اگر بنیادی طور پر دیکھا جائے
اور سادہ الفاظ میں بات بیان کی جائے تو ٹیکس حکومتی ذرائع آمد اً کو کہتے
تاکہ مملکت کے اخراجات پورے کیے جائیں۔ یعنی ملک کے باشندے، چاہے وہ عوام
میں سے ہوں یا خواص سے تعلق رکھتے ہوں، مختلف ٹیکس ادا کر کے قومی خزانے کو
بھرنے کے لیے رقم ادا کرتے ہیں۔ اس نقطئہ نظر سے ملاحظہ کریں تومطلب یہ ہے
کہ ایک ملک کی جتنی زیادہ آبادی ہو گی، اُتنے ہی ٹیکس ادائیگی کے بہتر
مواقع میسر ہونگے ۔ مگر افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ کثیر الا بادی ملک
ہونے کے باوجود بھی پاکستان موثر طریقے سے ٹیکس کی وصولی ممکن نہیں کر پاتا۔
موجودہ نظام میں مختلف اقسام کے ۰۷ٹیکس ہمارے ملک میں لاگو ہیں، جن کا نظم
و نسق کم از کم ۷۳حکومتی اداروں نے سنبھالا ہوا ہے۔ وفاقی ٹیکس Federal
Board of Revenue اکھٹا کرتا ہے۔ ہماری حکومت بری طرح سے قرضوں میں جکڑی
ہوئی ہے اور سال ۰۱۰۲میں تقریباََ ۹۱کروڑ آبادی کے ملک میں سے صرف ۹.۱ کروڑ
لوگوں نے ٹیکس گوشوارے جمع کرائے ۔ ہمارے یہاں ۰۱کروڑ افراد پر یہ ذمہ داری
عائد ہوتی ہے کہ وہ ٹیکس ادا کریں اور مذید افسوس یہ بات جان کر ہوتا ہے کہ
جو افراد ٹیکس ادا کرتے بھی ہیں اُن میں ایسے افرادبھی ہیں جو اِس قومی ذمہ
داری میں حکام کو رشوت دے کر کم ادائیگی کرتے ہیں۔
اگر اتنی بے ضابطگیوں کے باوجود بھی ملک چل رہا ہے تو اگر قوم صحیح طرح سے
ٹیکس ادا کرے تو پھر تو ہم دن دگنی اور رات چگنی ترقی کرینگے بشرط یہ کہ
حکام ایمانداری کا مظاہرہ کریں حکومت قرضوں میں نہیں جکڑے گی اور ترقیاتی
منصوبوں کے لیے بھی رقوم وافر مقدار میں موجود ہوگی۔
سوال یہ ہے کہ ایسے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں جن کی بدولت نظام کو درست
سمت میں چلایا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے تو عوام میں شعور اجا گر کرنے کی
ضرورت ہے کہ ٹیکس کی ادائیگی ایک قومی فریضہ ہے جس سے ملک کی خوشحالی وا
بستہ ہے۔ یہ صرف تب ممکن ہے جب لوگوں کو یقین دیہانی کرائی جائے کہ اُن کی
جمع کردہ رقم سرکاری چکا چوند میں اضافے کے لیے نہیں بلکہ مشترکہ مفاد کے
لیے استعمال کی جائے گی اِس کے علاوہ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں
جو بڑے جاگیردار اور کارخانہ دار ہیں وہ بھی ایمانداری سے قومی فریضہ ادا
کریں اور یہ یاد رکھیں کہ روزِ محشر انہوں نے ربِ ذولجلال کے سامنے پیش
ہونا ہے۔ جیسا کہ شروع میں عرض کیا گیا ہے کہ 70 مختلف قسم کے ٹیکس اِس وقت
پاکستان میں لاگوں ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ ٹیکسوں کی
فوج طفر موج کھڑی کرنے کی بجائے وصولی پر توجہ مرکوز کرکے احداف حاصل کریں۔
اتنے زیادہ ٹیکسو کی موجودگی اُن لوگوں کی شامت آجاتی ہے جو ایماداری سے
ادائیگی کرتے ہیں۔
اگر نظام میں بہتری کی خاطر ہم ترقی یافتہ ممالک کے طریقہ کار میں سے بھی
مدد لیں تو اِس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اِس ضمن میں ٹیکس وصولی کو موثر
بنانے کے طریقوں پر خاص توجہ دینی چاہیے ۔ یعنی ٹیکسوں کی تعداد کم مگر
وصولی درست۔ سیلز ٹیکش میں کمی لانی چاہیے اور موبائل فون کارڈ بھرنے پر
کٹوتی کا خاتمہ یا کمی کی ضرورت ہے۔ یہ دو ایسے ٹیکس ہیں جو چاہے کسی کا دل
اچھا ہو یا برا ادا کرنے پڑتے ہیں۔ اِن سے ایک امیر کبیر شخص پر تو کوئی
خاص فرق نہیں پڑتا البتہ عام عوام اثر انداز ہوتے ہیں۔ اِن ٹیکسوں سے ہونے
والی آمدن کی کثر خواص سے جائز ٹیکس سے کر لیا جائے جو اُن پر قانوناََ
لاگو ہوتا ہے۔ ایسے قوانین کا سدباب بھی ضروری ہے جن کا غلط استعمال کرکے
لوگ اپنے آپ کو ٹیکس کی ادائیگی سے مستثنٰی قرار دے دیتے ہیں۔ اِس کام کے
لیے پارلیمنٹ کو آگے بڑھنا چاہیے اور قانون سازی کرکے معاملات درست کرنے کی
ضرورت ہے اِس طرح نہ صرف ٹیکس کی وصولی اچھے طور پر ممکن ہو سکے گی بلکہ
پارلیمنٹ کی ساکھ میں بھی اضافہ ہوگا۔ گوکہ ایوانوں میں بیٹھے نمائندے شاید
خود بھی ٹیکسوں کی ادا ئیگی کے متعلق کچھ زیادہ اچھی شہرت نہیں رکھتے لیکن
اِن کو یہ اقدامات کرنا پڑینگے تاکہ مٹی کا کچھ حق ادا ہو۔
ٹیکس ادائیگی ایک قومی ذمہ داری ہے اور ہر خاص و عام شہری پر فرض ہے کہ وہ
اِس ذمہ داری کو دیانت داری کے ساتھ نبھائے۔ وصولی کرنے والوں کا رزق حلال
نہیں ہوتا جب وہ اس معاملے میں کوتاہی کریں اور حکومت کو ہر گز نہیں چاہیے
کہ وہ قوم کی کمائی کے بل بوتے پر درجنوں گاڑیوں پر مشتمل قافلوں کے ہمراہ
سفر کرے۔ نہ ہی سرکاری کرنے دھرتوں کی رہائش گاہوں پر بے جائزئین و آرائش
کرنا کسی بھی طرح قومی خدمت کے زمرے میں آتی ہے! |