موروثی سیاست کا وائرس۔عوام کب جاگیں گے؟

پاکستان میں آج کل جمہوریت طوائف کوئے ملامت بنی ہوئی ہے۔ اس کو یوں کہنا بہتر ہو گا کہ رضیہ غنڈوں میں پھنس گئی ہے۔ ایک طرف عمران خان کا سونامی بہت سی جماعتوں کے برج بہا لے جا رہا ہے اور دوسری طرف جمہوریت کے نام پر تاریخ کی بد ترین اور کرپٹ ترین حکومت میموگیٹ سکینڈل، صدر کی "علالت؟" نیٹو فورسز کا سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ،ایبٹ آباد کمیشن اور سینٹ انتخابات کی بھول بھلیوں میں کھو چکی ہے۔اس تمام مشق کے دوران روایتی سیاستدان سب معاملات کو ایک طرف رکھ کے اپنے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لیے سیاست کی بساط پر اپنی طویل عرصے تک موجودگی کو یقینی بنانے کے لیے موروثی سیاست کی انتہائی ناپسندیدہ روایت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔حکومت بیک وقت عدلیہ اورفوج کے خلاف لنگوٹ کس کر میدان جنگ میں کود چکی ہے۔ حالات اس قدر گمبھیر ہیں کہ مستقبل کا منظر نامہ دھندلا نظر آ رہا ہے۔ بظاہریہی نظر آ تا ہے اگر حکومت نے اداروں سے ٹکراو کی پالیسی جاری رکھی تو جنوری کے وسط تک یا پھر مارچ میں ہونے والے سینٹ انتخابات کے بعد حکومت کا بوریا بستر گول کر دیا جائے گا(یا ہوجائے گا)۔

حالات جس تیزی سے بگاڑ کی طرف جا رہے ہیں توں توں عام انتخابات کے امکانات واضح ہوتے جا رہے ہیں۔انتخابات کے اس متوقع رن کے پیش نظر صدیوں سے سیاست کو ذاتی جاگیر سمجھنے والے موروثی سیاستدان اپنی وراثت اپنی نسلوں کو منتقل کرنے کی تیاریاں مکمل کر چکے ہیں ۔ فوج اور آئی ایس آئی کی چھتری کے نیچے سیاست کرنے والے سٹیٹس کو کے حامی سیاستدانوں نے موروثی سیاست کو مزید مضبوط کرنے کے لیے ہمیشہ کی طرح بھائیوں،بیٹے بیٹیوں، پوتے پویتوں ، نواسے نواسیوں، دامادوں، بہووں، بھانجے بھانجیوں،بھتیجے بھتیجیوں اور نہ جانے کن کن کو سیاسی اکھاڑے میں اتارنے کی تمام تیاریاں مکمل کر چکے ہیں۔ اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں عددی برتری رکھنے والی تمام بڑی جماعتیں اپنے جانشین میدان میں اتار چکی ہیں۔اس سے صاف نظر آ رہا ہے کہ اگلے کئی عشروں تک پاکستان کے عوام کی تقدیرپدرم سلطان بود کا نعرہ لگانے والے نو دولتیوں کے ہاتھ میں ہو گی۔

حالیہ دنوں میںمسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی بیٹی مریم نواز نے عملی سیاست کا آغاز کر دیا ہے جبکہ ان کے کزن وزیر اعلی شہباز شریف کے بڑے بیٹے حمزہ شہباز پہلے ہی کارزار سیاست میں موجود ہیں اور وہ رکن قومی اسمبلی بھی ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق ان کے چھوٹے بھائی سلمان شہباز کو بھی آئندہ انتخابات میں میدان سیاست میں اتارنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ایک اخباری رپورٹ کے مطابق شریف برادران کے تیسرے بھائی عباس شریف بھی آنے والے انتخابات میں صوبائی یا قومی اسمبلی کی نشست کے امیدوار ہو سکتے ہیں جبکہ بیگم کلثوم نواز کے رشتہ دار عمر سہیل ضیاءبٹ اور نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر(ان کے بھائی مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر خیبر پختونخواہ میں قومی اسمبلی کا الیکشن ہار چکے ہیں)پہلے ہی مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی ہیں اور رکن پنجاب اسمبلی محسن لطیف اور کچھ دوسرے ارکان اسمبلی کا تعلق بھی شریف خاندان سے بتایا جاتا ہے۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف کو اپنی بیٹی مریم نواز کو سیاست کی جولان گاہ میںاتارنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ وہ اپنے بھتیجے حمزہ شہباز کی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔ ذرائع کے مطابق کچھ عرصے سے زبان زدعام ہونے والے حمزہ شہباز شریف کے مالیاتی اور اخلاقی سکینڈلز نے ان کی نیک نامی پر سوالیہ نشان ثبت کر دیے ہیں جس کی وجہ سے میاں نواز شریف مریم نواز کوخارزار سیاست میں اتارنے پر مجبور ہوئے تا کہ نوجوان نسل پر گرفت مضبوط کی جا سکے۔

44فیصد بوگس ووٹوں والی اسمبلی کے منتخب صدر پاکستان آصف علی زرداری "بیمار؟" ہو کرچند روز کے لیے بیرون ملک جانے لگے تو فوری طور پر پیپلزپارٹی کے23سالہ چیئرمین اپنے فرزند ارجمند بلاول بھٹو زرداری کو بیرون ملک سے بلوا کر ایوان صدر میںٹھہرایا تاکہ قصر صدارت پر ان کا علامتی قبضہ برقرار رہے۔ لوگوں نے کئی دفعہ وہ مناظر دیکھے ہوں گے جب صدر زرداری بیرون ملک دوروں پر جاتے ہیں تو وہ ساتھ اپنی بیٹیوں کو لے کر بین الاقوامی شخصیات اور عالمی رہنماؤں سے ان کی ملاقاتیں کراتے ہیں تاکہ ان کے ذہن میںشروع سے ہی یہ بات راسخ کر دی جائے کہ انہوں نے مستقبل قریب میں تیسری دنیا کے اس ترقی پذیر ملک پاکستان کے محکوم عوام پر حکمرانی کرنی ہے۔ان بچوں کی دونوں پھوپھیاںفریال تالپور اورعذراپچیحو بھی قومی اسمبلی کی رکن ہیں۔ادھر بھٹو خاندان کی وراثت کے حقیقی جانشین ہونے کے دعویدار مرتضی بھٹو کے بچوںفاطمہ اور ذوالفقار جونیئر کے ذہن میں بھی یہ تصور موجود ہے کہ اپنے دادا ذوالفقار علی بھٹو کے بڑے بیٹے کی اولاد ہونے کے ناطے پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام پر ان کا حق حکمرانی فائق ہے۔اس لیے پیپلزپارٹی شہید بھٹو گروپ کی چیئرپرسن غنویٰ بھٹو جو مرتضی بھٹو کی بیوہ ہیں ، سے ان کی جماعت کی سربراہی ان کی جواں سال بیٹی فاطمہ بھٹو کو منتقل ہوتی نظر آ رہی ہے۔

یوسف رضا گیلانی پاکستان کے وزیر اعظم ہیں ۔ ان کے چھوٹے بھائی احمد مجتبی گیلانی جنہیں گھر میں پیار سے مجو سائیں کہا جاتا ہے، ملتان کی تحصیل جلال پور سے اور ان کے بڑے صاحبزادے عبدالقادر گیلانی رحیم یار خان سے رکن پنجاب اسمبلی ہیں جبکہ ان کے ایک بھانجے اسد مرتضیٰ گیلانی جو مخدوم وجاہت حسین گیلانی (سجادہ نشین دربار حضرت موسی پاک شہیدملتان)کے فرزند ارجمند ہیں اور آجکل مسلم لیگ ن کے دستر خوان پر براجمان ہیں، 2002 کے عام انتخابات میں اپنے ماموں کی آشیر باد سے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہو کر پہلے پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کا حصہ بنے اوربعد میں فروری 2008 کا انتخاب مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے لڑا۔ تین سال تک امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ کی ڈارلنگ بن کر وزارت خارجہ کے مزے لوٹنے والے مخدوم شاہ محمود قریشی ریمنڈ ڈیوس کیس میں کسی کے اشارے پر سٹینڈ لے کر پہلے وزارت اور بعد میں تحریک انصاف میں شامل ہو نے کے بعد قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہو چکے ہیں۔ ان کی خالی کردہ نشست پر مستقبل قریب میں ضمنی انتخاب متوقع ہے۔ اس سیٹ پر انتخاب لڑنے کے لیے امیدواروںنے ابھی سے لنگوٹ کس لیے ہیں۔ شنید ہے کہ اس نشست پر وزیر اعظم گیلانی اپنے دوسرے بیٹے علی موسیٰ کو رکن قومی اسمبلی منتخب کرانا چاہتے ہیں اس مقصد کے لیے انہوں نے سرکاری خزانے کا منہ اور ایوان وزیر اعظم کے دروازے حلقے کے عوام کے لیے کھول دیے ہیں۔ حلقہ این اے 148کی طرف فنڈز کا رخ موڑنے کے علاوہ رائے دہندگان پر نوازشات کی بارش بھی کی جارہی ہے۔ یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ شاہ محمود قریشی اس سیٹ پر اپنے بیٹے زین قریشی کو وزیر اعظم کے بیٹے کا مقابلہ کرنے کے لیے انتخابی میدان میں اتارنا چاہتے ہیں جبکہ ان کے چھوٹے بھائی مرید حسین قریشی بھی سیاست کے میدان کے شاہسوارہیں اور کچھ روز قبل ہی اپنے بڑے بھائی کی تکلید کرتے ہوئے پیپلز پارٹی چھوڑ کرتحریک انصاف کو پیارے ہوئے ہیں۔ موروثی سیاست کی مزید مضبوطی کے لیے وزیر اعظم نے اپنی اکلوتی بیٹی فضہ بتول گیلانی کوسفیر برائے بہبود نسواں مقرر کروا دیا ہے۔موروثی سیاست کی بدبوداررسم تقریبا تمام سیاسی خاندانوں میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ گجرات سے تعلق رکھنے والے چوہدری برادران بھی سیاست کو وراثت بنانے کے معاملے میں کسی سے پیچھے نظر نہیں آتے۔چوہدری پرویز الہی کے"ہونہار" فرزندمونس الہی مسلم 2008 کے الیکشن میںمسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے اور ایسے ایسے گل کھلائے کہ لوگ انگشت بدنداں رہ گئے۔ شنید ہے کہ ان کے بھائی راسخ الہی کو بھی شاید آئندہ عام انتخابات میں اسمبلی میں دھکیل دیا جائے گا۔ اسی طرح چوہدری شجاعت حسین کے دونوں صاحبزادوں شافع حسین اور سالک حسین کو سیاسی داﺅ پیچ سکھانے کے مرحلے سے گزارا جا رہا ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ آئندہ انتخابات تک دونوں کو سیاسی اسباق ازبر ہو چکے ہوں گے اور وہ بھی پدرم سلطان بود کا نعرہ لگاتے ہوئے انتخابی سیاست کی بساط کے مہرے بن سکیں گے۔سپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا اور سابق وزیر داخلہ سندھ ڈاکٹر ذولفقار مرزا کے بیٹے کے بارے میں بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ بدین سے اپنے والد کی چھوڑی ہوئی نشست پر ضمنی انتخاب میں کامیابی کے لیے میدان میں اتریں گے۔ مولانا فضل الرحمٰن کے دونوں بھائی مولاناعطاءالرحمٰن اور مولانا لطف الرحمن اور وہ خود سیاست میں فعال ہیں جبکہ ان کے والد مولانا مفتی محمود بھی بھٹو دور میں سیاست میں بہت اہم کردار دا کرتے رہے ہیں۔ مرحوم صدر پاکستان سردار فاروق احمد خان لغاری کے دونوں صاحبزادے جمال لغاری اور اویس لغاری اس وقت سیاست میں سرگرم عمل ہیں۔ گو چند روز قبل تحریک انصاف کی کشتی میں سوار ہونے کے بعداویس لغاری قومی اسمبلی کی نشست اور ان کے بڑے بھائی جو ق لیگ کے کھاتے سے سینیٹر تھے مستعفی ہو چکے ہیں مگر مستقبل قریب میں وہ عمران خان کے سنگ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کمر بستہ نظر آتے ہیں۔ پہلے بھی عرض کیا ہے اور مکرر عرض ہے کہ موروثی سیاست کی لعنت صرف انہی چند خاندانوں تک محدود نہیں بلکہ اکثر سیاسی خاندان گردن تک اس گندگی میں دھنسے ہوئے ہیں۔ عمران خان جو اس وقت مقتدر قوتوںکی تھپکی سے سیاست کے میدان میں کشتوں کے پشتے لگا رہے ہیں کو داد نہ دینا زیادتی ہو گی جنہوں نے اپنے سیاسی عروج کی ابتدا میں ہی یہ اعلان کر دیا ہے کہ وہ اپنی جماعت کو موروثیت کے وائرس سے پاک رکھیں گے جبکہ ان کی سابق اہلیہ جمائما خان بھی تعریف کے لائق ہیں جنہوں نے عمران خان سے وعدہ لیا ہے کہ وہ تحریک انصاف کو موروثی جماعت نہیں بنائیں گے۔ اسی طرح ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی بھی موروثی سیاست کی مخالف ہیںان جماعتوںکی قیادت بھی لائق تحسین ہے جس نے اس طرح کی پالیسیاں بنا کر اپنی تنظیموں کو موروثی سیاست کی تہمت سے پاک رکھا ہوا ہے۔

موروثی سیاست کے نقصانات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔اس سے سیاسی جماعتوں میں آمریت عود کر آتی ہے اور پارٹی کے کارکنوں کا حال مخدوم جاوید ہاشمی جیسا ہوتا ہے۔ موروثی سیاست کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ملک میں امن ومان تباہ ہو جاتا ہے اور بدعنوانی کی خوفناک داستانیں رقم ہوتی ہیں کیونکہ اس طرح اقتدار میں آنے والے لوگ خود کو ہر قسم کی جوابدہی سے بالاتر سمجھتے ہیں اور ان کے اذہان میں یہ خبط سوار ہوتا ہے کہ وہ اپنے بڑوں کی آشیر باد سے منتخب ہوئے ہیں جو ان کے لیے آئندہ بھی اس طرح کی سہولیات فراہم کرتے رہیں گے۔ عوام اب اپنی آنکھیں اور کان کھول کر زمانے کی روش و رفتارکا جائزہ لیں یہ وہ وقت ہے کہ ترقی یافتہ دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کے لیے ہم موروثی سیاست کی اس لعنت سے جان چھڑائیں اور آئندہ عام انتخابات میں موروثی سیاست کی حامل جماعتوں کو مسترد کر دیںبصورت دیگر ہماری نسلیں اگلے کئی عشروں تک ان استحصالی خاندانوں کے رحم و کرم پر ہو گی اور پاکستان کی سلامتی کو بھی خطرات لاحق رہیں گے۔
Ghulam Mehdi
About the Author: Ghulam Mehdi Read More Articles by Ghulam Mehdi: 11 Articles with 8278 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.