اسلامی جمہوریہ پاکستان دنیا کے
ان چند بدقسمت ممالک میں سے ایک ہے جہاں پولیو کا موذی مرض حکومت کی جانب
سے کیے جانے والے بے انتہا اقدامات کے باوجود بڑھتا ہی جا رہا ہے اور
پاکستان کے سرکاری ذرائع کے مطابق پاکستان کے 37 اضلاع اس موذی وائرس سے
متاثرہ ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت، افغانستان ، نائجیریا
، انگولا، چاڈ، سوڈان اور کانگو شامل ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ اور کئی ممالک
ایسے ہیں جیسا پولیو کے وائرس پرمکمل طور پر قابو نہیں پایا جا سکا۔ ہم
اپنے قارئین کی معلومات میں اضافے کے لیے بتاتے چلیں کہ پولیو ایک ایسی
مہلک بیماری ہے جو وائرس کے ذریعے ایک بچے سے دوسرے بچے کے جسم میں داخل ہو
کر تمام عمر معذوری یا موت کا باعث بنتا ہے۔ اس کی ابتدائی علامات میں بخار،
تھکن، سر درد، الٹیاں، گردن میں تناؤ اور پٹھوں میں درد شامل ہیں ۔ یہ
وائرل بیماری متاثرہ بچوں کے پاخانے کے ذریعے صحت مند بچوں پر حملہ آور
ہوتی ہے اور پولیو کا وائرس بچوں کے جسم میں داخل ہونے کے سات سے چودہ دن
کے اندر اپنی ابتدائی علامات ظاہر کردیتا ہے۔
یاد رہے پاکستان میں اس وقت کی وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنی سب سے
چھوٹی بیٹی آصفہ بھٹو زرداری کو 1994ءسے پولیو کے قطرے پلا کر پاکستان میں
انسداد پولیو مہم کا آغاز کیا تھا مگر بد قسمتی سے تب سے لے کر آج تک
پاکستان سے مکمل طور پر اس وائرس کا خاتمہ نہیں ہو سکا۔پاکستان میں پولیو
کے خاتمے کے قومی پروگرام کے منیجر ڈاکٹر الطاف بوسن کے مطابق: پولیو کے
خلاف مہم انیس سو چورانوے سے جاری ہے اور اب تک پاکستان کا75 فیصد علاقہ
پولیو وائرس سے محفوظ ہوچکا ہے مگر اب بھی کہیں کہیں کیسز رپورٹ ہوتے ہیں
جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ملک کے مختلف علاقوں میں انسدادِ پولیو کی ٹیموں کی
رسائی مشکل ہے۔
پاکستان میں پولیو کے بڑھتے ہوئے کیسز کے سامنے آنے کی وجہ سے بین الاقوامی
طور پر بھی تشویش پائی جاتی ہے گزشتہ سال اقوام متحدہ کی جانب سے دیا گیا
یہ بیان بھی انتہائی اہمیت رکھتا ہے جس میں کہا گیا تھا : پاکستان دنیا میں
پولیو کے خاتمے کا آخری مسکن ثابت ہو سکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سال کے
اوائل میں پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے جنوبی ایشیاءکے لیے اقوام متحدہ کے
ادارے یونیسف کے ڈائریکٹر ڈینیل ٹول نے اپنی تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا: اس
سال بھی پولیو کے 63 کیس سامنے آچکے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ مقامی طورپولیو
کے قطرے پلانے کی مہم کے معیار ، ملک میں ہر بچے تک اس کی رسائی اور
انتظامی امور کو بہتر کرنے کے ساتھ ساتھ نتائج کے احتساب کو بھی یقینی
بنایا جائے۔ہمیں ایک بڑے ہدف کا سامنا ہے اورہمیں ماضی کے تجربات سے سبق
سیکھتے ہوئے فوری طور پر اس پر عمل کرنا ہوگا۔
ایک طرف بین الاقوامی ادارے پولیو کے خلاف پاکستان کی جانب سے کی جانے والی
کوششوں پر تنقید کرنے میں منہمک ہیں تو دوسری جانب پاکستان پر الزام تراشی
کرنے میں کوئی کسر اٹھانہیں رکھتے۔ اسی طرح کا ایک بہتان اقوام متحدہ کے
ذیلی ادارے عالمی ادارہ صحت کی جانب سے گزشتہ سال لگایا گیا جب چین کے صوبہ
سنکیانگ سے پولیو کے سات کیسزسامنے آئے کہ پاکستان سے چین کے صوبہ سنکیانگ
میں پولیو کے وائرس کی منتقلی ہوئی ۔
پاکستان میں پولیو کے خاتمے کے قومی پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر الطاف بوسن
بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ پولیو کے خاتمے کی راہ میں مذہبی، سکیورٹی
اور دیگر رکاوٹوں کے ساتھ ساتھ انتظامی کمزوریاں بھی شامل ہیں۔ انہوں نے
کہا:فیلڈ میں جو کام ہوتا ہے اس کو بہتر طریقے سے کیا جائے تا کہ نتائج
حاصل ہو سکیں۔
پاکستان میں سال 2011ءکے دوران حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 175 پولیو کے
مریضوں کی شناخت کی گئی ہے یاد رہے کہ یہ تعداد گزشتہ پانچ سالوں میں سب سے
زیادہ ہے۔ گزشتہ سال سندھ اسمبلی نے پولیو ڈے کے موقع پر بھی ایک قرارداد
اتفاق رائے سے منظور کی تھی جس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا تھا: پولیو کے
خاتمہ کے لیے شہید بے نظیر بھٹو کی شروع کردہ مہم کو مکمل خلوص کے ساتھ آگے
بڑھایا جائے گااور پولیو کے مکمل خاتمے تک اسے جاری رکھا جائے گا۔پاکستان
میں پولیو کے خاتمے کے سلسلے میں کی جانے والی کوششوں میں جہاں سیکورٹی کے
مسائل، بد نیتی ، عدم خلوص ، جذبہ صدق کی کمی ، عملے کو درپیش مشکلات،
کرپشن، اور دیگر مسائل ہیں وہاں معلومات کا نہ ہونا اور عوام الناس میں غلط
معلومات کو صحیح سمجھتے ہوئے اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے نہ پلوانا جیسے
عوامل انتہائی اہم ہیں ۔
صوبہ خیبر پختونخواہ کے بیشتر علاقوں کے والدین اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے
پلوانے سے انکار کردیتے ہیں خصوصاپشاور، لکی مروت، مردان اور بنوں ایسے
اضلاع ہیں جہاں کے والدین معلومات تک رسائی نہ ہونے کے باعث اپنے بچوں کو
پولیو کے قطرے نہیں پلواتے۔ گزشتہ سال صوبہ خیبر پختونخوا میں پولیو کے
خاتمے کے لیے قائم ادارے ای پی آئی کے سربراہ ڈاکٹر جانباز آفریدی نے میڈیا
کو بتایا : اس سال کوئی چودہ سے بیس ہزار والدین نے اپنے بچوں کو پولیو کے
قطرے پلانے سے انکار کر دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا: ان والدین کو قائل کرنے
کے لیے علماءاور مقامی انتظامیہ کے توسط سے کوششیں کی جا رہی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت سے وابسطہ ڈاکٹر زبیر مفتی کا کہنا ہے: اگر پاکستان کو
پولیو سے پاک کرنا ہے تو اس کے لیے مستقبل میں ماضی کی غلطیوں سے بچنا ہو
گا۔ انہوں نے مزیدکہا:جو پاکستان کی حکومت نے” نیشنل ایمرجنسی ایکشن پلان“
2011ءمیں شروع کیا تھا وہ اپنے پولیو کے خاتمے کے ہدف کو حاصل نہیں کر سکا۔
ابھی حکومت پاکستان اور اس کی پارٹنر تنظیمیں جن میں عالمی ادارہ صحت
اوریونی سیف وغیرہ شامل ہیں۔ انہوں نے مل کر اس منصوبے پر نظر ثانی کی ہے
اور اس بات کا بھرپور جائزہ لیا ہے کہ 2012ءپاکستان میں پولیو کا آخری سال
ثابت ہو اور ہم 2013ءکے آغاز میں پولیو کے خاتمے کا جشن منائیں۔
اگرچہ حکومتی سطح پر پولیو کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششیں قابل ستائش
ہیں مگر پھر بھی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہ صورتحال انتہائی مخدوش ہے
۔ ہمیں پاکستان کو پولیو سے پاک ملک بنانے کے لیے حکومت کے ساتھ قدم بہ قدم
چلنا ہوگا اور عملی اقدامات کرنے ہوں گے ۔ خصوصا پاکستان کے ان دور دراز
علاقوں میں شعور و آگہی کی مہم چلانا ہوگی کہ جس کے تحت رائے عامہ ہموار کی
جائے کہ پولیو کی ویکسین انسانی صحت کے لیے کسی طور مضر نہیں ہے اور نہ ہی
یہ کسی استعماری طاقت کی جانب سے کسی سازش کا شاخسانہ ہے۔عالمی ادارہ صحت
کی جانب سے پولیو کے مکمل خاتمے کے لیے یہ شرط رکھی گئی ہے کہ متاثرہ ملک
میں تین سال تک پولیو کا کوئی کیس سامنے نہ آئے تو اس ملک کو پولیو سے پاک
ملک قرار دے دیا جاتا ہے۔پاکستان کو پولیو سے پاک ملک بنانے کے لیے علمائے
کرام، دانشوروں، اساتذہ، طلبہ ، وکلاءسول سوسائٹی اور دیگر تمام طبقہ ہائے
فکر کے افراد کو اس مہم میں حصہ لینا ہوگا اور اس مہم کو تیز تر کرنا ہوگا
تا کہ جلد از جلد ہم پولیو سے پاک پاکستان کی داغ بیل ڈال سکیں۔ |