پاکستان کا ایوان ِ زیریں آئے
روز مچھلی منڈی کا منظر پیش کرتا ہے، ”معزز“ممبران اسمبلی اپنے جذبات کا
اظہار اس انداز سے کرتے ہیں کہ ہر کوئی بول رہا ہوتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ کان
پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ یہ بھی ایک اہم اور قابل غور معاملہ ہے جس پر
سوچاجانا چاہیئے، اور مسئلے کا بہتر حل نکالا جائے، مگر کیا کیجئے کہ ملک
وقوم کی تقدیر کے فیصلے لکھنے والا ایوان خود قوم کے لئے ایک بڑا تماشہ ہے،
غیر سنجیدہ رویے ، ایک دوسرے کو مغلظات بکنا،دست وگریبان ہونا، گلاپھاڑپھاڑ
کر چیخنا ، غیر اخلاقی قسم کا مذاق کرنا ان کا روز کا معمول ہے۔ ایسی ایسی
گل افشانی ہوتی ہے کہ اکثر اوقات معزز ممبران کے اقوال اس قابل ہی نہیں
ہوتے کہ اسمبلی کی کاروائی کا مستقل حصہ رہ سکیں، انہیں کاروائی سے حذف
کردیا جاتا ہے کہ آئندہ آنے والے ممبران اپنے پیش روؤں کی زنانوں کی سیاہی
سے آگاہ نہ ہوسکیں۔
قومی اسمبلی کا حالیہ اجلاس بھی ایسے ہی ماحول میں ڈھل گیا جب دو حکومتی
اتحادی جماعتیں خم ٹھونک کر ایک دوسرے کے خلاف میدان میں اترآئیں۔زیربحث
مسئلہ نئے صوبوں کا قیام تھا،ایم کیوایم نے صوبوں کے قیام کے حق میں اپنا
پورا زور صرف کردیا ، جبکہ اے این پی نے اپنی پوری توانائیاں اس کی مخالفت
میں لگا دیں۔بات باتوں اور تقریروں تک محدود نہ رہی، مجبوراََ قائم مقام
سپیکر کو اجلاس 20منٹ کے لئے ملتوی کرنا پڑا، ن لیگ کے ارکان بھی اس کارِ
خیر میں حصہ لے کر ثواب ِ دارین حاصل کرنے والوں کی صف میں شامل ہوگئے،یوں
حکومت کے اتحادیوں میں بھی کسی حد تک پھوٹ پڑ گئی، اے این پی والے صدر کو
بھی شکایت لگا آئے۔
ہنگامے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ کوئی پارٹی بھی دوسرے کی بات سننے پر
آمادہ نہیں، اس پر غور کرنا تو دور کی بات ہے۔ایم کیوایم اپنی روایتی سیاست
کے مطابق اسمبلی میں بغیرا یجنڈے اور بنا کسی قرارداد کے ہی بحث کرنے پر
تلی ہوئی تھی ، اے این پی نے بائیکاٹ کیا ، ن لیگ نے احتجاج کیا ، مگر قائم
مقام سپیکر نے کسی کی نہ سنی ، کہ وہ صرف ایم کیوایم کی سننا چاہتے تھے۔
ایم کیوایم کا یہ انداز سیاست ہے کہ وہ کسی بھی ایشو پر اتنی بلند آہنگی سے
ہنگامہ کرتی ہے کہ متاثرہ پارٹی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔
حالانکہ جنوبی پنجاب میں اس کا براہ راست کوئی سروکار نہیں، مگر جمہوریت کی
برکات سے مستفید ہونے کا کوئی موقع بھی وہ ضائع نہیں کرتے۔
ڈپٹی سپیکر نے اگر بغیر ایجنڈے اور قرار داد کے ایم کیوایم کو تقریریں اور
ہنگامہ کرنے کا موقع دیا تو اس کے پیچھے بھی ایک فلسفہ ہے، کنڈی صاحب خود
بھی سرائیکی صوبے کے جذباتی حامی ہیں، وہ اس قسم کے احتجاجی جلسوں میں
تقریریں بھی فرمایا کرتے ہیں۔وہ کسیے نہیں چاہیں گے کہ ان کی آواز دوسروں
کے ذریعے بلند ہو، وہ ایم کیوایم یاکسی اور کے کندھے پر رکھ کر بندوق
چلارہے ہیں، لیکن جس مقام بلند پر وہ بیٹھتے ہیں اس کے لئے یہ مناسب نہیں
کہ وہ جانبداری کا مظاہرہ کریں یا اپنے مقامی مفادات کے تحفظ کاکھیل
کھیلیں۔ اگلے روز پھر ایم کیوایم نے بحث کا آغاز تو کیا ، مگر اجلاس ہنگامہ
کی نذر ہوگیا ، سپیکرکے لئے کاروائی کو آگے بڑھانا ممکن نہ رہا، چنانچہ
کاروائی ملتوی کرتے ہی بنی۔
سرائیکی صوبے کی کہانی مختلف ہے، اس میں ایک بڑا علاقہ بہاول پور بھی ہے ،
جس کے رہائشیوں کی ایک بڑی نمایاں اکثریت اپنے لئے بہاولپورصوبے کا مطالبہ
کررہے ہیں، ان کے پاس بھی تاریخی دلائل ہیں، سرائیکی خطے کے عوام بھی اب
الگ صوبہ چاہتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ اس کی تحریک بھی اگر پرانی تھی تو
زیادہ نمایاں نہ تھی، اب سرائیکی صوبہ وزیراعظم اور ق لیگ کی خواہش بھی
ہے،شاید سیاست بھی ۔ عوام کی خواہشات تو اسی وقت پوری ہوتی ہیں جب مقتدر
قوتوں کی منظوری ہوتی ہے۔ لیکن کیا ہی بہتر ہوکہ یہ معاملہ آئینی کمیٹی کے
سپرد کردیا جائے ، اور پارلیمنٹ اس نئے صوبے بنانے کے ایشوپر قانون سازی
کردے تاکہ سب اس کے پابند ہوں۔ |