بے نظیر بھٹو ...بحیثیت جرات مند وزیراعظم


خصوصی تحریر برائے27دسمبر 2011

امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے والی خاتون رہنما کے سیاسی وارث اتنے کمزور کیوں نکلے؟

”راجیو گاندھی نیو ورلڈ آرڈر کا پہلا شکار ہے“ یہ وہ الفاظ ہیں جو پیپلزپارٹی کی سابق چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھارتی وزیراعظم کے قتل پر عالمی ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہے تھے لیکن کسے معلوم تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب وہ خود امریکہ کی نام نہاد دہشت گردی کی جنگ میں پہلی جمہوری رہنما کے طور پر شکار ہو جائیں گی اور شہادت کا رتبہ پائیں گی۔ بے نظیر بھٹو کی شخصیت ان کی سیاسی جدوجہد اور وزارت عظمیٰ کے ادوار پر اگر ہم نظر ڈالیں تو ہم انہیں نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام اور دنیا کی ایک ممتاز اور جرات مند خاتون رہنما کے طور پر دیکھتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ان کا جھکاؤ مغرب کی جانب تھا لیکن جب ہم تاریخ کا گہرائی سے جائزہ لیں تو انہوں نے بہت کم مواقعوں پر مغرب کا ساتھ دیا ان کا اول و آخر سیاسی فلسفہ پاکستان میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط کرنا، جمہوری اداروں کو مستحکم کرنا اور جمہور کو خوشحالی سے ہمکنار کرنا تھا۔ انہوں نے بحیثیت وزیراعظم 1988ءتا 1990ءاور 1993ءسے 1996ءکے دوران کبھی بھی امریکہ، برطانیہ یا پھر عالمی مالیاتی اداروں کے کسی ایسے حکم، ہدایت پر عمل نہیں کیا جو پاکستان کی سالمیت، خودداری، دفاع اور عوام کے خلاف ہو انہوں نے ہمیشہ اسلام اور پاکستان کو ترجیح دی۔

جنرل ضیاءالحق کی شہادت کے بعد اس بات کے کھلے اشارے مل رہے تھے کہ سرد جنگ اب ختم ہو رہی ہے اور پاکستان کا فرنٹ لائن اتحادی کا کردار بھی ماند پڑ جائے گا۔ ان حالات میں جب چند سال قبل تک پاکستان واشنگٹن کا ایک اہم اتحادی تھا وہاں سے مجاہدین کے لئے ڈالر اور اسلحہ آ رہا تھا نئی عالمی صورت حال میں یہ ”ہنی مون“ ختم ہونے لگا بھارت کے اندر ایک بار پھر پاکستان کو توڑنے اور ناکام ریاست کے الزامات کے زہریلے جراثوموں نے جنم لیا تو دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں بھی جدوجہد آزادی کے لئے حالات سازگار ہونے لگے ان حالات میں بے نظیر بھٹو نے 1988ءمیں اقتدار سنبھال کر جہاں عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم کا اعزاز حاصل کیا وہاں سیاست کاری کے مشکل حالات نے انہیں ”خوش آمدید “بھی کیا جس میں خاص کر مغرب اور امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی تجدید نو تھی۔ ملکی دفاع، غیر ملکی امداد‘ بھارت، افغانستان اور مقبوضہ کشمیر کی صورت حال، سیاست کا داخلی میدان، ایٹمی و میزائل پروگرام پر غیر ملکی دباؤ، پریسلر و براؤن ترامیم وغیرہ ان کے لئے درد سر بنے رہے لیکن بے نظیر بھٹو نے اپنی دانش اور باپ ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی تربیت کے ذریعے ان تمام مسائل کا کمال جوانمردی سے مقابلہ کیا اور سرخرو ہوئیں۔ ذیل کی سطور میں ہم بے نظیر بھٹو کے دونوں ادوار میں امریکہ کے ساتھ جوہری اور میزائل پروگرام کے حوالے سے تعلقات کا جائزہ لیں گے کہ کس طرح شہید باپ کی شہید بیٹی نے امریکی صدور کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا موقف زوردار طریقے سے پیش کیا اور منوایا جس کی کمی آج کی وفاقی حکومت میں شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔

بے نظیر بھٹو کو اپنے دونوں حکومتوں میں امریکہ کی جانب سے جوہری اور میزائل پروگرام بند کرنے کے حوالے سے شدید دباؤ کا سامنا رہا لیکن انہوں نے ہر موقع پر سیاسی دانش کا ثبوت دیا اور پاکستان کے جوہری و میزائل پروگرام کو جاری رکھا گویا امریکہ نے جوہری پروگرام رکوانے کے لئے جہاں ذوالفقار علی بھٹو کو دھمکیاں دیں تو بے نظیر بھٹو کو گلاب پیش کیا لیکن بے نظیر بھٹو نے کبھی ایسے پھول پسند نہیں کئے جس سے پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچتا ہو۔ 18 دسمبر 1988ءکو بھارت میں امریکی سفیر مسٹر ناکلے نے کہا تھا کہ بے نظیر بھٹو سے امریکہ نے جوہری پروگرام پر ابھی کوئی بات نہیں کی۔ 21 دسمبر کو رونلڈ ریگن انتظامیہ نے کانگریس کو سرٹیفیکیٹ جاری کیا جس میں تحریر تھا کہ پاکستان کے پاس کوئی ایٹمی ہتھیار نہیں۔ پاکستان کے لئے امریکہ کی 60 کروڑ ڈالر کی اقتصادی اور فوجی امداد کی بحالی میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں رہی ۔ واضح رہے کہ ریگن نے اس سرٹیفکیٹ پر 16 دسمبر کو دستخط کئے تھے اگلے سال 27 جنوری کو پاکستان اور امریکہ میں دفاعی پیداوار کا ایک سمجھوتہ ہوا جس کے تحت امریکہ تاریکی میں دیکھنے والا نظام اور ٹینک شکن میزائلوں کی تیاری میں مدد دی۔ اسلام آباد حکومت کو تھوڑی سی تھپکی دینے کے بعد امریکہ نے پاکستان کے ساتھ” کام“ کی بات کا آغاز کیا۔ 10 اپریل 1989ءکو سینیٹر سٹیفن سولارز نے بے نظیر سے ملاقات کی مگر انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جب انہیں یہ کہنا پڑا کہ بے نظیر ایٹمی ہتھیاروں کے معاملے پر ضیاءالحق سے زیادہ حساس ہیں تاہم اسلام آباد حکومت کو ایٹمی پروگرام پر عالمی تحفظات قبول کر لینے چاہئیں۔

جون 1989ءمیں بے نظیر بھٹو پہلی دفعہ 6 روزہ دورے پر امریکہ گئیں، ننھا بلاول بھٹو ان کی گود میں تھا۔ زرداری روایتی پاکستانی لباس میں ملبوس تھے اور بے نظیر جارج بش سینئر اور ان کی انتظامیہ سے ملاقاتیں کیں۔ 7 جون کو بے نظیر بھٹو نے امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے 30 منٹ کے خطاب میں کہا کہ ہمارے پاس ایٹم بم ہے نہ ہم ایٹم بم بنائیں گے یہ ہماری پالیسی ہے ۔ اس موقع پر انہوں نے پاکستان کے ہمسایہ ممالک کو جوہری تجربات پر پابندی کی پیش کش کی۔ اگرچہ اس خطاب پر بعض حلقوں کو مایوسی بھی ہوئی لیکن بعد کے حالات نے ثابت کر دیا کہ عالمی سطح پر اس طرح کی سیاست کاری بعض موقعوں پر ضروری ہو جاتا ہے۔ اس دورے میں بے نظیر بھٹو نے امریکی ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایٹم بم کے حوالے سے ہم نے امریکہ کی بات مان لی ہے اب امریکہ بھارت پر دباؤ بڑھائے ور نہ ہم 50 سال تک بھارت کے دباؤ میں ہی رہیں گے۔ گویا مرحومہ نے جہاں پاکستان کے جوہری پروگرام پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا وہاں اس دورے میں انہوں نے بھارت پر دباؤ بڑھانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی امداد کی بحالی اور دفاعی تعاون کے حوالے سے بھی بات کی۔ یہی وجہ تھی کہ اگست 89ءمیں امریکی کانگریس نے پاکستان کو 60 ایف سولہ طیاروں کی فروخت کی توثیق کر دی۔ ساتھ ہی نائب امریکی وزیر دفاع آرتھر ہیو نے بے نظیر حکومت کے حوالے سے کہا کہ امریکی انتظامیہ اسلام آباد کے ساتھ ہے اور اگر یہاں فوج برسراقتدار آئی تو پاکستان کو ایف سولہ طیارے نہیں ملیں گے۔ ویسے بھی امریکہ کے لئے ضروری ہو گیا تھا کہ وہ روسی افواج کے افغانستان سے مکمل انخلاءتک پاکستان کے ساتھ تعاون کرتا امریکی حکام نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ واشنگٹن انتظامیہ نے ایٹمی مسئلے پر بے نظیر کو شک کا فائدہ دیا تھا اور بے نظیر بھٹو کی حکومت کے 100 دن پورے ہونے پر پاکستان کے روس سے وابستہ ہونے کے امریکی خدشات ختم ہو گئے جس پر کمیونسٹ مخالف افغان مجاہدین کو امریکی امداد بھی بھجوائی گئی تاہم 1990ءمیں حالات نے پلٹا کھایا تو وہی امریکہ جو بے نظیر بھٹو کو اپنا چنیدہ سمجھ رہا تھا کو پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن کی جانب سے ”تابعداری کا ثبوت“ نہیں ملا اور واشنگٹن نے بے نظیر بھٹو کو کچھ مشکل وقت دینا شروع کر دیا جس میں پہلے دشمن کے حملے کی پیشگی اطلاع دینے والے کمپیوٹرائزڈ آلات اور بعد میں ایف 16 طیاروں کی فراہمی بند کر نا تھا ۔ دوسری جانب حالات کچھ ایسے بن گئے کہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو آئینی مدت پوری ہونے سے پہلے ہی ختم کر دیا گیا۔

محترمہ کا دوسرا دور حکومت جوہری معاملے پر پہلے دور سے زیادہ جارحانہ اور اصولی تھا انہیں عوام کی طاقت، پاکستان کی جغرافیائی اہمیت اور اپنی صلاحیتوں کا پہلے سے زیادہ ادراک ہو گیا تھا یہی وجہ ہے کہ جوہری پروگرام کے معاملے میں جہاں انہوں نے سابقہ حکومتوں کی پالیسیوں کو جاری رکھا وہاں انہوں نے میزائل ٹیکنالوجی میں بھی پاکستان کو لاکھڑا کیا۔ اس حوالے سے امریکہ اور مغرب کی انہوں نے بالکل پرواہ نہیں کی۔ 13 مارچ 1993ءکو جب نوازشریف برسراقتدار تھے بے نظیر کی پاکستان میں متعین امریکی سفیر جان سی مونجو سے ملاقات ہوئی اس ملاقات میں بھی انہوں نے پاکستان کے جوہری پروگرام کا دفاع کیا اور جب نوازشریف کی حکومت ختم ہونے کے بعد وہ دوبارہ برسراقتدار آئیں تو ان کی حکومت نے دوٹوک لفظوں میں امریکہ سے کہا کہ واشنگٹن اگر پاکستان کو ایف 16 طیارے نہیں دیتا ہے تو وہ رقم واپس کر دے پاکستان کسی اور ملک سے یہ جہاز خرید لے گا۔ بے نظیر کے رویے میں لچک نہ آنے پر کلنٹن انتظامیہ کے ایک افسر نے کہا تھا کہ ایٹمی پروگرام رکھنے کا محترمہ کا بیان ان کے لئے فائدہ بخش نہیں۔ نومبر کے پہلے مہینے میں ایک بار پھر امریکی ایوانوں میں ہلچل مچنی شروع ہو گئیں اور وہاں کی انتظامیہ کی تمام انگلیاں پاکستان کی جانب اٹھنی شروع ہو گئی ۔ اس وقت کے امریکی نائب وزیر خارجہ رابن رافیل نے اسلام آباد آ کر کلنٹن حکومت کا واضح پیغام دیا کہ پاکستان ایٹمی پروگرام رول بیک کرے۔ جوہری پروگرام کے مکمل خاتمے پر ہی پریسلر ترمیم ختم ہو گی۔ بھارت بھی اس عرصے میں اپنے میزائل ٹیکنالوجی پر کام کر رہا تھا اور خطے میں میزائل ٹیکنالوجی کی دوڑ لگنے کا اندیشہ بڑھ گیا تھا جس پر امریکہ نے بھارت سے زیادہ پاکستان پر دباؤ رکھا ہوا تھا لیکن حکومت پاکستان اپنے روائتی موقف سے ہٹنے کو تیار نہیں تھی۔ 28 نومبر 1993ءکو پارلیمانی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے کہا تھا کہ پاکستان جوہری پروگرام کو رول بیک نہیں کرے گا جبکہ پریسلر ترمیم کے مکمل خاتمے کے لئے حکومت اور اپوزیشن کو تعاون کرنا پڑے گا۔ اگلے ہی دن امریکہ کی جانب سے ایٹمی پروگرام کو ختم کرانے کے لئے 10 نکاتی تجاویز کا پیکج سامنے آیا جس پر پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا کہ اس معاملے پر امریکی ہدایات لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔

1994ءمیں بھی اسلامی بم کا بھوت واشنگٹن کے سر پرسوار رہا اور اس نے مختلف پابندیوں سے بے نظیر حکومت کو پریشان کرنا شروع کیا لیکن بے نظیر اب تک چومکھی لڑائی لڑنے میں ماہر ہو چکی تھیں خاص کر بل کلنٹن حکومت کو انہوں نے پچھلے پاؤں چلنے پر مجبور کر دیا ۔ امریکہ کبھی دفاعی اور کبھی جارحیت کی حالت میں آ جاتا تھا مگر دونوں صورت میں انہیں مسلسل ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ 8 فروری 1994ءکو محترمہ بے نظیر بھٹو نے بیان دیا کہ پاکستان امریکہ کو قائل کرے گا کہ پریسلر ترمیم امتیازی قانون ہے جو دونوں ملکوں کے تعلقات کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے اسی ماہ پاکستان کا دفاع موثر بنانے کا امریکی پیکج سامنے آتا ہے لیکن کلنٹن حکومت کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ پریسلر ترمیم کے خاتمے اور پاکستان کی جائز ضروریات کے پورے کئے جانے کے لئے خاموش سفارت کاری کا عمل شروع ہوا تاہم اس میں واشنگٹن کو کامیابی نہیں ہو سکی اور اگست 1994ءمیں پاکستان کے لئے F-16 طیاروں کی تیاری روک دی گئی لیکن بے نظیر بھٹو نے اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور امریکہ سے ببانگ دہل کہا کہ وہ ایف 16 دے یا اس کے پیسے واپس کرے۔ بے نظیر کے 10 اگست 1994ءکا بیان تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ عالمی امن کے لئے پاکستان اور امریکہ کے قریبی تعلقات ضروری ہیں مگر محترمہ ایسے تعلقات کی ہر گز خواہش مند نہیں تھیں جو برابری کی سطح کے نہ ہوں۔ وہ کہا کرتی تھیں کہ پاک امریکہ تعلقات کی بنیاد صرف ایٹمی مسئلہ پر نہیں ہو نے چاہیں ۔ بے نظیر بھٹو کے جوہری پروگرام کے حوالے سے کئے گئے اقدامات کو اس وقت دھچکہ لگا جب میاں محمد نوازشریف نے نیلابٹ آزاد کشمیر میں ایک جلسے کے دوران پاکستان کے پاس ایٹم بم کی موجودگی سے متعلق بیان دیا جس پر سینیٹر پریسلر نے کہا کہ ہم نواز شریف کے شکر گزار ہیں جنہوں نے پاکستان کے ایٹمی طاقت ہونے کی تصدیق کر دی تاہم اس سے پاکستان پر دباؤ مزید بڑھ گیا اور پاکستان کا امدادی پروگرام بند کر دیا گیا۔

سوویت یونین کے زوال کے بعد امریکہ نے اپنے لئے مسلم دنیا کو خودساختہ خطرہ بنا لیا تھا اور پاکستان کو بدقسمتی سے اس کا سرخیل بنا دیا گیا جس کا ایٹمی پروگرام اور اسلامی بم سب سے بڑا خطرہ تھا۔ 1995ءمیں امریکہ نے پاکستان کے گلے میں گھنٹی ڈالنے کے لئے این پی ٹی (N.P.T) کا طریقہ استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو نے 8 جنوری 1995ءکو اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل عبدالوحید کاکڑ کے ساتھ ملاقات میں اس بات کا فیصلہ کیا کہ پاکستان بھارت کے بغیر این پی ٹی پر دستخط نہیں کرے گا اور امریکہ کا یکطرفہ مشورہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس دوران جہاں امریکہ کی جانب سے دھمکیاں ملنے لگیں وہاں مشرقی سرحد پر حالات بھی کشیدہ ہونا شروع ہو گئے۔ تاہم بے نظیر بھٹو نے دفاعی رابطہ کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے واضح طور پر کہہ دیا کہ فوج میں کمی نہیں ہو گی اور بھارتی تیاریوں کا بھرپور مقابلہ ہو گا۔ (یہ بیان آج کی پیپلز پارٹی کی قیادت کو پیش نظر رکھنا چاہئے) اپریل میں جب امریکہ نے ایک دفعہ پھر پاکستان کے موقف کی مخالفت کی اور پریسلر ترمیم کے باقی رہنے اور ایف 16 طیارے کے نہ دینے کے حوالے سے کہا تو محترمہ کا کہنا تھا کہ ہم پرتھوی میزائل کا منہ توڑ جواب دیں گے تاہم امریکہ بھارت کو ہٹ دھرمی سے باز رکھے۔ اپریل 95ءمیں پاک بھارت جنگ کے امکانات پیدا ہو گئے تھے۔ بے نظیر بھٹو نے امریکہ کا دورہ کیا اور بل کلنٹن کے سامنے پاکستان کا موقف اس بھرپور طریقے سے پیش کیا کہ امریکی صدر نے پاکستان سے ناانصافی کا اعتراف کر لیا۔ بے نظیر بھٹو نے اس موقع پر پاکستانیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس دورے میں ہم نے کچھ نہیں دیا بلکہ بہت کچھ حاصل کیا ہے۔

وطن واپسی پر بےنظیر بھٹو نے کہا کہ ہم نے امریکہ کو بتا دیا ہے کہ پاکستان کو نقصان پہنچا تو امریکی مفادات بھی محفوظ نہیں رہیں گی۔ ہمیں ایٹمی پروگرام کے بدلے طیارے نہیں چاہئے۔ محترمہ کی یہ بات صد فیصد درست ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد سے پاکستان نے بدقسمتی سے مغرب کو اپنا حلیف بنا لیا اور یہاں پر وہ اپنے مفادات کے لئے کم اور امریکی مفادات کےلئے زیادہ کام کرتا رہا جس کی وجہ سے پاکستان میں نہ تو صحیح معنوں میں جمہوریت پنپ سکی اور نہ ہی عوام کو ان کے حقوق مل سکے۔ امریکہ کبھی پاکستان کو سر آنکھوں پر بٹھا لیتا اور کبھی اسے زمین پر پٹخ دیتا ۔ 21 ستمبر 1995کو امریکی سینٹ میں براﺅن ترمیم منظور ہوئی یہ ترمیم دراصل بدنام زمانہ پریسلر قانون کے خلاف تھی جس نے پاکستان کو اقتصادی اور فوجی پابندیوں میں جکڑا ہوا تھا۔ بےنظیر حکومت جنہوں نے پاکستان کے مفادات کے تحفظ کےلئے امریکہ میں لابنگ کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا تھا جس کی کاوش سے سینٹر براﺅن کی پیش کردہ ترمیمی بل 45 کے مقابلے میں 55 ووٹوں سے منظور ہوا یہ گویا امریکی سینٹ میں بھارتی لابی کی شکست بھی تھی جو پاکستان کو زیر عتاب رکھنا چاہتی تھی ۔ تاہم پاکستان اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا براﺅن ترمیم کی کامیابی پر بل کلنٹن انتظامیہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئی کہ وہ اس کی بھرپور حمائت کرے گی تو دوسری جانب بھارت اس ترمیم کو ناکام بنانے پر تلا ہوا تھا اور اس نے اس حوالے سے اسرائیل سے رابطہ شروع کر دیا ادھر اسرائیل جو امریکی انتظامیہ پر بھوت کی طرح چھایا ہوا ہے کی جانب سے یہ بیان آیا کہ پاکستان کو ہتھیار نہیں مل سکتے کیونکہ ہم بھارت سے زیادہ قریب ہیں اور وہ ہماری بڑی منڈی ہے۔

1996ءکے حالات اور اس سے قبل کے پاکستان کے رویے سے یہ واضح ہونا شروع ہو گیا تھا کہ اب کلنٹن انتظامیہ کی گڈبک میں سے بےنظیر کا نام حذف کر دیا جائے گا۔ جنو ری 1996ءکو امریکہ نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کو ایٹمی طاقت نہیں بننے دیں گے اگرچہ مئی 1974ءمیں بھارت ایٹمی دھماکہ کر چکا تھا لیکن واشنگٹن کسی اسلامی ملک کو جوہری طاقت بنتا نہیں دیکھنا چاہتا تھا اور اب جبکہ پاکستان کی فرنٹ لائن کی حیثیت بھی ختم ہو چکی تھی لہٰذا پاکستان میں جمہوریت سے زیادہ اہم مسئلہ جوہری پروگرام کا بنا دیا گیا ۔ بےنظیر حکومت نے اگرچہ براﺅن ترمیم کے ذریعے پریسلر قانون میں ایک اہم نقب لگا ئی تھی لیکن وائٹ ہاﺅس بعد میں ببانگ دہل کہنے لگا کہ براﺅن قانون سے پریسلر ترمیم ختم نہیں ہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ دھمکیاں بھی آنے لگی تھیں کہ پاکستان بھارت کے پرتھوی میزائل کا جواب نہ دے لیکن بےنظیر نے ان تمام یکطرفہ کارروایوں اور بیانات پر امریکہ کو گویا جھنڈی دکھا کر پاکستان کے جوہری اور ایٹمی پروگرام کے حوالے سے امریکی دباﺅ مسترد کر دیا ۔ اسی دوران کلنٹن حکومت نے پاکستان پر الزام لگایا کہ اس نے چین سے جوہری سامان حاصل کیا ہے۔ امریکہ کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ وہ یہ سامان خاموشی سے چین کو واپس کر دے جبکہ اسلام آباد کو رنگ مگینٹ فراہم کرنے کی حرکت کا مزا چکھانے کےلئے چین کے ہر قسم کے قرضے منجمد کر دئیے گئے۔ اُدھر بیجنگ حکومت نے کہا کہ امریکہ طاقت کی کھلی جنگ میں ہمیں شکست دینا چاہتا ہے اسلام آباد نے اس حوالے سے کلنٹن حکومت کے الزام کو جھوٹا قرار دیا۔ 12 مارچ کو سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم بےنظیر بھٹو نے پاکستان کا موقف بڑے زوردار انداز میں پیش کیا ۔ انہوں نے واشنگٹن کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو اگر اس کا اسلحہ فراہم نہ کیا گیا تو تعلقات ختم ہو جائیں گے۔ امریکہ ہماری رقم ہمیں دبانے کےلئے کیوں استعمال کرے۔ دفاعی سامان ہمارا ہے اور ہمیں ملنا چاہئے ہماری رقم کو ہمارے ہی خلاف استعمال کرنے کا کسی کو حق نہیں پہنچتا۔

رونالڈ ریگن کی طرح کے پاک امریکہ تعلقات دیکھنے کے خواہش مند بش سینئر اور بل کلنٹن کی بےنظیر بھٹو اور نوازشریف کی پاکستان نواز پالیسیوں کے باعث دال نہیں گلی جس کی بڑی وجہ ان ادوار میں دونوں رہنماﺅں کی جوہری پروگرام پر سودے بازی نہ کرنا تھی ۔ محترمہ کی حکومت میں اسلامی بم اور آئی ایس آئی کی اسلامی دہشت گردی جیسی ا صطلاحیں مغربی میڈیا میں عام تھیں۔ اس عرصے میں مقبوضہ کشمیر ،افغانستان، بھارت ،خلیجی جنگ، پاکستان کی معاشی، سیاسی اور انسانی حقوق کے حوالے سے دباﺅ ڈالا جاتا رہا۔ بالواسطہ اور بلاواسطہ مختلف ریاستیں اور تنظیمیں پاکستان کو اپنے روایتی موقف سے پیچھے ہٹنے کو کہتی رہیں ۔ لیکن بےنظیر نے اپنے دونوں ادوار میں اس حوالے سے کوئی لچک نہیں دکھائی اور یوں ذوالفقار علی بھٹو نے جوہری پروگرام کا جو پودا لگایا بےنظیر بھٹو نے اس کی آبیاری کی اور نوازشریف نے مناسب وقت پر اس کا پھل قوم کو دیا۔

ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ قائداعظمؒ اور ذوالفقار علی بھٹو کے بعد اگر کوئی سیاسی رہنما پاکستان میں آیا تو وہ بےنظیر بھٹو تھیں جنہوں نے اپنی سیاسی وراثت کا صحیح استعمال کیا جس سے وہ خود بھی سرخرو ہوئیں بلکہ شہید باپ کا نام بھی روشن کیا۔ سیاست کی ملکہ نے وائٹ ہاﺅس کے آمروں کو مسلسل زک کیا لیکن اس میں بھی کوئی کلام نہیں کہ جن طاقتوں نے پاکستان کے جوہری پروگرام کیخلاف آواز بلند کی انہیں طاقتوں نے اس پروگرام کی زبردست سرپرستی کرنے والے حکمرانوں کو بھی منظر سے ہٹانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ دنیا بالعموم اور جنوبی ایشیا بالخصوص مفادات کا گڑھ بن چکا ہے جہاں پر عالمی مافیا کے مفادات وابستہ ہیں وہ ایک جانب اگر جمہوریت کی سرپرستی کرتے ہیں تو دوسری جانب ایسی شخصیات کو ختم بھی کر دیتے ہیں جو اپنا سر ضرورت سے زیادہ بلند کرتے ہیں بالکل اس آمر کی طرح جس نے ایک شخص کے اس سوال پر کہ وہ اتنی طویل مدت تک اقتدار پر کیسے قابض رہا تو اس آمر نے سوالاتی کو مکئی کے ایک کھیت کے پاس لے جا کر کہا کہ دیکھو اس کھیت میں مکئی کے جو پودے دوسروں کی نسبت زیادہ سر اٹھا ئے ہوئے ہیں میں انہیں جڑ سے اکھاڑ دیتا ہوں اور یہی میری اب تک کی حکمرانی کا راز ہے۔ عالمی طاقتیں اور مافیا جو پاکستان میں جمہوری اداروں کو پنپتا نہیں دیکھنا چاہتیں وہ کبھی یہاں سے جمہوریت کی بساط لپیٹ لیتے ہیں اور کبھی جمہوریت کے لئے زیادہ اور بلند شور مچانے والی شخصیات کو ختم کر دیتی ہیں جو ان کی استعماریت کی راہ میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں۔

بے نظیر بھٹو کے قتل کو آج ایک سال ہو گیا ہے لیکن قوم اس درد کو جہاں آج تک نہیں بھولی وہاں وہ برسراقتدار پیپلزپارٹی کی حکومت سے یہ سوال بھی کرتی ہے کہ اب تک محترمہ کے قاتلوں کو کیوں نہیں گرفتار کیا گیا؟ بھٹو اگر زندہ ہیں تو بھٹو کے قاتل بھی تو زندہ ہیں ،آخر بےنظیر بھٹو کے سیاسی وارث اتنے کمزور کیوں ہیں کہ انہوں نے نہ تو تحقیقاتی کمشن قائم کیا اور نہ پیپلزپارٹی نے بقول سینٹر صفدر عباسی اس کا کوئی مقدمہ درج کرایا کیا محترمہ کی وصیت برائے اقتدار ہی سب کچھ تھی ۔ پیپلزپارٹی عوام کی پارٹی ہے اور عوام یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ ان کی محبوب رہنما کے قاتلوں کو کون بے نقاب کرے گا؟ آخر کیوں بھارت میں قتل ہونے والے سیاسی رہنماﺅں کے قاتلوں کو تو پکڑ لیا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں یہ سب گورکھ دھندے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ پاکستان کے عوام کی بدقسمتی ہے کہ ان کے دو ذہین ترین( باپ بیٹی) رہنماﺅں کو استعمار کی بھینٹ چڑھا دیا گیا اور پی پی پی کے قائدین حکمرانی کے مزلے لوٹ رہے ہیں۔ ان کی قائد امریکی حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی بات منواتی تھی لیکن آج پیپلزپارٹی کی قیادت امریکی ڈرون حملوں کے سامنے بے بس ہو چکی ہے افسوس کہ بے نظیر ہم میں نہیں ورنہ حالات کافی مختلف ہوتے ۔
Shahzad Iqbal
About the Author: Shahzad Iqbal Read More Articles by Shahzad Iqbal: 65 Articles with 43718 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.