وہ لاہور کے ایک ٹاٹ مگر
بغیرعمارت والے سکول میں چھٹی کلا س کاطابعلم تھا جس وقت وہ شعوری طورپرایک
سیاسی کارکن بنا،اس کے داداجناب میرزمان خان تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن
تھے ۔وہ1985ءمیں چھپنے والے اخبارات سے میاں نوازشریف کی رنگین تصاویرکاٹتا
اورانہیں گوندسے گتے پرلگاکراپنے گھرکی اندرونی وبیرونی دیواروں
پرلٹکادیتا۔جلسہ کیلئے دیواروں پرپوسٹرزاورکھمبوں پربینرزلگاتا،پیک اپ گاڑی
میں لاﺅڈسپیکرپراعلانات کرتا ،پنڈال میںدریاں بچھاتا اورکرسیاں
لگاتا۔ظاہرہے یہ سب کچھ کر نےوالے کے پاس تعلیم کیلئے وقت کہاں بچتا ہے۔اس
نوعمری میں اس کے سرپر میاں نوازشریف کے ساتھ ہاتھ ملانے کابھوت سوارتھا۔وہ
لاہورمیں ہونیوالے ہرجلسہ میں اس امید کے ساتھ پہنچ جاتا کہ وہ اس بار میاں
نوازشریف کے ساتھ ہاتھ ملانے میں کامیاب ہوجائے گامگراس کی یہ حسرت کئی برس
بعد اس وقت پوری ہوئی جب اس کی قیادت میں نوجوانوں کے ایک وفدنے 180 ایچ
ماڈل ٹاﺅن میں میاں نوازشریف سے ملاقات کی۔اس دوران ایف اے پاس کرنے کے بعد
اس کا گورنمنٹ ایم اے اوکالج میں ایڈمشن ہوگیاجہاں وہ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن
کاسرگرم ممبر بن گیا۔ جس وقت دوسرے طلبہ نے اپنے ہاتھوں میں سگریٹ اورپستول
اٹھائے ہوتے تواس کے ہاتھوں میں اس وقت بھی قلم تھااوروہ انہیں بھی سگریٹ
اورپستول چھوڑنے کی نصیحت کرتا۔ اس وقت مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے دودھڑے تھے
مگروہ اس دھڑے کے ساتھ تھاجس کے ممبرز نظریاتی طورپر پاکستان مسلم لیگ (ن)
کے ساتھ وابستہ تھے ۔اس دوران وہ کئی مراحل سے گزرا،اس کی نگاہوں کے سامنے
کئی واقعات رونماہوئے مگروہ پیچھے نہیں ہٹا۔
جس دورمیں وہ پارٹی کی کسی کال پرکلاسوں کابائیکاٹ کرکے مال روڈیادوسری
شاہراﺅںپر جلوس یاکسی جلسہ میں شریک ہو تاتھا اس وقت اس پارٹی کے لیڈر سمیت
مختلف سیاستدانوں کے بچے پاکستان کے اندراور باہراعلیٰ تعلیمی اداروں میں
زیرتعلیم تھے۔مگراس وقت اسے اس بات کاقطعاً خیال نہیں تھا کہ اس کی زندگی
کے سنہری سال ان سیاستدانوں کی مفادپرستی اوران کے اقتدار کاایندھن بن رہے
ہیں۔اس نے نظریات کی خاطر میں اپنے ہاتھو ں سے اپنامستقبل تاریک کردیا۔جب
وہ کالج سے فارغ ہوا تواس کے ہاتھوں میں ڈگری توتھی مگراس کادماغ خالی تھا
جبکہ اس کی روح کی پیاس بھی نہیں بجھی تھی ۔تحریک نجات کے دوران اس نے مال
روڈپرلاٹھی چارج اورآنسوگیس کاسامنا کرتے وقت کبھی یہ نہیں سوچاتھاکہ اس کی
پارٹی کے قائدین میں سے کسی کا بچہ وہاں کیوں نہیں ہے۔ تحریک نجات شروع
ہوئی تواسے اوراس کے ساتھیوں کوخوب استعمال کیا گیا ۔وہ کبھی زبردستی
شٹرڈاﺅن کراتے اورجودکان کھلتی اس کے شیشے توڑدیتے ،کبھی پہیہ جام ہڑتال کی
کامیابی کیلئے ہاتھوںمیں ڈنڈے اٹھاکرسڑکوںپرگشت گرتے اوراگرکوئی گاڑی سڑک
پرآجاتی تواس کی ونڈسکرین چکناچورکردیتے ۔اس دوران پولیس کے ساتھ بھی ان کی
آنکھ مچولی ہوتی مگروہ اپنے قائدین کی شاباش کیلئے کسی خطرے کی پرواہ نہ
کرتے۔بینظیربھٹوکی حکومت ختم ہوگئی اورمیاں نوازشریف اقتدارمیں آگئے مگروہ
اوراس کے ساتھی ورکرزمسلم لیگ (ن) کے ساتھ شریک اقتدارنہیں تھے۔برادری ازم
اوراقرباءپروری کی بنیاد پرعہدے بانٹے گئے ۔جولوگ پرآشوب دنوں میں جان
ہتھیلی پرلے کرلڑے انہیں دیوار سے لگادیا گیا اورمسلم لیگ (ن) کے چند
بااثرخاندانوں کے افرادسمیت ان کے بچوں کوخوب نوازاگیا۔
12اکتوبر1999ءکی شام جنرل پرویزمشرف نے جمہوریت پرشب خون مارا تومسلم لیگ
(ن) کے اہم عہدیداروں سمیت متعدد وفاقی اورصوبائی وزیروں نے شریف خاندان
کوتنہا چھوڑدیا اورجان بچانے کیلئے خاموشی اختیار کرلی مگر اس وقت بھی اس
نے آوازبلندکی اورپھربیگم کلثوم نواز کی قیادت میں مجلس تحفظ پاکستان کے
پلیٹ فارم سے اپنا سرگرم کرداراداکیا۔ شریف خاندان کے افراد ایک رات خاموشی
سے سرورپیلس چلے گئے مگروہ کارکنوں کے ساتھ پرویزی آمریت کیخلاف ڈٹ گیا ۔اس
دوران لاہورشہرکے ان ڈیڑھ سے دوسوکارکنوں میں اس سمیت
میاںذوالفقارراٹھور،شیخ کبیرتاج،مرزاگلریزبیگ، مون بٹ،رفاقت شاہ ،شوکی خان
اورناصرخان ناصری نمایاں تھے جوپرویزی آمریت کیخلاف سربکف رہے ۔اس نے
قیدوبندکاسامنا اورتشددبرداشت کیا ۔ دوران اقتدارقیادت کی طرف سے مسلسل
نظراندازکرنے کااس کے دل میں شدیدرنج تھا مگر اس کے باوجودوہ پرامید تھاکہ
اگرپارٹی دوبارہ اقتدارمیں آئی تواس بار قیادت ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائے
گی ۔اس کویہ خوش فہمی تھی کہ اس بارشریف خاندان کے افراد نے جس قسم کے کٹھن
حالات کاسامنا کیا ہے انہیں دوست دشمن کی شناخت ہو گئی ہوگی۔اس بار اس نے
مزید محنت کی ،اس دوران اس کے ضمیر کی قیمت بھی لگائی گئی مگراس نے
خودکوبیچنے سے انکارکردیا۔جلاوطن شریف خاندان وطن واپس آیاتومیاں شہبازشریف
نے انتخابی مہم کیلئے اسے اپنامیڈیاکوآرڈی نیٹربنایااوروہ میاں شہبازشریف
کے ساتھ پورے پنجاب میں گیا مگروہ نہیں جانتا تھا کہ اس بار بھی اسے
استعمال کیا جارہا ہے ،پھرمیاں حمزہ شہبازکیلئے پندرہ ماہ بحیثیت میڈیا
کوآرڈی نیٹرکام کیا ۔پنجاب میں مسلم لیگ (ن) نے حکومت بنائی تواس کے ساتھ
ساتھ میاں ذوالفقارراٹھور،شیخ کبیر تاج اورمرزاگلریزبیگ سمیت کئی کارکنوں
کو کارنرکر تے ہوئے ماضی کی طرح اس بار بھی برادری ازم اوراقرباءپروری
کابازارگرم کردیا گیا۔ایک دن اچانک پنجاب حکومت کی راہ میں ایک
سپیڈبریکرآیا اورصدراتی فرمان پرپنجاب میں گورنرراج لگادیا گیا ۔وہ
پھرعارضی طورپرپارٹی اورپارٹی قیادت کی ضرورت بن گیا ،اسے گھر سے بلایا
اورپھراستعمال کیا گیا ۔اس باراسے جاتی امراءرائیونڈ کامیڈیا کوآرڈی نیٹر
لگادیا گیا ۔وہ پھرجانفشانی کے ساتھ کام کرتا رہا مگرپنجاب حکومت کی بحالی
کے بعدپھر قائدین نے اس کی طرف پلٹ کرنہیں دیکھا ۔
ہمارے ہاں نظریاتی کارکنوں کو پہلے اقتدارکیلئے استعمال اورپھر اقتدارملنے
پران کااستحصال کیا جاتا ہے۔جس وقت احتجاجی تحریک کودبانے اورکچلنے کیلئے
سڑکوں پر لاٹھیاں اورگولیاں چلتی ہیں اورکشت وخون کا بازارگرم ہوتا ہے اس
وقت کارکنوں کی پیٹھ تھپتھپاکران کا سینہ آگے کردیا جاتا ہے اورجب اقتدارکی
ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں توسیاستدا ن اپنے اپنے بچوں کوسامنے لے آتے ہیں۔ان
کے بچے اندرون ملک اوربیرون ملک اعلیٰ تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم ہوتے ہیں
اوراس کے بعدبراہ راست سٹیج پرپہلی قطارمیں کرسی پربراجمان ہوجاتے ہیں
،انہیں درخواست اورانٹرویوکے بغیرٹکٹ مل جاتا ہے مگرکارکن زندگی بھراس مقام
پرنہیں پہنچ پاتے ۔جس طرح عورت کوعورت کادشمن کہا جاہے ،بدقسمتی سے ایک
سیاسی کارکن دوسرے ورکرکی ٹانگ کھینچتا ہے اورسیاستدان ان کی ا س عادت
یافطرت سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔سیاستدان کارکنوں کو جوڑنے کی بجائے
مزیدتوڑتے ہیں ۔ایک کارکن کہتا ہے کہ اگرمیں نہیں تودوسراکارکن بھی اس عہدے
یاسیٹ تک نہیں پہنچناچاہئے لہٰذاسیاستدان موروثی سیاست کے تحت اپنے
بیٹوں،بیٹیوں،دامادوں اوردوسرے عزیزواقارب کونوازتے ہیں اورسیاسی کارکن آپس
کی عداوت ،رنجش اورایک دوسرے کے ساتھ حسد کرتے ہوئے موروثی سیاست کیخلاف
بغاوت یامزاحمت تک نہیں کرتے اورخاموشی سے اپنا حق سیاستدانوں کے بچوں کی
جھولی میں ڈال کرپھرخود زندگی بھران کی جھڑکیاں سنتے ہیں۔ان دنوں
پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ (ن)اور مسلم لیگ (قائداعظم ©ؒ)سمیت متعدد سیاسی
جماعتو ں میں موروثی سیاست کادوردورہ ہے۔صدرزرداری نے بلاول بھٹوزرداری
کوپیپلزپارٹی کاچیئرمین بنایا کیونکہ خود انہیں اس عہدے پر قبول نہ کیا
جاتالہٰذاوہ شریک چیئرمین بن گئے اور اب بینظیر بھٹوکاعلم آصفہ زرداری نے
تھام لیا ہے۔صدرزرداری کی دو بہنیں فریال تالپور اورڈاکٹرعذرافضل بھی قومی
اسمبلی کی ممبر ہیں ۔میاں نوازشریف کے دونوں بیٹوں میں سے حسن نواز نے
بیماری اورحسین نواز نے12اکتوبر 99ءکے اذیت ناک لمحات کویادکرتے ہوئے سیاست
میں آنے سے انکار کردیا توان کے دامادکیپٹن (ر)صفدر ایم این اے بن گئے اور
ان کی بیٹی مریم نوازبھی میدان میں اتر آئی ہیں۔بیگم کلثوم نوازکاایک حقیقی
بھتیجا محسن لطیف بھی لاہورسے ایم پی اے ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں
شہبازشریف کے فرزندمیاںحمزہ شہبازایم این اے ہیں جبکہ ان میاں سلمان
شہبازبھی تیار بیٹھے ہیں۔وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کاایک بیٹا عبدلقادر
گیلانی ایم پی اے اوردوسرا بیٹا موسیٰ گیلانی ملتان سے ایم این اے
کاامیدوار ہے جبکہ ان کی بیٹی فضہ گیلانی بھی سیاست میں سرگرم ہیں۔ شجاعت
حسین کابیٹا شافع حسین اورپرویزالٰہی کے بیٹامونس الٰہی بھی سیاست میں فعال
ہیں۔مخدوم امین فہیم کے بھائی رفیق الزماں ایم پی اے رہے اورا س وقت ان
کابیٹا جمیل الزماں ایم پی اے ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی صاحبزادی
نفیسہ شاہ قومی اسمبلی کی ممبر ہیں۔باچا خان کے بعدان کابیٹاولی خان اوراب
ان کاپوتا اسفندیارولی خان ایم این اے اورپارٹی کے سربراہ ہیں۔مڈل کلاس کے
علمبردار جب خود اس کلب کے ممبر بنے تووہ بھی موروثی سیاست کی گنگامیں
کودپڑے۔ جہانگیر بدرکابیٹا علی بدرپی پی پی کے ٹکٹ پرایم اپی اے
کاامیدواربنامگرہارگیا،خواجہ سعدرفیق کی اہلیہ غزالہ سعداوربھائی خواجہ
سلمان رفیق ایم پی اے ہیں۔محمودقصوری کے فرزند خورشیدمحمودقصوری ایم این اے
رہے ، صوبہ سرحد کے سابق وزیراعلیٰ مفتی محمودکے دوبیٹوں میں سے مولانافضل
الرحمن ایم این اے ہیں جبکہ دوسرابیٹا ایم پی اے رہا۔صوبہ سرحد کے سابق و
زیراعلیٰ حیات محمدخان شیرپاﺅکے بھائی آفتاب احمدشیرپاﺅ جو سرحد کے
وزیراعلیٰ بھی رہے اوران دنوں ایم این اے ہیں اورآفتاب شیرپاﺅ کا بیٹا ایم
پی اے ہے۔ میاں منظوروٹوکی بیٹی ایم این اے ہیں اوربیٹا ایم پی اے رہا
ہے۔فیلڈمارشل ایوب خان کے فرزندگوہرایوب قومی اسمبلی کے سپیکربنے
اورپوتاعمرایوب وفاقی وزیرخزانہ بنا۔جنرل ضیاءالحق کابیٹا اعجازالحق وفاقی
وزیر بنا اور چھوٹا بیٹا انوارالحق ایم پی اے رہا۔جنرل اخترعبدالرحمن
کابڑابیٹاہمایوں اخترخان وفاقی وزیررہاجبکہ چھوٹابیٹا ہارون اخترخان ایم پی
اے رہا اوران دنوں سینیٹر ہے۔سردارفاروق لغاری مرحوم کے بیٹے سردارجمال
لغاری سینیٹر جبکہ سرداراویس لغاری ایم این اے ہیں۔سردارذوالفقارعلی خان
کھوسہ کے دوبیٹوں میں سے سردار سیف الدین کھوسہ ایم این اے اورسرداردوست
محمدکھوسہ صوبائی وزیرہیں۔ |