25دسمبر کو مزار قائد پرعمران
خان کا سونامی نے کراچی کو ہلا کر رکھ دیا اور پنجاب کے دارلحکومت لاہور کی
طرح سندھ کے دارلحکومت کراچی میں بھی شاندار جلسے سے یہ ثابت کردیا کہ
پاکستان کے نوجوان ان کے ساتھ ہیں۔عمران خان کو عوام کی بھرپور حمایت حاصل
ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے عوام اب نئے لوگوں کو آزمانا چاہتی ہے کیونکہ
عوام سمجھتی ہے کہ چہرے بدلنے سے شاید نظام میں بھی تبد یلی آ جائے۔عمران
خان کی 15 سالہ جدوجہد قابل تعریف ہے۔عمران خان کا یہ تاریخی جلسہ وہ بھی
ایم کیو ایم کے گڑھ میں ایک حیران کن بات ہے۔اس جلسے میں پانچ لاکھ سے زائد
لوگوں کی شرکت سے عمران خان کی مقبو لیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
جاوید ہاشمی ، شاہ محمود قریشی،خورشیدقصوری،جہا نگیر ترین،اویس لغاری اور
بہت زیادہ لوگوں کی تحریکِ انصاف میں شمولیت کوتجزیہ نگار مسلم لیگ نون
اورر پیپلز پارٹی کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دے رہے ہیں۔اور یہ تمام لوگ
عمران خان کی جرات مندانہ قیاد ت کی قدر کر تے ہیں اور ان کی پالیسیوں کی
وجہ سے تحریک انصاف میں شامل ہوئے ہیں۔ اور خود مسلم لیگ نون کے رکنِ
اسمبلی ایاز امیر کا کہنا ہے کہ جاوید ہاشمی کا پارٹی چھوڑنا ان کی جماعت
کے لیے نفسیاتی دھچکا ہے جس سے وہ کبھی نہ نکل سکتے۔
عمران خان کے مخالفین اور خود پارٹی کے پرانے کارکن اور لوگ یہ شکوہ کرتے
دکھائی دے رہے ہیں کہ پارٹی میں ایسے لوگ شامل کیے جا رہے ہیں جو روائتی
سیاستدان ہیں اور کئی پارٹیاں تبدیل کرنے کے بعد تحریک انصاف تک پہنچے
ہیں۔ان پر کیا اعتماد کیا جا سکتا ہے؟یہ ایک سوال ہے جو کہ ہر پاکستانی کے
دماغ میںضرور آتا ہے اور عوام اس کا جواب جاننا چاہتی ہے۔کیا ان کے کے لیے
یہ کافی نہیں کہ ان کا لیڈرایمانداراور کرپشن سے پاک انسان ہے۔اورپاکستان
میں کوئی ایسا سیاسی لیڈر نہیںجو عمران خان کا مقابلہ کر سکے۔عمران خان ا
صول پرست انسان ہیںاور اپنے اصولوں کو ساتھ لے کرسیاست کر رہے ہیں۔کیو نکہ
کرپشن ہمیشہ اپر لیول سے شروع ہوتی ہے اور عمران خان کے ہوتے ہوئے یہ ممکن
نہ ہو گی۔
لاہور میں ایک بڑے جلسے سے ملک میں تبدیلی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔۔قومی
کرکٹ کے سابق کپتان عمران خان نے کہا تھاکہ وہ اس ملک میں تبد یلی لے کر
آئیں گے اور آصف زرداری اور نواز شریف کو آوٹ کردیں گے اور ان کی یہ بات
بہت درست ثابت ہوئی۔ یہ لوگوں کا سیلاب نہیں بلکہ سونامی ہے جو ان کو بہا
لے جائے گا اور اس سونامی نے تو پاکستان کی مضبو ط ترین سیاسی جما عتو ں کا
شیرازہ بکھیر دیا۔اس دفعہ کا الیکشن مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان
نہیں بلکہ اس بار تحریک انصاف بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہو گی اور ان کے
ووٹ بنک کو بہت کمزور کر دے گی۔عمران خان اس وقت ملک کی تیسری بڑی جماعت بن
چکے ہیں اور عین ممکن ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں سب سے بڑی سیاسی طاقت بن
کر ابھریں گی۔ اور کراچی میں شاندار جلسے کے بعد ایم کیو ایم کو بھی خطرے
کا سامنا کرنا پڑے گا۔اس وقت تحریک انصاف پاکستان کی سب سے مضبوط ترین
جماعت بن کر ابھر رہی ہے۔ عمران خان ایک معتبر شخص اور ایماندار سیاست دان
ہیں انہوں نے اپنے کردار سے ثابت کیا ہے کہ وہ بکنے والے نہیں ہیں۔بہت سے
لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ عمران خان کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے ان کے
لیے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ عمران خان جو کہ 32 سال سے کسی کے کنٹرول میں
نہیں رہا ہر مشکل کا ڈٹ کر مقابلہ کیااور ہمیشہ وہ کیا جو ٹھیک ہے اب کون
کنٹرول کرے گا،تمام لوگ عمران خان کو ان کی پالیسیوں کی وجہ سے ہی پسند
کرتے ہیں اور عوام ان کا بھرپور ساتھ دے رہی ہے۔
میں اپنے دوست کے ساتھ زیر بحث تھا ۔میر ے دوست نے مجھ سے پوچھا کہ عمران
خان ہر سیاست دان کو اپنی پارٹی میں شامل کر رہا ہے اور یہ وہی لوگ ہیں جن
کا تعلق کسی نہ کسی کرپٹ پارٹی کے ساتھ تھا۔کیاعمران خان ان کو ساتھ لے کر
کامیاب ہو سکتا ہے؟میں اپنے دوست کی بات سن کر تھوڑا سا مسکرا دیا اور مجھے
اس کی بات سن کرافسو س بھی ہوا کہ ہم کتنے عجیب لوگ ہیں ہم کسی بھی حال میں
خوش کیوں نہیں ہوتے؟جب عمران خان کے ساتھ کوئی بڑا سیاسی لیڈر نہیں تھا تو
ہم یہ کہتے تھے کہ عمران خان کبھی الیکشن نہیں جیت سکتا کیوں کہ اس کے پاس
کوئی بڑا چہرہ نہیں جن کو عوام ووٹ دے اور جب دوسری جماعتوں کے جانے مانے
مشہورسیاسی چہرے تحریک انصاف میں آ رہے ہیں تواب بھی عوام بد ظن ہے اور ان
پے انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔میں نے اپنے دوست کی بات کابہت پیارسے جواب دیا کہ
جو غلط ہو چکا اسے تو نہیں بدلا جا سکتا لیکن ہم اپنے آنے والے کل کو تو
بہتر بنا سکتے ہیں۔اگر ایک انسان راہ راست پر چلنا چاہتا ہے تو ہم اسں کے
راستے کی دیوار کیوں بن جاتے ہیں؟کیوں ہم لوگ اسے سیدھے راستے پر چلنے نہیں
دینا چاہتے؟دو دفعہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور غالباً 3دفعہ پاکستان پیپلز
پارٹی اقتدار میں آئی اور جو کچھ انہوں نے کیا عوام ان سے بخوبی وافق ہے اس
بار پیپلز پارٹی نے جو چار سال کے دور حکومت میں ملک اور عوام کا حال کیا
وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔عمران خان ہی وہ واحد شخص ہے جس نے قوم کو امید
کی کرن دکھائی ہے۔جو قوم کو غربت کے اندھیروں سے نکال کرایک سحر کی امید
دیکھا رہا ہے۔
امیدیں وابستہ کی جارہی ہیں کہ ملک بھر میں کوئی بڑی تبدیلی آنے کا امکان
ہے۔ پاکستان کے حالات میں بھی بہتری کی توقع کی جارہی ہے۔ پاکستان کی عوام
ان سے ایک خوشحال پاکستان کی امیدیں وابسطہ کرچکی ہے ان کی مقبولیت میں
تیزی سے اضافہ دوسری سیاسی جماعتوں کے لیے خوف کی علامت بنتا جا رہا ہے۔ان
حالات میں عمران خان کو مستقل مزاجی سے کام لینا ہو گا اور وہ فیصلے کرنے
ہوں گے جو کہ پاکستان کے حق میں ہوں۔اور یہی کام عمران خان کو دوسری
جماعتوں سے آنے والے تمام سیاسی لیڈروں کے ساتھ بھی کرنا ہو گا۔ان تمام
غلطیوں سے دور رہناہو گا جن سے ان کے کردار پر کوئی انگلی اٹھائے اورنہ ان
کی پارٹی کی سا کھ خراب ہو۔کیونکہ ان کی کی ہوئی ایک غلطی ان کی پرواز کو
کم کر دے گی۔ عمران خان کو عوام کے حق میں ڈٹ کر کام کرنا ہو گا۔اور وہ سب
کچھ کر کے دکھانا ہو گا جس کی پاکستانی عوام نے امیدیں لگائی ہوئی ہیں ۔
عمران خا ن کو چا ہیئے کہ انصاف کو عام آدمی تک پہنچانے کا وعدہ ، کرپشن کا
خاتمہ ، احتساب کا شفاف عمل ، ملک اور ایک عام آدمی کی خوشحالی تک کا ہر
وعدہ ہر حال میں پورا کرنا ہوگا۔اورعہدوں کی تقسیم بھی میرٹ سے کرنا ہو
گااور عوام کو قائد کا پاکستان واپس دلا ناہو گا۔آخر میں لوگوں کو بیدار
کرنے کے لیے فیض احمد فیض کی نظم ہی کافی ہے۔
جگر دریدہ ہوں چاک جگر کی بات سنو امیدِ سحر کی بات سنو
علم رسیدہ ہوں دوانِ دیر کی بات سنو امیدِ سحر کی بات سنو
زباں بریدہ ہوں زخمِ گلو سے حرف کرو امیدِ سحر کی بات سنو
شکستہ پا ہوں ملالِ سفر کی بات سنو امیدِ سحر کی بات سنو
مسافر رہ صحرائے ظلمتِ شب سے اب التفاتِ نگارِ سحر کی بات سنو امیدِ سحر کی
بات
جگر دریدہ ہوں چاکِ جگر کی بات سنو امیدِ سحر کی بات سنو |