اس کرہِ ارض پر خدا نے جب نئی
مخلوق کی تخلیق کا قصد کیا اور انسان کو اس دھر تی پر اپنا خلیفہ بنانے کا
فیصلہ کیا تو فرشتوںنے خدائے ذولجلال کے حضور عرض کی کہ اے مالکِ ارض و سما
خاک کا وہ پتلا جسے آپ اختیا ر و فیصلہ کی قوت دے کر تخلیق کرنے کا ارادہ
فرما رہے ہیں یہ تو بڑی خون ریزیاں کرے گا ،جنگ و جدل کرے گا اور انسانیت
کو تباہ کاریوں کے حو الے کرے گا لیکن خدائے علیم و بصیر نے فرشتوں کو یہ
کہہ کر خاموش کروا دیا تھا کہ جو کچھ میں جانتا ہوں تم نہیں جا نتے ۔ اللہ
تعا لٰی نے تخلیقِ آدم کے سارے مراحل کو مکمل کرنے اور آدم میں اپنی روح
پھونک دینے کے بعد اسے اس دنیا میں بھیج دیا جہاں پر اسے افعا ل و کردار کا
مکمل اختیار دے دیا گیا اور اس کے افعال و کردار پر احتساب کی میزان یومِ
آخر ت پر اٹھا رکھی تاکہ انسانوں کے فیصلے کرنے کا اختیار کسی بھی حا لت
میں سلب نہ ہو سکے ۔ سچ تو یہ ہے کہ انسان کے افعال و کردار ہی اس کی
مقبولیت اور محبت کی بنیاد بنتے ہیں لہذا جس انسان کے افعال زیادہ نیک،قوی
اور انسان دوست ہو ں گئے وہ اتنا ہی زیادہ محبوبِ خلائق ہو گا اور جس کے
افعال پرا گندہ ،ظلم و جبر اور ناانصافی کے مظہر ہوں گئے وہ اتنا ہی قا بلِ
نفرت ہو گا ۔ تاریخ کے اوراق ہر انسان کا نامہ اعمال مرتب کرتے ہیں اور اس
کے افعال و کردار کو محفوظ کر کے اس کے بارے میں حتمی فیصلہ صادر کر دیتے
ہیں اور تاریخ کا یہی فیصلہ ہر شخصیت کی پہچان بنتا ہے ۔کمال یہ ہے کہ
تاریخ کے اس فیصلے میں کوئی فرد بھی دخل اندازی نہیں کر سکتا ۔تاریخ کا سچ
بالکل ابھر کر اور نکھر کر سامنے آتا ہے ۔کوئی ڈکٹیٹر کوئی آمر کوئی شہنشاہ
اپنی من پسند تاریخ نہیں لکھو اسکتا اور جو کوئی بھی تاریخ کو درباری
دانشوروں اور مسخروں سے سے لکھواتا ہے اسے کوئی بھی قابلِ احترام نہیں
سمجھتا لہذا ایسی تاریخ دریا کی بے رحم لہروں کی نذر ہو جاتی ہے ۔ امکاناتِ
فطرت میں سچ کی تاریخ تو خود بخود ہی رقم ہوتی رہتی ہے اور آخر میں وہی حرفِ
آخر قرار پاتی ہے۔یہ کام کیسے ہوتا ہے سمجھ سے بالا تر ہے لیکن غور طلب بات
یہ ہے کہ ایسا بہر حال ہو کر ر ہتا ہے اور یوں مرتب شدہ ریکارڈ ہی قابلِ
اعتبار گردانا جاتا ہے اور اس ریکارڈ کی بنیاد پر ہی اس دنیا میں ا نسانوں
کے درجات اور عظمت کا تعین ہو تا ہے۔
میں نبیوں، پیغمبروں، اولیائ،صالحین ، صو فیاء، متقین اور اہلِ ایمان کی
بات نہیں کر رہا ۔ ان کی تو شان ہی نرالی ہوتی ہے وہ رشد و ہدائت کا مینارہ
ہوتے ہیں اور دنیا ان کے افعل و کردار سے اپنی زندگیوں میں انقلاب کی
صدائیں محسوس کرتے ہیں ۔ انسانیت کی آفرینش سے لے کر اب تک انکی شان اور
عظمت پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور آئندہ بھی لکھا جاتا ہےگا کیونکہ انکے
افعال و کردار دنیا کی ہر میزان میں اپنی صداقت اور عظمت کی گواہی دیتے
ہیں۔دنیا انکی عظمتوں سے فیض یاب ہو تی ہے اور ان سے راہنمائی حاصل کرتی ہے
اور یہ سلسلہ روزِ آخر تک یونہی چلتا رہے گا لیکن میں آج انسانوں کی بھیڑ
میں جس شخصیت پر اظہارِ خیال کرنے جا رہا ہوں وہ پاکستانی سیاست کی ایک
ایسی طلسماتی شخصیت ہے جس نے اپنی جراتوں اور فہم و فراست سے ساری دنیا کو
متاثر کیا اور ان سے اپنی عظمتوں کا لوہا منوایا۔ دنیا جسے ایک عورت ہونے
کے ناطے کمزور سمجھ رہی تھی اسی عورت نے بہادری کے نئے معیار اور افق قائم
کئے ۔کسے خبر تھی کہ نازو نعم میں پلی ہوئی ایک نخیف سی لڑکی اتنی با جرات
نکلے گی کہ زمانہ اسکی بسالتوں پر اسے صدیاں ہدیہ تبریک پیش کرتا رہےگا۔خدا
اتنا مسبب الاسباب ہے کہ جب جبر کی سیاہ رات میں سب راہیں مسدود ہوتی ہوئی
محسوس نظر آتی ہیں تو پھر وہ اپنی حکمت سے کسی نئی راہ کی نشاندہی کر کے
جبر کی اس سیاہ رات کا خاتمہ کر دیتا ہے۔نیکی اور بدی ، ظلم و جبر اور
انصاف، درندگی اور انسانیت کی یہ جنگ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے
گی اور ہلِ دل اپنی اپنی ہمتوں سے اس جنگ میں اپنا اپنا حصہ ڈال کر حق و
صداقت کی شمع روشن رکھتے چلے جا ئینگے اور ان کا یہی انداز انسانوں کے اندر
ان کی عظمتوں کا مینارہ تعمیر کرتا چلا جاتا ہے۔ ممکن ہے چند مذ ہب پرست
حلقے میری اس تو جیہ سے اختلاف کریں اور انسانوں کی عظمتوں کے معیار مذہبی
بنیادوں پر اٹھانے کی کوشش کریں لیکن ا ن کے ایسا کرنے سے بھی حریت و
جانبازی کے معنی تو نہیں بدل سکتے۔ جانباز تو جانباز ہی ہوتے ہیں چاہے وہ
کسی مذہب سے بھی تعلق رکھتے ہوں ۔سچائی خود اپنا اظہار ہوتی ہے اور کردار
کی بلندی مذہب کے بندھنوں سے با لا تر ہو تی ہے اسی لئے تو میرے رب نے
اعلان فرما رکھا ہے کہ جو لوگ نیک اعمال کریں گئے انھیں انکے اعمال کا اجر
میرے ہاں سے ملے گا۔۔۔
۵ جولا ئی 1977 میں ذولفقار علی بھٹو کی لختِ جگر محترمہ بے نظیر بھٹو
کارزارِ سیاست میں نمودار ہوتی ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سب کی آنکھ کا
تارہ بن جاتی ہیں۔ تیس سالوں پر محیط اس کی جدو جہد اسے عا لمی شہرت عطا
کرتی ہے اور اسے عالمی مدبر کے ایسے مقام پر متمکن کرتی ہے جس سے آنے والی
نسلیں حریت و جانبازی کا سبق سیکھتی ہیں۔ 12 جون 1953 سے 27 دسمبر 2007 تک
محترمہ بے نظیر بھٹو کاسفر محیرالعقول واقعات سے بھرا پڑا ہے۔آمریت کے خلاف
اس نے جس شان سے جمہوری جنگ لڑی ہے اس کی تاریخ میں مثال تلاش کرنا ممکن
نہیں ہے۔جنرل ضیا الحق اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی باہمی آویزش تاریخ میں
ایک خاص مقام رکھتی ہے۔جنرل ضیا الحق نے جس طرح کے مظالم محترمہ بے نظیر
بھٹو اور ان کے خاندان پر روا رکھے اس سے انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے
لیکن باعثِ حیرت ہے کہ جنرل ضیا الحق کے یہ تمام ہتھکنڈے بھی محترمہ بے
نظیر بھٹو کے حوصلوں کو پست نہ کر سکے۔وہ ہر خوف سے بے نیاز ہو کر جمہوریت
کی جنگ لڑتی رہیں اور اس بے رحم اور سفاک جنگ میں پی پی پی کے جیالوں نے
قربانیوں کی جو نئی تاریخ رقم کی تاریخِ عالم اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر
ہے۔جیالوں نے جمہوری جدو جہد میں قربانیوں اور صعوبتوں کو جس خندہ پیشانی
سے جھیلا اس نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو جمہوری جنگ لڑنے کے لئے نیا حوصلہ
اور جذبہ عطا کیا۔ ۵ جولا ئی 1977 سے جون 1984 تک محترمہ بے نظیر بھٹو کو
جیلوں اور نظر بندی سے گزرنا پڑا ۔ اپنے کان کی تکلیف کے پیشِ نظر وہ چند
مہینوں کے لئے انگلینڈ گئیں لیکن 10 اپریل 1986 کو آمریت کے خلاف اپنی جنگ
کو منطقی انجام تک پہنچا نے کےلئے وہ دوبارہ پاکستان واپس آگئیں اور پھر
جنرل ضیا الحق کی آمریت کے خاتمے تک ملک کے اندر ہ جمہوری جدو جہد میں جٹ
گئیں ۔ انھوں نے سیاسی جلسے جلوسوں کے ذریعے عوام کو منظم کیا اور 1988 کے
انتخابات میں دنیائے اسلام کی پہلی خاتون وز یرِ اعظم بننے کا اعزاز حاصل
کیا۔ 18 مہینوں کے بعد محترمہ کی پہلی عوامی حکومت کو کرپشن کے الزامات کے
تحت برخاست کیا گیا لیکن محترمہ پھر بھی ہمت نہ ہاری لہذا 1993 کے ا
نتخابات میں ایک دفعہ پھر شاندار کامیابی حاصل کر کے وزیرِ اعظم پاکستان
بنیں لیکن نومبر 1996 میں ایک دفعہ پھر ان کی حکومت کو کرپشن کے الزامات کے
تحت ختم کر دیا گیا ۔ اس دفعہ پی پی پی کے اپنے منتخب صدر سرادر فاروق خان
لغاری نے پی پی پی کے ساتھ بے وفائی کی اور کنگز پارٹی تشکیل دے کر خود کو
اقتدار کے ایوانوں میں سیا ہ سفید کے مالک بننے کے خواب دیکھنے شروع کر دئے
لیکن ان کا یہ خواب اس وقت چکنا چور ہو کر بکھر گیا جب اگلے انتخابات میں
میاں محمد نواز شریف کی مسلم لیگ نے دو تہائی اکثریت حاصل کر کے انھیں بڑی
ذ لت و رسوائی سے ایوانِ صدر سے اٹھا کر باہر پھینک دیا۔
1998 میں میاں محمد نواز شریف کے دورِحکومت میں محترمہ بے نظیر بھٹو پر بے
شمار مقدمات قائم کئے گئے اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کو ناکردہ گناہوں
کی پاداش میں ساڑھے آ ٹھ سالوں تک زندانوں کی صعوبتوں کو برداشت کرنا پڑا۔
آصف علی زرداری نے ان صعوبتوں کو جس جوانمردی سے برداشت کیا وہ اپنی مثال
آپ ہے۔ 1999 کے اوائل میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے جلا وطنی اختیار کر کے یو
اے ای کو اپنی سیاسی سرگر میوں کا مرکز بنا لیا اور یہی پر مجھے محترمہ بے
نظیر بھٹو کو ملنے ،ا نھیں قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا کا شرف حاصل ہوا۔
یہ دسمبر2002 کی ایک بڑی خوبصورت چاند رات تھی جب ہم نے محترمہ بے نظیر
بھٹو کے اعزاز میں ایک افطار پارٹی کا اہتمام کیا ۔ راجہ مبشر اور مرزا
جہادی اس تقریب کے منتظمین میں شامل تھے اور یہ میری محترمہ بے نظیر بھٹو
سے پہلی ملاقات تھی ۔ ملاقاتوں کا یہ سلسلہ کئی سالوں پر محیط رہا اور یہ
18 اکتوبر 2007 کو اس وقت اختتام پذیر ہوا جب محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی
جلا وطنی کو ختم کر کے پاکستان واپس جانے کا فیصلہ کر لیا۔ محترمہ بے نظیر
بھٹو سے اپنی پہلی ملاقات کے بعد میرا تا ثر یہ تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو
ممتا کی جذبوں کی چلتی پھرتی تصویر ہیں۔بھٹو خاندان کے بارے میں ایک عام
تاثر یہ پیدا کیا گیا ہے کہ وہ کسی کی نہیں سنتے لیکن میں نے محترمہ کو اس
کے بالکل بر عکس پایا۔میں نے جب بھی کسی اہم موضوع پر ان سے بات کی انھوں
نے میری گذارشات کو ہمیشہ پذیرائی عطا کی اور احترام سے نوازا۔۔
اس شام رمضان ا لمبارک کی 29 تاریخ تھی اور اس بات کا شدت سے انتظار تھا کہ
کل عید ہو گی یا کہ نہیں۔ تقریب کے اختتام پر جب محترمہ بے نظیر بھٹو ہر
ایک ٹیبل پر جا کر پارٹی کارکنوں کے ساتھ تصویریں بنوا رہی تھیں تو تھوڑے
تھوڑے توقف کے بعد ایک ہی سوال دہرا تی جاتی تھیں کہ چاند کا کیا بنا۔ راجہ
مبشر اعجاز اور میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ کھڑے تھے جب انھوں نے
تیسری دفعہ اپنا یہی سوال دھرایا تو میں نے بی بی سے معذرت کے ساتھ کہا کہ
بی بی آج تو دھرتی کا چاند اپنی پوری تابناکیوں کے ساتھ اس آنگن میں اترا
ہوا ہے اور آپ بار بار فلک کے چاند کا پوچھ رہی ہیں ۔ یقین کیجئے آج کسی کو
بھی فلک کے چاند سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ وہ نکلتا ہے یا کہ نہیں اور عید
کل ہوتی ہے یا کہ نہیں کیونکہ ان کی ساری توجہ کا مرکزوہ چاند ہے جو اس وقت
ان کے درمیاں ہے اور جس کی ضو فشانیوں سے سب محظوظ ہو رہے ہیں ۔ محترمہ بے
نظیر بھٹو نے میرے یہ چند جملے سنے تو مجھ سے یوں گویا ہوئیں کہ کیا یہ سب
کچھ اب بھی سچ ہے تو میں نے کہا کہ جی ہاں یہ اب بھی ویسا ہی ہے جیسے کبھی
ہوا کرتا تھا۔ دلوں میں اتر جانے والے چاند وقت کے تا بع نہیں ہوتے اور نہ
ہی مجبوریوں کے اسیر ہوا کرتے ہیں ۔ ان کی محبت سدا قائم رہتی ہے اور کوئی
اس محبت کو ختم نہیں کر سکتا۔ 27 دسمبر 2007 کی شام دھرتی کا یہ چاند ہمیشہ
ہمیشہ کے لئے غر وب ہو گیا اور اپنے چاہنے والوں کو اداس اور بلکتا ہوا
چھوڑ کر کسی ایسی نگر ی میں چلا گیا جہاں سے کوئی لوٹ کر واپس نہیں آتا۔۔۔۔
اک کرن کے قتل پر، ہر سو اب اندھیرا ہے۔۔ مٹ گئی ہے روشنی،لٹ چکا سویرا ہے
طا ئرِ بے نوا کو اس نے، قفس سے آزاد کیا۔۔ افکارِ نو کی کرنوں کا ،اسی کے
سر پہ سہرا ہے (طارق حسین بٹ) |