ڈر ہے کہ بات بیلٹ سے بلٹ تک نہ جا پہنچے

برِ صغیر کے مسلمانوں نے اک طویل جہدِ مسلسل کے بعد اس وطن کو اک مخصوص نظریہ اور مقصد کے تحت حاصل کیا تھا ۔ وہ مقصد بڑا واضح اور سادہ تھا کہ اس ملک میں ایک اسلامی اور فلاحی معاشرے کا قیام عمل میں لایا جائے گا جہا ں ہر ایک کو اپنی صلاحیت کے مطابق ترقی کرنے کے یکساں مواقع حاصل ہونگے۔ ہر ایک کو سیاسی، معاشی،معاشرتی اور مذہبی آزادی حاصل ہو گی ۔یہ ہی وہ خواب تھا جس کے لیئے افراد نے اپنا سب کچھ تج کر دیا تھا۔اب حصول وطن کے 64 برس بعد یہ خواب عذاب بن گیا ہے ۔وہ سب معاشی،معاشرتی ،سیاسی اور مذہبی آزادی کی باتیں کتابوں میں لکھی فرضی کہانیوں سے زیادہ کچھ بھی نہیں ۔ عوام تب بھی غلام تھے آج بھی ہیں ۔تعلیمی طور پر پہلے بھی پس ماندہ تھے ، آج بھی ہیں ۔ ملک میں کسی بیٹی کی عزت تب بھی محفوظ نہیں تھی ، آج بھی نہیں ہے۔دہشت گردی تب بھی تھی ، آج بھی ہے۔مذہبی تعصب تب بھی تھا وہ آج بھی ہے۔ غربت صحن میں پہلے بھی ناچتی تھی ، اب بھی آنگن میں اسی کا ڈیرہ ہے ۔پہلے گورے اس ملک پر براہ راست حکومت کرتے تھے اب بلواسطہ کرتے ہیں ۔کچھ کوگ تب بھی مالا مال تھے وہ آج بھی ہیں ۔ جو تب خستہ حال تھے وہ اب بھی ہیں ۔سوال یہ ہے کہ بدلا کیا ہے؟ شائد صرف تخت نشینوں کے چہرے۔ نظام کم وبیش وہی!

کسی نے کہہ دیا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے اور پھر اس کو ثابت کرنے میں لگ گئے اور اس کمال سے اس کو ثابت کیا کہ ڈکٹیٹر منہ چھپاتے پھرتے ہیں ۔ڈکٹیٹر کہتے ہیں کہ نہیں جناب ہم کسی سے کم نہیں ! کیا ہم میں دم نہیں ؟ ڈکٹیٹر شپ بہترین انتقام ہے پھر وہ بھی دس دس گیارہ گیارہ سال تک ثابت کرتے رہے۔ بس عوام تختہ مشق بنے ہوئے ہیں ۔فلاں آوے ہی آوے ۔ فلاں جاوے ہی جاوے۔جب بھی آوے لٹ مچاوے۔ جب بھی جاوے کھا پی کے جاوے۔ اپنی اپنی باریاں ہیں اور یاریاں ہیں۔بس آنیاں جانیاں اور رام کہانیاں ہیں ۔ ڈکٹیٹر تو مسلط ہوتا ہے جس میں عوام کی کوئی رائے ہی نہیں ہوتی مگر یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں ستر فیصد عوام تو ووٹ ہی نہیں ڈالتے ! اور جو ڈالتے ہیں بھی ایک الیکشن ڈرامے کے سلسلے میں گھسیٹ گھسیٹ کر یا خرید کر پولنگ سٹیشن تک لائے جاتے ہیں ۔تقریباََ آدھے ووٹ بوگس ہیں ۔ اور ان میں سے بھی جو پندرہ فیصد ووٹ لے لیتا ہے وہ اٹھارہ کروڑ عوام کا نمائندہ کہلاتا ہے۔ اور اسمبلی میں جا کر چپ سادہ لیتا ہے موجودہ اسمبلی میں سینکڑوں عوامی رہبروں نے چار سالوں میں ایک بار بھی عوام کے حقوق کی بات کرنے کے لئے منہ تک نہیں کھولا ۔یہ جعلی جمہوریت نہیں تو اور کیا ہے؟ بس اپنے حلقے میں ترقیاتی کاموں کے نام پر اپنی جیبیں بھرتا ہے! کیا اسمبلی میں بیٹھنے والے لوگوں کا یہی کام ہوتا ہے ؟ اور اگر ہے تو پاکستان کے علاوہ کس جمہوریت میں ہے؟ کیا یہ قانونی کرپشن کی بہترین شکل نہیں ؟یہ بلدیاتی ادارے کس مرض کی دوا ہیں ؟ اس جمہوری حکومت میں پچھلے چار سال میں بلدیاتی الیکشن کیوں نہیں ہوئے؟ کچھ سیاسی جماعتیں کہہ رہی ہیں قومی انتخابات فوری ہونے چاہئے مگر وہ بلدیاتی الیکشن بار بار ملتوی کرنے کے بل اسمبلیوں سے پاس کروا رہے ہیں ! یہ دو رنگی کیوں ہے؟
دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہو جا
سراسر موم یا پھر سنگ ہو جا

تعلیمی نظام تباہی کے آخری کنارے پر ہے۔ ان گنت قسم کا نصابِ تعلیم ملک میں رائج ہے۔ جس کے تحت امیر کا بچہ ہمیشہ حکمران اور غریب کا بچہ کلرک ہی بنے گا کیونکہ اس کو تعلیمی ماحول ہی ایسا دیا جا رہا ہے ۔ الف انار اور ب بکری پڑھنے والا بچہ سی ایس ایس میں بیکن ہاﺅس میں پڑھنے والوں کا مقابلہ کیسے کرے گا؟اک تعلیمی دہشت گردی ہے جو مدت سے جاری ہے۔کیا کبھی کسی نے اس پر غور کیا ؟ انہیں ضرورت ہی نہیں ۔عدالتی نظام کا حال یہ ہے غریب عوام چالیس چالیس سال تک عدالتوں میں دھکے کھاتی ہے مگر انصاف نہیں ملتا اور اگر ملتا بھی ہے تو انصاف حاصل کرنے والوں کی ٹانگیں قبر میں اور اگلی نسل جوان ہو چکی ہوتی ہے۔
کچھ تو کہو انصاف گرو کب ہو گی ہماری شنوائی
کھینچ کے عدل کی زنجیریں ہم ہاتھ لہو کر بیٹھے ہیں

معاشرتی نظام تباہ ہو چکا ۔ معاشرتی تفاوت اور طبقاتیت کی خلیج گہری سے گہری ہوتی چلی جا رہی ہے ۔ اک طبقہ اصطلاحاََ برہمن کا روپ دھار چکا اور دوسرے کو شودر بنانےکی کامیاب کوشش کی جا رہی ہے۔سیاسی نظام پر سیاسی پنڈت قابض ہو چکے اور ہر گزرنے والے دن کے ساتھ ان کی گرفت اس نظام پر مضبوط سے مضبوط ہوتی جارہی ہے اور وہ اس نظام کو ہر قیمت پر قائم و دائم رکھنا چاہتے ہیں ۔ہوا کے رخ کے ساتھ پارٹیاں تبدیل ہو رہی ہیں مگر نظام بدلنے کی بات کوئی بھی نہیں کر رہا ۔ اک طاہرالقادری کی آواز گونجی تھی اور فضاﺅں میں کہیں کھو سی گئی ہے۔اس موضوع پر کوئی بات کرنے کو تیار ہی نہیں ۔ ڈاکٹر قادری ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ اس نظام کے تحت اب تک کتنے انتخاب ہوئے؟ جمہوری ادوار میں بھی اور آمرانہ ادوار میں بھی۔ عوام کو کیا ملا؟ وہی آبلے ہیں وہی جلن۔گورنینس ختم ہو چکی ۔ گلی گلی کوچہ کوچہ اداراہ اداراہ مرضی پورہ کا روپ دھار چکا۔عوام پہ دکھوں اور ظلم کی دھوپ کڑک ہوتی جا رہی ہے۔ بلوچ سردار کہہ رہے ہیں کہ بات ان کے ہاتھ سی نکل گئی ہے۔ بلوچ ریاست سے نفرت کرنے لگے ہیں ۔وہ پہاڑوں پر جا چکے ، اکثریت ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھا چکی ہے۔ بلوچ بھایﺅں کو ان کے جائز حقوق سے محروم کیوں رکھا جا رہا ہے۔ مشرقی پاکستان کی تاریخ کیوں دہرائی جا رہی ہے؟ ؟میں نے اپنی زندگی کا ایک سال بلوچوں میں گزارا ہے ۔ وہ تو بہت ہی شاندار اور وفادار قسم کے لوگ ہیں ۔جو مہمان کی آن پر جان دے سکتے ہیں وہ وطن کے لئے کیا نہیں دے سکتے؟ مگر کوئی ان سے بات تو کرے ! وہ ہمارے بھائی ہیں بلکہ سب پاکستانی بھائی بھائی ہیں ۔

سوچتا ہوں کہ اب تک جمہوری نظام نے بھی عوام کے دکھوں کا مداوا نہیں کیا ۔ اور اب عوام کی برداشت بھی تقریباََ جواب دینے کو ہے۔ اب تو بات بات پر توڑ پھوڑ شروع ہوجاتی ہیں۔ لوڈ شیدنگ کی بات ہو یا غلط تعلیمی نتائج کی۔ بات جلاﺅ گھیراﺅ تک جا پہنچتی ہے کوئی سول نا فرمانی کی بات کر رہا ھے۔ مشرقِ وسطیٰ کے عوام انگڑائی لے چکے۔ تیونس،مصر اور لیبیا کے نام نہاد عوامی بت پاش پاش ہو چکے ۔ شام کی بھی شام ہونے کو ہے۔ اور اس کی تپش وطن عزیز تک بھی آسکتی ہے ۔ عمران خان سونامی کے گھوڑے پہ سوار ہو کر آ رہے ہیں مگر ان کے پیادوں میں وہی پرانے سٹیٹس کو کے حامل لوگ جوک در جوک آرہے ہیں ۔ پتہ نہیں وہ اب کیا کریں گے ؟ جو پہلے کیوں نہیں کیا تھا؟ اگر اس فرسودو بیلٹ کے نظام نے اب بھی ڈلیور نہ کیا تو ڈر ہے کہ بات کہیں بیلٹ سے بلٹ تک نہ جا پہنچے۔اور اگروہ وقت آ گیا تو ان نام نہاد عوامی اور سونامی لیڈروں کا کیا بنے گا؟ اب ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہے۔
ٹھہرو اور اک نظر وقت کی تحریر پڑھو
ریگِ ساحل پہ رمِ موج نے لکھا کیا ہے
Shahzad Ch
About the Author: Shahzad Ch Read More Articles by Shahzad Ch: 28 Articles with 32361 views I was born in District Faisalabad.I passed matriculation and intermediate from Board of intermediate Faisalabad.Then graduated from Punjab University.. View More