بدین کے ہاری

تبدیلی آخر کب آئے گی؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر پاکستانی کے دماغ میں کسی نہ کسی طرح گونج رہاہے۔ہر شخص اپنی عمر کے حساب سے اس کے انتظار میں اپنی زندگی کے قیمتی لمحات گزار رہاہے۔کوئی دس سال سے منتظر ہے تو کوئی بیس تیس یا چالیس سے۔لیکن پاکستان کی سرزمین 64نہیں بلکہ اس سے بھی قبل تبدیلی کے لفظ کی خاطر سسک رہی ہے‘بلک رہی ہے ‘تڑپ رہی ہے۔ایسا لگتاہے رزم حق و باطل میں سچ کہنے والوں کے گلے چنگھاڑ چنگھاڑ کر سوکھنے کو ہیں‘قلم کی سیاہی ختم ہونے کو ہے‘ہاتھ لکھ لکھ کر شل ہو چکے ہیں ‘سچ کا ذکر کرنے والے انسانوں سے نہیں پتھروں ‘بیابانوں اور دیواروں سے مخاطب ہیں۔مثلِ نقار خانہ طوطی کی کوئی نہیں سن رہا؟سب جھوٹ کے پیامبر سب کے جھوٹ کے پیامبر کی صداطوطی کا دل لگارہا ہے خدا خیرکرے۔

اس سرزمین نے 14اگست 1947تک بے شمار قربانیاں دیں ‘جب تبدیلی کی فضابنی تو قائد بچھڑ گئے‘پھر لیاقت علی خان بھی کوچ کرگئے اور پھر صرف مایوسیاں رہ گئیں۔ایک بازو شل ہوگیا۔کسی نے توجہ نہ دی اور باالاآخر ایک حکیم کی تجویز پر ہمسایوں نے آکر اسے کاٹ لیا ۔یہی طبیب ہے جس کے نقش قدم پر یا جس کی ڈکٹیشن پر ہمارے سیاسی رہنماءدہائیوں سے چلے آرہے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ یہ تبدیلی محکمہ نصاب کی تبدیلی ہی کی مانند کیوں ہوتی ہے۔میں جب گیارہویں جماعت کا طالب علم تھا تو اولڈ کورس کے مطابق پڑھائی کر رہا تھا۔لیکن نئے کورس کے آنے کی پیشن گوئیاں ہو رہی تھیں ۔ظاہر ہے ایسے میں پڑھائی میں کہا ں دل لگتاہے(جیسے پاکستان کے مستقبل سے مایوس لوگ اور سیاہ ست دانوں کی دولت کا دل پاکستان میں نہیں لگتا)میری اسے عدم توجہ کو پروفیسر طیب صاحب بھانپ گئے ۔اور کہنے لگے بیٹا یہ پاکستان ہے نصاب کی تبدیلی فقط اتنی ہوگی کہ الفاظ کا فونٹ سائز‘کتاب کا فرنٹ ڈیزائن اور اندرونی کلر تبدیل ہو گا باقی مواد وہی رہے گا۔پریشان نہ ہوں پڑھائی میں دل لگائیں۔آج آٹھ نو برس بعد پاکستان کے حوالے سے مجھے ان کی بات یاد آرہی ہے تو دل کھٹا ہورہاہے۔کہ کہیں پھر نہ یہ قوم لٹ جائے۔

برصغیر کی سیاست پر صدیوں سے قابض لوگ کبھی فونٹ سائز بدل کر‘کبھی رنگ بدل کر ‘اور کبھی فرنٹ ڈیزائن بدل کر اقتدار پر قابض ہوتے رہے۔لیڈر شپ کو ہائی جیک کرتے رہے اور اس سرزمین کے باسی انقلاب کی اُمید سجائے ہر بار اس نئے نمالشکر کے گیت گاتے رہے۔لیکن نصیب اپنا اپنا۔اصل تبدیلی نعروں سے نہیں ‘عوام کی طاقت سے نہیں ‘اللہ کے کرم سے آتی ہے ۔اور اُس کا کرم حاصل کرنے کی جستجو کرنے کے بجائے ہم شخصیت پرست‘لیڈر پرست‘قوم پرست ہوچلے ہیں اور انہی باتوں کو تبدیلی کا نقطئہ آغاز سمجھ رہے ہیں۔نتیجہ ندارد

بدین کی عدالت تک بات پہنچی اور جاگیردار کے قبضے سے ہاریوں کی جان چھوٹی ۔لیکن ذرا سوچیئے برصغیر کی تقسیم کے وقت قربانیاں آزادی کی خاطر دینے والی قوم آج پھر کسی ظالم وڈیرے ‘چوہدری یا سیاست دان کے قبضے میں ہے۔بدین کے وڈیرے کی نجی جیل سے بچے اور خواتین رہا ہوگئے ان سے جبری مشقت لی جارہی تھی۔لمحہ بھر کے لیئے سوچیئے کیا یہ ریاست کے اندر ریاست نہیں کہ کوئی اپنی مرضی سے جسے چاہے جب چاہے قید کردے ‘اس سے جتنے چاہے کام لے۔ہاری ہوں ‘ذاتی بیلدار ہوں ‘مزارعے ہوں ‘گھریلوملازم یا فیکٹری ورکر سب کے سب در حقیقت قیدی ہیں ۔ان کے بارے میں آج تک کسی نے سوچنے کی زحمت نہیں کی ۔ان کا ذکر تقریروں میں ‘ان کے زخموں پر مرہم باتوں میں اور ان کی آس ‘امید کو کاغذوں میں ذلیل و رسوا کیا جاتاہے۔اور کچھ نہیں کیا جاتا۔میں حیران ہوں کہ جب تک وڈیرا اسمبلی میں ہے‘جاگیردار کا اثرورسوخ تھانہ میں ہے تبدیلی کیسے آئے گی۔کیا ان سب کو اسمبلی میں بٹھا کر ڈرائی کلین کیاجائے گا یا از سرنو کلمہ کا مطلب بتایا جائے گا۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ جب تک عوام باعمل نہیں ہوتے باعمل لیڈر شپ نہیں آسکتی ۔اور جب تک ظالموں اور جابروں کو اسمبلی سے نہیں نکالا جاتا اسوقت تک جنگ آزاد ی ہند کے قیدی ہوں یا بدین کے ہاری سب ظلم سہتے رہے گے۔آخرمیں دعا ہے کہ اللہ کرے پاکستان میں حقیقی تبدیلی آئے۔لفظوں کے زخم ‘تقریروں کا رعب ‘اور منشوروں کے دکھ ہم بہت سہہ چکے اب کی بار بھی یہ آزمایا گیا تو نتیجہ اچھانہیں نکلے گا۔
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 174958 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.