کراچی میں عمران خان کی تاریخی کامیابی

اہل کراچی نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے تبدیلی کے نعرے پر لبیک کہتے ہوئے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ ملک میں واقعی تبدیلی چاہتے ہیں۔ لاہور کے تاریخی جلسے کے بعد عمران خان نے مزار قائد کے قریب باغ قائداعظم میں لاکھوں افراد کو جمع کرکے یہ بات یقینی بنائی ہے کہ وہ نوجوانوں کی دلوں کی دھڑکن بن چکے ہیں۔ گزشتہ 30 سال سے میڈیا اور سیاست میں سرگرم افراد کا کہنا ہے کہ1990ءکے بعد کراچی کی تاریخ کا ایک بہت بڑا جلسہ ہے جس میں تمام شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے شریک تھے۔ اس سے قبل متحدہ قومی موومنٹ کے علاوہ کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے اس قدر لوگوں کو جمع کرنا شہر کراچی میں ناممکن قرار دیا جاتارہا ہے، لیکن عمران خان کی آواز پرلبیک کہتے ہوئے اہل کراچی دیوانہ وارمزار قائداعظم پہنچے اوراپنی بھرپور شرکت سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ تبدیلی کے خواہش مندہیں۔

مبصرین کے مطابق متحدہ اپوزیشن نے1990ءمیں بے نظیر بھٹو حکومت کے خلاف اسی طرح کا جلسہ کیاتھا، جس کے چند ماہ بعد ہی ان کی حکومت کا خاتمہ ہوا، لیکن اس جلسے کی کامیابی میں ایم کیو ایم کا اہم کردار تھا۔ مگر1990ءسے لے کراب تک بڑے جلسوں کے ریکارڈ صرف ایم کیو ایم کے پاس ہیں،تاہم ناموس رسالت اور پاک افغان دفاع کونسل کی ریلیوں کو بھی بڑے جلسوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ عمران کے کامیاب جلسے میں لوگوں کے دلوں سے خوف کا خاتمہ تو نہیں ہوا مگرتو کمی ضرور آئی ہے، یہی وجہ ہے کہ ڈر ،خوف اور دہشت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے لاکھوں افراد جمع ہوئے۔

منتظمین کے دعوے کے مطابق 5لاکھ افراد جبکہ مبصرین کے مطابق ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد شریک تھے، جلسے کے70 شرکاءکی عمریں25 سال سے کم تھی، یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ شرکاءکی اکثریت کا مختلف قومتیوں سے تعلق ہے۔لیکن شہر کے سب سے بڑے اسٹیک ہولڈ اردو بولنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ نظر نہیں آئی، اس کی ایک بڑی وجہ ان کی علاقوں میں جلسے کے حوالے سے محترک انداز میں کام نہ کرنا بھی ہوسکتا ہے۔جلسے کی تیاریوں کے سلسلے میں شہری علاقوں میں سرگرمیاں انتہائی کم دیکھی گئی تاہم تحریک انصاف کے مقامی اور باہر سے آنے والے قیادت نے دیہی علاقوں بالخصوص پٹھان، اور ہزارے وال اور پنجابی آبادیوں پر زیادہ توجہ مرکز تھی۔

عمران خان کے کامیاب جلسے نے جہاں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ( ن) کے لیے مشکلات کھڑی کر دی وہیں پر عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علماءاسلام(ف) اور جماعت اسلامی کے کراچی میں سیاسی مستقبل کو سوالیہ نشان بنا دیا، کیونکہ شرکاءکی اکثریت کا تعلق انہی علاقوں سے تھا جہاں ان جماعتوں کا زیادہ اثر دیکھا جاتا ہے، جلسے کے لیے اگرچہ دن ایک بجے کا وقت مقرر تھا لیکن شرکاءصبح سے ہی جمع ہونا شروع ہوئے، سہ پہر سوا تین بجے جلسے کا باقاعدہ آغاز ہوا، اوررات پونے بجے تک جاری رہا۔ جلسے میں عمران خان کے علاوہ مخدوم شاہ محمود قریشی، مخدوم جاوید ہاشمی، اعظم خان سواتی، اور دیگر کو سراہا گیا،تحریک انصاف نے اپنے جلسے کے لیے دو منزلہ اسٹیج تیارکیا ۔جس کی پہلی منزل میں اعلیٰ قیادت کےلئے150 ، جبکہ دوسری منزل میں دوسرے درجے کے عہدیداروں کے لیے 300 کے قریب نشستیں لگی ہوئی تھیں اور بعض شرکاءنے یہ بات بھی بتائی کہ شرکت کے لیے وہ ٹکٹ خرید کر آئے ہیں۔

اسی طرح میڈیا کے لیے بھی جنوبی سائیڈ میں دو منزل اسٹیج تیار کیا گیا تھا، جس کی دوسری منزل الیکٹرونک میڈیا جبکہ پہلی منزل پرنٹ میڈیا کے نمایندے کے لئے مختص تھی، جلسہ گاہ میں کے بھرپور کوریج کے لیے9 کرینیں بھی نصب تھی جن کے ذریعے تمام کروائی براہ راست ریکارڈ کی جارہی تھی۔ ہزاروں شرکاءنے ہاتھوں میں تحریک انصاف کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے، جبکہ شرکاء کی ایک بڑی تعدادنے امریکا میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور عمران خان کی تصاویر پر مشتمل بینرز بھی اٹھا رکھے تھے جن پر تحریرتھاکہ”جو عافیہ لائیگا وہی لیڈر کہلا ئیگا“ لیکن مخدوم جاوید ہاشمی کے علاوہ کسی بھی مقررنے قوم کی مقید بیٹی ڈاکٹر عافیہ کا ذکر تک کرنا گوارہ نہیں کیا جبکہ اسٹیج پر وہ وزرائے خارجہ بھی موجود تھے جن کے ادوار میں ڈاکٹر عافیہ کا کراچی اغواہ ہوا یاپھر امریکا میں اس قوم کی بیٹی کو80سال کی سزادی گئی، باالترتیب خورشید محمود قصوری اور شاہ محمود قریشی ۔، لاہور کے جلسے میں عمران خان اور ان کی جماعت نے ”پاپ ! میوزک“فائدہ اٹھانے کی کوشش کی لیکن کراچی کے جلسے میںدوران تقاریر میوزک کا استعمال تو کیا لیکن لاہور کی طرح جلسے کو میوزیکل کنسرٹ بنانے سے گریز کیا، شاید اس کی بنیادی وجہ لاہور کے جلسے کے بعد ہونے والی سخت تنقید تھی تاہم تقاریر کے دوران تحریک انصاف کے تنظیمی اور ملی نغمے مسلسل سنائی دیے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اکثر مقررین کی تنقید کا نشانہ پیپلزپارٹی رہی تاہم عمران خان کے وہ بنیادی نعرے جن میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی، ڈرون حملے،سانحہ لال مسجد،امریکی مداخلت،خطے میں عالمی سامراج کی موجود گی،میمو گیٹ اسکینڈل سمیت دیگر نعروں کے گونج کم سنائی دی۔ڈرون حملے تو شاید عمران خان اور ان کی جماعت بھول ہی چکی ، البتہ کرپشن کے حوالے سے تقاریر میں مسلسل ذکر ہوتا رہا۔ عمران خان نے بھی اس جانب توجہ نہ دی اس کی بڑی وجہ امریکا کی ناراضگی سے بچنا بھی ہو سکتا ہے، ویسے بھی پاکستانی سیاست اور حکومت میں بیرونی مداخلت کا عمل دخل ہمیشہ رہا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح تحریک انصاف نے بھی امریکا کے حوالے سے اپنے رویے میں نرمی پیدا کر دی ہے۔ کراچی میں ہونے والا یہ تاریخی جلسہ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے لیے بھی ایک دھچکا بھی ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ ایم کیو ایم ہمیشہ اس شہر میں اپنے آپ کو واحد طاقت قرار دیتی رہی ہے ، لیکن تحریک انصاف کے جلسے کے بعد تبدیلی کی جو ہوا چل پڑی ہے اس کے اثرات مستقبل میں ایم کیو ایم پر بھی پڑ سکتے ہیں،جبکہ مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ اب سندھ میں حکمران جماعتوں کی مشکلات میں یقینا اضافہ ہوگا۔

تحریک انصاف پر اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی کا الزام اپنی جگہ لیکن تاریخی جلسے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اب اسٹیبلشمنٹ کے بعد عوام بھی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ( ن) اور دیگر حکمراں جماعتوں کو سبق سکھاناچاہتے ہیں، عمران خان کی جماعت کا شمار ملک کی دائیں بازو کی جماعتوں میں ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کامیاب جلسہ جمیعت علماءاسلام کے مولانا فضل الرحمن، جماعت اسلامی کے سید منور حسن اور دیگر مذہبی قیادت کے لیے ایک بہت بڑا سبق اور انکے سیاسی مستقبل کے حوالے سے بڑا سوالیہ نشان ہے؟ اگر مذہبی قوتیں عوام کی خواہش کے مطابق متحد اور منظم ہو جاتیں تو آج عمران خان کو جو پذیرائی کراچی میں ملی ہے شاید وہ مذہبی قوتوں کے حصہ میں چلی جاتی، لیکن مذہبی قوتوں نے اپنے آپ کو ایک دائرہ میں محدود کر دیا، جس کی وجہ سے تبدیلی کے خواہشمندوں نے عمران خان کی جماعت کا رخ کیا۔ لاہور میں کامیاب جلسے کے بعد مسلم لیگ (ن )کے سابق قائم مقام صدر مخدوم جاوید ہاشمی ، پیپلزپارٹی کے سابق رہنماءمخدوم شاہ محمود قریشی کی تحریک انصاف میں شمولیت نے اس تحریک کو اور جلا بخشا ہے، جو آگے جاکر اس کی مزیدکامیابیوں کا سبب بن بھی سکتے ہیں۔اگرچہ عمران خان اور انکے ساتھیوں دعویٰ تھا کہ مختلف سیاسی رہنماءشمولیت کا اعلان کرینگے،لیکن کراچی کے جلسے میں کسی بڑی شخصیت نے تحریک انصاف میں شمولیت نہیں کی تاہم جلسے نے کئی سیاسی اور مذہبی رہنماﺅں اور کارکنوں اذہان میں سوال ضرور پیدا کر دیا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان اپنی اس قوت کا استعمال کب اور کہاں کرتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی کے الزام کے اثر کو کس حد تک زائل کرتے ہیں ۔تحریک انصاف کا کراچی میں ہونے والا کامیاب جلسہ ان قوتوں کے لیے ایک پیغام بھی ہیں جو چور دروازے سے اقتدار تک رصائی چاہتے ہیں،یہ جلسہ اس حوالے سے بھی دلچسپ ہے کہ سابق فوجی آمرپرویز مشرف نے بھی2001ءمیں ریفرنڈم کے حوالے سے کراچی میں اپنی سیاسی قوت کے مظاہرے کے لئے اسی گراﺅنڈ کا انتخاب کیا تھا، اس وقت انہیں کراچی کی سب سے بڑی قوت ایم کیو ایم کے علاوہ تحریک انصاف کی حمایت بھی حاصل تھی، مشرف غیرآئینی ریفرنڈم کے ذریعے اپنے آپ کو ملک کا صدر منتخب کرانے میں تو کامیاب ہوئے، لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان اپنی منزل کا حصول کس طرح ممکن بناتے ہیں۔
Abdul Jabbar Nasir
About the Author: Abdul Jabbar Nasir Read More Articles by Abdul Jabbar Nasir: 136 Articles with 106904 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.