سن دو ہزار گیارہ پاکستان میں
موجود بیچارے عوام نے اگر کوئی لفظ سب سے زیادہ سنا تو وہ انقلاب، انقلاب
ہی ہے،یہ لفظ پاکستان کے معاش و سیاست میں کوئی نیا نہیں بلکہ قیام پاکستان
کے بعد سے آج تک کسی نا کسی پارٹی یا اچانک نمودار ہونے والے نام نہاد
ہیروز کی مدد سے یہ لفظ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔۔۔لیکن سال سن دو ہزار
گیارہ بالخصوص اس کے آخری مہینے دسمبر میں انقلاب انقلاب کی بہتات نظر
آئی۔۔آنے والے نئے سال دو ہزار بارہ عیسوی میں بھی انقلاب انقلاب اور
تبدیلی کی یہ صدائیں بھی شاید ہم اپنی مقدر بنائیں گے۔۔۔ایک طرف اگر انقلاب
خان معزرت عمران خان انقلاب کا دم اس لحاظ اور تبدیلی سے بھر رہا تھا کہ
میرے یعنی انقلاب خان کی پارٹی میں تمام نئے چہرے ہونگے لیکن ہم نے مشاہدہ
کیا کہ اپنے اپنے وقت میں جرنیلوں کی پیدوار تمام پرانے سیاسی برج جن میں
مشہور جاگیردار سرمایہ دار اور وڈیرے شامل ہیں، ایک ایک کرکے تحریک انصاف
کی ٹیم میں شامل ہو کر سن نوے کی دہائی والی ایک نئی لوٹا کریسی اور
وفاداریاں تبدیل کرکے انقلاب کی بنیاد رکھ رہی ہے۔عمران خان جسے آج کل لوگ
انقلاب خان یا طالبان خان کے نام سے پکارتے ہیں، کے علاوہ بھی صرف بروز
اتوار اٹھارہ دسمبر کو ملک کے تین اہم مقامات میں انقلاب کے تین عدد اور
اجتماعات منعقد ہوئے، جن میں سے ایک پشاور میں جماعت اسلامی جس کا عنوان ہی
جلسئہ انقلاب تھا، یہ وہی جماعت اسلامی ہے جس نے امریکی سی آئی اے کے
پارٹنر کے طور پر جہاد و انقلاب میں بہت تجربہ حاصل ہے اسلئے پشاور موٹروے
چوک پر اس اجتماع کا نام ہی جلسئہ انقلاب رکھا گیا۔جب کہ دوسرا جلسہ لیاقت
باغ میں شعور و انقلاب و آگاہی کے عنوان سے ڈاکٹر طاہر القادری کا ویڈیو
لنک کے زریعے ہزاروں شرکا سے خطاب وہ بھی مستقبل کے انقلاب کی نوید دے رہا
تھا،الطاف حسین کے ٹیلفونک انقلابات کے بعد اب ویڈیو لنک و ٹیلفون کے
انقلابات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، بدقسمتی سے پاکستان وہ واحد ملک انقلاب
ہے، جسمیں ۔۔سب سے پہلے پاکستان۔۔ کا نعرہ لگانے والے پرویز مشرف سب سے
پہلے۔۔۔۔ پاکستان۔۔۔ سے بھاگ گئے ہیں،جب کہ اس سے پہلے شریف برادران عرف
انقلابی برادران ملک سے بھاگ کرجدہ میں دس سال تک رہنے کا معاہدہ کرکے واپس
آ کر پھر بھی انقلاب کی نوید دے کر نہیں تھکتے، جبکہ حکمران پی پی پی کا
روٹی کپڑا مکان والے سدا بہار انقلابی نعرے کی گونج تو ہر زمانے میں ہوتی
ہے، چاہے عوام بھوک و افلاس سے خودکشی ہی کیوں نہ کریں۔۔۔
دو انقلابی جلسوں کے بعد تیسرا اور سب سے اہم جلسہ مینار پاکستان کے سائے
میں انقلاب کے نام سے منعقدہ سابق جرنیلوں اور دنیا بھر کی چودھراہٹ کرنے
والے امریکی سی آئی اے کی جہادی پارٹنرز کالعدم تنظیموں کا ملا عمر اور
طالبان کے جہاد ونطام کو پاکستان میں متعارف کروانے کا دفاع پاکستان
کانفرنس تھی ۔۔۔۔اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ باقاعدہ قراردادوں کے زریعے
پاکستان میں طالبان اورملا عمر مجاہد کے نظام انقلاب کو رائج کرنے کا
مطالبہ تک کیا گیا۔۔۔۔افسوس و حیف ہے ایسی سوچ پر کہ جو انقلاب اور خلافت
کی بات تو کرتی ہے لیکن امیر المونین وخلیفتہ المسلمین کے اس فرمان اور ہر
زمانے کے لئے آزمودہ فارمولے کو بھول جاتی ہے کہ حکومت کفر سے تو قائم رہ
سکتی ہے، لیکن ظلم سے نہیں۔۔۔۔۔ملا عمر مجاہد اور اسامہ جیسے کاغزی ہیروز
نے نہ صرف افغانستان پر قبضے کرنے کی امریکی منصوبے میں بھرپور کردار ادا
کیا بلکہ اپنے انقلاب کے زمانے میں افغانستان کے تمام قومیتوں نسلوں پر
مظالم کے پہاڑ توڑ ڈالے۔۔۔افغانستان کے عوام کی اکثریت آج جتنی نفرت امریکہ
و نیٹو سے کرتے ہیں، اس سے دوچند نفرت ملا عمر مجاہد اور انقلاب بالجبر
طالبان سے بھی کرتے ہیں۔۔حتی کہ عام افغانی عوام میں اب اتنا شعور آچکا ہے
کہ وہ امریکہ نیٹو و طالبان کے تکون کو افغانستان کی تباہی کا ذمہ دار قرار
دے کر یہ دلیل دیتے ہیں، کہ اگر امریکہ و نیٹو دنیا بھر کے عوام بالخصوص
ٹیکس دینے والے امریکی شہریوں کے آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے افغانستان
کے کسی ایک علاقے میں تیس چالیس طالبان مار کر اپنے زیر اثر میڈیا کے ذریعے
طالبان دشمنی کا پروپیگنڈہ کرواتی ہے، تو دوسری طرف افغانستان کے دوسرے
علاقے یا شہر میں دو تین سو طالبان کو اسلحہ اور پیسہ دے کر خون خرابہ
کرواتی ہے،لیکن اس کا ذکر میڈیا پر نہیں آنے دیا جاتا۔۔۔اور یوں دہشت گردی
کے خلاف نام نہاد جنگ کے پارٹنر امریکہ نیٹو و طالبان کے تکون کی طرف سے
خون خرابے کی یہ منظر کشی میڈیا پر تو واضح انداز میں نہیں آتی۔۔۔لیکن
افغان عوام کی اکثریت چوہے بلی کا یہ کھیل جان چکی ہے کہ اگر افغانستان سے
طالبان کا مکمل وجود ختم ہو جائے توپھر امریکہ و نیٹو کے قبضے کا جواز ختم
ہو جائے گا۔۔۔ اسلئے امریکہ بلی و چوہے کے اس کھیل سے بھرپور فائدہ اٹھا کر
کبھی طالبان کے ساتھ مذاکرات اور حال ہی میں شائع ہونی والی ایک رپورٹ کے
مطابق گونتاناموبے سے طالبان کے اہم کمانڈروں کی رہائی سمیت افغانستان سے
دنیا بھر کو سپلائی ہونے والے منشیات بالخصوص ہیروئین کی پیدوار کے منافع
میں امریکہ و طالبان کا برابر حصہ کی صورت میں اس کھیل میں برابر کے شریک
ہیں۔یہی سلسلہ عراق میں بھی امریکہ و القاعدہ کے باہمی تعاون سے چلتا رہا
ہے۔ رہی بات ہمارے ملک کی سول و ملٹری حکومت اوراشرافیہ جو اس دہشت گردی کے
خلاف نام نہاد جنگ میں فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار ادا کر رہی ہے،وہ بھی زبانی
جمع خرچ انقلاب انقلاب اور کھوکھلے نعرے لگا کر بیچارے سادہ لوح عوام کو بے
وقوف کردیتی ہے،لیکن اندر ہی اندر پانچوں انگلیاں گھی میں ۔۔۔کے مصداق دہشت
گردی کے خلاف جاری اس نام نہاد جنگ میں قبائل کو جنگلی اور دہشت گرد ثابت
کرنے اور فاٹا کو نوگور ایریا کے طور پر پیش کرنے کے بہانے اپنے مالی
مفادات حاصل کرنے سے چٹھکارا نہیں پانا چاہتی۔۔۔اس کا اندازہ اس بات سے
لگایا جاسکتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ سے پہلے سیکورٹی
فورسز ایف سی کے ایک صوبیدار اگر سات ہزار ماہانہ تنخواہ لیتا تھا تو آج
دہشت گردی کے خلاف جاری اس نام نہاد جنگ اور فاٹا و افغانستان کے نام پر
چالیس ہزار سے زیادہ تنخواہ و مراعات لے رہا ہے۔۔۔۔یہ تو ایک صوبیدار کی
مثال ہے سول و ملٹری اشرافیہ کے اعلٰی عہدوں پر براجمان افسران کے تنخواہوں
اور مراعات کا اندازہ آپ خود کریں۔۔۔یہ انقلاب نہیں تو اور کیا ہے۔۔۔۔مینار
پاکستان کے سائے تلے منعقدہ نام نہاد دفاع پاکستان کانفرنس کے موقع پر
پاکستان کا خواب دیکھنے والے عظیم دانشورعلامہ اقبال اور بانی پاکستان قائد
اعظم کی روح یقینا تڑپی ہوگی، جب نام نہاد دفاع پاکستان کانفرنس کے شرکا
امریکی سی آئی اے کی پارٹنر سابق جرنیلوں اور کالعدم تنظیموں نے پاکستان
میں ملا عمر مجاہد کا طالبانی نظام خلافت لانے کی قرارداد منظور کروائی
ہوگی ، حالانکہ انہی کالعدم تنظیموں کے اجداد نے نہ صرف قائد اعظم پر کفر
کے فتوے لگائے،،،، بلکہ قیام پاکستان سے لے کر استحکام پاکستان تک ہر موقع
پر اس ملک کی دشمنی میں سرفہرست نظر آئے۔۔۔۔پاکستان کے معمار اور مفکر
علامہ اقبال نے طالبان جیسے ظلم پر مبنی نظام کی کئی دہائیاں پہلے پیشن
گوئی کرکے اس نظام کو خوارج طرز کا نظام قرار دیا تھا،کہ خواراج کے عقیدے
کے مطابق صرف خوارج ہی پکے مسلمان ہیں ، باقی سب کافر چاہے ان میں امیر
المومنین اور خلیفتہ المسلمین ہی کیوں نہ شامل ہو، نعوذ باللہ وہ سب اسلام
سے خارج اور کافر شمار ہونگے۔ اور ہم نے اپنی آنکھوں سے افغانستان و
پاکستان میں طالبان طرز نظام میں یہ سب کچھ کفر کے فتوے،نعرہ تکبیر اللہ
اکبر کی گونج میں مساجد و پبلک مقامات حتیٰ کہ جنازوں پر خودکش حملے اور
خواتین و معصوم بچوں کا قتل عام تک دیکھا، نہ جانے ملا عمر مجاہد کے انقلاب
کے پیاسے نام نہاد دفاع پاکستان کے شرکا علامہ اقبال کے اس پیشن گوئی کو
کیوں فراموش کرتے ہیں۔ جو اقبال نے پاکستانی قوم کو اس طرز فکر کے مذہبی
جنونیوں اور آج افغانستان و پاکستان کے طالبان کے فکر سے دور رہنے کے لئے
کہا تھا کہ
ناحق کے لئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا، نعرہ تکبیر بھی فتنہ
یہی کالعدم تنظیمیں نہ صرف قیام پاکستان سے پہلے بلکہ اب بھی پاکستان کے
استحکام و بنیادوں کو کھوکھلا کرنے میں مصروف عمل ہیں، چاہے جی ایچ کیو پر
حملہ ہو یا مہران بیس پر یلغار و دہشت گردی یا پھر امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس
کی طرف سے دوران حراست سنسنی خیز انکشافات کہ ریمنڈ ڈیوس کی زمہ داری
پاکستان میں انہی کالعدم تنظیموں کو اسلحہ اور فنانس مہیا کرکے پاکستان میں
دہشت گردی عام کرنا تھی،جس کے بعد ریمنڈ ڈیوس کے مذید حقائق کو چھپانے کے
لئےپاکستان میں ان کالعدم تنظیموں کی سرپرستی کرنے والے ایک عرب ملک کے
سفیر کی مداخلت سے رہا کرنا پڑا۔ مینار پاکستان کے سائے تلے پاکستان میں
ملا عمر مجاہد اور طالبان طرز کا نطام نافذ کرنے والے سابق فوجی جرنیل جو
اپنے دور میں تو ملک کی تباہی و بربادی کے نظام کا حصہ بلکہ سرفہرست مہرے
کا کردار ادا کرتے ہیں،لیکن فوج سے ریٹائر ہو کر بھی تجزیہ نگاری اور کالم
نگاری کے میدان میں قدم رکھ کر ان کی تجزیوں کو عوام پر مسلط کرنے کا
بھرپور اہتمام ہوتا ہے۔ ان ریٹائرڈ جرنیلوں اور کالعدم تنظیموں کے دہشت
گردوں نے کم از کم اپنی گریبانوں میں جھانک کر اتنا تو سوچا ہوتا کہ
افغانستان میں لائے جانے والے ملا عمر مجاہد کے نام نہاد انقلاب کو ستاون
اسلامی ممالک میں سے پاکستان کے علاوہ صرف دو ممالک متحدہ عرب امارات اور
سعودی عرب نے تسلیم کیا، اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ متحدہ عرب
امارات اور سعودی عرب امریکہ و نیٹو کے پکے ایجنٹ حتی کہ ہر دم پاکستان میں
امریکی مفادات کے لئے سرگرم عمل رہتے ہیں، چاہے امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کا
معاملہ ہو یا پھر بلوچستان میں مرغابیوں کے شکار کے بہانے لیز پر لئے جانے
والے شمسی ائیر بیس کو پاکستان کو اعتماد میں لئے بغیر امریکہ کے حوالے
کرنے اور بلوچستان میں پاکستان مخالف باغیوں کو اسلحہ و پیسے دینے کا
معاملہ ہو، یہی دو عرب ممالک پاکستان میں امریکی مفادات کے حصول کا اولین
زریعہ قرار پائے ہیں۔
رہی بات عمران خان کے انقلاب کی حقیقت کیا ہے،اس سلسلے میں ایک واقعے کا تو
میں خود پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد کے سامنے ڈی چوک پر تیرہ مئی بروز جمعہ
کو عینی شاہد ہوں ،جب ایبٹ آباد آپریشن کے بعد پارلیمنٹ ہاؤس میں اعلٰی سول
و فوجی قیادت بشمول آرمی چیف و آئی ایس آئی چیف ان کیمرہ بریفنگ دے رہے
تھے،اور پارلینمیٹ ہاؤس کے باہر ڈی چوک پر پاکستان تحریک انصاف کے درجنوں
کارکن احتجاج کر رہے تھے ،وہاں ہم بھی اپنے درجنوں قبائلی ساتھیوں سمیت
دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں قبائلی علاقی جات فاٹا پر ہونے والے
ظلم و ستم کے خلاف اپنی آواز پہنچانے کے لئے موجود تھے۔ ان کیمرہ بریفنگ
طویل ہوتا ہوا شام اور پھر رات گئے تک پہنچا۔ اچانک جب شام پانچ بج گئے تو
تحریک انصاف کے نام نہاد کارکن جو جھنڈے لئے ہوئے تھے، ایک ایک کرکے ڈی چوک
سے جانے لگیں، جس پر پی ٹی آئی کے ذمہ داروں نے انہیں روکنے کی کوشش کی
لیکن جانے والے افراد نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ہم سے ایک دن کی دیہاڑی
کی بات ہوئی تھی ، اور وہ ہم نے آج صبح سے پانچ بجے تک پوری کردی اسلئے
ہمیں ابھی اور اسی وقت اضا فی دوسرے دن کی دیہاڑی کی رقم دے دو، ورنہ ہم
گئے،یہ سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا اور یوں پندرہ سے بیس منٹ کے
دوران ڈی چوک سے تحریک انصاف کے نام نہاد درجنوں کارکن غائب ہوگئے اور اس
کے بعد پی ٹی آئی کے باقی ماندہ عہدیدار بھی وہاں سے رفو چکر ہوگئے۔۔۔۔جب
کہ ہمارے درجنوں قبائلی ساتھی رات گئے تک ان کیمرہ اجلاس کے اختتام تک
احتجاج کرتے رہے۔لیکن واضح فرق یہ تھا کہ میڈیا کی اکثریت نے صبح سے لے کر
شام پانچ بجے تک تحریک انصاف کے نام نہاد درجنوں کارکنوں کے کرایہ نما
احتجاج کو مسلسل لائیو کوریج دی یہ جانے بغیر کہ یہ واقعی کارکن ہیں یا پھر
اسلام آباد اور راولپنڈی کے مختلف چوکوں و چوراہوں سے دیہاڑی دار مذدور
لیکن رات گئے تک جاری رہنے والے درجنوں قبائلی جوانوں کے مسلسل احتجاج کو
ماسوائے گنتی کے ایک آدھ چینل کے علاوہ پرنٹ میڈیا و الیکٹرانک میڈیا کی
اکثریت نے ایک پٹی تک نہیں چلائی۔۔۔۔۔اسں سے بڑاانقلاب اور کیا چاہئیے۔۔۔یہ
اہم ترین نکتہ، تحریک انصاف کے احتجاج کے لئے کرائے کے دیہاڑی دار والی بات
میں نے اپنی تحریروں میں ان کیمرہ سیشن کے بعد جون کے مہینے میں اور پھر
اسی طرح دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے عنوان سے لکھی گئی تحریروں میں
اٹھانے کی کوشش کی، لیکن کسی ادارے نے چھاپنے کی زحمت گوارا نہ کی۔۔۔اب ایک
بار پھر اپنی طرف سے اتمام حجت کے طور پر لکھ رہا ہوں ،تاکہ انقلاب کے نام
پر بے وقوف بنائے جانے والے بیچارے سادہ لوح پاکستانی عوام کے ساتھ یہ کھیل
بند کیا جائے۔۔۔۔۔کیونکہ اب توخورشید محمود قصوری کی پی ٹی آئی میں شمولیت
کے موقع پر قصور میں ہونے والے جلسے کے بعد پی ٹی آئی کے نام نہاد کارکنوں
دراصل دیہاڑی دار مزدوروں کی طرف سے جلسہ گاہ سے کرسیاں اپنے ساتھ اٹھا کر
لے جانے کے منطر کو نہ صرف وہاں موجود افراد بلکہ ٹی وی سکرین پر دنیا بھر
میں کروڑوں لوگوں نے بھرپور انداز میں دیکھ لی ہوگی،جن لوگوں نے نہیں دیکھی
وہ اس کی ویڈیوز یو ٹیوب یا دیگر زرائع سے دیکھ سکتے ہیں ۔قصور میں بھی
یقینا دیہاڑی والے مزدوروں کو ان کے طے شدہ وقت سے زیادہ بٹھایا گیا ہوگا
یا پھر ان کو ان کی اجرت یا جلسے میں انقلاب کے جھنڈے سمیت بیٹھنے کے
باوجود ان کو دی جانے والے معاوضے کی رقم میں شاید ملک سے کرپشن کے خاتمے
کی دعویدار پی ٹی آئی قصور کے کسی عہدیدار نے ڈ نڈی ماری ہوگی، جس پر
بیچارے دیہاڑی والے مزدوروں نے جلسہ گاہ میں رکھی ہوئی کرسیاں شامیانے حتٰی
کہ جو چیز ہاتھ لگیں اٹھا کر اپنا حساب برابر کیا ہوگا۔۔۔۔۔یہ انقلاب نہیں
تو اور کیا ہے۔۔۔۔؟؟ بدقسمتی سے اس ملک میں بیچارے عوام کو انقلاب کے نام
پر بے وقوف بنانے کے لئے اور کسی کو ہیرو بنانے کے لئے جلسوں میں کرائے کے
مذدور لانا کوئی انہونی بات نہیں،کیونکہ اگرعرب ممالک میں جاری عوامی اور
بیداری کی تحریکوں کو کچلنے اور وہاں پر موجود امریکی جنگی بیڑے سمیت عرب
شیوخ و ڈکٹییٹرز بچانے کے لئے کرائے کے قاتل بھیجے جا سکتے ہیں، تو اپنے
ملک میں انقلاب برپا کرنے کے لئے کرائے کے مزدوروں کی مدد سے پہلے مسلسل
چھوٹے لیول کے نام نہاد کامیاب جلسے منعقد کرواکر بیچارے عوام اور بالخصوص
جذباتی جوان کے جو اکثر چڑھتے سورج کی پجاری کا کام کرتے ہیں، کو ورغلا کر
پہلے لاہور اور پھر کراچی میں عوام کی سونامی برپا کرنا کوئی بڑی بات نہیں۔
کراچی مزار قائد پر انقلاب خان معذرت کے ساتھ عمران خان کے انقلابی تقریر
جس میں خان صاحب نے نوے دن کے اندر ملک سے کرپشن کا خاتمہ کرکے خلافت جیسے
فلاحی نطام کو متعارف کروانے کی انقلابی تقریر کر کے دراصل جرنیلی ضیا دور
کی یاد دلائی، جنرل ضیا نے بھی اپنے دورمیں ایک منتخب وزیراعظم کو اس وقت
کے کٹھ پتلی عدالت کے زریعے پھانسی پر چڑھا کر شب خون مار نے کے بعد اسی
طرح قوم کو صرف نوے دن کے اندر اقتدار کو اہل افراد کے ہاں سپرد کرنے اور
انقلاب لانے کا دعویٰ کیا تھا۔۔۔لیکن پھر اسلام اور خلافت کے نام پر خود کو
افغانستان کے طالبان لیڈر ملا عمر کی طرح امیر المومنین کہنے کے نشے میں
مبتلا ضیا نے گیارہ سال تک پاکستان کے عوام پر ڈکٹیٹرشپ کا وہ منحوس سایہ
مسلط کئے رکھا،جس کی پالیسیوں کی سزا اور کڑوی فصل آج تک اس ملک کے بیچارے
عوام بھگت رہے ہیں، عمران خان کا نوے دن کے اندر کرپشن کا مکمل خاتمے والی
سوچ بالکل ضیا کےجرنیلی سوچ سے ہم اہنگ ہے یا پھر نہ جانے انقلاب خان کے
ساتھ کوئی الہ دین کا چراغ یا گرین سگنل یا پھر ضیا کو اپنا آئیڈیل قرار
دینے والے اسی طرح باتوں باتوں میں انقلاب و خلافت قائم کرکے لال ٹوپی والے
زید حامد کی تھیوری وتخیل پر مبنی خواب سمجھ آئی ہوگی۔۔۔یا پھر کم از کم
اتنا ضرور ہے کہ جن لوگوں نے ضیا کے لئے نوے دن والی انقلابی تقریر لکھ کر
ہاتھ میں تھما دی تھی ،شاید ضیا کی باقیات انہی لوگوں نے ہی انقلاب خان کے
لئے بھی تقریر لکھ ڈالی۔۔۔بحرحال اگر کوئی اتنا جلدی بحرانوں کے دلدل میں
پھنسے ہوئے ہمارے پیارے ملک کو نکال کر امید و انقلاب کی طرف لے جاتا ہے تو
یہ ہماری خوش قسمتی ہوگی،لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس نظر آرہے ہیں۔
انقلاب جو عوام کے لئے امید اور رحمت بن کر آتی ہے، نہ جانے کیونکر پی ٹی
آئی اور انقلاب خان اسے سونامی یا تباہی سے منصوب کر رہی ہے، شاید عمران
خان نے مزار قائد پر جلسہ کرکے اور اپنے انقلاب کو سونامی سے تشبیہہ دے کر
یہ سوچا ہوگا کہ جس طرح بانئ پاکستان نے پاکستان کی بھلائی اور استحکام کے
لئے فرمایا تھا۔۔۔کہ ہم نے پاکستان اس لئے حاصل کیا ہے ،تاکہ ہم یہاں آزادی
سے نئے نئے تجربے کر سکیں۔۔۔۔بانی پاکستان نے تو یہ فرمان ملک کی بھلائی
اور فلاح کے لئے مثبت انداز میں کہا تھا،لیکن بدقسمتی سے ملک پر بر سر
اقتدار اکثر سول و فوجی حکومتوں اور اشرافیہ نے اس فرمان کو منفی انداز میں
لے کر ایسے نئے نئے تجربے کئیے کہ اللہ کی امان۔۔۔،آج تک ملک میں یکسان
نظام تعلیم اور زبان تعلیم پر اتفاق نہ ہو سکا اور تجربے یہاں تک بڑھتے گئے
کہ اس ملک کو دوپارہ کرکے ہمارے ایک بازو کو الگ ملک بنگلہ دیش بنایا
گیا،لیکن اب بھی سول و فوجی حکومتیں اور اشرافیہ عبرت حاصل کرنے کی بجائے
ملک میں ریڈی میڈ انقلاب لانے کا ایک اور تجربہ کرنے جا رہی ہے۔۔۔۔وہ بھی
اس جزبے کے تحت کہ اتنے زیادہ تجربے کرلئے،ایک اور انقلاب و تبدیلی کو
آزمانے میں حرج ہی کیا ہے۔۔۔۔۔اور اگر یہ انقلابی تجربہ بھی ناکام ہو کر
کسی دوسری تباہی کا شکار بنا تو پھر عمران خان عوام سے کہیں گے۔۔۔کہ میں نے
تو پہلے ہی کہا تھا کہ سونامی آرہی ہے۔۔۔آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔۔۔۔۔
ہماری نظر میں پاکستان میں حقیقی انقلاب و امید کی کرن اس وقت ہی آسکتی ہے
جب اس ملک کے عوام مختلف روپ دھار کر انقلاب کے نام پر آنے والے فنکاروں
اور پتلی تماشہ یا ہاتھ کی صفائی کرنے والے مداریوں کے دھوکے میں آنے کی
بجائے اپنے نفع نقصان و مستقبل سنوارنے کے لئے شعور حاصل کر سکیں،کیونکہ
ایک مقولے کے مطابق عقلمند و باایمان شخص ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا
جاتا،لیکن ہم اور آپ یعنی اس ملک کے عوام ہے کہ بار بار ڈسے جا رہے ہیں۔کہا
جاتا ہے کہ ضیا نے اپنے زمانے میں ایک عظیم مصلح اور انقلاب برپا کرنے والے
دوسرے ملک کی ایک شخصیت سے کسی کے ذریعے مشورہ مانگا تھا کہ میں یعنی ضیا
پاکستان میں انقلاب کیسے لا سکتا ہوں تو اس عظیم شخصیت نے جواب میں فرمایا
تھا کہ تم یعنی ضیا پہلے اپنے پانچ فٹ کے جسم اور چھ انچ یا آدھ فٹ کے چہرے
پر انقلاب لاؤں پھر اپنے علاقے یا پورے ملک میں انقلاب کا سوچنا۔۔۔۔۔۔۔ہم
سب پاکستانی اگر اس فارمولے پر عمل کریں تو پھر انقلاب اور تبدیلی ممکن
ہے۔۔۔کیونکہ عوام ہی سے معاشرہ اور ملک بنتا ہے ۔۔۔۔وگرنہ صرف زبانی جمع
خرچ اور کرائے کے دیہاڑی دار مذدوروں کو جلسوں میں لانے سے انقلاب یا
تبدیلی نہیں آتی،بلکہ انقلاب کے لئے منافقت کی بجائے خلوص شرط اولین
ہے۔۔۔ایسا نہ ہو کہ پھر ہم یا ہماری آنی والی نسلیں بیس سال بعد یہ کہنے پر
مجبور ہو کہ ۔۔۔۔ ایک اور نیا تجربہ کرکے تبدیلی و انقلاب کے لئے پرانے
سیاسی کھلاڑیوں کی بجائے ایک نئے چہرے و پارٹی کو آزمانے میں کیا حرج
ہے۔۔۔۔اور پھر یہ حالت بن جائے کہ۔۔۔۔اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چک گئیں
کھیت ۔۔ |