صحیح جمہوریت کی ابتداء آزادی سے
ہوتی ہے، یہ آزادی شاہراہوں، ملازمتوں، دستور اور قوانین میں موجود ہوتی ہے۔
پھر اس کی زندہ شکل نظمِ مملکت کی پانچ سطحوں میں ظاہر ہوتی ہے۔ بلدیہ،
کارپوریشن، پارلیمنٹ، مجلسِ شوریٰ اور آخر میں ملک کی سربراہی اس کی مختلف
سطحیں ہیں۔ کھوٹی جمہوریت میں نہ یہ آزادیاں ہوتی ہیں، نہ یہ مراحل۔ پوری
مملکت محض ایک سربراہِ مملکت کے گرد سمٹ کر رہتی ہے۔ عربوں کا قول ہے : "الزعم
مطية الكذب" ﴿دعویٰ جھوٹ کی سواری ہے﴾۔ ایسا لگتا ہے کہ اسی لفظ زعم سے
زعیم ﴿سربراہ﴾ مشتق ہے۔ سربراہِ مملکت ﴿زعیم﴾ کی زبان پر "أنا الشعب أنا
الشعب" ﴿میں ہی عوام ہوں، میں ہی عوام ہوں﴾ کا نعرہ ہے۔ یا قرآن میں بیان
کردہ فرعونی روش ہمارے سامنے آتی ہے کہ : (مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِنْ إِلَٰهٍ
غَيْرِي) (القصص: آیت 38 سے) ﴿میں تو اپنے سوا تمہارے کسی خدا کو نہیں
جانتا﴾، اور (مَا أُرِيكُمْ إِلَّا مَا أَرَىٰ وَمَا أَهْدِيكُمْ إِلَّا
سَبِيلَ الرَّشَادِ) (غافر: من الآية 29) ﴿"میں تو تم لوگوں کو وہی رائے دے
رہا ہوں جو مجھے مناسب نظر آتی ہے اور میں اُسی راستے کی طرف تمہاری
رہنمائی کرتا ہوں جو ٹھیک ہے" ﴾۔
حقیقی جمہوریت میں عوام کی حکمرانی ہوتی ہےاور بلدیہ، کارپوریشن، پارلیمنٹ،
مجلسِ شوریٰ اور سربراہِ مملکت تمام عوام کے خادم ہوتے ہیں۔ ایک شخص نے
معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آکر کہا السلام عليك أيها
الأجير ﴿سلامتی ہو تم پر اے مزدور﴾ تو انہیں حیرت نہ ہوئی۔ دربار کے لوگوں
نے کہا: نہیں بلکہ بادشاہ، تو انہوں نے کہا: نہیں بلکہ مزدور، کیونکہ وہ
اپنی رعیّت کی خدمت کے لئے اسی طرح ہمہ وقت مصروف تھے جس طرح مزدور روزگار
فراہم کرنے والے کی خدمت میں مصروف رہتا ہے۔ کھوٹی جمہوریت میں پوری عوام
سربراہِ مملکت، صدر، بادشاہ، گورنر یا سلطان کی خادم ہوتی ہے۔ یہ اس لئے
محنت کرتے ہیں کہ مملکت کی ساری دولت ان سربراہوں،ان کے اہلِ خاندان، ان کے
حاشیہ برداروں، اور ان کے جھنڈے اٹھانے والوں کی جیب میں بھر جائے۔ لیبیا
کی عبوری مجلس میں شامل میرے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ اُن کے پاس ایسے
دستاویزات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ لیبیائی صدر قذافی کے اہلِ خاندان جب
جزائر کی طرف فرار ہوئے تو ان کے اخراجات کے لئے اس نے چالیس بلین ڈالر نقد
دئے، اس کی نجی دولت کتنی تھی یہ تو صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ بیرونی ممالک
میں اس نے کم از کم دو سو بلین محفوظ کئے تھے! عرب زمین کے بیشتر سربراہوں
کی صورتِ حال اس سے مختلف نہیں ہے، مالیت میں کمی زیادتی ہوسکتی ہے۔ حقیقی
جمہوریت میں عوام اور حکمرانوں کے درمیان محبّت، ہمدردی، اور تعاون کا رشتہ
ہوتا ہے کیونکہ وہ سب مل کر وطن کی خدمت میں مصروف ہوتے ہیں۔ ان کے سامنے
یہ چار اصول ہوتے ہیں: زمین کو آباد کیا جائے، عوام کی خبر گیری کی جائے،
قانون کی پابندی کی جائے اور جب تک خلافِ شریعت بات نہ ہو حکمراں کا تعاون
کیا جائے۔ اگر حکمراں منحرف ہو جائیں یا موروثی قانون حق و عدل سے دور ہو
تو یہ جائز نہیں کہ افراد یا جماعتیں عوام کو ہراساں کرنا اور ان کو قتل
کرنا شروع کردیں، یا زمین میں بربادی اور فساد پھیلائیں، بلکہ ہونا یہ
چاہئے کہ سب لوگ مل کر جمہوری طریقے سے عوام کی خبر گیری کریں، زمین کو
آباد کریں، اوررائے دہی کے لئے بیلٹ باکس کا رخ کریں تاکہ اقتدار اور قانون
دونوں ہی کو ایک ساتھ بدل ڈالیں۔
کھوٹی جمہوریت میں حکمراں اپنی جگہ برقرار رہتا ہے اور عوام کی زندگی جہنّم
بن جاتی ہے، حافظ الاسد نے شام کے سیاہ ترین دنوں میں اپنی کرسی بچانے کے
لئے، حماة اور حل میں ساٹھ ہزار لوگوں کو قتل کیا۔ آج پوری عوام اس کے بیٹے
"قصّاب" الأسد کے خلاف نکل پڑی ہے۔ اس نے فوج، پولیس، اور اپنے کارندوں کو
آزادی دے دی کہ اجتماعی قتلِ عام کریں، میدان کو قتل گاہ میں تبدیل کردیں،
اور خونریز جنگ برپا کریں، اور منظّم طریقے سے خاک و خون کا کھیل کھیلیں۔
یہ وہ حکمرانی ہے جو جھوٹے دعوتے کرتی ہے کہ یہ مزاحمتی نظام ہے۔ گولان کی
پہاڑی پر قبضہ کرنے والے صہیونیوں پر اس کی طرف سے ایک بھی گولی نہ چلی،
جبکہ احتجاج کرنے والوں کا قصّہ پاک کرنے کے لئے طیّارے، توپ، اور ٹینک
میدان میں آگئے۔ ابتداء میں عوام کا نعرہ تھا : "الشعب يريد رحيل النظام"
﴿عوام حکمراں کو بدلنا چاہتی ہے﴾، اب ان کا نعرہ ہے : " الشعب يريد إعدام
النظام" ﴿عوام حکمراں کی جان چاہتی ہے﴾۔ اقتدار میں موجود افراد کا شعار
مستقل جھوٹ ہے۔ وزیرِ خارجہ جھوٹ کو خوبصورت انداز میں پیش کرتا ہے، من
گھڑت باتوں کو تصاویر سے صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ لبنانیوں نے صاف
کہا : ہم لبنانی ہیں، ہم شام کا حصّہ نہیں ہیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ شام
کا آمرانہ نظام اپنی پرانی نیند میں ہے اور یہ سوچ رہا ہے کہ لبنان شام کا
ایک خوبصورت منطقہ ہے۔
حقیقی جمہوریت میں مختلف رنگ و نسل کے لوگ ہوتے ہیں۔ ادارے، انجمنیں،
پارٹیاں، اور جامعات متنوّع اقسام کی ہوتی ہیں۔ جبکہ کھوٹی جمہوریت میں صرف
ایک ہی رنگ ہوتا ہے، یہ اس حد تک کہ ایک عرب ملک کے مختلف شہروں کی تمام
بڑی مساجد سربراہِ مملکت ہی کے نام سے موسوم ہے۔ یہاں کی پوری زندگی سیاہ
رات ہوتی ہے، رات اور دن کی گردش نہیں ہوتی، سورج اور چاند، گرمی اور سردی،
سیاہ اور سفید یہاں کوئی چیز نہیں۔ اگر سربراہ کو کوئی ایک رنگ پسند ہے تو
اس کے سارے رنگ شہنشاہ کے مزاج کے مطابق ڈھل جاتے ہیں۔ تمام شناختیں
اجتماعی وجود میں ایک رنگ اختیار کر لیتی ہیں۔
صحیح جمہوریت میں، بلدیہ، کارپوریشن، پارلیمان، مجلسِ شوریٰ، اور صدارت کے
منصب کی امیدواری کے ساتھ پہلے مرحلے میں ہی مالی صورتِ حال کو پیش کرنا
ہوتا ہے اور ہر خاص و عام کے سامنے اس سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہارے پاس یہ
کہاں سے آیا؟ مغرب میں کئی سربراہوں نے اس لئے استعفاء دیا کہ انہوں نے
معمولی رقمیں غلط طریقے سے خرچ کی اور اس پر ان کا محاسبہ کیا گیا۔ کھوٹی
جمہوریت میں سرے سے کوئی مالی جواب دہی نہیں ہوتی، اور نہ ہی یہاں ضمیرو
اخلاق ہوتا ہے۔ سربراہ جس طرح چاہتا ہے مال خرچ کرتا ہے۔ جتنا چاہتا ہے
اپنے لئے، اپنے خاندان، کارندوں اور حاشیہ برداروں کے لئے ذخیرہ کرتا ہے۔
اگر کوئی یہ سوچے کہ اس سلسلہ میں اپنے ہونٹوں کو جنبش دے یا کوئی ایک لفظ
لکھے تو اسے جس کیفیت کا شکار ہونا پڑتا ہے اس کی عکّاسی شاعر نے کی ہے :
اگر میں سچ کہوں تو زبان کاٹ دی جائے
دستورِ زباں بندی کی جو نہیں کرے گا اس کا انجام مجھے معلوم ہے
اس کے اس جرم کے ساتھ لاکھوں جرم اس کے سر تھونپ دئے جائیں گے۔
انتہائی ظلم و استبداد کے درمیان عوام کی زبان سے کوئی آواز نکلتی ہے تو
ایسی ہی آواز جو اس خوف اور بزلی کی جڑوں کو اور مضبوط کرے۔ شاعر کے بقول:
تم سب کو لے کر ہمیشہ بکریوں کے درمیان رہو
سر جھکا کے رہو، اپنی انتہائی ذلت کو قبول کر لو
بھیڑیوں کی بات مان لو، ہم میں وہی زندہ رہے گا جو ان کی بات منے گا
الحذر! میرے بچّے ریوڑ کی روش سے الگ کوئی راستہ نہ نکلنا
حقیقی جمہوریت میں عوام میں ہرفرد کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ کہے:
جامِ زندگی پلانے میں مجھ سے بدسلوکی نہ کر
بلکہ مجھے زہر کا پیالہ بھی پلا تو عزّت کے ساتھ
یا بقولِ شاعر:
جو کچھ مجھے پتہ ہے وہ یہ کہ میرے لئے ممکن نہیں کہ میں ذلّت کے گھوںٹ پیوں
میں باعزّت زندگی چاہتا ہوں، جس میں قید نہ ہو،دہشت نہ ہو، اور انسان کے
ساتھ حقیر برتاؤ نہ ہو
اگر میں گروں گا تو اپنی عزّت کی حفاظت کرتے ہوئے،کیفیت یہ ہوگی کہ میری
رگوں میں حرّیت پسندوں کا خون کھول رہا ہوگا
حقیقی جمہوریت رائے دہی کے لئے کھڑی قطاروں کو خوشی کی نظر سے دیکھتی ہے۔
گر می کی شدّت ہو یا سرما کی تکلیف لوگ باہر کے اوباشوں اور اندر کے
بدعنوانوں سے بے خوف اطمینان کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ کھوٹی جمہوریت میں
غنڈہ عناصر ان لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کی کوشش کرتے ہیں جو سربراہِ
مملکت اور اس کی پارٹ کے خلاف رائے دینا چاہیں، اور ان مردوں کو وہ زندگی
کی چھوٹ دیتے ہیں جنہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ان کی گردن پر تا قیامت ان
لوگوں کے ساتھ اطاعت کی بیعت ہے!
مبارک ہو جشن کی وہ محفلیں جو آزادی اور حقیقی جمہوریت کے لئے تونس ،
مراکش، اور مصر میں نظر آّتی ہیں، اور عنقریب تمام دوسرے پڑوسیوں کو بھی یہ
دن نصیب ہوں گے۔ سب خوش ہوں گے اور ان کو خوشی کے دن راس آئیں گے۔
(وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ *بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ
يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ) (الروم: 4 و5). ﴿اور وہ دن وہ ہو گا
جبکہ اللہ کی بخشی ہوئی فتح پر مسلمان خوشیاں منائیں گے، اللہ نصرت عطا
فرماتا ہے جسے چاہتا ہے، اور وہ زبردست اور رحیم ہے﴾۔
https://urdu.salahsoltan.com/2010-08-15-10-38-47/1433-2011-12-06-15-35-04.html |