ہندوستان کی جمہوریت آج جس دور
سے گزر رہی ہے اس کے پیش نظرصاحب بصیرت تشویش میں مبتلا ہیں۔چودہ سو بتیس
سال قبل کسی نے سوچا بھی نہ ہوگا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
کے ہاتھوں شروع کیا ہوا شوریٰ پر مبنی نظام حکومت ایک دن اہل مغرب کے
ہاتھوں ایسا مسخ ہوگاکہ اس کی شکل بھی نہ پہچانی جاسکے گی۔آپ کے وصال کے
بعد حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی رضوان
اللہ علیہم اجمعین کا عہدجسے خلافت خلافت راشدہ بھی کہتے ہیں‘ کی مجموعی
مدت تیس سال ہے جس میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اولین اور حضرت علی
رضی اللہ عنہ آخری خلیفہ ہیں۔ اس عہد کی نمایاں ترین خصوصیت یہ تھی کہ
جزیرہ نما عرب کے علاوہ ایران، عراق، مصر، فلسطین اور شام بھی اسلام کے زیر
نگیں آگئے۔ اس دور کی پہلی خصوصیت جمہوریت تھی۔ حضرت ابو بکر سے حضرت علی
رضی اللہ عنہ تک کی خلافت کیلئے نامزدگی میں جمہوری روح کار فرما تھی۔ ان
میں کوئی خلیفہ ایسا نہ تھا جس کو امیر مقرر کرنے میں مسلمانوں کی عام رائے
اور مرضی شامل نہ ہو یا جسے مسلمانوں پر زبردستی مسلط کر دیا گیا ہو۔ سقیفہ
بنو ساعدہ میں مسلمانوں کا حضرت ابو بکر کو نامزد کرنا، حضرت عمر فاروق رضی
اللہ عنہ کیلئے حضرت ابو بکر کی تمام صحابہ کرام سے رائے لینا اور مسلمانوں
کا ان کیلئے متفق ہونا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی چھ صحابہ کرام کی
کمیٹی میں حضرت عثمان کی خلافت کیلئے متفق ہونا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ
سے مسلمانوں کا خلافت کا بار اٹھانے پر اصرار۔ یہ تمام طریقے اسلامی سلطنت
میں خلیفہ کے انتخاب کیلئے جمہوریت کی انتہائی عمدہ اور واضح مثالیں ہیں۔
پھر ان کے عہد میں ہر موقع پر اس نظام میں جمہوریت کی روح کار فرما
رہی۔خلافت راشدہ کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ اس کا نظام ایک شورائی نظام تھا۔
مجلس شوریٰ کی بنیاد پر عام مسلمانوں سے رائے لی جاتی اور مشوروں پر عمل
کیا جاتا۔ ہر مسلمان کو مشورہ اور رائے کا حق حاصل تھا اور حکومت پر نکتہ
چینی کا حق بھی رکھتا تھا۔ صدیوں کے حکام اور والی بھی لوگوں سے مشورے کے
بعد مقرر ہوتے اور لوگوں کی شکایات پر ان کی تبدیلی بھی کر دی جاتی جس سے
معلوم ہوتا ہے کہ خلافت راشدہ میں عوام سے مشورے اور رائے کو کتنی اہمیت
حاصل تھی۔ اہل مغرب نے دنیا کو یہ باور کروادیا کہ آج دنیا میں ترقی اور
فلاح کا جو کام ہورہا ہے وہ سب ان کی کوششوں اور محنتوں کا نتیجہ ہے۔ کسی
دوسری قوم کا اس میں کوئی قابل ذکر حصہ اور شرکت نہیں ہے۔
|
|
چنانچہ جمہوریت یا عوامی طرز حکومت بھی انہیں کی ایجاد ہے اور انہیں کی
محنتوں اور کوششوں کی بدولت دنیا میں جمہوریت قائم ہے۔بادشاہت اور آمریت جو
ایک ناپسندیدہ طرز حکومت ہے اس کو ختم کرنے اور اس کی جگہ عوامی جمہوریت کے
قیام کی ٹھیکے داری اس وقت انہی نے لے رکھی ہے ۔ جن لوگوں نے دنیا کی تاریخ
پڑھی ہے اور جدید علوم میں مہارت پیدا کی ہے وہ بھی اسی فکر و خیال کے قائل
ہیں لیکن جن لوگوں نے دین اسلام اور اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے اور
ساتھ ہی ساتھ وہ حق پسند اور اعتدال پسند بھی ہیں وہ جانتے ہیں کہ حقیقت اس
کے برعکس ہے۔آج سے پندرہ سو سال قبل دنیا میں جمہوریت کا نام و نشان بھی
نہیں پایاجاتا تھا۔کوئی جانتا بھی نہیں تھا کہ جمہوریت کسے کہتے ہیں؟ہر جگہ
شاہی نظام رائج تھا۔یہ حکمراں جب ایک دوسرے سے جنگیں کیا کرتے تھے توجنگ
میں بادشاہوں کی موت یا بادشاہوں کی ناکامی پوری فوج کی شکست یا ناکامی
سمجھی جاتی تھی۔فوج کو جیسے ہی یہ علم ہوتا تھا کہ ان کا بادشاہ مارا گیا
یا قید کر لیاگیاتو اس کے نہ صرف حوصلے پست ہو جاتے تھے بلکہ وہ ہتھیاربھی
ڈال دیتی تھی۔ گویا طاقت کا مرکز بادشاہ کی ذات ہوتی تھی۔حتی کہ ایک نیا
طرز حکومت جسے عوام کی حکومت کا نام دیا گیا وجود میں آیا جس میں تمام
فیصلوں کا اختیارعوامی نمائندوں کو دیا گیا۔ آمریت کی ضدمیں دین سے محروم
جمہوریت کی دو بڑی قسمیں وجود میں آئیں؛ بلاواسطہ جمہوریت ، اور بالواسطہ
جمہوریت۔ بلاواسطہ جمہوریت میں قوم کی مرضی کا اظہار براہ راست افراد کی
رائے سے ہوتا ہے۔ اس قسم کی جمہوریت صرف ایسی جگہ قائم ہوسکتی ہے جہاں
ریاست کا رقبہ بہت محدود ہو اور ریاست کے عوام کا یکجا جمع ہو کر غوروفکر
کرنا ممکن ہو۔ اس طرز کی جمہوریت قدیم یونان کی شہری مملکتوں میں موجود تھی۔
ان دنوں یہ طرز جمہوریت سوئٹیز لینڈ کے چند شہروں اور امریکہ میں نیو
انگلینڈ کی چند بلدیات تک محدود ہے۔جدید وسیع مملکتوں میں تمام شہریوں کا
ایک جگہ جمع ہونا اور اظہار رائے کرنا طبعاً ناممکنات میں سے ہے۔ پھر قانون
کا کام اتنا طویل اور پیچیدہ ہوتا ہے کہ معمول کے مطابق تجارتی اور صنعتی
زندگی قانون سازی کے جھگڑے میں پڑ کر جاری نہیں رہ سکتی۔ اس لئے جدید
جمہوریت کی بنیاد نمائندگی پر رکھی گئی جوان دنوں وطن عزیز میں رائج ہے۔
چنانچہ ہر شخص کے مجلس قانون ساز میں حاضر ہونے کی بجائے رائے دہندگی کے
ذریعے چند نمائندے منتخب کر لئے جاتے ہیں۔ جو ووٹروں کی طرف سے ریاست کا
کام کرتے ہیں۔ جمہوری نظام حکومت میں عوام کے دلوں میں نظام ریاست کا
احترام پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ اس میں نظام حکومت خود عوام یا عوام کے
نمائندوں کے ذریعے پایہ تکمیل تک پہنچتا ہے‘لیکن یہ جذبہ محض اس وقت
کارفرما ہوتا ہے جب عوام کی صحیح نمائندگی ہو اور اراکین مملکت کا انتخاب
درست ہو۔یہی وجہ ہے کہ مہاتما گاندھی نے جب پارلیمنٹ کو بانجھ کہا تھا تو
ان کا مطلب یہ تھا کہ پارلیمنٹ اپنے آپ میں ایک غیرپیداواری ادارہ ہے جہاں
کچھ نیا پیدا نہیں ہو سکتا۔ اس قول کے ذریعے وہ یہ کہہ رہے تھے کہ پارلیمنٹ
کی اپنی کوئی رائے نہیں ہوتی۔ پارلیمنٹ میں عوامی اکثریت ہوتی ہے‘ ان کی
رائے ضرور ہوتی ہے اور یہی رائے پارلیمنٹ کی رائے بن جاتی ہے۔ پارلیمانی
عمل میں کوئی ایسا طریقہ نہیں ہے جس سے اکثریت کی تانا شاہی کو دلیل اور
وقار سے کاٹا جا سکے۔تعدادQuantity کی قوت خصوصیتQuality کی طاقت کو شکست
سے دوچار کر دیتا ہے۔ پھر مہاتما جی یہ بتانے لگے کہ پارلیمنٹ کے رکن کتنی
طاقت اور دولت کے استعمال کے بعدمنتخب ہو کرعہدے تک پہنچ پاتے ہیں۔ موجودہ
جمہوریت میں کوئی ایسا انتظام نہیں ہے کہ محض صاحب کردار ، مثبت صفات کے
حامل اور سماجی خیر خواہ عوامی منتخب ہوکر آ سکیں۔ اس صورتحال پر افسوس
کرتے ہوئے اکبر الہ آبادی نے کہا تھا کہ جمہوریت وہ ایک طرز حکومت ہے کہ جس
میں ، بندوں کو شمار کیا جاتا ہے تولا نہیں جاتا۔ تولنے پربیشتر اراکین
پارلیمنٹ نہایت ہلکے پائے جائیں گے لیکن ان کی تعداد انہیں بھاری کردیگی۔ |