کافی عرصے سے حکمران طبقہ سے یہ
سنتے چلے آ رہے ہیں کہ پاکستان نازک ترین دور سے گزر رہا ہے لیکن موجودہ
صورتحال میں اس وقت کے حکمرانوں پر نازک ترین دور آ چکا ہے پیپلز پارٹی اور
اس کے اتحادی حکومت سے چمٹ کر بیٹھے ہوئے ہیں کہ کہیں یہ کرسی چھن نہ جائے
اور اقتدار ہم سے روٹھ نہ جائے اس وقت ملک میں سیاسی جھکڑ چل رہے ہیں ،جلسے،جلوس
اور ریلیاں کسی نئے الیکشن کی خبر دے رہے ہیں ٹکٹوں کی بندر بانٹ بھی ہونے
والی ہے اور کچھ امیدواروں اپنی من پسند پارٹی سے ٹکٹ کے حصول کے لئے تگ و
دو میں لگ چکے ہیں سیاسی منظر نامہ تبدیل ہو رہا ہے اور اب سیاسی گرد اور
دھند چھٹنا شروع ہوگئی ہے اور سیاسی منظر نامہ واضح ہونا شروع ہو گیا ہے
عمران خان کے لاہور کے جلسے کے بعد ایک نئی صورتحال پیدا کر دی اور ملک میں
ایک بڑی سیاسی پارٹی کے طور پر اپنے آپ کو منوایا،لاہور جلسے کے بعد کئی
سیاستدانوں نے اپنے سیاسی قبلے تبدیل کیے اور پاکستان تحریک انصاف میں
شمولیت اختیار کی کپتان صاحب نے بھی نئے آنے والوں کو اپنی پارٹی میں خوش
آمدید کہا اور گلے لگایا جب یہ لوگ پاکستان تحریک انصاف کو جوائن کر رہے
تھے تو سیاسی حلقوں اور صحافتی حلقوں میں چہ میگوئیاں ہورہی تھی کہ یہ سب
اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہے ۔لیکن گزشتہ دنوں جب جاوید ہاشمی نے بھی تحریک
انصاف میں شمولیت اختیار کی تو یہ سب خام خیالی اور قیاس آرائیاں جھوٹی
معلوم ہونے لگیں کیونکہ جاوید ہاشمی جیسا دلیر ،بہادر اور جمہوریت پسند
لیڈر پاکستان کا سرمایہ ہے اور یہ اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر نہیں ناچ سکتا۔
مجھے فیس بک پر دوست یہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے کالموں اور تجزیوں میں
2011کو تبدیلی کا سال قرار دیا ہے لیکن ابھی تک تبدیلی کیوں نہیں آئی آج
بھی پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اب تو 2011ختم ہونے والا ہے آپ کی تبدیلی کب
آئے گی؟
قارئین تبدیلی آچکی ہے آپ نے دیکھا ہوگا کہ ملک میں پہلے صرف دو بڑی سیاسی
پارٹیز تھیں پاکستان مسلم لیگ ن جاتی تھی تو پیپلز پارٹی اقتدار میں آ جاتی
تھی پھر مشرف دور میں ق لیگ بھی وجود میں آگئی لیکن عوام کو ان کے علاوہ
کوئی راستہ نظر نہیں آتا تھا اب پاکستان تحریک انصاف کی صورت میں عوام کو
ایک نیا راستہ نظر آیا لیکن جس طرح پرانے چہرے تحریک انصاف کی طرف سیاسی
ہجرت کرکے جا رہے ہیں لگتا ہے یہ تحریک انصاف کے پرانے کارکنوں کے جذبات کا
خیال نہیں رکھ سکیں گے کیونکہ ان میں سے کچھ تو ایسے چہرے بھی ہیں جو چڑھتے
سورج کے پجاری ہیں اور وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ پارٹی بدلنے میں بھی دیر
نہیں لگاتے ،جنہیں سب سے پہلے اپنی کرسی اور اقتدار عزیز ہوتا ہے ۔
اس وقت اگر موجودہ صورتحال پر غور کریں تو پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت اس
وقت آخری جھٹکوں پر ہے اور اب تب کی مہمان ہے مجھے نہیں لگتا کہ یہ اپنی
مدت پوری کرے گی دوسری بات یہ ہے موجودہ حکومت چاہتی ہے کہ کسی طرح سینٹ
الیکشن ہوجائیں اس کے بعد ہماری حکومت رہے یا نہ رہے، لیکن یہاں پر یہ کہنا
قبل از وقت ہوگا کہ سینٹ الیکشن سے پہلے ہی کوئی نیا ڈرامہ سجے گا؟بہرحال
پی پی کی گورنمنٹ کی خواہش ہے کہ کوئی اس کے ساتھ ڈرامہ ہو تاکہ وہ سیاسی
یتیم بن کر عوامی ہمدردی حاصل کر سکے، دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ ن کا
گراف نیچے کی طرف جا رہا ہے اور جاوید ہاشمی کے جانے سے ن لیگ کی کمر ٹوٹ
گئی ہے ،مسلم لیگ ق کی بات کریں تو وہ تحریک انصاف میں ضم ہو چکی ہے اور
چودھری برادران اکیلے رہ گئے ہیں کچھ خبر یہ بھی ہے چوہدری برادران اور
میاں صاحبان کی صلح کی بات بھی چل رہی ہے اور اس کے لئے سعودیہ میں مقیم
ایک روحانی شخصیت کو بھی کہا گیا ہے اگر بات کریں متحدہ مجلس عمل کی تو یہ
بحال نہیں ہو گی،ایم کیو ایم ہمیشہ کی طرح نئی آنے والی حکومت کا بھی حصہ
ہوگی مولانا صاحب بھی اقتدار کے تالاب میں نہاتے نظر آئیں گے جماعت اسلامی
کے الیکشن لڑنے کی وجہ سے اے این پی کی اہمیت اور ووٹ بینک کم ہوجائے گاشیخ
صاحب لال حویلی میں سگار کے مزے لیتے رہیں گے پیر صاحب ڈھلتی عمر اور گرتی
صحت کی وجہ سے نئے سیاسی منظر نامے میں اتنے فعال نہیں ہوں گے اور صورتحال
کو دیکھتے ہوئے میری یہ رائے ہے کہ حکومت کپتان صاحب کی بنتی نظر آرہی ہے
ہاشمی صاحب کی تحریک انصاف میں شمولیت کرکٹ ورلڈ کپ کے بعد عمران خان کی سب
سے بڑی فتح ہے کراچی کے کامیاب جلسے نے پاکستان تحریک انصاف کی کامیابی پر
مہر ثبت کردی ہے اللہ کرے کپتان کا سونامی کرپشن کو ختم کرتا ہوا وڈیرہ
شاہی اور جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کا بھی سبب بن جائے۔ کپتان صاحب کو اب
پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہو گاکیونکہ حکومت کوئی کرکٹ ٹیم نہیں جسے آسانی
سے چلایا جا سکے یہ سیاسی شطرنج ہے جس کے مہرے آگے پیچھے کرنے کے لئے کافی
غورو خوض کی ضرورت ہے کپتان صاحب کو اس وقت سے ہی اپنے مہرے ترتیب دینے کے
لئے حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی کیونکہ ابھی سے تحریک انصاف میں ٹکٹوں کے
حصول کے لئے لائنیں لگی ہوئی ہیں اور تحائف کا تبادلہ بھی ہو رہا ہے لیکن
اگر آج ٹکٹ دیتے وقت میرٹ کو نظرانداز کیا گیا تو کپتان کے لئے مستقبل میں
شفاف حکومت کرنا ممکن نہیں رہے گا ۔مستقبل میں جو بھی ہواللہ کرے پاکستان
کے لئے بہتر ہو۔۔۔۔ |