سماجی انقلاب کا داعی۔محمد حنیف رامے

جب وہ آٹھویں جماعت میں تھے تو ان کے ایک استاد مولوی عبدالغفور جو ان پر بہت تھے، کی کلاس میں ایک دن چھٹی کے وقت پر مسرت چیخ بلندہوئی"چھٹی" .........مولوی صاحب ابھی کلاس میں موجود تھے فورا پلٹے اور پوچھا کون ہے؟ وہ بچہ فورا کھڑا ہو گیا۔ مولوی صاحب اس کی طرف گئے ،سبھی لوگ یہی سمجھ رہے تھے کہ آج اس کی خوب ٹھکائی ہو گی مگر انہوں نے پوچھا تم کتنے بھائی ہو تو جواب ملا پانچ۔ ان کے استاد نے کہا میں تمھارے گھر والوں کو جانتا ہوں تم اپنے والد صاحب سے کہنا اگر وہ مجھ پر احسان کر سکیں تو تمھیں میرا بیٹا بنا دیں۔رامے صاحب کے بقول ان کی اس ایک بات نے مجھے زندگی کے بڑے دردناک اور مایوس کن لمحات میں بھی حوصلہ دیا۔ میں نے خود سے کئی دفعہ کہا تمہیں اس ناقدری کی پروا نہیں کرنی چاہئے اس وقت کو یاد کرو جب ایک شخص نے تمھاری قدرکرتے ہوئے یہ خواہش کی تھی کہ تم اس کے بیٹے بن جاﺅ۔ انہوں نے بچپن کے اس دور میں ایسی باتیں میرے ذہن میں ڈالیںجو بعد میں میری زندگی کا اثاثہ ثابت ہوئیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہر سیاست دان پر کوئی نہ کوئی الزام لگ رہا ہے لیکن اللہ تعالٰی نے مجھے محفوظ رکھا ہوا ہے۔ جب میرے پاس اقتدار آیا تو اللہ تعالٰی نے میرا ہاتھ امانتدار بنا کر مجھ سے اپنی مخلوق کی خدمت کا کام لیا۔ ایک دن لاہور کے مال روڈ پر مجھے مولوی عبدالغفور ملے اور پوچھا تم آج کل کیا کر رہے ہوجواب دیا مصوری کر رہا ہوں ۔ کہنے لگے میں تمھارے دل کو جانتا ہوں ۔ جس دن تم نے چیخ کر کلاس میں نعرہ لگایا تھی" چھٹی" اس دن سے پہلے تک میں یہی سمجھتا تھا تم شاید صرف حساب کے سوال حل کرنے والی یا فٹبال کے میچ میں گول کرنے والی مشین ہولیکن جس دن تم نے چیخ کر چھٹی کا نعرہ لگایا تو اس روز مجھے معلوم ہوا کہ تمھارے اندر ایک حساس دل بھی ہے لیکن تمھیں یہ بھی تو سوچنا چاہئے کہ تمھارا ایک ذہن بھی ہے جو ہمیشہ کلاس میں اول آتا تھا اور بہترین نمبر حاصل کرتا تھا۔ تمھاری تقریروں سے اس بات کی خوشبو آتی تھی کہ تم اس ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہو۔ دیکھو اگر تم نے صرف دل کی بات پرکان دھرے اور دماغ کی قوت کو نظر انداز کر دیا تو دماغ تمھارے خلاف ہو جائے گااور تم بیمار ہو جاﺅ گے لہذا تمھیں علم کے ساتھ ساتھ عمل کی وادی میں بھی اترنا چاہئے۔

سابق وزیر اعلٰی پنجاب محمد حنیف رامے جنہیں بلبل پنجاب لکھنا زیادہ مناسب ہو گا ، کی پانچویں برسی پر ان کی یادیں تازہ کرنے سے پہلے ان کے انٹرویو کاایک اور اقتباس پیش کرنا بہتر محسوس ہوتا ہے۔ رامے صاحب کا کہنا تھا میں بہ مشکل بارہ سال کا ہوں گا کہ ایک دن والد صاحب نے میری ماں پر ہاتھ اٹھایا ۔یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ وہ ماں اور میرے ساتھ اکثر ایسا کرتے رہتے تھے لیکن اس روز نہ جانے کیا ہوا کہ میں نے کمرے کے ایک کونے میں پڑی ہوئی انہی کی لاٹھی اٹھائی ، ماں اور ان کے درمیان ڈٹ کر کھڑا ہو گیااور چیخ کر بولا "میری ماں پر ہاتھ اٹھا کر دیکھیں" یہ سن کر والد صاحب ہکا بکا رہ گئے۔ انہوں نے میرے بڑے بھائیوں کو آواز دی اور کہا "اس الو کے پٹھے کو یہاں سے ہٹاﺅ میں نے ایک تھپڑ رسید کیا تو یہ دو دفعہ مر جائے گا"میں دوبارہ چلایا"آپ مجھے جان سے مار سکتے ہیںلیکن خبر دار آپ نے میری ماں کو مارا"عجیب بات ہے میری اس للکار کا ایسا اثر ہوا کہ والد صاحب کا غصہ ٹھنڈا پڑ گیا۔ وہ دن اور والد صاحب کا آخری دن اس کے بعد انہوں نے میری ماں پر کبھی ہاتھ نہ اٹھایا۔ اس واقعہ نے میرے اندر ایک انقلاب برپا کر دیا۔ شعوری طور پر یہ بات بعد میں سمجھ آئی لیکن اس کچی عمر میں بھی یہ بات میرے ذہن میں بیٹھ گئی کہ اگر زیادتی کے خلاف آواز اٹھائی جائے یا مزاحمت کی جائے تو اس کا اثر ہوتا ہے۔ میں اگر غور کرتا ہوں تو مجھ پر یہ کھلتا ہے کہ میری سیاست کا آغاز اسی دن ہو گیا تھا جب میں اپنی کمزور ماں کی حمایت میں اپنے طاقتور والد صاحب کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہو گیا تھا۔ اسی دن میرے اندر اس سوال نے جنم لیا کہ میں کس کے ساتھ ہوں، طاقتور کے ساتھ یا کمزور کے ساتھ؟اور پھر کچھ عرصے بعد اس سوال نے اس اعلان کی شکل اختیار کر لی کہ میں چوہدری نہیں میں رامے ہوں۔ ماں کے نام سے پہچانے جانا عام تو نہیں لیکن کمیاب بھی نہیں۔ ابن مریم سے لے کر ابن تیمیہ تک بے شمار لوگ ماﺅں کے حوالے سے پہچانے گئے۔ میرے سارے بھائی بند آج بھی چوہدری کہلاتے ہیںلیکن میں نے کہا"میں چوہدری نہیں میں اپنی ماں کی طرف ہوں میں رامے ہوں" ایسے زریں خیالات کا حامل بچہ محمد حنیف رامے جب شعور اور ادراک کی منزلیں طے کرتا ہوا عملی زندگی میں داخل ہوا تو بطور وزیر خزانہ اور وزیر اعلیٰ پنجاب محبت، ہمدردی، مواسات ومواخات، مساوات اور ایثار، خدمت خلق اور سماجی انصاف کے ایسے نادر نمونے تخلیق کئے جن کا تصور بھی مدت مدید سے پاکستانی سیاست سے عنقاءہو چکا ہے۔

حنیف رامے سماجی انقلاب کے داعی تھے ۔ وہ معاشرے میں امیر و غریب، مزارع اور زمیندار، مزدور و صنعتکار اور آجر و اجیر کے درمیان مضبوط استحصالی رشتے کومساوات میں بدلنا چاہتے تھے جس کے لئے انہوں اپنی وزارت اعلیٰ کے دور میں عملی اقدامات بھی کیے۔ ان کے اندر عدل اجتماعی کو بروئے کار لانے اور معاشرے کے کمزور طبقات کو بالادست قوتوں کے برابر لانے کے لیے جذبات کا جو ٹھاٹھیں مارتا سمندر موجزن تھااس کا نمونہ ان کی بطور وزیر اعلیٰ اسمبلی میں کی گئی تقریروں میں نظر آتا ہے۔ 2فروری 1973ءکو بطور وزیر خزانہ ارکان اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا" جب تک طبقات موجود ہیں ان کے مفادات بھی موجود رہیں گے۔ جب تک غیر طبقاتی معاشرہ وجود میں نہیں لایا جاتا، جب تک طبقات کے مفادات کو ایک ہی سطح پر ہموار نہیں کر دیا جاتا کہ کوئی کسی کا استحصال نہ کر سکے اس وقت تک معاشرے میں امن وامان قائم نہیں ہو سکتا۔ ان کا کہنا تھا ہمیں فخر ہے کہ ہمارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو معاشرہ قائم کیا وہ غیر طبقاتی تھا۔ اسی طرح 24 جون 1972 کو اپنی تقریر میں انہوں کہا تھا"میرے کچھ دوستوں کو غلط فہمی ہے کہ کوئی معیاری اور بنیادی تبدیلی نہیںآئے گی۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اب ایک نیا توازن قائم ہو گا جو سرمایہ داراور مزدور، جاگیر دار اور مزارع کے درمیان ہو گا۔یہ توازن پہلے جیسا نہیں ہو گا۔ جو لوگ امن وامان کی باتیں کرتے ہیں ان کے ذہن میں یہ بات ہے کی ہمیں دوبارہ اسی حالت میں آجانا چاہئے۔ انہیں سمجھنا چاہئے ایسا بالکل نہیں ہونے دیا جائے گااس لیے یہ جو تلاطم اور اضطراب کی موجیں آپ کو معاشرے میں نظر آ رہی ہیں وہ کبھی بھی پرانی قیادت کو آگے نہیں آنے دیں گی اب ہم اس میں ضرور فرق پیدا کریں گے۔ جن کو پرانے نظام اور پرانے توازن میں فائدہ تھا وہ ہمیشہ یہی چاہیں گے کہ بد امنی ہو لیکن پہلے جو بد امنی تھی وہ مزدور اور کسان کے حق میں تھی وہ غریب کے حق میں تھی، اب اگرتھوڑی سی بد امنی امیر کے حق میں ہو جائے تو آپ کو وہ بد امنی ہنسی خوشی برداشت کرنی چاہئے۔

آگے چل کر انہوں نے فرمایا تھا" ہم اشیاءکی قیمتوں کو کم کریں گے اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جب تک پیداوار میں اضافہ نہیں ہوتا تب تک قیمتیں کم نہیں ہو سکتیں۔ ہم صرف پیداوار کا نعرہ لگانے والوں میں سے نہیں ہیں یہ نعرہ ایوب خان نے بھی لگایا تھا۔ ہم پیداوار کے بعد اس کی منصفانہ تقسیم کے بھی قائل ہیں اس لیے ہم پیداوار بڑھائیں گے اور اس کی منصفانہ تقسیم بھی کریں گے اس لئے جو نیا توازن قائم ہورہا ہے وہ زیادہ پیداوار اور منصفانہ تقسیم کا ہے۔ حنیف رامے مرحوم کے یہ زریں خیالات اس بات کے عکاس ہیں کہ وہ معاشرے میں پائی جانے والی طبقاتی اونچ نیچ اور اقتصادی و معاشرتی فرق کو سماجی انقلاب کے ذریعے مساوات محمدی کے ساتھ بدلنے کے خواہ تھے۔ آج جس طرف بھی آنکھ اٹھا کر دیکھیں تو گھپ اندھیرا ہی نظر آتا ہے۔ کہنے کو تو آج اسی جماعت کی حکومت ہے جس کی بنیاد انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ مل کر رکھی تھی مگر موجودہ سیاسی کلاس میں چراغ لےکر ڈھونڈنے سے بھی ان جیسا کوئی ایک سیاستدان نظر نہیں آتا۔ اسی لئے شاعر نے کہا تھا۔۔۔
آئے عشاق گئے وعدہ فردا لے کر
اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر
Ghulam Mehdi
About the Author: Ghulam Mehdi Read More Articles by Ghulam Mehdi: 11 Articles with 7364 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.