ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان وزیر
مملکت اطلاعات و نشریات نے ایک اجلاس میں اپنا استعفی جناب محترم وزیر اعظم
یوسف رضا گیلانی کو پیش کیا۔ استعفی کیا پیش کیا اس نے تو اجلاس میں موجود
تمام لوگوں کو حیران اور پریشان کر دیا۔ کیونکہ جس طرح انہوں نے اپنا
استعفی پیش کیا تھا اس انداز سے تو شائد آج تک کسی نے اپنا استعفی نہ دیا
ہو اور وہ بھی کسی پارلیمانی ممبر نے۔وہ استعفی دینے کے دوران اس قدر
جزباتی ہوں گئیں کہ رونے لگیں اور روتے ہوئے انہوں نے اپنے مستعفی ہونے کا
اعلان کیا۔ ڈاکٹر صاحبہ کے اس رونے نے اجلاس میں موجود تمام ممبران کے دلوں
کو نرم کر دیا اور سب کی ہمدردیوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا۔ جناب منظور
وٹو صاحب کے دل پر تو اس بات نے کچھ زیادہ ہی اثر کیا اور انہوں نے محترمہ
کی منت سماجت شروع کر دی کہ آپ اپنا استعفی واپس لے لیں۔ محترمہ کی تقریر
کے دوران جب کیمرا جناب یوسف رضا گیلانی پر فوکس ہوا تو ان کے چہرے پر بھی
پریشانی کے آثار واضع نظر آ رہے تھے۔ پریشان کیوں نہ ہوتے آخر وہ بھی تو
انسان ہیں اور اپنے سینے میں دل بھی رکھتے ہیں وہ دل پتھر کا تھوڑی ہے جس
پر کسی کے رونے کا اثر نہ ہو۔محترمہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا رونا بھی
جناب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی پر اثر کر گیا اور انہوں نے فوراََ وزیر
اطلاعات کے استعفے کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔اور انہیں ہدائت کی کہ وہ اپنے عہدے
پر قائم دائم رہیں۔ یہ ہوتی ہے انسانیت، یہ ہوتی ہے رحمدلی، یہ ہوتی ہے خدا
ترسی اور یہ ہوتا ہے انصاف۔ جناب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی صاحب کی عظمت
کو سلام کرنے کو دل کرتا ہے اور تھوڑا تھوڑا صدقے واری جانے کو بھی کیوں کہ
ان کا دل تو صرف ایک انسان کے آنسوں سے ہی پگھل گیا ہے ۔ اگر اٹھارہ کروڑ
عوام کے آنسو ان کو نظر آ جائیں تو پھر ان کی کیا کیفیت ہو گی ۔ وہ تو فرط
جزبات سے ویسے ہی قربان ہو جائیں گے۔اور یہ قربانی جمہوریت کی سب سے بڑی
قربانی ہو گی۔
ویسے حیرت کی بات ہے پورے چار سال کے عرصے میں جناب عالی کو کسی ایک بھی
دکھی انسان کے آنسو نظر نہیں آئے۔ نظر بھلا کیسے آ سکتے ہیں وہ دکھی
انسانوں کے درمیان تھوڑی رہتے ہیں اور نہ ہی ان کا کسی قسم کے دکھی انسان
سے کوئی تعلق واسطہ ہے۔ وہ جس جنت میں رہتے ہیں وہاں تو کسی دکھ یا پریشانی
کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا سوائے حکومت کے گرنے کے خطرے کے۔ ان کے لیئے
تو حکومت ہی سب کچھ ہے وہ بھی جمہوری حکومت۔ اور اس جمہوری حکومت کو زندہ
رکھنے کی خاطر اگر لاکھوں لوگوں کی موت واقع ہو بھی جائے تو کیا فرق پڑتا
ہے جمہوریت تو بچ جائے گی نا۔جمہوریت کو تو ہم نے ہر حال میں بچانا ہے چاہے
اس کے لیئے کچھ بھی کرنا پڑے۔اگر ریل گاڑی نہیں چل رہی تو کیا ہوا جمہوریت
کی گاڑی تو چل رہی ہے نا۔ کیا فرق پڑتا ہے اگر پی آئی اے کے طیارے نہیں اڑ
رہے جمہوریت کی پرواز تو بلند ہے نا۔ بجلی کے نہ ہونے سے اگر پورے ملک میں
اندھیرا چھایا ہوا ہے تو پھر کیا جمہوریت کا چراغ تو روشن ہے نا۔ملک میں
مہنگائی اور بے روزگاری ہے تو کیا ہوا جمہوریت کو تو خطرہ لاحق نہیں ہے
نا۔ادارے تباہ ہوتے ہیں تو ہو جائیں جمہوریت بچی رہے۔ لیکن ایسی جمہوریت کا
ایک غربت کے مارے لا چار اور دکھی انسان کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے جس کو دو
وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں ہے اور وہ اپنے بچوں کو عید پر نئے کپڑے اور
جوتے خرید کر نہ دے سکنے پر خود کشی کر لیتا ہے۔ ایسی جمہوریت اس ماں کے کس
کام کی جو غربت اور مفلسی سے تنگ آ کر اپنے بچوں کو ساتھ لے کر ٹریں کے آگے
کود جاتی ہے۔ ایسی جمہوریت ان پڑھے لکھے نوجوانوں کے کس کام کی جو ہاتھوں
میں اپنی ڈگریاں لئے معمولی سے معمولی نوکری کے لیئے بھی مارے مارے پھر رہے
ہیں۔
ہمیں نہیں چاہیے ایسی جموریت جس جمہوریت کو ابھی تک صر ف ایک انسان کے ہی
آنسو نظر آئیں ہوں۔ |