیٹو سپلائی بند ہونے کے بعد متبادل
راستے اختیار کرنے پر انہیں پہلے کی نسبت کئی گنا زیادہ خرچ پڑا اور
پاکستان کسی طرح اپنے مطالبات منوائے بغیر اسے بحال کرنے پرراضی نہیں ہے۔
صدر اوبامہ نہیں چاہتے کہ الیکشن سے پہلے کوئی ایسی بات ہو جو انہیں عوام
کے سامنے شرمندہ کردے انہوں نے اسامہ بن لادن کے خلاف فتح حاصل کرنے کو بھی
امریکی عوام کے سامنے اپنے سیاسی کریڈٹ میں ڈالتے ہوئے دوبارہ الیکشن لڑنے
کا اعلان تو کردیا ہے لیکن افغان جنگ سے جڑے دوسرے وعدے بھی انہیں پورے
کرنے ہیں۔جن میں سے ایک یہ ہے پانچ ہزار امریکی فوجی جولائی میں واپس بلانے
کے بعد پانچ ہزار فوجی ہی انہوں نے دسمبر2011کو واپس بلانے کا بھی وعدہ
عوام سے کیا تھا۔لہذا ایسے نازک موقع پر وہ پاک امریکہ تعلقات خراب نہیں
کرنا چاہتے گویا وہ طالبان سے مذاکرات کرنے اور ان کے متعلق نرم گوشہ رکھنے
میں امریکہ کی یہ حکمت عملی ہے اور ایک خیال یہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ
طالبان کے خلاف امریکہ کا یہ نرم گوشہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کے شکست سے
دوچار ہونے سے قریب تر ہونے کی وجہ سے ہے ورنہ اگر امریکہ خطے میں جیت رہا
ہوتا یا اسے جیتنے کی کوئی امید نظر آرہی ہوتی تو وہ کبھی بھی اپنے رویے
میں نرمی یا لچک نہ دکھاتا بلکہ ہمیشہ کی طرح اب بھی فرعونیت کا مظاہرہ
کرتا ۔حالانکہ میرے خیال میں امریکہ کی فرعونیت میں ابھی بھی کوئی خاص کمی
واقع نہیں ہوئی ۔کیونکہ اگر ان کے رویے میں کوئی تبدیلی آنا ہوتی تو نیٹو
حملے کے اتنے بڑے سانحے کے بعد وہ کم از کم اپنے رویے پر نادم ہوکر ایک
دفعہ اپنے رویے کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان سے معافی مالنگ لیتا مگر امریکہ
نے تاحال ایسا نہیں کیا۔بلکہ ان حملوں کی تحقیقات کے لیے امریکہ نے جو بورڈ
قائم کیا تھا اس کی رپورٹ آنے پر وہ ان حملوں میں پاکستان کو بھی ملوث کر
رہے ہیں کہ پاکستان نے ہمیں درست علاقے کی نشاندہی نہیں کی۔
اس میں تو کئی شک نہیں ہے کہ امریکہ پر اب یہ بات بہت اچھی طرح واضح ہوچکی
ہے کہ وہ افغانستان میں اگرچہ فی الحال مکمل شکست سے دوچار ہونے میں کچھ
وقت لے لیکن کم از کم وہ یہ جنگ جیتنے نہیں جارہا۔امریکہ نے جو اس جنگ میں
اتنا پیسہ جھونکا ہے کہ جس سے اس کی معیشت تباہ ہوگی ہے ابھی بھی اس جنگ سے
کچھ نہ کچھ فائدہ اٹھانے کی ضرور سوچ رہا ہے۔امریکی سینیٹر جان کیری نے کہا
ہے کہ اس خطے میں خرچ ہونے والی رقم سے مستقبل میں امریکہ کو کافی فوائد
حاصل ہونے والے ہیں یعنی روس اور چین جیسے حریفوں سے مقابلے میں مدد ملے گی
۔گویا امریکہ سوچ سمجھ کر اورباقاعدہ ایک منصوبے کے تحت خطے پررقم خرچ
کررہا ہے جو امریکی سینیٹر کی اس رپورٹ سے ظاہر ہے۔
امریکہ اگر اس بات پر آہی گیا ہے کہ طالبان ان کے دشمن نہیں ہیں بلکہ اصل
دشمن القاعدہ تھا اور جس کے سربراہ کو ہلاک کر کے وہ ایک طرح سے ان کی کمر
توڑ چکے ہیں تو پھر دیر کاہے کی امریکہ کو چاہیے کہ طالبان کے سرکردہ لیڈرز
سے مذاکرات کرکے اپنے آبائی علاقے کے حوالے سے ان کے تحفظات دور کردیں تو
کوئی وجہ نہیں ہے کہ طالبان (خواہ پاکستانی ہوں یا غیر پاکستانی)اپنی لڑائی
ختم کردیں گے اوراگر ایسا ہوجائے تو امریکہ کا اس خطے سے رول ختم ہوجاتا
ہے۔کیونکہ طالبان امریکہ کے افغانستان سے مکمل انخلاءسے کم کسی بات پر بھی
راضی نہیں ہونے والے اور امریکہ ایسا ہرگز نہیں کرنے والا اگرچہ اس کا
عندیہ ضرور دے رہا ہے۔شاید پریشر کم کرنے کے لیئے جو پاک امریکہ تعلقات میں
نیٹو حملے کے بعد سے آگیا ہے ۔امریکہ یہ بات اچھی طرح سے جانتا ہے کہ
پاکستان کے بغیر افغان جنگ کسی بھی نتیجہ خیز موڑتک نہیں پہنچ سکتی اور
پاکستان اس جنگ کا ایک اہم عنصر ہے اور امریکہ کے یہاں جانے کے بعد جو ایک
نہ ایک دن اسے جانا ہی ہے افغانستان میں ازسر نو امن قائم کرنے اور ازسر نو
تعمیر میں پاکستان ہی ایک اہم رول ادا کرسکتا ہے ۔امریکہ نے اگرچہ مستقبل
میں اس کام کے لیے بھارت کو تیاررکھا ہے اور کسی حدتک بھارت کا اثرو رسوخ
افغانستان میں بڑھا دیا ہے لیکن بھارت اور امریکہ سمیت ساری دنیا یہ جانتی
ہے کہ یہ مسئلے کا غیر فطری حل ہے ۔یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ امریکہ کے
افغانستان سے چلے جانے کے بعد بھارت تادیر افغانستان میں رک سکے اور نہ ہی
طالبان یہ بات کسی طور پر ماننے کو تیار ہونگے۔
افغانستان کے پختونوں اور پاکستان کے صوبے خیبر پختونخواہ کے باشندوں کے
نسلی رشتے کسئی صدیوں سے چلے آرہے ہیں جن کی جڑیں اتنی مضبوط ہیں کہ انہیں
کسی قسم کی حد بند ی میں نہیں جکڑا جاسکتا آپس میں ان کے بیاہ شادی اور غمی
خوشی کی شراکت داری تو کسی طور پر ختم نہیں ہوسکتی۔یہ تو سب جانتے ہیں کہ
کسی بھی مسئلے کو اگر غیر فطری طور پر حل کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ اس
مسئلے کا پائیدار حل نہیں ہوتا۔ لہذا اگر امریکہ افغانستان سے طلے جانے کے
بعد یہاں بھارت کا اثرو رسوخ قائم کرنا چاہتا ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے
افغانستان میں ایک پائیدار امن قائم کرنے کے کے لیے افغان عوام خود اپنا حق
رائے دہی استعمال کر کے فیصلہ کریں گے کہ ان کے ہاں کس قسم کی اور کسی طرح
کی حکومت ہونی چاہیے۔ امریکہ کو انہیں انگلی پکڑ کر چلانے کی ضرورت نہیں ہے
لہذا امریکہ اپنا بوریا بستر لپیٹے یہی اس کے حق میں افغانستان کے حق میں
اور دنیا کے حق میں بہتر ہے۔ |