امام غزالیؒ ایک حکایت میں تحریر
کرتے ہیںکہ حضرت ابو ہریرہ ؓ ایک دفعہ بازار میں گئے اور لوگوں سے کہا ارے
تم یہاں بیٹھے ہو اور مسجدِ نبویﷺ میں میراثِ رسول اللہ ﷺ تقسیم ہو رہی
ہے۔لوگ دوڑے دوڑے مسجد کی طرف گئے تو دیکھا وہاں مال وغیرہ کا نام و نشان
تو نہیں تھا البتہ کچھ لوگ بیٹھے قرآن پاک پڑھ رہے تھے۔ لوگو ں نے کہا۔آپ
تو کہتے تھے کہ میراثِ رسول ﷺ تقسیم ہو رہی ہے۔ یہاںبس کچھ لوگ بیٹھے قرآن
پاک پڑھ رہے ہیں۔حضرت ابو ہریرہ ؓ نے فرمایا”یہی تو میراثِ رسولﷺ ہے۔
قارئین! علم کی اہمیت کس قدر ہے اس کا اندازہ قرآن و حدیث میں اللہ اور
رسول ﷺکے احکا مات سے آسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔آج کی دنیا پر نظر دوڑائیں
تو پتہ چلتا ہے کہ وہی اقوام ترقی کی منازل کو طے کر رہی ہیں جو علم کی
اہمیت کو سمجھتی ہیں اور علم کا حصول ہی اُن کی سب سے بنیادی ترجیح ہے۔اس
حوالے سے ہم نے گزشتہ روز ایک خصوصی پروگرام رکھا جس میں اہم مہمانوں نے
شرکت کی۔
ایف ایم 93میرپور ریڈیو آزادکشمیر کے مقبول ترین پروگرام”لائیو ٹاک وِد
جنید انصاری “میں راقم سے براہِ راست گفتگو کرتے ہوئے چوہدری عبد المجید
وزیر اعظم آزادکشمیر نے بے نظیر بھٹو شہید کے وعدہ کے مطابق میرپور میں
میڈیکل کالج کے قیام کے عمل کو خوش آئند قرار دیا اور وعدہ کیا کہ اُن کی
حکومت عوامی خدمت کا سفر جاری رکھے گی۔ پروگرام میں دیگر شرکاءمیرپور
میڈیکل کالج ایکشن کمیٹی کے رہنماﺅں ڈاکٹر ریاض احمد،ڈاکٹر سی ایم حنیف،
ڈاکٹر ریاست علی چوہدری، بانی ادارہ امراضِ قلب حاجی محمد سلیم اور مشیرِ
آزادحکومت و میڈیاایڈوائزر ٹو پرائم منسٹر ممتاز دُرانی نے بھی شرکت
کی۔ایکسپرٹ کے فرائض سینئر صحافی راجہ حبیب اللہ نے انجام دیئے۔
وزیر اعظم آزادکشمیر چوہدری عبد المجید نے کہا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو
شہید میرپور میڈیکل کالج اور میر واعظ مولوی محمد فاروق مظفر آباد میڈیکل
کالج کے قیام سے ہم نے بی بی شہید کا وعدہ پورا کر دیا ہے اور ہم 27دسمبرکو
بی بی شہید کے یومِ شہادت پر یہ وعدہ کرتے ہیں کہ کشمیر کی آزادی اور پورے
خطے میں تعمیر و ترقی کو فروغ دینے کے لیے کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کریں
گے۔ میرپور میں ڈاکٹر سی ایم حنیف نے میڈیکل کالج کی پہلی کلاس کے موقع پر
چوک شہید اں میں شکرانے کے طور پر لنگر میں شرکت کی جو دعوت دی ہے اپنے
تمام ساتھیوں کے ساتھ اُس میں شرکت کروں گا اور فٹ پاتھ پر بیٹھ کر لنگر
کھاﺅں گا۔ ہماری جڑیں عوام میں ہیں اور تاج و تخت ہمارے لیے کوئی معنی
نہیںرکھتے۔چوہدری عبد المجید نے کہا کہ ہم صدر پاکستان آصف علی زرداری کی
قیادت میں عوامی خدمت کا سفر جاری رکھیں گے۔ میرپور میڈیکل کالج کے قیام کا
سہرا میرپور میڈیکل کالج ایکشن کمیٹی اور اس میں شریک تمام شہری تنظیموں،
ڈاکٹرز، وکلاء، انجینئرز، انجمن تاجران ، صحافی برادری سے لے کر اُن تمام
لوگوں کے سر ہے جنہوں نے اس میڈیکل کالج کے قیام کے لیے ایک طویل جدوجہد
کی۔ مجھے کریڈٹ لینے کا کوئی شوق نہیں ہے۔چند سابق وزرائے اعظم میڈیا پر
بیانات دے دے کراِن میڈیکل کالجز کا کریڈٹ لینے کی کوشش کر رہے ہیں جو ایک
طفلانہ حرکت ہے۔اس کا کریڈٹ صرف اور صرف عوام کو جاتا ہے جنہوں نے میڈیکل
کالج ایکشن کمیٹی کے ہمراہ مل کر ان کالجز کے لیے تحریک چلائی۔ چوہدری عبد
المجید نے کہا کہ حاجی محمدسلیم نے میرپور میں کشمیر انسٹیٹیوٹ آف
کارڈیالوجی بنا کر امراضِ قلب میں مبتلا دکھی غریب انسانیت کی خدمت
کاکارنامہ انجام دیا ہے۔ ہمیں اُن پر فخر ہے۔ اُن کا مطالبہ بالکل درست ہے
کہ KICکا انتظام چلانے اور عطیات اکٹھا کرنے کے لیے بورڈ آف گورنرز کا قیام
عمل میں لایا جائے۔ حاجی محمد سلیم میرے بزرگ بھی ہیں اور دوست بھی۔جلد ہی
میرپور آکر اُن کی خدمت میں حاضری دوں گا اور اُن کے مطالبے کی روشنی میں
بورڈ آف گورنرز کا قیام عمل میںلایا جائے جو میرپور میڈیکل کالج اور
KICٹیچنگ ہسپتال کے لیے مشترکہ طور پر کام کرے گا۔میں خود اس بورڈ میںکوئی
عہدہ نہیں لوں گا تاکہ شفافیت کا عمل متاثر نہ ہو۔ہماری یہی خواہش اور کوشش
ہے کہ ادارے مضبوط اور عوام کو سہولت ملے۔ چوہدری عبد المجید نے مزید کہا
کہ جلد ہی ہم میرپور میڈیکل کالج کو پانچ ہزار کنال سے زائد اراضی دے رہے
ہیں تاکہ یہاں میڈیکل یونیورسٹی قائم ہو سکیں اور ریسرچ کے ایسے ادارے قائم
کئے جائیں جن کی بدولت عالمی دنیا میں ہماری اچھی شہرت ہو انٹرویو میں
گفتگو کرتے ہوئے دیگر شرکاءڈاکٹر ریاض احمد، ڈاکٹر ریاست علی چوہدری، ڈاکٹر
سی ایم حنیف، حاجی محمد سلیم اور میڈیا ایڈوائزر ٹو پرائم منسٹر ممتا ز
درانی نے کہا کہ میڈیکل کالجز اور صحت و تعلیم کے منصوبوں کے ساتھ وزیر
اعظم آزاد کشمیر چوہدری عبد المجید کی کمٹمنٹ لائقِ ستائش ہے۔جس دن ان
کالجز کا پی ایم ڈی سی نے نوٹیفکیشن جاری کیا، چوہدری عبد المجید آنسوﺅں کے
ساتھ روتے رہے اور بی بی شہید کے لیے دعائیں کرتے رہے۔ڈاکٹر ریاض احمد نے
کہا کہ میرپور میڈیکل کالج کے قیام کا سہرا چوہدری عبد المجید کے سر ہے
لیکن یہاں ہم لارڈ نذیر احمد کا ذکر نہ کریں تو یہ تاریخی غلطی ہو گی۔ لارڈ
نذیراحمد 2009ءمیں جب پاکستان آئے تو صدر پاکستان آصف علی زرداری نے ایوانِ
صدر میں اُن کے اعزاز میں دعوت رکھی۔ اس دعوت میں لارڈ نذیر احمدمیرپور
میڈیکل کالج ایکشن کمیٹی کے نمائندہ کی حیثیت سے مجھے ایوانِ صدر لے گئے۔جب
میں نے آصف علی زرداری کے سامنے اس میڈیکل کالج کی فائل رکھی تو اُنہوں نے
مسکراتے ہوئے کہا کہ لارڈ نذیر احمد اور تارکینِ وطن کی خدمات کے پیشِ نظر
میں یہ فائل دیکھے بغیر ہی میرپور میڈیکل کالج منظور کرتا ہوں۔اسی طرح
محترمہ ناہید طارق ، سہیل شجاع مجاہد، چوہدری نعیم، چوہدری شوکت، ڈاکٹرز،
وکلائ، انجینئرز اور تمام شہری تنظیموں کا کردار لائق ستائش ہے۔ میرپور میں
قائم ایک پرائیویٹ کالج نے اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے سابق حکومت کے دور
میں میرپور کے سرکاری ہسپتال کو اپنے ساتھ منسلک کروایا۔ ہماری اُ ن سے
گزارش ہے کہ وہ اپنا ہسپتال قائم کریں اور سرکاری عوامی ہسپتال کی جان چھوڑ
دیں۔تاکہ عوام کو سہولت دی جاسکے۔ڈاکٹر سی ایم حنیف نے کہا کہ اس کالج کا
بیج بو دیا گیا ہے اور ہماری خواہش ہے کہ یہ عالمی معیار کا ادارہ بنے جہاں
سے فارغ التحصیل ہونے والے ڈاکٹرز پیشہ ورانہ مہارت رکھتے ہوں۔ ہم اس کالج
کے بورڈ آف گورنرز میں چوہدری عبد المجید کو لازماً شامل کرنا چاہتے ہیں
تاکہ وہ کام جو اُن کی وجہ سے یہاں تک پہنچا اُنہی کی ہدایات کی روشنی میں
مزید ترقی کرے۔ ڈاکٹر ریاست علی چوہدری نے کہا کہ میرپور میڈیکل کالج کے
ساتھ منسلک ٹیچنگ ہاسپٹلز میں اپ گریڈیشن بہت ضروری ہے کیونکہ خالی بیڈز کے
ساتھ عوام کو سہولت نہیں دی جاسکتی ۔ اس کے لیے پورے سسٹم کو اپ گریڈ کرنا
ہو گا۔
قارئین! یہ تو وہ داستان ہے جو ہم نے آپ کے سامنے رکھی ۔ اس انٹرویو میں
وزیر اعظم آزادکشمیر چوہدری عبد المجید نے انتہائی کسرِ نفسی کا مظاہرہ
کرتے ہوئے اس میڈیکل کالج کے قیام کا سہرا عوام کے سر رکھ دیا ۔یہاں پر ہم
میرپور میڈیکل کالج ایکشن کمیٹی کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر ریاض احمد کی گفتگو
کے اس مختصر حصے پر بات کریں گے کہ جس میں انہوںنے برطانوی ہاﺅس آف لارڈز
کے تاحیات رُکن لارڈ نذیر احمد کے مثبت اور موثر کردار کی بات کی۔ہمارا
چوہدری عبد المجید وزیر اعظم آزادکشمیر سے یہ مطالبہ اور اپیل ہے کہ وہ
لارڈ نذیر احمد سے لڑائی چھوڑ دیں اور اختلافات کو بھُلا دیں۔ سیاسی
اختلافات اس شدت کے نہیں ہیں کہ لارڈ نذیر احمد کی خدمات کو فراموش کر دیں
اور اُنہیں ”ناپسندیدہ شخصیت “قرار دے کر اپنے لیے خود مشکلات پیدا کر
لیں۔لارڈ نذیر احمد نے برطانیہ اور پوری دنیا میں کشمیر کےس کو جس طریقے سے
اقوامِ عالم کے سامنے پیش کیا ہے وہ آج تک کوئی بھی نہیں کر سکا۔وہ ہمارے
ہیرو ہیں۔اسی طرح چوہدری عبد المجید نے آزادکشمیر میں دو میڈیکل کالجز کے
قیام سے عوام کے دل جیت لیے ہیں۔ہماری گزارش ہے کہ اپنی طاقتیں آپس کی
لڑائی میں ضائع نہ کی جائیں۔ یہی وقت کا تقاضا اور کشمیری قوم کا مطالبہ
ہے۔ویسے بھی وزیر اعظم آزادکشمیر چوہدری عبد المجید اپنے آپ کو مجاور ،
درویش اور فقیر کہتے ہیں۔بقول علامہ اقبال ؒ
نگاہِ فقر میں شانِ سکندری کیا ہے
خراج کی جو گدا ہو وہ قیصری کیا ہے
بتوں سے تجھ کو اُمیدیں خدا سے نو میدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
فلک نے اُن کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں
خبر نہیں روشِ بندہ پروری کیا ہے
فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا
نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے
کسے نہیں ہے تمنائے سروری لیکن
خودی کی موت ہو جس میں وہ سروری کیا ہے
خوش آ گئی ہے جہاں کو قلندری میری
وگرنہ شعر مرا کیا ہے شاعری کیا ہے
قارئین!ہمیں اُمید ہے کہ ”چھوٹا منہ بڑی بات“ کے مصداق وزیر اعظم آزادکشمیر
چوہدری عبد المجید ہماری گزارشات پر بُرا منائے بغیر غور ضرور کریں گے۔ یہی
وقت کا تقاضا ہے اور اسی سے دل جیتے جاسکتے ہیں۔ اُمید ہے کہ لارڈ نذیر
احمد بھی اس فیصلے کو جذبات میں اُٹھایا گیا ایک قدم سمجھ کر معاف کر دیں
گے۔آخر میں حسبِ روایت لطیفہ پیشِ خدمت ہے۔
ڈاکٹر نے مریض کا بازو پکڑا اور اچانک گھبراہٹ کے عالم میں کہا”ارے یار
لگتے تم بالکل ٹھیک ہو لیکن تمہاری نبض بالکل گھڑی کی طرح چل رہی ہے۔“
مریض نے جواب دیا۔ ”ڈاکٹر صاحب آپ درست فرمارہے ہیں آپ نے میری گھڑی پر ہی
ہاتھ رکھا ہو ا ہے۔“
قارئین! حکمرانوں سے گزارش ہے کہ وہ بھی گھڑیوںپر ہاتھ رکھنے کی بجائے عوام
کی نبض اور دل پر ہاتھ رکھیں اور جاننے کی کوشش کریں کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ |