لوک پال بل کی آڑ میں ہندوستانی
جمہوری نظام پر قدغن لگانے کے فراق میں مشغول آر ایس ایس لابی کی حکمت عملی
اب صیغہ راز میں نہیں رہ گئی ہے جبکہ آزادی کے 64 برسوںمیں ہندوستان نے جو
ترقی کی ہے وہ زندگی کے ہر شعبہ میں نمایاں ہے ا وراس حقیقت کا اعتراف تمام
لوگ کر رہے ہیںلیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ بد عنوانی کی شرح ترقی
ہندوستان کی ہمہ جہت ترقی کی شرح سے کہیں زیادہ ہے۔آج بدعنوانی اپنے عروج
پر ہے اورپورے ہندوستان کو اپنے نرغے میں لئے ہوئے ہے۔یہ آزادی کے بعد پہلی
مرتبہ ہے کہ بد عنوانی کے خلاف اتنی بڑی ملک گیر تحریک شروع ہوئی
ہے۔اناہزارے نے زعفرانی کندھے پر سوار ہوکر پورے ہندوستان کو دہلی میں
لاکھڑا کیا ۔ بدعنوانی کے خاتمہ کیلئے جاری اس تحریک کا موازنہ اب آزادی کی
جنگ سے ہونے لگا ہے۔ حکومت جولوک پال بل لانا چاہتی ہے ،در حقیقت وہ بل
نہایت ہی ناکارہ اور کمزور ہے۔حکومت چاہتی ہے کہ اس بل میں وزیر اعظم اور
سپریم کورٹ کے ججوں کو شامل نہ کیا جائے۔ جبکہ جن لوک پال کامانناہے کہ
کوئی بھی شخص قانون سے بالاتر نہیں ہے اس لئے وزیر اعظم اور سپریم کورٹ کے
ججوں کو بھی اس بل میں شامل کیاجانا چاہئے۔یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک
ایسا وزیرا عظم جس کی ایمانداری اور شرافت کی مثالیں دی جارہی ہیں وہ اس بل
کے دائرہ اختیار میں آنے سے کیوں اس قدر خائف ہے۔بل کے بجٹ اجلاس میں پیش
ہونے کا اعلان ہوچکا ہے جبکہ راجیہ سبھا میں حکومت کے یو پی اے اتحاد کے
93اراکین میںسے 27 دیگر ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ پارلیمانی امور کے مرکزی
وزیر پون بنسل کی مانیں تو لوک پال بل کو بجٹ سیشن میں دوبارہ راجیہ سبھا
میں پیش کیا جائے گا۔جمعہ کو دہلی میں ذرائع ابلاغ سے بات چیت کے دوران پون
بنسل کا کہنا تھا کہ راجیہ سبھا میں مختلف جماعتوں نے بل میں جن ترامیم کا
مشورہ دیا ہے حکومت ان پر بحث کرے گی اور دیکھے گی کہ اس میں کن پر
عملدرآمد ممکن ہے۔پارلیمانی امور کے وزیر نے کہا کہ جمعرات کو ریاستی
اسمبلی میں کل 183 ترامیم کی تجاویز دی گئیں ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان میں
سے متعدد ایک دوسرے کے متضادہی نہیں تھیں بلکہ اگرانھیں منظور کر لیا جاتا
تو یہ قانون ’ایک مذاق‘ بن جاتا۔ ان ترامیم کو ماننے کا مطلب ہوتا کہ بل کو
پھر سے لوک سبھا میں بھیجنا پڑتا جس کا مطلب تھا کہ پورا عمل دوبارہ سے
شروع کیا جاتا۔ادھر حزب اختلاف کی اہم جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر نتن
گڈکری کا دعویٰ ہے کہ جس طرح سے حکومت کو اس معاملے میں شکست کا منہ دیکھنا
پڑا ہے اس کے بعد متحدہ ترقی پسند اتحاد کو اقتدار میں بنے رہنے کا کوئی حق
نہیں بلکہ ’اخلاقیات‘ کی بنیاد پر منموہن سنگھ اور اس حکومت کو فوری طور
پرمستعفی ہوکر ملک کو ’آزاد‘ کردینا چاہئے۔بی جے پی کے رہنما ءکی مانیں
تووزیراعظم کی موجودگی میں ایوان میں جس طرح کی’ حرکت‘ ہوئی وہ پارلیمانی
جمہوریت کو’ داغدار‘ کرنے والی تھی۔ ان کا اشارہ اس واقعہ کی طرف تھا جس
میں راشٹریہ جنتا دل کے ایک رکن پارلیمنٹ نے بل کے مسودے کو پھاڑ کر پھینک
دیا تھا جبکہ میڈیا سے بات کرتے ہوئے پون بنسل کا کہنا تھا کہ27 اگست کو
پارلیمنٹ نے جو قرارداد پاس کی تھی اس میں واضح کر دیا گیا تھا کہ جو قانون
بنے گا اس میں ریاستوں میں بھی محتسب کا بھی نظام ہوگا لیکن اب بی جے پی اس
بات سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت کے بار بار کہنے کے
باوجود اپوزیشن جماعتوں نے راجیہ سبھا میں بحث 28 دسمبر سے شروع کرنے سے
انکار کیا اور بل پر بحث جمعرات کو ہی شروع ہو پائی، ارکان رات گئے تک
بولتے رہے جس کی وجہ سے کسی بھی دوسری بحث کیلئے یعنی ترامیم وغیرہ پر بات
چیت کیلئے وقت ہی نہیں بچا۔
|
|
دراصل انا تحریک کو جس خاص گروہ کی حمایت میں پذیرائی مل رہی ہے اس نے
لوگوں کے درمیان یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ گویا پورا ہندوستان ان کے
ساتھ ہے۔ جس ہوشیاری سے مہنگائی اور بدعنوانی کے نام پر اور لوک پال کی آڑ
میں نہ صرف بی جے پی بلکہ کانگریس میںشامل بڑی تعداد مقننہ ،عدلیہ اور
انتظامیہ کے مابین چیک اینڈ بیلینس کے ستونوں کوختم کر کے لوک پال کے آٹھ
دس لوگوں کوکون چیک کرے گا؟لوک پال کو عدلیہ ،انتظامیہ اور مقننہ سے اوپر
باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے لہذا جب وہ اسی صورت میں قبول کر لیا جائے گا
تو یہ بات بجا طور پر کہی جا سکتی ہے کہ ایک مخصوص طبقہ کے آٹھ دس افراد ہی
سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھیں گے۔کیا ہندوستانی عوام اس بات کو گوارہ کر
پائے گی؟
الزام تراشی در الزام تراشیوں کایہ دور انا ہزارے کی تحریک کے بعدنئے جوش
کے ساتھ شروع ہوا ہے جس سے لوگوں کے دل میں ہندوستان میں جاری جمہوری نظام
پر شک و شبہ کے بادل چھانے لگے ہیں جبکہ ذرائع اباغ میں شائع حقائق پر یقین
کریں تو جمہوریت کو دنیاآج تہذیب وتمدن کی علامت اور ایک فطری طرز حکومت کے
طورپر تسلیم ہی نہیں کرچکی ہے بلکہ بیشتر ممالک میں جمہوری نظام حکومت قائم
بھی ہوچکا ہے ۔ جہاں اب تک جمہوری نظام قائم نہیں ہوسکا ہے وہاں جد وجہد
جاری ہے لیکن ایک صدی قبل دنیا کو جمہوریت سے جو توقعات وابستہ تھیں‘ وہ آج
تک پوری نہیں ہوسکیں۔ اس کی2 اہم وجوہات ہیں:پہلی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت کے
علمبرداروں اور اس کا خیر مقدم کرنے والوں نے درحقیقت اس کے مفہوم کو خود
ہی نہیں سمجھا تھا۔ وہ لوگ اس غلط فہمی یا خوش فہمی میںمبتلا رہ گئے کہ
جمہوریت قائم ہوتے ہی بس ہر طرف عدل وانصاف اور آزادی ومساوات کا دور دورہ
ہوگا مگر یہ ایک خواب تھا جو شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔دوسری وجہ یہ ہے کہ اس
نظام کو قائم کرنے والوں نے صحیح معنیٰ میں جمہوری نظام قائم ہی نہیں کیا
جبکہ ماہرین سیاسیات نے مختلف پہلوؤں سے اس مسئلہ کا تنقیدی جائزہ لیا اور
اس نتیجہ پر پہنچے کہ ابتداءسے ہی جمہوریت کا مفہوم واضح طور پر بیان نہیں
کیا گیا۔ اس کی اتنی مختلف اور مبہم تعریفیںDefinitions بیان کی گئیں کہ ہر
شخص نے اس کا جو مطلب چاہا وہی سمجھ لیابلکہ آج بھی صورت حال یہ ہے کہ ہر
فریق اپنے پسندیدہ نظام کو ہی جمہوری نظام بتاتا ہے اور اپنے آپ کو ہی
جمہوریت کا حامی اور علمبردار کہتا ہے جبکہ ان میں سے ہر گروہ کے نظریات
واصول قطعی مختلف ہی نہیں ہیں بلکہ ہرفریق‘اپنے مخالف فریق کو جمہوریت کا
دشمن، ملک کا دشمن، قوم کا دشمن اور آخر میں دہشت گرد قرار دیتاہے۔جبکہ
جمہوریت اتنا وسیع المعنی لفظ ہے کہ اس کا اطلاق ہر قسم کی حکومتوں اور
ہرنوع کے نظام پر ہوسکتا ہے تو یہ کہنابے جا نہ ہوگا کہ یہ ایک ایسا لیبل
ہے جو جب اور جہاں چاہیں، چسپاں کردیا جائے۔ اگر ایسا ہے تو پھر اس کے نام
پر اختلافات، بحثیں، تصادم، خون ریزیاں اور قربانیاں کیوں؟ لفظ ’جمہوریت‘
انگریزی لفظ ’ڈیموکریسی‘Democracyکا ہم معنی ہے جبکہ انگریزی کا لفظ
ڈیموکریسی، یونانی لفظ ’ڈیموکریٹیا‘ سے مشتق ہے جو2 لفظوں ’ڈیموس‘یعنی لوگ
یا عوام اور ’کریٹیا‘ یعنی طاقت یا اقتدار سے مل کر بنا ہے۔گویا جمہوریت کے
معنیٰ ہوئے کہ لوگوں کی طاقت یاعوام کا اقتدار۔ یعنی ایک ایسا نظام حکومت
جس میں اقتدار کی باگ ڈورعوام کے ہاتھوں میں ہو، نہ کہ فرد واحد یا چند
لوگوں کے ہاتھوں میں۔ لیکن یہاںلوگوںسے مراد کل آبادی نہیں ہے بلکہ یونان
کے وہ مرد (عورتیں نہیں) جنہیں وہاں شہری حقوق حاصل تھے۔ معلوم ہونا چاہئے
کہ یونان میں عورتیں، غیر یونانی لوگ اور غلام طبقہ شہری حقوق سے محروم تھے۔
اس سے معلوم ہوا کہ یونانیوں کا تصورِ جمہوریت نہایت محدود تھا، انتظامی
امور میں آبادی کا بہت چھوٹا حصہ ہی شامل تھا، اس اعتبار سے اس پر جمہوریت
کا اطلاق نہیں ہوگا کیونکہ یہ جمہور (عوام) کی حکومت نہیں تھی۔ یہ ایک نا
قابلِ تردید حقیقت ہے کہ بیسویں صدی کے اوائل تک نہ صرف یوروپ کے تمام
ممالک بلکہ خود برطانیہ میں بھی ووٹ کا حق تمام لوگوں کو نہیں تھا، یوروپ
میں حق رائے دہندگی تمام بالغ مرد وں کو پہلی عالمگیر جنگ کے بعد حاصل
ہوگیا تھا تاہم بہت سے ایشیائی اور افریقی ممالک میں یہ حق عام طور پر
دوسری عالمگیر جنگ کے بعد ملا۔شاید یہی وجہ ہے کہ سبرامنیم سوامی جیسے فتنہ
پرور اور شر پسند عناصر ہندوستان میں مسلمانوں کو انتخابات میں حق رائے
دہندگی سے محروم کرنے کی وکالت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں خواہ اس کیلئے انھیں
امریکی یونیورسٹی میں عہدہ تدریس سے ہی کیوں نہ ہاتھ دھونا پڑ جائے۔
اس سوچ او رطرزفکر کی اہم وجہ جمہوریت کے ارکان خمسہ سے ناواقفیت کو بھی
قراردیا جاسکتا ہے جن میں سب سے پہلا رکن یہ ہے کہ؛اقتدار کا منبع لوگ ہوں۔
یعنی اصل سیاسی طاقت کے مالک عوام ہوں اوروہی رہیں یعنی اگر حکمرانی کا حق
کسی کے سپرد کردیں تو واپس لینے کا بھی حق رکھتے ہوں۔دوسرا رکن یہ کہ لوگ
مختار کل اور مکمل آزاد ہوں۔ یعنی ان پر کوئی بیرونی طاقت حکمران نہ ہو
بلکہ یہ خود ہی حاکم اعلیٰ ہوں،جو چاہیں کر سکیں۔ دوسرے ان کے سامنے جوابدہ
ہوں، یہ کسی کے سامنے جو ابدہ نہ ہوں۔تیسرے یہ کہ حکومت ان کی مرضی کے
مطابق ہو اور ان کی مرضی کا اظہار بغیر کسی دباؤ کے واضح اور آزادانہ طور
پر ہو۔چوتھے حکام کا تقرر لوگوں کی مرضی اور ان ہی کے نمائندوں کے ذریعہ ہو
اور حکام اسی وقت تک اپنے عہدوں پر فائز رہیں، جب تک انہیں لوگوں کا اعتماد
حاصل رہے۔پانچواں رکن یہ کہ ملک کا انتظام چلانے کے لئے جو قانون چاہیں، یہ
وضع کرسکیں اور جب جس قانون کو چاہیں، بدل سکیں۔ یعنی قانون سازی کے معاملے
میں مکمل آزاد ہوں، ان پر کوئی خارجی دباؤ یا پابندی عائد نہ ہو۔
جمہوریت کی مندرجہ بالا نظریاتی تعریف کے پیش نظر جمہوریت کا جائزہ لیا
جائے تو معلوم ہوگا کہ جمہوریت اپنی ان خصوصیات کے ساتھ کبھی بھی اور کہیں
بھی قائم نہیں ہوئی۔ لہذااس کا تفصیلی جائزہ لینے کی ضرورت ہے جس کے تحت
سمجھنا ہوگا کہ طاقت (اقتدار اعلیٰ) جمہور (عوام) کے ہاتھوں میں نہیں ہے،
اصل طاقت اور قانون سازی کا حق چند لوگوں کے پاس ہے جسے عام طور پر
پارلیمنٹ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، جو (بظاہر) خود مختار ہوتے ہیں کہ
اپنے ملک کیلئے جو قانون چاہیں بنائیں، حکام کی تقرری اوران کے احتساب کا
حق انہیں کو حاصل ہے۔ یہی انتظامیہ اور عدلیہ کو کنٹرول میں رکھتی ہے۔
بالفاظ دیگر کہا جاسکتا ہے کہ آج کل بیشتر ممالک میں سیاسی طاقت یا اقتدار
پارلیمنٹ کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔اس صورتحال کا اندازہ ہندوستان کے عوام
ذرائع ابلاغ کے ذریعہ شائع ایوان بالا اور ایوان زیریں کی کارراوئیوں سے
بخوبی لگاسکتے ہیں۔ سرمائی اجلاس بھلے ہی خم ہوگیا ہو مگر بجٹ سیشن زیادہ
دور نہیں ہے۔جبکہ اقتدار کا چند ہاتھوں میں مرکوز ہونا جمہوریت کے منافی ہے،
جمہوریت کی بنیادی خصوصیت میں اقتدارجمہور کے ہاتھ میں ہوتا ہے لیکن عملاً
ہم دیکھتے ہیں کہ ساری طاقت چنداراکین پارلیمان کے ہاتھوں میں ہوتی ہے ،تو
کیا اب بھی جمہور سے مراد چند لوگ ہیں؟ درحقیقت جمہوریت کی یہ تعریف ہی غلط
کی گئی ہے۔ عملاً یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ تمام شہری ایک جگہ پر جمع ہوکر اس
طاقت کا استعمال کر سکیں، کیونکہ یہ ایک دن کا مسئلہ نہیں، روزانہ کوئی نہ
کوئی معاملہ در پیش ہوگا، اسلئے اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ جمہوریت میں
ہر شخص براہ راست سیاسی طاقت کا استعمال کرسکتا ہے تو وہ مغالطے میں مبتلا
ہے۔ جس کسی نے بھی یہ توقع قائم کررکھی تھی ،دراصل اس نے ایک مہمل سا خواب
دیکھا تھاجو کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوا ہے اور نہ ہوسکے گا۔
اقتدار جمہور کے نمائندوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ
جمہور کے پاس طاقت نہیں ہوتی یا وہ اس کا استعمال نہیں کرتے، بلکہ تمام لوگ
اپنی طاقت اور اختیار کو کسی نمائندہ کو تفویض کردیتے ہیں اور یہی نمائندے
جمہور کی طرف سے طاقت کا استعمال کرتے ہیں۔ بالفاظ دیگر یہ کہا جاسکتا ہے
کہ ظاہری طور پر اور عملاً سارے اختیارات پارلیمنٹ کے پاس ہوتے ہیں اور وہ
خود مختار ہوتی ہے لیکن جب تک اسے جمہور کا اعتماد حاصل رہے۔یعنی ہر جمہوری
ملک میں 2قسم کا اقتدار ہوتا ہے:1 تو قانونی، ظاہری، عارضی یا میعادی جوکہ
پارلیمنٹ کے پاس ہوتا ہے اور استعمال کے وقت اسے مکمل آزادی حاصل ہوتی ہے،
اس کے اختیارات لامحدود ہوتے ہیں اور2 دوسرا اصلی اقتدار جوکہ جمہور کے پاس
ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ اگر جمہور کی مرضی کے مطابق حکومت نہیں کرتی تو جمہور جب
چاہے انتخاب کے ذریعہ پارلیمان کو برطرف کرسکتی ہے جبکہ جمہوریت کی روح یہ
نہیں کہ اقتدار اعلیٰ جمہور کے ہاتھ میں ہوبلکہ جمہور کے نمائندے جمہور کی
مرضی کے مطابق اختیارات کا استعمال کریں۔جمہور کے نمائندے جمہور کی
نمائندگی نہیں کرتے ، عملی دشواریوں کے پیش نظر جمہور اگر اپنے نمائندوں کے
ذریعہ اپنے اختیارات کا استعمال کریں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں اور اگر
جمہور کے نمائندے واقعی جمہور کی مرضی، خواہشات اور نظریات کے مطابق حکومت
کریں تو جمہوریت کی ایک بنیادی شرط پوری ہوجاتی ہے کہ حکومت جمہور کی مرضی
کے مطابق قائم ہو اور قائم رہے، اس کے لئے3 باتیں ضروری ہیں:1جمہور یا عوام
میں سیاسی شعور بیدار ہو، ان کی اپنی خود کی مرضی ہو اور یہ خواہش ہو کہ ان
کی مرضی کے مطابق حکومت قائم ہو۔2 جمہور یا عوام کو اپنی مرضی اور خواہشات
کا اظہار کرنے کا اختیار، مواقع، ماحول اور آزادی وغیرہ حاصل ہوں اور ان پر
کسی قسم کا دباؤ نہ ہو۔3جمہور جس پارٹی کو منتخب کرے، وہ اپنے انہی اصول،
پالیسی یا نظریہ کی پابند رہے جس پر وہ انتخاب کے وقت تھی، ایسا نہ ہو کہ
اقتدار اور اختیار ملنے کے بعد جمہور کی خواہشات کو پامال کرنے لگے۔
ان باتوں کو جب عملی جامہ پہنایاجاتا ہے تو اس کے نتائج حوصلہ افزا نہیں
نکلتے اور کبھی کبھی تو نتائج جمہوریت کے قطعی منافی ہی نہیں ہوتے ہیںبلکہ
جب اس پہلو سے غور کیا جاتا ہے تو سچائی سامنے آتی ہے کہ جمہوری حکومت میں
سرمایہ داروں کی مداخلت اور کنٹرول بھی ہوتا ہے۔ موجودہ جمہوری نظام میں
عام طور پر انتخابات پارٹی کی بنیاد پر ہوتے ہیں ، پارٹی تنظیم کی محتاج
ہوتی ہے اور تنظیم کیلئے مال ودولت کی ضرورت سے کسی کو بھی انکار نہیں
چنانچہ بہت سے سرمایہ دار اپنے وسائل سے مختلف پارٹیوں کی مدد کرتے ہیں
تواس سرمایہ کاری سے یاخرچ کے بدلے پارٹی کے ارکان سے یہ امید لگاتے ہیں کہ
وہ اسمبلی اور پارلیمنٹ میں جاکر ان کے مفادات کا تحفظ کریں گے، اس طرح
پارٹیاں جمہور کی نہیں رہتیں بلکہ’ مخصوص سرمایہ داروں‘ کی نمائندگی کرنے
لگتی ہیں اور ان کے مفاد کے پیش نظر ملک کی پالیسی اور قانون بناتی ہیں۔
انتخابات کے بعد جمہور کے ہاتھ میں اختیار نہیں ہوتا بلکہ عوام کے منتخب
نمائندے پارلیمنٹ کے اراکین سیاہ وسفید کے مالک بن جاتے ہیں۔ عوام اپنے
سارے اختیارات ان کو اس توقع پر دے چکے ہوتے ہیں کہ یہ عوام کی مرضی کے
مطابق حکومت چلائیں گے۔ اب اگر یہ اپنے وعدوں سے پھر جائیں اور عوام کی
مرضی کے خلاف کام کرنے لگیں تو یہ بدترین اور ظالم وجابر فرمان روا سے بھی
زیادہ خطرناک ہوجاتے ہیں کیونکہ انہیں قانون کی حمایت حاصل ہوتی ہے اور
قانون کی رو سے انہیں لامحدود اختیارات حاصل ہوتے ہیں، انہیں ملک کا دستور
بھی مسترد کرنے اور نئی دستور سازی کا قانونی حق ہوتا ہے اور ووٹر یا جمہور
یا عوام ان سے نہ تو کوئی باز پرس کرسکتا ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ کے خلاف
بغاوت کرسکتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ایسے پارلیمان کے خلاف آئندہ انتخاب میں
ووٹ ڈالاجاسکتا ہے لیکن ان پارلیمان کو یہ بھی قانونی حق حاصل ہے کہ
انتخابات کو غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی رکھیں اور اپنی من مانی کرتے رہیں۔
جبکہ اسلام کے سیاسی نظام یعنی خلافت کی بنیاد اس عقیدہ پر ہے کہ انسان تو
کیا، کوئی بھی ہستی اس کی مستحق اور اہل نہیں کہ دوسروں پر فرماں روائی
کرے۔ خلافت میں حاکم اعلیٰ ،اللہ ہے جس کی فرماں روائی کائنات کے ذرے ذرے
پر ہے لیکن جمہوری نظام میں (بظاہر) حاکم اعلیٰ عوام ہوتی ہے جوکہ اسلامی
نقطہ نظر سے غلط ہے۔دراصل حاکم اعلیٰ اللہ تعالیٰ ہے،اس کی کئی وجہیں
ہیں‘جن کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ قانون سازی یا فرماں روائی کا مستحق
صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ حاکم اعلیٰ اس ہستی کو کہتے ہیں جس کے اختیارات
لامحدود ہوں اور وہ خود مختار ہو، جو کسی کے سامنے جواب دہ نہ ہو اور جسے
فرماں روائی کا حق مالک ہونے کی بنا پر حاصل ہو، کسی کا عطا کیا ہوا نہ
ہو۔خلیفہ جمہور کا نمائندہ نہیں ، رسول اکرم ا کا نائب ہوتا ہے۔ خلیفہ،
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ا کی مرضی کی ترجمانی کرنے پر مامور ہوتا ہے نہ
کہ امت کی مرضی کی۔خلافت میں شرعی قانون نافذ ہوتا ہے ، قانون سازی نہیں کی
جاتی، قرآن اللہ کی مرضی کا مظہر ہے، خلیفہ اسی کا پابند ہوتا ہے۔خلیفہ کے
انتخاب کا معیار تقویٰ ہوتا ہے۔ براہ راست عوام تو کیا خواص بھی اپنی ذاتی
پسند کا متفقہ طور پر خلیفہ منتخب نہیں کرسکتے۔ اسلئے اسلام میں اسی صورت
کو ترجیح دی گئی ہے کہ امت میں سب سے متقی وپرہیز لوگ، جن کی سیرت قرآن
وسنت سے زیادہ قریب ہو، وہ باہمی مشورے سے کسی بہترین فرد کا انتخاب کرلیں،
یہ اصول حضرت عمر فاروق ؓ نے اپنے بعد خلیفہ کے انتخاب کا جو طریقہ تجویز
کیا تھا، اس سے بالکل واضح ہے۔ اسلام نے اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی ہے کہ
لوگ مناصب کی خواہش وطلب کے ساتھ میدان میں آئیں اور پھر انہیں منصب
دیاجائے جبکہ جمہوریت میں یہ لازمی ہے۔ان سب حقائق کے باوجوداگر اب بھی انا
کے لوک پال بل جیسی تحریکوں سے کوئی شخص مثبت نتائج کی امید رکھے تو اسے
کیا کہا جاسکتا ہے؟ |