پاکستانی قوم کو جن عذابوں نے
کچلا اور رگیدا ہے ان میں ’جمہوریت کا دعویٰ“ بھی شامل ہے۔ دنیا نے جمہوریت
کو ملوکیت کی نفی سمجھتے ہوئے اپنایا اور اس کے جھنڈے تلے حکمران خاندانوں
اور بادشاہوں سے نجات ڈھونڈی۔ مگر عجیب منظر ہے کہ ہمارے ہاں جمہوریت کا
راگ الاپنے والوں کے دامن میں مو روثیت اور قبروں کے سوا کچھ نہیں،یہاں تک
کہ پہلے جس محاورے کا سہارا ڈھونڈا جاتا تھا کہ ”پدرم سلطان بود“ ہمارے
قومی زوال کے نتیجے میں اس نے بھی ”سُسرم سلطان بود“ اور ”زوجم سلطانہ بود“
بھانجم سلطان بود“ہم زُلفم سلطان بود“جیسی حقیقتوں کا روپ دھار لیاہے ۔۔۔جب
جنرل پرویز مشرّف کے ستم کا سورج اپنے نصف النہار پہ تھا اور سولی نواز
شریف کی گردن کی منتظر۔۔۔ ایسے میںکچھ مہربانوں کی پس پردہ سرگرمیوں کے
نتیجے میں بات جبری جلاوطنی کے عذاب پہ ٹل گئی تھی۔۔۔جنرل پرویز مشرف کے
جلال کا یہ عالم تھا کہ پارٹی کے بڑے بڑے سورما کونوں کھدروں میں دبک گئے
یا پھر نظر بندی کے نام پہ اپنے ہی گھروں میں عافیت گزین ہو گئے تھے۔۔۔۔اوروہ
بھی جونواز شریف کی تاریخی تقریر کا کاتب بننے کے دعویدار تھے نئے سورج کے
پجاری بن گئے ۔۔۔تب میاں صاحب نے پارٹی قیادت کا بوجھ اُٹھانے اور اعتماد
پہ پورا اترنے کا فریضہ اِس کڑے وقت میں جاوید ہاشمی کو سونپا اوراہل وعیال
اور مال و منال سمیت جدّہ سدھار گئے ۔۔۔وَفا کا پتلا اور اپنی ہی سوچوں کا
اسیر جاوید ہاشمی جو زمانہ طالب علمی سے ایک مستحکم سوچ اور جمہوری کردار
کا حامل رہا تھا ہر طرح کی ترغیبات اور دھمکیوں کے باوجود لیگی پرچم تھامے
چٹان کی طرح ڈٹا رہا جب کہ پارٹی کے دوسرے درجہ کے لیڈر شجر اقتدار پر بیٹھ
کر چہچہانے لگے تھے۔۔۔ہاں میں باغی ہوں کا نعرہ ءمستانہ لگانے کی پاداش میں
قید و بند کی صعوبتیںاور ٹارچر سیلوں میں ہونے والا جبر اور تشدد بھی جاوید
ہاشمی کے پایہ استقلال میں لغزش پیدا نہ کر سکا۔۔۔سپریم کورٹ نے اسے بری
کیا لیکن تب تک اس کی زندگی کے سات قیمتی سال نذر ِزندان ہو چکے تھے۔۔۔جیل
سے رہائی کے بعد جاوید ہاشمی نے میڈیا میں اپنے پہلے بیان میں جہاں جمہوریت
کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا عزم کیاتھا وہیں ایک ایسی بات بھی کہہ دی
جو شاید جاوید ہاشمی کو اب یاد نہ رہی ہو لیکن میاں نواز شریف جو کانوں کے
کچے بھی ہیں اور بات کو دل پہ لینے والے بھی وہ اسے نہ بھول پائے ہوں گے یا
پھر انہیں بھلانے نہ دی گئی ہو گی۔ جاوید ہاشمی نے ملک کے ساتھ ساتھ پارٹی
کے اندر بھی جمہوریت کی بات کی تھی اور زور دے کر کہا تھا”میں نے کسی کی
خاندانی سیادت یا موروثی سیاست و قیادت کے لئے اپنی زندگی کے سات سال جیل
میں نہیں گزارے “کڑوی کسیلی منہ پر کہنے والے جاوید پاشمی کی زبان ہر فورم
پر ایک آدھ ایسی بات ضرور کہتی جس سے” شریف برادران “کی شرافت میلی ہوتی
تھی ۔۔۔اپریل دو ہزار گیارہ میں مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر مخدوم
جاوید ہاشمی نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ
میاں نواز شریف کو ضیاءالحق سے تعاون اور پرویز مشرف سے معافی مانگ کر ملک
سے باہر جانے پر قوم سے معافی مانگنی چاہیے، ضیاءالحق کی کابینہ میں شمولیت
پر وہ آج تک شرمندہ ہیں اور وہ اس غلطی پر پوری قوم سے معافی مانگتے ہیں۔
وہ اپنی جماعت کے قائد میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف سے بھی کہتے ہیں
کہ وہ ضیاءالحق سے سیاسی تعاون اور پرویز مشرف سے سزا معاف کرواکر دس برس
کے لیے باہر چلے جانے پر قوم سے معافی مانگیں۔ انہوں نے کہا تھاکہ انہیں
صدر آصف علی زرداری کی سیاست سمجھ نہیں آتی اور اس کے لیے انہیں پی ایچ ڈی
کرنی پڑے گی ،میں اپنی جماعت کی قیادت سے بھی یہی کہتا رہا کہ آج دیکھیں
کون کہاں ہیں؟؟؟ جاوید ہاشمی کی” بے باکیاں“ میاں صاحب کہا ں تک برداشت
کرتے کیونکہ برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے ۔جاوید ہاشمی کے منہ سے نکلے
ہوئے الفاظ شریف برادران کے سینے میں متواتر چھید کرتے رہے اور اِن کی چبھن
کو پارٹی میں موجود کاسہ لیسوں اور لگائی بجھائی کرنے والوں نے کم نہ ہونے
دیا ،پاکستان میں جہاں ہر پارٹی اس کے لیڈر کی جاگیر اور صنعت بن چکی ہے
وہاں ایسے خیالات اور تصوّرات قابل معافی نہیں ہوتے۔انہیں جُرموں کی پاداش
میں جاوید ہاشمی کوپارٹی کے فیصلوں سے دور رکھا گیا ، پارلیمانی کمیٹیوں
میں کہیں اس کا نام نہ تھا ،وہ کئی سال یہ عذاب نا رسائی جھیلتا رہا ،پھر
ایک دن اس کے اعصاب جواب دے گئے اور فالج کے حملے سے صاحب فراش ہو گیا تب
اس کی بیٹی میمونہ پھٹ پڑی اور نواز شریف کے رویے کو اس کا موجب قرار دیا ،وہ
ایک مجاہد اور جنگجو تھا اور ہے سو اس آزمائش سے بھی سرخرو نکلا اور صحتیاب
ہوگیا ،اس کے غیر متزلزل ایمان اور مقصدیت سے بھرپور کردار کی توانائی نے
اس کی مدد کی ۔فالج سے صحت یابی کے بعد بھی اس کی قیادت نے اسے فاصلے پہ
رکھا اور وہ ہی بے اعتنائی جو پہلے تھی برقرار رہی ۔ یوں لگتا ہے کہ ہر
سیاسی پارٹی لیڈر کی طرح میاں صاحب نے جاوید ہاشمی کو اپنی غیر موجودگی میں
پارٹی کی قیادت سونپی تھی اسے اپنے اعتماد کے علاوہ احسان سمجھا تھا ،ان
حالات میں اور ملک میں کروٹیں لیتے سیاسی حالات میں جاوید ہاشمی جیسے متحرک
سیاسی کارکن اور بھرپور زندگی گزارنے والے انسان کے لئے عضو معطل یا کسی
جاگیر دار کے باج گزار جیسی زندگی گزارنا ممکن نہ تھا اس لئے نوبت یہاں تک
پہنچ گئی اوربالآخر وہ ہی ہوا کہ " دن گنے جاتے تھے جس دن کے لئے " جاوید
ہاشمی کو ربع صدی کی سیاسی رفاقت کو بچشم نم خیرباد کہنا پڑا ،اور اگر یہ
کہا جائے کہ پنچھی فطرتاً آزاد تھا اور پنجرہ کمزور ، ویسے بھی یا تو جیتے
جی مر جانا تھا یا پنجرہ توڑ کے جانا تھااور بقول شاعر۔۔۔
آپس کی کشاکش کیا سہتا ،نازک تھا تعلّق الفت کا
وہ مجھ سے کھینچے ،میں ان سے کھینچا ،بس بیچ سے رشتہ ٹوٹ گیا۔ |