پاکستان فوجی بغا وتوں کے لحاظ
سے بڑا زرخیز ملک ہے اور پوری دنیا میں اپنی اسی خصلت ،امتیاز اور خصوصیت
کی وجہ سے پہچانا اور مانا جاتا ہے۔ اہلِ جہاں ان کی اس ہنر مندی پر ان
کےلئے رطب اللسان بھی ہیں اور انھیں شاباشی بھی دیتے ہیں کہ مارشل لائی
حکومتوں کے قیام میں آپ خود کفیل بھی ہیں اور اس میدان میں کوئی آپ کا ہم
پلہ بھی نہیں ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک جس میں فوجی جنتا نے جب چاہا بڑی
آسانی کے ساتھ اقتدار پر قبضہ کر لیا اور اپنے مخالفین کو زندہ در گور کرنے
میں کو ئی کسر نہ چھوڑی ۔جھوٹے مقدمے قائم کر کے انھیں بڑی آسانی سے اپنی
راہ سے ہٹاتے رہے ۔ہر شب خون کے بعد فوجی جنتا سیاست دانوں کو عبرت کاایسا
نشان بناتی رہی تاکہ کہ آنے والے سارے حکمران فو جی جنتا سے ٹکر لینے کی
جرات نہ کر سکیں اور ان کے قدموں میں ڈھیر ہوتے رہیں۔ طالع آزما جرنیلوں کے
اس طرح کے شب خونوں نے ملکی ا ستہزا میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔اگر میں یہ
کہوں کہ جرنیلی طالع آزمائی کی وجہ سے ہم پوری دنیا میں رسوائی کی علامت
بنے ہوئے ہیں تو بے جا نہیں ہو گا ۔ ساری دنیا کے لوگ ہمارا مذاق اڑاتے ہیں
کہ ہم مہذب دنیا کے شہری کہلانے کے مستحق نہیں ہیں کیونکہ ہم آئین و قانون
سے بغاوت کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔ چند سالوں کے اندر اندر کوئی طالع آزما
وطن کے استحکام اور سالمیت کے نام پر علم بغا وت بلند کر کے آئین و جمہوریت
کا بستر گول کر کے حکومت پر قبضہ کر لیتا ہے اور بندوق، ڈنڈے اور اسلحے کے
زور پر مخالفین کو سر نگوں ہونے پر مجبور کر دیتا ہے۔آئین و قانون اور
انصاف کی یوں دھجیاں بکھرتی ہیں کہ الا ماں۔باعثِ حیرت ہے کہ دنیا جمہوری
روا یات سے بہرہ ور ہو کر ترقی کے زینے طے کرتی چلی جا رہی ہے اور ہم باہمی
افتراق و انتشار کا شکار ہو کر تنزلی کی جانب ر رواں دواں رہتے ہیں لیکن
کمال ہوشیاری سے اپنی تنزلی کا الزام دوسروں کے سر پر تھوپ کر بری الذمہ ہو
جاتے ہیں ۔ ہماری فوجی جنتا عالمی دباﺅ کے تحت شب خونوں کی روش سے وقتی طور
پر چھوٹی سی توبہ کر نے کے بعد جمہوری نظام کو بحال کرنے کا اعلان کرتی ہے
لیکن کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اسکی قوتِ مدافعت جواب دے جاتی ہے تو وہ
جمہوری بساط کو لپیٹ کر مارشل لائی نظام مسلط کر د یتی ہے اور یوں عوام ایک
دفعہ پھر بنیادی جمہوری حقوق کو ترس جاتے ہیں۔پاکستان کے اندرا ن طالع آزما
جر نیلوں کا ساتھ دینے کےلئے بہت سے سیاسی ادا کار ہمیشہ موجود ہو تے ہیں
جو فوجی جنتا کے شب خون کے لئے وجہ جواز مہیا کرتے اور انھیں حق بجانب
ٹھہراتے ہیں ۔ میڈیا پر ایسے عناصر کا شب و روز جرنیلی نظام کے لئے رونا
پیٹنا عوام بھی دیکھتے رہتے ہیں اور محظوظ ہوتے رہتے ہیں۔۔
موجودہ جمہوری حکومت کے خلاف سیاسی اداکاروں نے جو دھینگا مشتی مچائی ہوئی
ہے وہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ کچھ اداکاروں نے تو فوجی جنتا کو پکارتے
پکارتے اپنے گلے پھاڑ لئے ہیں لیکن ان کی امیدیں پھر بھی بھر نہیں آ رہیں
۔وہ ہر روز کسی انہونی کی نوید سناتے نظر آتے ہیں تاکہ ان کے اقتدار میں
آنے کی راہیں کھل جائیں اور ان کا مقدر بھی سنور جائے لیکن انھیں ہر روز
منہ کی کھانی پڑتی ہے کیونکہ ایسا کچھ بھی وقوع پذیر نہیں ہوتاجس کی وہ
نوید سنا رہے ہو تے ہیں ۔کمال یہ ہے کہ ایسے لوگ حکومت کی رخصتی کی تاریخیں
بھی دیتے رہتے ہیں اور ایسا وہ پچھلے چار سالوں سے متواتر کر رہے ہیں لیکن
کوئی امید بر نہیں آتی کوئی صورت نظر نہیں آتی کے مصداق ان کی ساری پیشن
گوئیاں دروغ گوئیوں میں بدل جاتی ہیں اور انھیں ندا مت کا منہ دیکھنا پڑتا
ہے ۔ موجودہ حکومت روزِ اول کی طرح اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کی جانب
بڑی تیزی سے رواں دواں ہے اور اس جمہوری کلچر کو مضبوط کرنے میں جٹی ہوئی
ہے جو اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ انتخابات وقتِ مقررہ پر ہونے چائیں تاکہ
جمہوریت کا پودا بر گ و بار پیدا کر سکے اور عوام یہ فیصلہ کر سکیں کہ
انھوں نے حقِ حکمرانی کس کو تفویض کرنا ہے۔یہ سچ ہے کہ ہمارے سیاسی اداکار
جمہوری روایات کے عادی نہیں ہیں وہ بڑے متلون مزاج اور جلد باز ہیں لہذا ان
کے اندر صبر اور برداشت کے جذبوں کا فقدان ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ کسی بھی
حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے سے قبل رخصت کرنے کے خواب دیکھتے رہتے
ہیں۔اس دفعہ ان عناصر کو اپنی اس سوچ کے رو بعمل ہو نے میں قدرے دشواری پیش
آرہی ہے لیکن کمال یہ ہے کہ ان کی خوئے بد میں سرِ مو فرق نہیں آ رہا بلکہ
وہی سازشیں جو پچھلے 67 سالوں سے ہماری سیاست کا حصہ ہیں وہ اسی سے چمٹے
ہوئے ہیں۔ انھیں یہ احساس تک نہیں ہو رہا کہ وقت بہت بدل گیا ہے غیر جمہوری
اقدامات مو جودہ وقت میں ایک گالی کی صورت اختیار کر چکے ہیں لیکن زمین
جنبد نہ جنبد گل محمد کے مصداق وہ اپنی پرانی ڈگر پر بڑی سختی سے رواں دواں
ہیں ۔سرابوں کوحقیقت جاننا اور سایوں کے پیچھے بھاگتے رہنے کاا ن کا عجیب و
غریب سفرجاری و ساری ہے اور وہ امیدوں کا دامن تھامے اپنا راگ الاپتے جا
رہے ہیں ۔ یقین کیجئے ان کی ڈھٹائی کی داد دینی پڑتی ہے کہ اتنی رسوائی کے
بعد بھی ان کی رگِ حمیت نہیں پھڑکتی اور وہ جمہوری روایات کی مضبوطی اور
استحکام کےلئے کوئی مثبت قدم اٹھانے پر مائل نظر نہیں آتے۔۔
صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کی بیماری اور پھر دبئی روانگی نے افواہ ساز
فیکٹریوں میں امیدوں کے ایسے چراغ روشن کئے کہ اس روشنی سے افوا سازوں کے
اپنے اوسان خطا ہو گئے۔ایسی ایسی کہانیاں تخلیق کی گئیں کہ انسان ورطہ حیرت
میں گم ہو جائے ۔کسی نے کہا کہ مستعفی ہو گیا ہے ۔ کسی نے کہا کہ بھاگ گیا
ہے کسی نے کہا خاکی وردی سے ڈر گیا ہے۔کسی نے کہا کہ وہ جان بخشی کروا کے
روپوش ہو گیا ہے۔ کسی نے کہا کہ جلا وطنی اس کا مقدر ہے اور وہ اپنی باقی
ماندہ ساری زندگی دبئی اور انگلینڈ میں گزارے گا ۔ پیسہ ہضم کھیل ختم۔کون
آصف علی زدرادی وہ تو ماضی کی ایک بھولی بسری داستان ہے ایک ایسا قصہ ہے جس
کا کبھی کہیں پر کوئی ذکر تک نہیں ہو گا ۔ وہ کون تھا کیسے صدر بنا تھا ایک
ایسی داستان کا روپ اختیار کر لے گی جسے کوئی د ہرا نا پسند نہیں کرے گااور
وہ ایک ایسا کردار ہو گا جس کا پاکستانی سیاست سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہو
گا۔اسے پاکستانی سیاست سے حرفِ غلط کی طرح مٹا دیا گیا ہے لہذا اس کی واپسی
بعید از امکان ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں اور صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے
افواہوں کے اس ہجوم میں جس طرح خاموشی کا مظاہرہ کیا اس نے بڑے بڑوں کا پتا
پانی کر دیا۔ برداشت کی وہ انتہا جو کسی انسان میں دیکھی جا سکتی ہے صدرِ
پاکستان آصف علی زرداری نے اس کا نادر مظاہرہ پیش کر کے سب کو چاروں شانے
چت کر دیا۔۔ فوجی جنتا کے ایک ترجمان جس نے پنڈی کے ضمنی الیکشن میں اپنے
دو ساتھیوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر انتخاب جیتنے کی کوشش کی تھی اس کی خوشی
دیدنی تھی۔ اسے تو ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ اس کے مقدر کا ستارہ چمکنے
والا ہے اور اقتدار کا ہما اس کے سر پر بیٹھنے والا ہے۔ ایک ایسا شخص جو
فوجی جنتا کا فرنٹ مین ہے اور جس کی ساری زندگی فوجی جنتا کی جوتیاں سیدھی
کرتے ہوئے گزر گئی ہے اور جو خود کو جی ایچ کیو کا نمائندہ کہتا ہے ۔ وہ
روز میڈیا پر آکر ہمیں جمہوریت کا بھاشن بھی د یتا ہے اور ایک انجانے شب
خون سے عوام کو ڈراتا بھی ہے پیشن گو ئیا ں بھی کرتا ہے کٹ حجتیاں بھی کرتا
ہے لیکن ا اس کی ساری افلاطونی اس وقت مٹی میں مل گئی جب اس کی کی دلی
خواہشات حقیقت کا جامہ نہ پہن سکیں۔ وہ اپنی من پسند تصویر میں جس طرح کے
رنگ بھرنا چاہتا تھا حکومت نے رنگوں کی وہ ڈبیا ہی اس سے چھین کر اسے بے
دست و پا کر دیا ہے کیونکہ اس کے سارے دعوے شیخ چلی کے منصوبوں کے علاوہ
کچھ بھی نہیں رہے۔ ا لٹی ہو گئیں سب تدبیریں دل نے کچھ نہ کام کیا کے مصداق
جمہوری حکومت اس جیسے سیاسی یتیموں کی بد خواہی کے باوجود آج بھی قائم ہے
اور نظامِ حکومت صدرِ پاکستان آصف علی زردای اور وزیرِ اعظم پاکستان سید
یوسف رضا گیلانی کی سربراہی میں بڑے طمطراق سے چل رہا ہے۔۔
پنڈی کھیپ کے ایک اور دیرینہ دوست اور ان کے پیر و مرشد جنرل ضیا ا لحق کے
فرزندِ ارجمند اعجاز الحق بھی ہیں جن کی گل افشانیاں تو سننے سے تعلق رکھتی
تھیں۔ موصوف فرماتے تھے کہ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری ذہنی توازن کھوچکے
ہیں لہذا دبئی سے انگلینڈ فرار ہو چکے ہیں اور اب کبھی واپس نہیں آئیں گے
لیکن جب صدرِ پاکستان آصف علی زرداری دبئی میں اپنے میڈیکل چیک اپ کے بعد
پاکستان واپس لوٹ آئے اور اعجاز الحق سے میڈیا نے پوچھا کہ آپ تو فرماتے
تھے صدرِ پاکستان آصف علی زرداری انگلینڈ بھاگ گئے ہیں لیکن وہ تو اس وقت
ملک میں موجود ہیں اور بالکل نارمل، فٹ اور چا ق و چو بند ہیں تو اعجاز
الحق فرمانے لگے کہ میں ثابت کر سکتا ہوں کہ وہ انگلینڈ گئے تھے۔لیکن افسوس
وہ اس بات کو آج تک ثابت نہیں کر پائے۔ ایک بات کی مزید وضاحت کر دوں کہ یو
اے ای کے جیالے صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کی پل پل کی خبر رکھے ہوئے تھے
اور ان سب نے خود اپنی موجودگی میں صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کو ان کی
صحت یابی کے بعد ہسپتال سے بی بی ہاﺅس روانہ کیا تھا اور پھر بی بی ہاﺅس سے
بھی ان کا ایک مسلسل رابطہ تھا لہذا جیالے صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کی
ذات کے حوالے سے لمحہ لمحہ کی خبر رکھتے تھے۔ اب اگر فرزندِ ضیا الحق صدرِ
پاکستان آصف علی زرداری کے بارے میں میڈ یا پر آ کریہ بیان داغ دے کہ وہ
انگلینڈ فرار ہو چکے ہیں تو وہ اس پر کیسے یقین کریں گئے۔ انھیں تو صدرِ
پاکستان آصف علی زرداری کے بارے میں پل پل کی خبر تھی لہذا ان کے لئے اعجا
ز الحق کا یہ بیان جھوٹ کا ایک ایسا پلندہ تھا جو ناقابلِ یقین تھا۔میری
فرزندِ آمر اعجاز الحق سے التماس ہے کہ وہ اپنے الزامات کو ثابت کریں نہیں
تو عوام یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گئے کہ وہ اپنے باپ کی طرح جھوٹے ،
دروغ گو اور فریبی ہیں۔ آمریت کہ حواریوں، خوشہ چینوں اور ہم نواﺅں سے میری
گزارش ہے کہ وہ اب تو اپنی سازشوں سے باز آجائیں کیونکہ ان کا وقت پورا ہو
چکا ہے۔ پاکستانی عوام نے جمہوریت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیاہے کیونکہ
وہ سمجھتے ہیں کہ جمہوریت ہی وطنِ عزیز کی سلامتی، ترقی ، استحکام اور اس
کی بقا کی ضامن ہے۔۔ |