غلامو!۔۔۔۔۔۔۔ جاگ جاﺅ!

کہتے ہیں کہ نمک حلالی بڑی چیزہو تی ہے کسی کا نمک کھاتے ہوئے اس کی عزت و حرمت کی حفاظت نمک کھانے والے انسان پر فرض ہو جاتی ہے اور اس کا ہر جائز و ناجائز ”حکم“ نمک حلالی کے فرائض کو پورا کرتے ہو ئے تکمیل تک پہنچانا کھانے والے پر فرض ہو جاتاہے چاہے وہ اس قابل ہو نہ ہو۔ یہ اس نمک کا ہی”تاثیر“ ہو تا ہے کہ وہ ہر”حکم“ کی تکمیل کی خاطر ایک نہ ختم ہو نے والی دوڑ میں شا مل ہو جا تاہے اور اسی طرح اس کی مثال جانوروں کی بھی دی جا تی ہے کہ جانوروں میں سب سے زیادہ وفادار جانور کتا ہے جو اپنی نمک حلالی کے باعث ہر کسی کو پسند ہے اور اس کی نمک حلالی کے ہر طرف چرچے ہیں مگر جونہی آپ خوابی اور تصوراتی دنیا سے باہر نکل کر دیکھیں تو یہاں بھی یہ باتیں حقیقت سے بھی چار قدم آ گے نظر آ تی ہیں آ ئیے اپنی مسلم دنیا کی طرف نظر ڈالتے ہیں اور اس کے کردار پر نظر ڈالتے ہو ئے اس کی نمک حلالی کو دیکھتے ہیں جو چل پو سی میں کسی کا سا نی نہیں رکھتی اس دنیا میں مسلمانوں کی تعدادسوا ارب سے زائد ہے اور تقریبا 58ممالک اس صفحہ ہستی پر موجود ہیں جن کو یہ صفحہ ہستی جیتے جاگتے انسانوںکی طرح زندگی کی خوشیاں دے رہی ہے ہر کسی کی بنیادی ضروریات پورا کر رہی ہے روٹی،کپڑا ،مکان اور تعلیم جیسی سہولیات بھی یہی صفحہ ہستی ان انسانوںکو د ے رہی ہے چاہے وہ کسی ایشیائی محل وقوع میں واقع ہوں یا افریقہ کے دور داراز کے علاقہ میں مسلمانوں کی بستیوں کی شکل میں ہو ںچاہے وہ مشہورعر ب باشندے ہوں یا پھر نائیجیر یا اور دوسرے پسماندہ ممالک کے عوام کی بات ہو غرض یہ زمین ہر کسی ملک کو اس کی بساط کے مطابق ہر چیز مہیا کر رہی ہے۔ مگر یہ ممالک ہرچیزہو تے ہوئے بھی اور اپنے پاس موجود دنیا کے بہتر سے بہترین وسائل ہو تے ہوئے بھی اس صفحہ ہستی اور خدائے تعالیٰ کا شکر ادا کر نے کی بجائے امریکی غلامی میں وقت گزرنا اپنے لئے باعث فخر و باعث رحمت سمجھتے ہیں ان ممالک کے ڈرپوک اور غریب کش حکمرانوں کے نزدیک اپنے پاس وسائل کو استعمال کر نا اتنااہم نہیں جتنا امریکی پالیسیوں کے مطابق چلتے ہو ئے اپنے ہی ملک میں عوام کو تکلیف دینا اہم ہے کیو نکہ ا ن58ممالک کے حکمرانوں اور خود ان ممالک کے پاس دنیائے عالم کی ہرچیز اور معد نی معدنیا ت کی دولتیں لاتعداد تعداد میں موجو دہیں کو ئی تیل کی دولت سے مالا مال ہے تو کوئی کالا سونا لئے ہو ئے اپنی شناخت رکھتا ہے کو ئی نمک جیسی نعمت سے سرشار ہے تو کوئی سو نے کی تاجوری بنے ہو ئے دنیا عالم کے لئے ایک عجوبہ بنا ہو ا ہے تو کوئی کجھور اور دوسرے باغات سے پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لئے ہوئے اپنے سحر میں لئے گم ہے مگر پھر بھی ان سب کے ہو تے ہوئے بھی امریکی غلامی میں وقت گزارتے حکمران اپنی طاقت سے ناآشنا نظر آ تے ہیں کیونکہ اپنے اپنے ممالک میںموجود وسا ئل کو نہ تو یہ حکمران اپنی طاقت بنا نے کے لئے استعمال کر تے ہیں اورنہ ہی اپنی عوام کے معیار زندگی کو بہتر سے بہتر اور روزگار، تعلیم،صحت کے فراہمی کے لئے استعمال کر تے ہیں تو پھر لب سے یہی آ واز نکلتی ہے کہ ”غلاموں کبھی آزاد نہ ہونا“ کیو نکہ ”بادشاہوں“ کی دی ہو ئی ”زکوة “ پر زندہ رہنا ، اپنی خودی بیچ کر اپنے لئے ذلت خریدنا ان مسلم ممالک کے حکمرانوں کا پسندید ہ مشغلہ بنا ہوا ہے جب کہ ان ممالک میں اکثریت کی عوام اپنے حکمرانوں کی پالیسیوں کے خلاف نظر آ تی ہے اور بھرپور احتجاج کر تی نظر آ تی ہیں کہ”امریکہ کسی کا نہیں ہوا اور نہ ہی اس کے در پر جا کر محتاج بنو “ بس اپنے مفادات عزیز رکھتا ہے اور یہ صرف ان ممالک کو سہولیات دیتا ہے جہاں سے اس کے مفادات حاصل ہو نے ہوتے ہیں اور یہ ان ممالک کو اپنے مفادات کے لئے شطرنج کے مہروں کی طرح استعما ل کر تا ہے ان ملکوں کی عوام کا کہنا ہے کہ امریکہ مالی امداد، فنڈز ،چیزیں اور ”خصوصی انعامات“ صرف اپنے مفادات کے حصول کے لئے دیتا ہے اور اس کا مقصد بھی یہی ہو تا ہے کہ پیسے لو آگے سے جواب نہ دو اور اس امریکہ کا نشانہ صرف مسلم ممالک ہیںجن میں آ ج تک لاکھوں مسلمانوں کو شہید کیا گیا امریکہ نے افغانستان کاکیا حال کیا وہ دیکھ لیں۔ عراق کو بھی بھولا نہیں جا سکتا۔ فلسطین میں اس کی ایما ءپر اسرائیل بربریت کی داستان رقم کر رہا ہے اور کشمیر میں اس کے دیئے ہو ئے فنڈز مسلمانوں کی عزتیں بر باد کر نے کے لئے استعمال ہو رہے ہیں ”اے ہمارے حکمرانوں ! اب تو ہوش میں آ جاﺅ پلیزپلیز یہ حقیقت اپنے ذہن میں تو لے آ ﺅ کہ امریکہ جیسے دوست بنا تا ہے اس کاحشر بھی وہ جو کر تا ہے اس کو بھی یاد رکھو۔ اسامہ ، صدام، قدافی، اور دوسرے لیڈروں کا حال تو تم دیکھ چکے ہو وہ انکو استعمال کر چکاتھا اور ان کاکام ختم ہو تے ہی امریکہ نے اپنے دوستوں کو کام بھی تمام کر دیا تھا اب تو ہوش میں آجا ﺅاپنے اور اپنی عوام کے گلے میں غلامی کا طوق نہ پہناﺅ“اور اس لئے مسلم ممالک کے عوام کا پرزور مطالبہ ہے کہ ہمارے حکمران اب غیروں کی دل جوئی کر نے کی بجائے اپنے عوام کی بھلا ئی کے لئے کام کر نا شروع کر دیں اور اپنے ممالک میں موجود وسا ئل کو استعمال کر تے ہوئے اپنی عوام کی بھلا ئی کے لئے اور بنیادی ضروریات جن میں تعلیم،صحت،روٹی کپڑا مکان دینے کے لئے بھرپور کوشش کریں اور اس کے لئے لیبیا کے حکمران قدافی کی مثال کا فی ہے جس نے اپنے عوام کے لئے بنیادی سہولیات فراہم کر نے میں کو ئی کسر نہیں اٹھا رکھی
1۔اس کے ملک میں لوگوں کو بجلی مفت فراہم کی جاتی تھی
2۔تمام بنک حکومت کی ملکیت تھے جو کسی بھی شخص کو بنا سود قرض دیتے تھے
3۔ہر خاندان کو گھر فراہم کر نا حکومت کی ذمہ داری تھی ۔قدافی کے نزدیک اس کے اپنے والدین کسی مکان کے مستحق نہیں جب تک لیبیا میں ہر شخص کو مکان نہ مل جائے
4۔ ہر شادی شدہ جوڑے کو90000ہزار درہم مطلب50000امریکی ڈالر دیئے جاتے تھے تا کہ وہ ایک نئے مکان میںاپنی زندگی کا آ غاز کر سکے
5۔ تعلیم اور علاج کے سہولیات ہرکسی کو بلا معاوضہ مہیا تھیں قدافی سے پہلے صرف 25%شہری تعلیم یافتہ تھے جب کہ اب83%ہیں
6۔ جو شہری کا شت کاری کر ناچاہتاتھا اس کو زرعی زمین،عمارت،زرعی الات،بیچ اور مویشی بلا معاوضہ فراہم کیئے جا تے تھے
7۔جوشہر ی لیبیامیں اپنی خواہش اور اپنی ضرورت کے مطابق متعلقہ سہولیات حا صل نہیں کر پا تا تھا اس کو حکومت بیرون ملک بلامعاوضہ جانے جا نے کی سہولت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ماہا نہ بنیادوں پر 2300امریکی ڈالر رہائش اور سواری کے لئے وظیفہ کے طور پر فراہم کرتی تھی
8۔اگر کوئی لیبیا میں کارخریدناچاہتا تو حکومت اسے کار کی قیمت میں 50فیصد رعائت دیتی تھی
9۔لیبیامیںپٹرو ل کی قیمت صرف 14سینٹ فی لیٹر تھی
10۔لیبیا پر کو ئی قرض نہیں تھا جب کہ اس کے نقد اثا ثے150بلین امریکی ڈالر تھے جو کہ اب عالمی سطح پر منجمد کر دیئے گئے ہیں
11۔اگر کو ئی شہری تعلیم حا صل کر نے کے بعد ملازمت حا صل کر نے میں ناکام رہتا تو حکومت اس شہر ی کو مناسب ملازمت کی نسبت سے اوسط تنخواہ کے برابر وظیفہ دیتی جب تک وہ ملازمت حا صل نہ کر لے
12۔لیبیا اپنے تیل کی فروخت سے حا صل ہو نے والے آ مدن سے ایک حصہ اپنے ہر شہری کے بنک اکاوئنٹ میں جمع کر وا تا تھا
13۔ ہر بچے کی پیدائش پر اس کے والدہ کو 5000امریکی ڈالر دیئے جا تے تھے
14۔قدافی نے دنیا میں سب سے بڑا آبپاشی کا منصوبہ تعمیر کروایا جو عظیم مصنوعی دریا کا منصوبہ کہلاتا ہے تا کہ اس صحرائی مملکت میں پا نی کی مسلسل فراہمی برقرار رہے( یہ معلومات شعیب تنولی گروپ سے لی گئی ہیں اور راقم ان کا اور ان کے ممبران کا تہہ دل سے شکریہ ادا کر تا ہے خاص طور پر گروپ ارنر کا جن کی یہ تحریر کالم میں شامل کی گئی)

اس کے ساتھ ساتھ انکاکہنا ہے کہ اگر ہمارے حکمران اپنے عوام کی بھلا ئی کے لئے کام کر نا شروع کر دیں تو انھیں کس بیرونی مدد اور ہاتھ کی ضرورت نہیں رہے گی بلکہ اپنی عوام کی طاقت اور ہمدردی ہمیشہ ان کے ساتھ رہے گی اور وہ وقت دور نہیں جب دنیا عالم پر اسلام کی حکمرانی ہو گی اور تمام مسلم ممالک اپنے قا ئم کردہ اداروں سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں گے اس سلسلہ میں پاکستان کا کردار دیکھا جا ئے تو وہ نہایت اہمیت کا حا مل دیکھا ئی دیتا ہے کیو نکہ پاکستان واحد اسلامی ایٹمی ملک ہے جس کے ایٹمی اثاثے غیر مسلم ممالک کی آ نکھوں میں چبتے ہیں اس لئے سب سے اہم اور بارش کا پہلا قطرہ بھی اسی کو بنناچاہیئے اگراس نے اپنے پاس موجود وسا ئل کو استعمال کر تے ہو ئے اپنی عوام کی بہتری کے لئے اقدامات کیئے تو امید کی جا سکتی ہے کہ بہت جلد تمام مسلم ممالک میں عوام کے لئے ان کے حکمران اچھے فیصلے کر نے لگیں گے اور یہاں یہ امر بھی قا بل غور ہے کہ پاکستان میں عوامی حکومت ہو تے ہو ئے بھی کرپشن ہو رہی ہے جو کہ غیر اخلاقی اور قانونا بہت بڑا جرم ہے اور عوامی حکومت تو عوام کے پیسے کو عوام پر خرچ کر تی ہے اور اسی عوام کا سمجھتی ہے اس لئے سب سے پہلے کرپشن پر قابو پا نے کے لئے حکمت عملی اپنانا ہو گی اور محنتی اور قابل لوگوں کو افسر لگانا ہو گا اور اس بات کا پابند بنانا ہو گا کہ نہ وہ کرپشن کر یں گے اور نہ ہو نے دیں گے بعد میںاسلامی دنیا کے لئے بارش کا قطرہ ثابت ہو سکتے ہیں٭
Muhammad Waji Us Sama
About the Author: Muhammad Waji Us Sama Read More Articles by Muhammad Waji Us Sama: 118 Articles with 130211 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.