وزارت داخلہ کی چھتری تلے جعلی
کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈز اور پاسپورٹس مافیا کی سرگرمیاں
کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ اور مشین ریڈایبل پاسپورٹس پاکستان کی ا ہم
دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں قومی شناختی کارڈ کی بنیاد پر جاری کئے جانے
والے پاسپورٹس دہشت گردوں افغانیوں بنگالیوں بھارتی ایجنٹس سمیت دوسرے
ملکوں کے باشندوں کو بھاری تعداد میں جاری کئے جا رہے ہیں پاکستانی پاسپورٹ
ہو یا شناختی کارڈ تعلیم سرٹیفیکیٹ ہوں یا ڈومیسائل ملک دشمن قوتوں کے آلہ
کار بعض پاسپورٹس افسران اور عملہ سمیت ملک بھر میں پاسپورٹس دفتروں کے
باہر کام کرنے والے ٹاؤٹس کے منظم گروہ چند ہزار روپے کے عوض اپنے ملک کی
اہم دستاویزات قومی شناختی کارڈز اور پاسپورٹس غیر ملکیوں اور ملکی باشندوں
کو مختلف پاکستانی ملتے جلتے ناموں سے جاری کرتے آئے ہیں اور یہ سلسلہ ختم
نہیں ہوا بلکہ جاری و ساری ہے جعلی دستاویزات کے عوض پاسپورٹ جاری کرنے
والے افسران میں الحاج محمد غفار ،سلامت علی قریشی ،محمد صفدر انصاری اور
میاں ریاض حسین مڑل جرم ثابت ہونے کے باوجود پاسپورٹ آفس بہاولپور ملتان
اور کراچی میں بطور انچارج اور آفس سپرنٹنڈنٹ بڑے دھڑلے سے لوٹ مار میں
مصروف ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کیونکہ امیگریشن اینڈ
پاسپورٹس ڈیپارٹمنٹ اور با اثر افراد کی مداخلت انہیں احتساب کے شکنجے میں
نہیں آنے دیتی رشوت کی بنیاد پر آہنی ہاتھ ہمیشہ قومی مجرموں کو بچا لیتے
ہیں۔ آج جعلی دستاویزات پر قومی پاسپورٹس جاری کرنے والے افسران اور انکے
گماشتے راؤ خلیل احمد سٹینو گرافر اور محمد رفیق کلرک بھاری جائیداد کے
مالک ہیں معمولی تنخواہ لینے والے شاہانہ ٹھاٹ باٹھ کی زندگی گزارتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کی حکومت بننے سے قبل عوام جنرل مشرف کی حکومت کو کوستی تھی اب
پیپلز پارٹی کی حکومت کو اس سے بھی آگے نکل گئی ہے راقم نے سال 2003ء میں
جعلی مینول پاسپورٹس جاری ہونے اور پاسپورٹس افسران کی جانب سے جعلی
پاسپورٹس یا ٹمپرڈ شدہ شناختی کارڈز کی بنیاد پر جاری شدہ پاسپورٹس کے
فارموں پر خفیہ کوڈ کے علم ہونے پر اس وقت کے اعلیٰ حکام کے حکم سے ایف آئی
اے اسلام آباد کے بہاولپور میں انکوائری کے لئے مقرر کئے گئے افسر کو ایسے
فارموں کی نشان دہی کردی تھی جنکے شناختی کارڈز چیک کروائے گئے تو وہ جعلی
یا ٹمپرڈ شدہ ثابت ہوئے راقم کی تحریک پر ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے ملتان
رانا عرفان حسین نے انکوائری نمبر112/2003درج رجسٹر ڈ کرواتے ہوئے جرم ثابت
ہونے پر 18ایف آئی آر بر خلاف پرائیویٹ افراد اور سرکاری ملازمین درج کرنے
کی سفارش کی اور کیس منظوری کے لئے ڈائریکٹر ایف آئی اے لاہور کو بھیج دیا
چونکہ سرکاری ملزمان میں ایک 19ویں سکیل کا افسر سجاد احمد بھٹہ (حال ڈی سی
او لاہور ) بھی شامل تھا اس لئے مذید مقدمات کے اندراج کی منظوری کے لئے
ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے اسلام آباد سے اجازت طلب کی گئی لیکن با اثر
افسران نے با اثر افراد کی پشت پناہی اور وزارت داخلہ سے ساز باز کرتے ہوئے
دوبارہ انکوائری کے احکامات حاصل کروالئے اورجب یہ انکوائری ایف آئی اے
لاہور پہنچی تو اس وقت کے بدنام زمانہ ڈپٹی ڈائریکٹر پاسپورٹس سیل سید
تحسین انور شاہ کے سپرد ہوئی موصوف آجکل ڈی آئی جی ( آر پی او ) کی سیٹ پر
موجود ہیں انہوں نے پاسپورٹس مافیا سے ساز باز کی اور تمام سرکاری اور غیر
سرکاری افراد کے خلاف انٹی کرپشن رولز کے تحت کاروائی کی بجائے ایک
پرائیویٹ شخص کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی سفارش کی چنانچہ سابق اسسٹنٹ
ڈائریکٹر ایف آئی اے ملتان میاں محمد اسلم نے راقم کو مدعی مقدمہ بنانے کی
بجائے اپنی مدیت میں ایک شخص محمد اصغر ولد محمد حسن کے خلاف مقدمہ
نمبر124/2004 زیر دفعہ 6پاسپورٹ ایکٹ 1974،30نادرا آرڈیننس2000 درج کی
حالانکہ انکوائری نمبر112/03 میں لیگل ایڈوائزر اور ڈپٹی ڈائریکٹر اور
ڈائریکٹر ایف آئی اے بلترتیب ملتان اور لاہور نے پاسپورٹس افسران اور
پرائیویٹ افراد کے خلاف علیحدہ علیحدہ 18عدد ایف آئی آرز درج کرنے کی سفارش
کی تھی یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ جب بھی انٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ یا ایف
آئی اے والے جرم ثابت ہونے کے باوجود محکمانہ کاروائی کی سفارش کرتے ہیں تو
درحقیقت قومی مجرموں کو تحفظ فراہم کرنے کے مترادف ہے کرپشن کی نشاندہی
کرنے والے پہلے پہل تو کرپشن کرنے والوں کے محکمے کے سربراہ ہی کو ذمہ
داروں کے خلاف کاروائی کے لئے درخواست دیتے ہیں لیکن جب محکمانہ سرد مہری
سامنے آتی ہے تو ایف آئی اے یا انٹی کرپشن اور نیب وغیرہ کو درخواست دی
جاتی ہے اگر یہاں بھی جرم ثابت ہونے کے باوجودراشی افسران اور اہلکاروں کے
خلاف کاروائی نہ کی جائے اورمذید کاروائی کے لئے انہیں راشی افسران کے
سربراہ کو بھیج دیا جائے تو کرپشن کی نشاندہی کرنے والوں کو مایوسی کا
سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ کرپٹ مافیا خوشیوں کے شادیانے بجاتے ہیں اور مذید
کھل کر لوٹ مار میں مصروف ہو جاتے ہیں پاسپورٹ آفس بہاولپور ملتان اور
کراچی کے انچارج انفرادی طور پر جعلی پاسپورٹس جاری نہیں کرتے تھے بلکہ
سٹینو ٹائپسٹ راؤ خلیل احمد کلرک راؤ محمد رفیق ڈلیوری کلرک نومیریکل اور
نومینل کرنے والے اہلکاران بھی غلط کاریوں میں معاون و مددگار تھے اگرچہ
جعلی یا ٹمپرڈ شدہ شناختی کارڈزپر پاسپورٹس کے اجراء پر پابندی اور روک
تھام کے لئے وزارت داخلہ کے حکم کے تحت شناختی کارڈز کی پوسٹ ویریفکیشن کے
احکامات بھی ملک بھر کے پاسپورٹ دفتروں میں مراسلے کی صورت میں بھیجے جا
چکے تھے اگر شناختی دفتروں سے شناختی کارڈز ٹمپرڈ شدہ یا بوگس ہونے کی بابت
رپورٹ موصول ہو تو وہ پاسپورٹ منسوخ کردینے کا حکم تھا مذید کاروائی کے لئے
کیس ایف آئی اے اور محکمہ شناختی کارڈ کو بھجوانا بھی لازم تھامگر بہاولپور
اور ملتان میں تعینات مذکورہ افسران نے جعلی اور ٹمپرڈ شدہ شناختی کارڈز کی
ویری فیکیشن ہی نہیں کروائی بلکہ اس واردات کو کامیاب کرنے کے لئے پوسٹ
ویریفکیشن کے لئے دو لیٹر بنائے جاتے تھے ایک لیٹر کو بطور آفس کاپی
پاسپورٹ فارم کے ساتھ شامل کروادیا جاتا تھا جبکہ اصل لیٹر ڈسٹرکٹ رجسٹرار
شناختی کارڈ آفس کے نام پر بھجوانے کا رجسٹر میں اندراج کرتے ہوئے ضائع
کردیا جاتا تھااس طرح ایسے جعلی پاسپورٹس کی تصدیق ہی نہیں کروائی جاتی تھی
پہلی مرتبہ جب پیپلز پارٹی پیٹریٹ گروپ کے سرکردہ لیڈر مخدوم سید فیصل صالح
حیات سابق وزیر داخلہ نے جعلی پاسپورٹ مافیا کی کھل کر پشت پناہی کی تو
راقم نے مختلف سیاسی رہنماؤں کی خدمت میں پیش کیا صرف ایم ایم اے کے رہنماء
سینیٹر ڈاکٹر عزیزاللہ ساتکزئی نے سینٹ میں جعلی پاسپورٹ کے اجرا ء بارے
تحریک پیش کی جسکا جواب سابق وفاقی وزیر داخلہ مخدوم فیصل صالح حیات نے
دیتے ہوئے لکھا کہ ایک درجن سے ذائد پاسپورٹس ٹمپرڈ شدہ شناختی کارڈز پر
جاری کئے گئے تھے سپیشل سروسز رولز کے تحت ذمہ داران کے خلاف کاروائی کی
جائیگی لیکن تا حال کوئی کاروائی نہیں کی گئی اور آج تک راشی افسران عیش و
عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں بھاری جائیداد بنک بیلنس کے مالک ہیں معمولی
تنخواہ لینے والے عوام پر دھونس دھاندلی سے مسلط ہیںیہاں یہ امر بھی قابل
ذکر ہے کہ الحاج محمد غفار سابق انچارج پاسپورٹ آفس بہاولپور حال انچاج
پاسپورٹ آفس ملتان کے خلاف ایف آئی اے ملتان نے سابق صوبائی وزیر چوہدری
خوش اختر سبحانی کے مبینہ بیٹے عمران اختر سبحانی کے نام پر پاسپورٹ
نمبرJ188457مورخہ 14ستمبر2000جعلی شناختی کارڈ نمبر353-69-031510 کی بنیاد
پر جعلی پاسپورٹ جاری کرنے کی شکائیت موصول ہوئی مگر انکوائری افسر نے
پاسپورٹ آفس کے مذکورہ انچارج کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی بجائے صرف پاسپورٹ
بنوانے والے شخص عمران اختر سبحانی کے خلاف مقدمہ نمبر7/2002درج کیا لیکن
جعلی پاسپورٹ جاری کرنے والے افسر کے خلاف کاروائی نہیں کی جسکے نتیجے میں
کروڑوں روپے رشوت لیتے ہوئے جائیداد بنانے والا پاسپورٹ افسر مذید لوٹ مار
میں مصروف ہے علاوہ ازیں سلامت علی قریشی سابق اسسٹنٹ ڈائریکٹر پاسپورٹ آفس
بہاولپور حال تعینات کراچی اور محمد صفدر انصاری سابق سپرنٹنڈنٹ پاسپورٹ
آفس بہاولپور حال تعینات پاسپورٹ آفس رحیم یار خان کے خلاف مینول شناختی
کارڈ پر کسی دوسرے شخص کی تصویر لگا کر پاسپورٹ جاری کرنے پر ایف آئی اے
ملتان نے مقدمہ نمبر119/2003 بجرم 6پاسپورٹ ایکٹ 1974،109ض ف ،5( 2) 4انٹی
کرپشن ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا لیکن ایف آئی اے ملتان نے اس مقدمہ کا نا
مکمل چالان عدالت سپیشل جج ملتان کی کورٹ میں بھیجا مکمل چالان میں دانستہ
تاخیر کی گئی اسی دوران ایف آئی اے سے اختیارات چھین لئے گئے اور تمام
ریکارڈ قومی احتساب بیورو کے حوالے کردیا گیا نیب نے کوئی کاروائی نہیں کی
اب جبکہ ایف آئی اے کے اختیارات بحال ہو چکے ہیں نیب سے تمام ریکارڈ ایف
آئی اے کو واپس مل چکا ہے لیکن مقدمہ نمبر119/2003کا چالان عدالت جناب
سپیشل جج صاحب ملتان نہیں بھیجاگیا اسی طرح میاں ریاض حسین مڑل آفس
سپرنٹنڈنٹ پاسپورٹ آفس بہاولپور نے ایک ہی شخص کو دو مختلف ناموں پر مشین
ریڈایبل پاسپورٹس نمبرز AB1919951, BC5145931دو ماہ کے دوران جاری کئے ایف
آئی اے کراچی نے مقدمہ نمبر867/2008بجرم زیر دفعہ 17(1)EO 1979,r/w 6(1)(b)(c)(i)(i)پاسپورٹ
ایکٹ 1974سیکشن 419.420/471مورخہ 22 اگست 2008درج کی مگر پاسپورٹ جاری کرنے
اور جعلی کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ بنوانے والے گروہ کے خلاف کاروائی نہیں
کی حالانکہ مذکورہ ایف آئی آر کی کاپیاں بحوالہ چٹھی نمبرFIA.AHTCK/FIR/08/20155-60
ڈائریکٹر ایف آئی اے کراچی زون کراچی ،ڈپٹی ڈائریکٹر سی سی آر او ہیڈ
کوارٹر اسلام آبادانکوائری افسر اور تمام ذمہ داران کو بھیجی گئی لیکن کسی
اعلیٰ ایف آئی اے افسر نے اس بات پر توجہ نہیں دی کہ ایف آئی آر میں
پاسپورٹس اور شناختی کارڈز جاری کرنے والے افسران کے نام شامل کیوں نہیں
کئے گئے ؟ اسی طرح راقم کی شکائیت پر نیب لاہور کے حکم پر ڈائریکٹر ایف آئی
اے لاہور زون لاہور نے ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے ملتان کو پاسپورٹس آفس
بہاولپور کے ٹاؤٹس سے بر آمد کئے گئے 22پاسپورٹس شناختی کارڈز اور ٹوکن کی
بابت انکوائری کرکے مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا گیا ایف آئی اے ملتان کے
انکوائری افسر نے بھاری رشوت وصول کرتے ہوئے پاسپورٹ آفس بہاولپور کے آفس
سپرنٹنڈنٹ ابچارج میاں ریاض حسین مڑل اور اسکے ماتحت ملازمین کو بے گناہ
کردیا اور مقدمہ نمبر208/2007 بجرم 6پاسپورٹ ایکٹ 1974 درج کرتے ہوئے صرف
ایک پرائیویٹ شخص محمد اعظم قریشی کے خلاف چالان عدالت پیش کیا مقدمہ میں
ملوث محمد اعظم قریشی کے ملازم عبدالخالق کو بھی بے گناہ قرار دے دیا
پاسپورٹ آفس اتھارٹی نے عبدالخالق کو ملتان پاسپورٹ آفس میں ملازمت دے دی
اسی طرح پاسپورٹ آفس کے میاں ریاض حسین مڑل راؤ خلیل احمد ،محمد رفیق اور
سابق اہلکار اکمل قریشی وغیرہ کو پاسپورٹس کی غیر قانونیم ٹریفکنگ کرتے
ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑنے پر راقم اور اس کے بھائیوں کے خلاف تھانہ کینٹ
بہاولپور میں مقدمہ نمبر161/07درج کروادیا اور اس مقدمہ کے جھوٹے گواہان
اصغر اور جاوید کو سرکاری نوکری پر پاسپورٹ آفس رحیم یار خان اور بہاولپور
میں ملازمت دے دی گئی راقم کی زبان بند کروانے کے لئے کئی سنگین مقدمات بھی
پاسپورٹس مافیا نے درج کروائے مذیدوزارت داخلہ کی جانب سے دو ہزار جعلی اور
غیر قانونی پاسپورٹ منسوخ کئے جانے کی خبریں بھی اخبارات میں شائع ہوئیں
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جعلی پاسپورٹ بنوانے والوں اور جعلی پاسپورٹ
جاری کرنے والوں کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کی گئی کیا سابقہ دور حکموت کی
طرح موجودہ پارسائی کی دعویدار حکومت بھی جعلی پاسپورٹ مافیا کے آگے بے بس
اور خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی رہے گی کیا جعلی پاسپورٹ جاری کرکے
کروڑوں روپے کی زرعی و سکنہ اراضی بنک بیلنس کوٹھیاں اور گاڑیاں بنانے
والوں کے خلاف احتساب کا شکنجہ تیار کیا جائیگا ؟ کیا نادرا دفاتر سے جعلی
دستاویزات کی بنیاد پر کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈز اور پاسپورٹ دفاتر میں
تعینات مذکورہ افسران اور عملہ بدستور ذاتی مفادات کی غرض سے بدستور جاری
کرتے رہیں گے کیا چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس افتخار محمد چوہدری اس
بارے میں قومی مفاد میں سوموٹو ایکشن لینا پسند فرمائیں گے ؟ |