پنجاب اسمبلی کا اجلاس جاری تھا
،اچانک ایک درازقد،سرخ وسپیداور خوش لباس ممبراپنی سیٹ سے اٹھااوراس نے
وزیراعلی پنجاب میاںمنظوروٹوکی موجودگی میں ان کے مائیک پر'' لوٹا''رکھ دیا،
ظاہرہے اس ہزیمت پر میاں منظوروٹوکا سیخ پاہونافطری تھا ۔اس واقعہ سے مسلسل
کئی مہینوں تک اقتدارکے ایوانوں اورسیاست کے میدانوں میں انعام اللہ خان
نیازی کے نام کاخوب ڈنکا بجتا رہا۔تاہم اس جسارت کی پاداش میں وزیراعلیٰ
منظوروٹو کے حکم پر سرکاری اہلکاروں نے انعام اللہ نیازی کوپنجاب اسمبلی کی
پارکنگ میں چودھری پرویزالٰہی کی گاڑی سے دبوچ لیااور گھسیٹ کرباہرلے آئے
اوروہاں تشددکانشانہ بنایا ۔اس وقت اپوزیشن لیڈرکاعہدہ میاں شہبازشریف کے
پاس تھا مگروہ اپنا زیادہ تر وقت لندن میں گزارتے تھے۔سردارذوالفقارعلی خان
کھوسہ اورچودھری پرویزالٰہی بھی مسلم لیگ (ن) اوراپوزیشن میں تھے مگر
وٹوحکومت کیخلاف احتجاجی سرگرمیوں کاتمام تربوجھ تنہا انعام اللہ نیازی کے
کندھوں پرتھا ۔انعام اللہ خان نیازی نے اس صورتحال سے خوب فائدہ اٹھایا
اوراپنی سیاسی صلاحیتوں کالوہا منوایا۔انعام اللہ خان نیازی نے کئی
بارپنجاب اسمبلی کے اندراورباہرلوٹے لہرائے اورمیاں منظوروٹوکی ناک میں دم
کردیا۔دبنگ اوردلیر انعام اللہ خان نیازی نے اپنے پرجوش اندازمیں وٹوحکومت
کوانتہائی ٹف ٹائم دیا مگراس کے باوجود وہ کسی دورمیں قیادت کے میرٹ پرپورے
نہیں اترے ۔
1997ءمیں وہ میانوالی سے قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اوروفاق میں مسلم
لیگ (ن) نے حکومت بنائی مگرانعام اللہ خان نیازی کی دبنگ طبیعت کو دیکھتے
ہوئے انہیں وزارت سمیت کسی بھی اہم ذمہ داری کیلئے بری طرح نظرانداز کردیا
گیا،اس پرانعام اللہ خان نیازی نے قیادت کواپنااستعفیٰ تھمایااو رناراض
ہوکر دبئی چلے گئے جہاں انہیں 9اکتوبر کووزیراعظم میاں نوازشریف کی طرف سے
واپس آنے کاپیغام دیا گیا جس پروہ اپنے دل میں استعفیٰ کی عدم واپسی
کاارادہ لے کر ملک واپس آگئے اورقیادت سے اپنا استعفیٰ منظورکرنے کی استدعا
کی تاہم ابھی استعفیٰ کی بات درمیان میں تھی کہ 12اکتوبر 1999ءکی شام
پرویزمشرف نے جمہوریت پرشب خون مارتے ہوئے منتخب وزیراعظم میاں نوازشریف
سمیت کئی اہم شخصیات کوگرفتارکرلیا اورکچھ کوان کے گھروں پرنظربندکردیا۔اس
صورتحال کودیکھتے ہوئے انعام اللہ خان نیازی کے ضمیرنے انہیں قیادت کے ساتھ
ناراضگی برقراررکھنے اوراس کٹھن امتحان میں قیادت کوتنہاچھوڑنے کی اجازت نہ
دی اوروہ13اکتوبر 1999ءکواحسن اقبال کوساتھ لے کراپنے گھر سے نکلے اورباری
باری مسلم لیگ (ن) کے اکابرین کادروازہ کھٹکھٹایا،اس جسارت پرانہیں موٹروے
سے گرفتار کرلیا گیا اورسخت زبان میں نصیحت کرنے کے بعد اگلے روزرہا کردیا
گیا مگروہ بازنہیں آئے ،اس دوران چودھری جعفر اقبال بھی ان دونوں کے ساتھ
شریک ہوگئے۔ ان تینوں نے سردارذوالفقارعلی خان کھوسہ کے گھرپرمیٹنگ کی
اورمسلم لیگ (ن) پنجاب کی مجلس عاملہ کااجلاس طلب کیا مگر خواجہ ہارون سمیت
اس وقت لاہورسے مسلم لیگ (ن) کے کسی ممبرقومی یاصوبائی اسمبلی سمیت کسی
پارٹی عہدیدارنے اجلاس کیلئے اپنا دفتر یاگھراستعمال کرنے کی حامی نہیں
بھری جس پرڈی ایچ اے لاہورمیںانعام اللہ خان نیازی کے گھر میں اجلا س منعقد
کیا گیا،اس وقت پارٹی اجلاس کیلئے اپناہال کرائے پردینے سے صاف انکارکرنے
والے خواجہ ہارون ان دنوں بھی خادم پنجاب کی عنایات کے نتیجہ میں ایک اہم
پوسٹ سے لطف اندوزہورہے ہیں۔ 11مئی2004ءمیںمسلم لیگ (ن) کے صدرمیاں
شہبازشریف کی وطن واپسی کے وقت وہ مال روڈلاہورپرایک جلوس میں شریک تھا
جہاں انہیںتشددکانشانہ بنایااورگرفتارکرلیا گیا ۔انہیں اس وقت کے وزیراعلیٰ
پنجاب چودھری پرویزالٰہی کی خصوصی ہدایت پر لاہور کی بجائے ملتان کی سنٹرل
جیل کے سکیورٹی سیل میں قیدتنہائی میں رکھا گیاجہاں راقم بھی پہلے سے موجود
تھا۔وہاں انہیں خانیوال میں اپنے ایک عزیز کے گھر سے کھانامنگوانے اورپینے
کیلئے ٹھنڈے پانی سمیت کسی قسم کی کوئی سہولت میسر نہیں تھی ۔
شومئی قسمت وہ الیکشن ہار گئے جس پران کی قیادت نے ان سے منہ موڑلیااوران
کے مقابلے میں کامیاب ہونیوالے ارکان کوسینے سے لگالیا مگراس کے
باوجودانعام اللہ نیازی کے قدم نہیں ڈگمگائے ۔اس وقت بھی ایک بڑ ے بھائی
اوردوست کی حیثیت سے عمران خان نے انعام اللہ خان نیازی کوتحریک انصاف میں
آنے کی دعوت دی مگروہ نہیں گئے ۔ اس قدر کمٹمنٹ اورقربانیو ں کے باوجود
انہیں نظراندازکرنے کاسلسلہ ختم نہیں ہوا ،قیادت کی بے اعتنائی نے اس دبنگ
شخصیت کوتوڑدیا جس کوپرویزی آمریت توڑنے میں ناکام رہی تھی۔ایسے صاف ستھرے
اور قدآورلوگ معاشرے کاحسن اورسیاسی پارٹیوں کاقیمتی اثاثہ ہوتے
ہیںمگرصدافسوس ان کی قدر نہیں کی جاتی۔
جاویدہاشمی کی بغاوت کے بعد انعام اللہ خان نیازی نے بھی اپنے بھائی نجیب
اللہ خان نیازی کے ہمراہ پارٹی قیادت کے رویے سے دلبرداشتہ ہوکر مسلم لیگ
(ن) کی بنیادی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا ہے،جاویدہاشمی کے جانے کے بعدمیاں
نوازشریف اپنے سینئرساتھی سرانجام خان زمیندارکومنانے کیلئے خودپشاورگئے
ہیں مگروہ جاویدہاشمی کو تحریک انصاف میں جانے سے روکنے اورراضی کرنے کیلئے
خود جاتی امراءرائیونڈ سے ڈیفنس تک نہیں گئے۔سچائی تویہ ہے کہ مسلم لیگ
(ن)کی قیادت جاویدہاشمی کے جانے پررنجیدہ اورانہیں منانے کیلئے سنجیدہ نہیں
تھی ۔مسلم لیگ (ن) کوجاویدہاشمی اورانعام اللہ خان نیازی جیسے ساتھیوں کی
ضرورت نہیں ہے،میں اس بات پربہت حیران ہوں۔مسلم لیگ (ن) کے زیادہ تر لوگ اس
بات سے پریشان ہیں کہ جلاوطنی کے باوجود ان کی قیادت کے مزاج میں کوئی
تبدیلی نہیں آئی۔میاں نوازشریف اورمیاں شہبازشریف کوخداحافظ کہتے ہوئے
انعام اللہ نیازی کی آنکھیں نم تھیں، چھوڑنے یابچھڑنے کے غم میں فرق مگریہ
فطری ہے۔لاہورپریس کلب میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے
انعام اللہ خان نیازی نے اپنے مخصوص اندازمیں اپنے مستعفی ہونے کی وجوہات
بتاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ آئندہ چندروزمیں مسلم لیگ (ن) میں بھونچال آئے
گا۔انہوں نے تحریک انصاف میں جانے کی اطلاعات کومسترد کرتے ہوئے کہاکہ ان
کے سیاسی مستقبل کافیصلہ اہلیان میانوالی کریں گے۔مسلم لیگ (ن) کوچھوڑتے
وقت ان کاکہنا تھا کہ پاکستان اورمسلم لیگ کانظریہ ان کی رگوں میں خون بن
کردوڑتا ہے لہٰذا مسلم لیگ کے ساتھ ان کا روحانی رشتہ قبرتک برقراررہے
گا۔اب وہ کس جماعت میں جا ئیں گے یہ بات غورطلب ہے۔یہ اپنی
طرزکامنفرداورمختلف واقعہ ہے کہ ایک سیاستدان نے اپنے سیاسی مستقبل کافیصلہ
اپنے ووٹرزاوراہلیان شہرپرچھوڑدیا ہے ۔انعام اللہ نیازی کاپیپلزپارٹی میں
جانے کاتوسوال نہیں اٹھتا اورنہ وہ مسلم لیگ (قائداعظم )میں جائیں گے
کیونکہ مسلم لیگ کایہ دھڑا پیپلزپارٹی کا اتحادی ہے۔دوسری طرف تحریک انصاف
کے چیئرمین عمران خان جوانعام اللہ خان نیازی کے فرسٹ کزن بھی ہیں ،انہوں
نے بڑے خلوص سے انہیں تحریک انصاف میں آنے کی دعوت دے دی ہے ۔اب دیکھنا یہ
ہے کہ انعام اللہ نیازی کے ووٹرزاوردوست احباب ان کیلئے کس سیاسی جماعت
کاانتخاب کرتے ہیں۔لیکن مجھے ان کے تحریک انصاف میں جانے کی قوی امید ہے ۔
2002ءکے عام انتخابات میںمریدکے پی پی 163 سے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ
ہولڈرسجاد حسین چھینہ جو تقریباً بارہ سوووٹوں کے فرق سے ہار گئے تھے
،انہوں نے بھی قیادت کے رویے سے مایوس ہوکرپاکستان تحریک انصاف میں جانے
کافیصلہ کرلیا ہے۔سجاد چھینہ ایک دوروزمیں اپنے فیصلے کا باضابطہ اعلان
کردیں گے۔سجاد حسین چھینہ نے پرآشوب دورمیں مریدکے سے مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ
لیا اورجی جان سے مقابلہ کیا مگرقسمت نے ان کاساتھ نہ دیا اوروہ ہار گئے
۔مگر شکست کے باوجود ان کی سیاسی اورسماجی سرگرمیاں ماندنہیں پڑیں اوروہ
اہلیان مریدکے کی خدمت کیلئے کوشا ں رہے مگر2008ءکے عام انتخابات میں انہیں
درخواست کے باوجود اس حلقہ سے دوبارہ ٹکٹ نہیں دیا گیا اورنہ انہیں
اعتمادمیں لیا گیا۔پرویزمشرف کے دورآمریت میں وہ ہرمرحلے پر مسلم لیگ (ن)
کی احتجاجی تحریک میں شریک ہوتے رہے مگرقیادت کی وطن واپسی پرانہیں بھی
دیوار سے لگادیا گیالہٰذاان کے پاس اپنے اس فیصلے کاٹھوس جوازموجود
ہے۔کیاہارے ہوئے ساتھیوں کوناکارہ سمجھ کران کے حال پرچھوڑدیا جاتا ہے۔
سیالکوٹ سے مسلم لیگ (ن) کے نائب صدراور چیف آرگنائزرمسلم لیگ
(ناراض)ورکرزاتحادرﺅف احمدباجوہ نے اپنے ہم خیال ساتھیوں میاں محمدایوب
،چودھری ممتازاحمدباجوہ،چودھری اصغر،محمدنصراللہ مغل اورمحمداکرم راجپوت کے
ہمراہ پچھلے دنوںزمان پارک لاہورمیں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے
ملاقات میںان کی قیادت پراعتماد کااظہار کیااورمسلم لیگ (ن) کوچھوڑکرعمران
خان کی جماعت میں چلے گئے ۔تحریک انصاف سیالکوٹ کے صدر عمرفاروق
،آرگنائزرچودھری شاہنواز،جنرل سیکرٹری شمشادباجوہ اورممبرسنٹرل
ایگزیکٹوکونسل خواجہ عارف مسلم لیگ (ن) سمیت مختلف پارٹیوں کے عہدیداروں
اورسرگرم کارکنوں کوعمران خان کے حق میں قائل اور تحریک انصاف کی طرف مائل
کررہے ہیں۔رﺅف احمدباجوہ نے مسلم لیگ (ن) کے پلیٹ فارم سے تحریک بحالی
جمہوریت اورججو ں کی بحالی کی جدوجہد میں بڑا فعال کرداراداکیا
اورقیدوبندسمیت تشددکابھی سامنا کیا مگرپرویزمشرف کی آمریت کے بدترین
دورمیں بھی مسلم لیگ (ن) کوچھوڑنے کاتصور نہیں کیا مگراب پنجاب میں اپنی
پارٹی کی حکومت ہونے کے باوجود رﺅف احمدباجوہ نے بھی اس پارٹی سے اپنا
دیرینہ تعلق توڑدیا ہے۔مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اپنے خفا رہنماﺅں کومنانے
کیلئے توکمیٹی بنادی مگرناراض کارکنوں کوراضی کون کرے گا۔ |